HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

کلمہ گو کی حیثیت

(مسلم، رقم ۳۳)


عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: حَدَّثَنِیْ مَحْمُوْدُ بْنُ الرَّبِیْعِ عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ. قَالَ قَدِمْتُ المدینۃ فلقیت عتبان فقلت حدیث بلغنی عنک قَالَ: اَصَابَنِی فِی بَصَرِی بَعْضُ الشَّیءِ. فَبَعَثْتُ اِلَی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنِّی اُحِبُّ اَنْ تَاْتِیَنِی فَتُصَلِّی فِی مَنْزِلِی فَاَتَّخِذُہُ مُصَلًّی .قَالَ: فَأَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَنْ شَاءَ اللّٰہُ مِنْ أَصْحَابِہِ. فَدَخَلَ فَھُوَ یُصَلِّی فِی مَنْزِلِی وَأَصْحَابُہُ یَتَحَدَّثُونَ بَیْنَہُمْ. ثُمَّ أَسْنَدُوا عُظْمَ ذٰلِکَ وَکُبْرَہُ إِلٰی مَالِکِ ابْنِ دُخْشُمْ. قَالُوا: وَدُّوا أَنَّہُ دَعَا عَلَیْہِ فَہَلَکَ. وَوَدُّوا أَنَّہُ أَصَابَہُ شَرٌّ. فَقَضَی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلَاۃَ. وَقَالَ: أَلَیْسَ یَشْہَدُ أَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ. قَالُوا: اِنَّہُ یَقُولُ ذٰلِکَ وَمَا ہُوَ فِی قَلْبِہِ. قَالَ: لَا یَشْہَدُ أَحَدٌ أَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ فَیَدْخُلُ النَّارَ أَوْ تَطْعَمُہُ.
قَالَ أَنَسٌ فَأَعْجَبَنِی ہٰذَا الْحَدِیْثُ فَقُلْتُ لِابْنِی اکْتُبْہُ فَکَتَبَہُ.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ بات عتبان بن مالک کے بارے میں محمود بن ربیع نے بتائی تھی۔ انھوں نے بیان کیا تھا کہ میں مدینے آیا تو عتبان سے ملا۔ میں نے ان سے کہا: مجھے آپ کے حوالے سے ایک حدیث پہنچی ہے۔ ( میں اسے آپ کی زبان سے سننا چاہتا ہوں)۔ انھوں نے کہا: میری آنکھوں میں کوئی تکلیف ہو گئی تھی۔ (جس کے باعث مجھے نظر آنا بند ہو گیا)۔ چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی درخواست بھیجی کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ میرے ہاں تشریف لائیں پھرمیرے ہاں نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو اپنی نماز کے لیے مخصوص کر لوں۔ کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور کچھ صحابہ بھی جن کا آنا اللہ کو منظور ہوا تشریف لائے۔ آپ داخل ہوئے اور نماز پڑھنے لگے اور آپ کے صحابہ باہم باتیں کرنے لگے۔ اس گفتگو میں انھوں نے بڑی بڑی (قبیح) باتیں مالک بن دخشم سے منسوب کر دیں۔ یہ بھی کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ آپ اس کے لیے بددعا کریں تاکہ وہ ہلاک ہوجائے یا ان کی تمنا یہ ہے کہ اس پر کوئی بڑی مصیبت آئے۔ اس دوران میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی۔ آپ نے صحابہ سے پوچھا: کیا یہ آدمی اس بات کا برملا اقرار نہیں کرتا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ کہنے لگے: وہ یہ کہتا تو ہے، لیکن یہ اس کے دل کی بات نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: کوئی نہیں جو یہ اقرار کرتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اور پھر جہنم میں چلا جائے یا آگ اسے لقمہ بنائے۔
انس کہتے ہیں کہ مجھے یہ روایت اچھی لگی، چنانچہ میں نے اپنے بیٹے سے کہا: اسے لکھو اور اس نے لکھ لی۔ ‘‘
حَدَّثَنِی عِتْبَانُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّہُ عَمِیَ فَأَرْسَلَ اِلَی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ: تَعَالَ فَخُطَّ لِی مَسْجِدًا. فَجَاءَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَاءَ قَوْمُہُ. وَنُعِتَ رَجُلٌ مِنْہُمْ یُقَالُ لَہُ مَالِکُ بْن دُخْشُْم. ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَ حَدِیْثِ سُلَیْمَان.
’’عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نابینا ہو گئے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا اور کہا: آپ تشریف لائیے اور میرے لیے مسجد متعین کر دیجیے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ کے ساتھ آپ کے لوگ بھی آئے۔ (اس موقعے پر ) ان کے ایک آدمی مالک بن دخشم کے بارے میں بہت سی باتیں ہوئیں ۔ اس کے بعد واقعات اوپر والی روایت کے مطابق بیان کیے۔‘‘
لغوی مباحث

