HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

مولانا سید اسعد مدنی

شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنی کے جانشین اور جمعیت علماء ہند کے سربراہ حضرت مولانا سید اسعد مدنی گزشتہ روز انتقال کر گئے ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ وہ گزشتہ تین ماہ سے کومہ میں تھے اور کافی عرصہ بستر علالت پر رہنے کے بعد کم وبیش ۸۰ برس کی عمر میں اس دنیا سے رحلت فرما گئے ہیں۔حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی برصغیر پاک وہند اوربنگلہ دیش کی ان ممتاز ترین شخصیات میں سے تھے، جنھیں برطانوی استعمار کے خلاف اس خطہ کے عوام کی تحریک حریت میں علامت کی حیثیت حاصل ہے اور جن کے تذکرہ کے بغیر جدوجہد آزادی کاکوئی باب مکمل نہیں ہو سکتا۔ وہ بیک وقت ایک بلند پایہ محدث اور بلند نسبت روحانی پیشواہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے متحرک سیاسی راہ نما اور تحریک آزادی کے عظیم مجاہد بھی تھے۔ انھیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے کم وبیش سترہ برس حرم نبوی میں، بلکہ مسجد نبوی میں قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادرس دیا اور جب انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے استاذ محترم شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز بڑھاپے میں اپنے وطن کی آزادی اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے سرگرم عمل ہیں تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ان کے قافلۂ عزیمت میں شامل ہوگئے اور ان کے ساتھ ہی مالٹا جزیرہ میں محبوس ہوگئے۔

حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نے جب متحدہ ہندوستان کے علماے کرام کی اس وقت کی سب سے بڑی جماعت جمعیت علماء ہند کی قیادت سنبھالی تو استخلاص وطن اور حریت قومی کے لیے پر امن سیاسی جدوجہد کاآغاز ہو چکا تھااور مسلمانوں کی سیاسی قیادت تحریک آزادی کی طرف بڑھ رہی تھی۔ حضرت مدنی نے اس جرات و حوصلہ اور عزیمت واستقامت کے ساتھ تحریک آزادی میں علماے حق کی قیادت کی کہ جمعیت علماء ہند نے حریت پسند جماعتوں کی صف اول میں نمایاں مقام حاصل کر لیا، بلکہ ہر اول دستہ کا کردار ادا کیا۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جمعیت علماء ہند نے سب سے پہلے ایک سیاسی فورم سے ۱۹۲۶ء میں ملک کی مکمل آزادی کامطالبہ کرکے اپنی جدوجہد کاآغاز کیا، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس نے ۱۹۳۰ء میں آزادی کامل کو اپنا ہدف بنایا اور آل انڈیا مسلم لیگ کو اس مطالبہ اور مشن تک پہنچتے ہوئے مزید دس سال لگ گئے ،اور جمعیت علماء ہند کا یہ اعزاز بلاشبہ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور ان کے رفقا کی فراست وبصیرت اور عزیمت واستقامت کامنہ بولتا ثبوت ہے۔

برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان کے بعد حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کی قیادت میں جمعیت علماء ہند نے عملی سیاست سے کنارہ کشی کرلی ،تعلیمی ،سماجی ،اور رفاہی کاموں میں مسلمانوں کی راہ نمائی کو اپنا مشن بنا لیا اور تقسیم کے نتیجے میں بھارت میں رہ جانے والے کروڑوں مسلمانوں کو جن شدید مشکلات اور سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان کے حل اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے حضرت مدنی اور حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی سربراہی میں جمعیت علماء ہند نے جو تاریخی کردار ادا کیا وہ مسلمانان ہند کی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتاہے ۔حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی وفات کے بعد بظاہر یوں محسوس ہوتاتھا کہ بھارت میں مسلمانوں کے وقار ،دینی اقدار اور ترقی کے لیے شب وروز مصروف عمل یہ محاذشاید ٹھنڈ ا پڑ جائے گا اور اب اس سطح کی کوئی شخصیت سامنے نہیں آسکے گی جو ملک گیر سطح پر مسلمانوں کے حقوق ومفادات کے تحفظ اور ان کی تعلیمی وسماجی ترقی کے لیے اس جرات واستقامت کے ساتھ سرگرم عمل ہو، مگر مولانا سید اسعد مدنی کچھ اس شان سے اس میدان میں آگے بڑھے کہ امیدوں کی ٹمٹماتی شمعیں پھر سے روشن ہونے لگیں اور دم توڑتے حوصلوں میں ایک بار پھر زندگی کے آثار دکھائی دینے لگے۔