أصابنی فی بصری بعض الشیء: یہ محاورہ ہے۔ لفظی مطلب ’میری نظر کوکچھ ہو گیا‘ہے۔ مراد یہ ہے کہ میری نظر کم زور ہوگئی ہے۔ بعض روایات میں تصریح ہے کہ وہ نابینا ہو گئے تھے۔

أسندوا عظم ذلک وکبرہ الی...: لفظی مطلب ہے کہ انھوں نے اس کی طرف بڑی بڑی باتیں منسوب کیں...۔ لیکن یہاں مراد یہ ہے کہ نفاق اور منافقین کے ساتھ ربط وضبط کی نسبت کی۔

معنی

اس روایت کے دوحصے ہیں ایک حصہ اس واقعے کے بیان پر مشتمل ہے کہ ایک صحابی یعنی عتبان رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ آپ ان کے ہاں تشریف لائیں اور ان کے گھر میں نماز پڑھیں تاکہ وہ اسے اپنے نماز پڑھنے کی جگہ بنا لیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست منظور کر لی ۔ آپ ان کے ہاں تشریف لائے۔ ان کی مرضی کی جگہ پر دو رکعت نماز ادا کی۔

یہ واقعہ چند حوالوں سے اہم ہے۔ ایک یہ کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق میں کس قدر جذبات رکھتے تھے۔ ان کے ہاں یہ تصور موجود تھا کہ حضور کی ذات سے نسبت رکھنے میں بھی برکات وثمرات ہیں۔ حضرت عتبان رضی اللہ عنہ مسجد کی حاضری سے محروم ہو گئے۔ ان کے ذہن میں اس کا متبادل یہ آیا کہ حضور ان کے گھر میں کسی جگہ اگر نماز ادا کردیں تو اس کمی کی تلافی ہو سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ خواہش آئی تو آپ نے ان کی یہ خواہش پوری کردی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے واضح ہے کہ حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کا خیال درست تھا۔

سورۂ توبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کے بارے میں یہ ہدایت فرمائی:

خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلَِّ عَلَیْہِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ، وَاللّٰہُ سَمِیُعٌ عَلِیْمٌ.(۹ :۱۰۳)
’’تم ان کے مالوں کا صدقہ قبول کرو۔ اس سے تم ان کو پاکیزہ بناؤگے اور ان کا تزکیہ کرو گے۔ اور ان کے لیے دعا کرو، تمھاری دعا ان کے لیے سرمایۂ تسکین ہے۔ اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

اس آیۂ کریمہ میں حضور کی دعا کو صحابہ کے لیے سرمایۂ تسکین قرار دیا گیا ہے۔ اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بارگاہ ایزدی میں مقبول ہونا یقینی ہے۔ یہی چیز ہے جو صحابہ میں حضور کے ساتھ ایک خاص تعلق کے پیدا کرنے کا سبب بنی۔ یہاں یہ نکتہ واضح رہنا چاہیے کہ انبیا ورسل کے علاوہ دنیا کی کوئی ہستی اپنے مقبول بارگاہ ہونے کا یقین نہیں رکھ سکتی۔ چنانچہ اپنے بارے میں اس طرح کا دعویٰ محض خام خیالی ہے۔ اور اس طرح کے کسی مدعی کے ساتھ وہ تعلق رکھنا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ رکھتے تھے، اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنا ہے۔

روایت کا دوسرا حصہ ایک صحابی مالک ابن دخشم کے بارے میں صحابہ کی گفتگواور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ردعمل سے متعلق ہے۔اس روایت کے دوسرے متون سے معلوم ہوتا ہے کہ اس گفتگو کے شرکا کے خیال میں ان کا تعلق منافقین سے تھا اور ان کے ایمان کو ظاہری ایمان سمجھا جا رہا تھا۔دوسری طرف ان کے بارے میں یہ تصریح شارحین کے ہاں موجود ہے کہ ان کا بیعت عقبہ میں شریک ہونا تو یقینی نہیں ہے، لیکن ان کی بدر میں شرکت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گفتگو کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا، اس سے یہ یقین کے ساتھ تو کہنا مشکل ہے کہ آپ نے ان صاحب کے نفاق کی نفی کی ہے۔ اگرچہ بعض شارحین نے حضور کے جواب سے یہی نتیجہ نکالا ہے۔ لیکن اتنی بات بہرحال کہی جا سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پسند نہیں کیا اور ایمان کے قول کے پیچھے جھانکنے کو غلط قرار دیا۔ اس سے گمان پیدا ہوتا ہے کہ حضور کو ان صاحب کے بارے میں اس رائے سے اتفاق نہیں تھا۔ صحابہ کی گفتگو سے یہ بات بہر حال واضح ہے کہ قرائن ایسے تھے کہ یہ گفتگو کی جا سکے۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ یہی ہے کہ قرائن خواہ کیسے ہی قوی ہوں، کسی کے باطن کے بارے میں رائے قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گفتگو میں ایک اصولی بات ارشاد فرمائی ہے۔ وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان رکھتا ہو، وہ جہنم میں نہیں جا سکتا۔ ہم پہلے بھی یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ احادیث میں منقول اس طرح کے الفاظ اپنی ظاہری دلالت میں قرآن کے خلاف ہیں۔ لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم انھیں مشروط اور محدود معنوں میں لیں۔ یعنی ایمان سے یہاں حقیقی ایمان مراد ہے اور اس کے ساتھ کبائر سے اجتناب اور اعمال صالحہ پر عمل کی شرط لگی ہوئی ہے۔ اس مضمون کے حامل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے ارشادات کے مطالعے سے بھی یہی بات مؤکد ہوتی ہے۔