وہ ایک متحرک سیاسی راہ نما تھے اور ہر کا م وقت پر کرنے کے عادی تھے۔ سیاسی ،مذہبی اور مسلکی معاملات پر ان کی نظر یکساں رہتی تھی اور کسی اہم مسئلہ میں صرف نظر سے کام لینا ان کے مزاج کے خلاف تھا ۔تقسیم ہند کے بعد بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو سب سے زیادہ جس مسئلہ کا سامنا تھا وہ فرقہ وارانہ فسادات کا تھا۔کہیں بھی فرقہ وارانہ عصبیت کی چنگاری بھڑکتی تو اس علاقے میں مسلمانوں کے جان ومال خطرے میں پڑ جاتے، ایسے میں اس علاقے میں جانا،مسلمانوں کو حوصلہ دینا ،ان کے امداد وبحالی کے کاموں کی نگرانی کرنا،فرقہ پرستوں کو لگام دینے کی جدوجہد کرنا اور حکام کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے پر مجبور کرنا، سب سے مشکل کام ہوتاہے ۔ایک زمانے میں حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کایہ کام ہوتاتھا کہ جہاں اس قسم کے فسادا ت ہوتے وہ تمام خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے خود وہاں پہنچ جاتے اور تمام متعلقہ امور اپنی نگرانی میں طے کراتے۔ پھر یہ جگہ حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے سنبھال لی اور خود کو ان کاموں کے لیے وقف کر دیا ۔بھارت کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں پر کوئی گرفت آتی یاکوئی مسئلہ کھڑا ہوتا تو وہاں کے لوگوں کو یہ یقین ہوتاتھا کہ اور کوئی آئے یا نہ آئے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے مولانا اسعد مدنی ضرور آئیں گے اور اکثر ایساہی ہوتا تھا۔ میں نے مختلف مواقع پر ان کودیکھا اور ان کے ساتھ مختلف اجتماعات میں شرکت کی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے موقع پرمیں نے مولانا سید اسعد مدنی کوخود ان کے دیوبند کے گھر میں دیکھا ہے۔ پاکستان میں متعدد بار ان کی تشریف آوری پر ان سے زیارت وملاقات کا شرف حاصل کیا ہے اور برطانیہ کے بہت سے اجتماعات میں ان کے ساتھ شرکت کی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اپنے معمولات اور اوقات کا ان سے زیادہ پابند میں نے اور کوئی شخص نہیں دیکھا ۔میرے والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتھم کابھی یہ معمول رہا ہے کہ وہ جب تک مصروفیات کے دائرے میں رہے اپنے معمولات اور اوقات کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ہم ان کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ وہ گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، مگر ان کی مصروفیات کی جولاں گاہ گکھڑ اور گوجرانوالہ تک محدود رہی ہے اور سفر کا موقع کبھی کبھی آتا تھا۔ جبکہ مولانا سید اسعد مدنی کی جولاں گاہ میں بھارت ،بنگلہ دیش ،برطانیہ،امریکہ، جنوبی افریقہ اور پاکستان سمیت بہت سے دوسرے ممالک شامل تھے۔ اور شاید ہی کوئی سال ایسا ہوتاجب وہ ان ممالک کادورہ نہ کرتے، اس قدر طویل اسفار میں اپنے نظام الاوقات کی پابندی کرنا اور معمولات کو بلا ناغہ نباہنا مولانا اسعد مدنی کاہی کام تھا۔

میں نے برطانیہ کے اسفار میں دیکھاہے کہ ان کے سفر کے آغاز سے قبل ہی ان کے سفر کاسارا شیڈول طے ہو جاتا تھا۔ اور طبع ہوکر متعلقہ حضرات تک پہنچ جاتا تھا۔ پروگراموں کی گھنٹوں کے حساب سے تقسیم ہوتی ایک ایک دن میں درجنوں پروگرام ہوتے اور سارے پروگرام اپنے اپنے وقت پر نمٹ جاتے ۔اور اس معاملہ میں کسی رعایت کے قائل نہیں تھے اور ایسا ممکن نہیں ہوتاتھا کہ اگلے پروگرام کے وقت کا حرج ہو رہاہو اور و ہ کسی پروگرام میں میزبانوں کی مروت کی وجہ سے وقت کا حرج کررہے ہوں۔ گھڑی دیکھتے ہی اپنے وقت پر اٹھ کھڑے ہوتے اور پھر انھیں کسی کام کے لیے روکنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ ان کے اس عمل کا میں نے کئی بار مشاہدہ کیا اور ہر بار اس حوالہ سے ان کے ساتھ عقیدت اور رشک کے جذبات میں اضافہ ہوا ۔