متون

تفصیلات کے اعتبار سے اس روایت کے متون میں نمایاں اختلافات ہیں۔ پہلے حصے میں ایک اختلاف تو یہ ہے کہ حضرت عتبان رضی اللہ عنہ خود حاضر ہوئے تھے یا انھوں نے کسی کے ذریعے سے یہ درخواست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی تھی۔ کچھ روایتیں ایک بات کہتی ہیں اور کچھ دوسری۔بعض شارحین نے اس تضاد کو اس طرح حل کیا ہے کہ ایک مرتبہ تو یہ خود حاضر ہوئے تھے اور دوسری بار کسی دوسرے کو بھیجا تھا۔ امام مسلم نے بلا بھیجنے والے متون کو ترجیح دی ہے ۔ ان کی معذوری کو پیش نظر رکھیں تو یہ بات زیادہ قرین قیاس لگتی ہے۔ دوسرا اختلاف نماز اکیلے پڑھنے اور جماعت کے ساتھ پڑھنے کا ہے۔ہمارے پیش نظر روایت میں یہی بیان ہوا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے نماز پڑھی تھی اور اس دوران میں صحابہ باتیں کر رہے تھے۔ دوسرے متون سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور کے ساتھ صحابہ نے بھی ان کے پیچھے نماز پڑھی تھی۔ جس گفتگو کا حوالہ دیا گیا ہے، وہ گفتگو نماز کے بعد حضور کے سامنے ہوئی تھی۔ امام مسلم کے انتخاب اور گفتگو کے الفاظ میں زیادہ مناسبت ہے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم شروع ہی میں شریک گفتگو ہوتے تو مکالمے کی نوعیت دوسری ہوتی ۔ تیسرا اختلاف ان متون میں حضرت عتبان کے تندرستی کی حالت میں نماز پڑھنے کی جگہ کے بارے میں ہے۔ بعض متن یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ مسجد نبوی میں حضور کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ اور بعض میں یہ تصریح ہے کہ یہ اپنے قریے کے امام تھے۔ان کے اپنے قریے کے امام ہونے کے حق میں قرائن زیادہ ہیں، لیکن اس باب میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔

علاوہ ازیں اس روایت کے متون سے کچھ تفصیلات بھی سامنے آتی ہیں۔ بعض متون میں یہ تصریح ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ شام سے واپسی پر اہتمام کرکے حضرت عتبان سے سنا تھا۔ بعض متون میں حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کا تعارف بھی منقول ہے کہ وہ انصار میں سے تھے اور ان صحابہ میں سے تھے جنھوں نے بدر میں شرکت کی تھی۔ بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ حضرت عتبان رضی اللہ عنہ نے اپنی معذوری کے ساتھ ساتھ بارشوں کے باعث کیچڑ کو بھی مسجد کی حاضری میں حائل عذر کے طور پر پیش کیا تھا۔ کچھ متون میں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن چڑھے ان کے گھر آئے تھے اور آتے ہوئے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی ساتھ لیتے ہوئے آئے تھے۔ مزید براں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضور کی آمد کا سن کر محلے کے بہت سے لوگ بھی ان کے گھر میں جمع ہو گئے تھے۔ بعض روایات میں گھر میں داخل ہونے سے پہلے حضور کے اجازت لینے کا ذکر بھی ہوا ہے۔

یہ فرق تو جزئیات اور تفصیلات کے تھے۔ ان کے بیان کرنے کے لیے الفاظ کے انتخاب میں بھی فرق ہے۔ جن کی تفصیل کرنا محض طوالت کا باعث ہو گا۔

کتابیات

بخاری، رقم۴۱۵،۵۰۸۶۔ مسلم، رقم۳۳۔ نسائی، رقم۸۴۴،۱۳۲۷۔ احمد، رقم۱۶۵۲۹، ۱۶۵۳۰، ۱۶۵۳۱، ۲۳۸۲۱، ۲۳۸۲۲۔ ابن حبان، رقم۴۵۳۴۔ سنن کبریٰ، رقم۹۱۸، ۱۲۵۰، ۱۰۹۴۷۔ ابویعلیٰ، رقم۱۵۰۷، ۳۴۶۹۔ معجم کبیر، رقم۴۷۔ الآحاد والمثانی، رقم۱۹۳۲، ۱۹۳۳۔ بیہقی، رقم۴۹۳۸۔

_______________

B