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری بسااوقات حضرت مولانا سید اسعد مدنی کی بعض خصوصیات کاتذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ ایک بار کہنے لگے کہ میں نے مولانا اسعد مدنی میں دو خوبیاں ایسی دیکھی ہیں جو کسی دوسرے دینی یا سیاسی راہ نما میں مجھے نظر نہیں آتیں ایک یہ کہ ان کی خوراک انتہائی سادہ رہی ہے اور وہ اس معاملہ میں اکثر قناعت پسند رہتے ہیں ۔ میں نے کئی بار دیکھاہے کہ دسترخوان پر مختلف قسم کے کھانے ہیں اور پرتکلف ماکولات موجود ہیں، مگر مولانا اسعد مدنی اپنے سامنے پڑی ہوئی کوئی ڈش اٹھائیں گے اور وہیں سے کھانے لگیں گے، اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں ۔

مولانا منصوری کہتے ہیں کہ دوسری بات جو میں نے مولانا اسعد مدنی میں بطورخاص محسوس کی وہ ان کی مستعدی اور چابک دستی ہے وہ بر وقت فیصلہ کرتے ہیں اور اس پر بروقت عمل بھی کرگزرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بسااوقات اکیلے کئی جماعتوں پر بھاری ثابت ہوتے ہیں۔میں نے کئی بار دیکھا کہ کسی علاقے میں کوئی مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے دوسری جماعتیں اس کے بارے میں مشورہ کررہی ہیں، پروگرام بنا رہی ہیں اور اپنے موقف کے منظم اظہار کی تیاریاں کررہی ہیں کہ اچانک مولانا اسعد مدنی وہاں پہنچ جاتے ہیں اپنے حلقے کاکوئی اجتماع یا پریس کانفرنس کرکے اپنا موقف اورپروگرام پیش کرکے آگے چل دیتے ہیں۔اور دوسری جماعتیں دیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی ہیں۔

مولانا سید اسعد مدنی نے جمعیت علماء ہند کی تعلیمی ،سماجی ،معاشرتی اور رفاہی جدوجہد میں جو نئے رنگ بھرے وہ بلا شبہ ان کے صدقات جاریہ ہیں۔ انھوں نے غریب مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار اور شادی بیاہ جیسے معلاملات میں ناگزیر ضروریات کے لیے بلا سود قرضے فراہم کرنے کے لیے جمعیت علماء ہند کے زیر اہتمام ایک فنڈ قائم کیا جس کے بعد اس طرز پر بہت سے دیگر فنڈز بھی قائم ہوئے اور ایک وسیع کارخیر کاآغاز ہوگیا۔ انھوں نے دینی مدارس کے تحفظ وترقی کے ساتھ ساتھ مسلمان بچوں کوعصری تعلیم اور فنو ن سے آراستہ کرنے کے لیے مسلمانوں کوتوجہ دلائی اور بہت سے مقامات پر اس کاعملی اہتمام بھی کیا ،انھوں نے مسلمانوں کی سماجی بہبود اور فلاح کے کئی کام شروع کیے اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔

حضرت مولانا سید اسعد مدنی سیاسیات میں ہمیشہ کانگریس کے ساتھ رہے اور اس کی طرف سے ایوان بالا کے ممبر بھی رہے۔ وہ دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھتے تھے کہ بھارت کے معروضی حالات میں کانگریس مسلمانوں کے لیے بہتر پلیٹ فارم ہے اور وہ سیاسی معاملات میں کانگریس ہی کے فورم سے ہمیشہ متحرک رہے۔مولانا مدنی بھارت کے مسلمانوں کے لیے اپنے عظیم والد شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس اللہ سرہ العزیز کے جانشین تو تھے ہی، مگر میرے جیسے تاریخ کے طالب علم کے لیے وہ مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کے جانشین بھی تھے۔ یہ دونوں نسبتیں ہم سے رخصت ہو گئی ہیں ،اللہ تعالیٰ ان کے ورثا ومتعلقین کو ان کی حسنات کاسلسلہ جاری رکھنے کی توفیق دیں اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

 _________________

B