HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۲۶۵-۲۸۱ (۵۸)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ ) 


وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ ، وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ، کَمَثَلِ جَنَّۃٍ بِرَبْوَۃٍ، اَصَابَھَا وَابِلٌ، فَاٰتَتْ اُکُلَھَا ضِعْفَیْنِ، فَاِنْ لَّمْ یُصِبْھَا وَابِلٌ فَطَلٌّ، وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ{۲۶۵}

اَیَوَدُّ اَحَدُکُمْ اَنْ تَکُوْنَ لَہٗ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ، تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ، لَہٗ فِیْھَا مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ، وَاَصَابَہُ الْکِبَرُ، وَلَہٗ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَآئُ، فَاَصَابَھَآ اِعْصَارٌ فِیْہِ نَارٌ، فَاحْتَرَقَتْ۔ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ{۲۶۶}

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَاکَسَبْتُمْ، وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ، وَلَاتَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ، مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ، وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ{۲۶۷}

اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ، وَیَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآئِ، وَاللّٰہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا، وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ{۲۶۸} یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ، وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ، فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا، وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ{۲۶۹} 

وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ، فَاِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُہٗ، وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ{۲۷۰}

اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ھِیَ، وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَآئَ، فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ، وَیُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِکُمْ، وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ{۲۷۱}

لَیْسَ عَلَیْکَ ھُدٰھُمْ، وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ، وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِکُمْ، وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّاابْتِغَآئَ وَجْہِ اللّٰہِ، وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ، وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ{۲۷۲} 

لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ، یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآئَ مِنَ التَّعَفُّفِ، تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمٰھُمْ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا، وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ، فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ{۲۷۳} اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ، سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً، فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ، وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ{۲۷۴} 

اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا، لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ، ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ، وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا۔ فَمَنْ جَآئَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَھٰی، فَلَہٗ مَا سَلَفَ ، وَاَمْرُہٗٓ اِلَی اللّٰہِ ، وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ، ھُمْ فِیْھَاخٰلِدُوْنَ{۲۷۵} یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا، وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ، وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ{۲۷۶} اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ، لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ، وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ{۲۷۷} 

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا، اتَّقُوا اللّٰہَ، وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا، اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ{۲۷۸}فَاِنْ لَّم تَفْعَلُوْا، فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ، وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ، لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ{۲۷۹} وَاِنْ کَانَ ذُوْعُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ، وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌلَّکُمْ، اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ{۲۸۰} وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ، ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ، وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ{۲۸۱}

اللہ کی خوشنودی چاہنے کے لیے اور اپنے آپ کو (حق پر)قائم رکھنے کی غرض سے۷۰۵ اپنا مال خرچ کرنے والوں کی مثال اُس باغ کی ہے جو بلند اور ہموار زمین پر واقع ہو ۔ ۷۰۶ اُس پر زور کی بارش ہو جائے تو دونا پھل لائے اور زور کی بارش نہ ہو تو پھوار بھی کافی ہو جائے ۔ (یہ مثال سامنے رکھو) اور (مطمئن رہو کہ ) جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اُسے دیکھ رہا ہے ۔ ۲۶۵

کیا تم میں کوئی یہ پسند کرے گا کہ اُس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں۔ اُس میں اُس کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں ۷۰۷ اور وہ بوڑھا ہو جائے اور اُس کے بچے ابھی ناتواں ہوں اور باغ پر سموم کا بگولا پھر جائے اور وہ جل کر خاک ہو جائے ۔ (احسان جتا کر اور دوسروں کی دل آزاری کر کے اپنا انفاق برباد کر لینے والوں کی حالت قیامت میں یہی ہو گی )۔ اللہ اِسی طرح اپنی آیتیں تمھارے لیے واضح کرتا ہے تاکہ تم غور کرو ۔ ۲۶۶

ایمان والو، اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو ۷۰۸ اور اُس میں سے بھی جو ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالا ہے ، ۷۰۹ اور کوئی بری چیز تو (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے کا خیال بھی نہ کرو۔ تم اِس طرح کی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہو ، لیکن خود آنکھیں موند نہ لو تو اُسے لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور جان رکھو کہ (تمھاری اِس خیرات سے) اللہ بے نیاز ہے ، وہ ستودہ صفات ہے ۔ ۲۶۷

شیطان تمھیں تنگ دستی سے ڈراتا اور (خرچ کے لیے) بے حیائی کی راہ سجھاتا ہے ۷۱۰ اور اللہ اپنی طرف سے تمھارے ساتھ مغفرت اور عنایت کا وعدہ کرتا ہے ، اور اللہ بڑی وسعت اور بڑا علم رکھنے والا ہے ۔ وہ (اپنے قانون کے مطابق) جس کو چاہتا ہے، (اِس وعدے کا) فہم عطا کر دیتا ہے ، ۷۱۱ اور جسے یہ فہم دیا گیا، اُسے تو درحقیقت خیر کثیر کا ایک خزانہ دے دیا گیا ۔ لیکن (اِس طرح کی باتوں سے) یاددہانی صرف دانش مند ہی حاصل کرتے ہیں۔ ۲۶۸- ۲۶۹

(اِس بات کو سمجھ لو) اور (مطمئن رہو کہ) جو خرچ بھی تم کرو گے یا جو نذر بھی تم مانو گے ، ۷۱۲ (اُس کا صلہ لازماً پاؤ گے) ، اِس لیے کہ اللہ اُسے جانتا ہے اور (اللہ کی اِس ہدایت سے منہ موڑ کر) اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والوں کا (اللہ کے ہاں) کوئی مددگار نہ ہو گا۔ ۲۷۰ 

تم اپنی خیرات علانیہ دو تو یہ بھی کیا اچھی بات ہے ۷۱۳ اور اُسے چھپاؤ اور غریبوں کو دے دو تو یہ تمھارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔ ۷۱۴ (اِس سے) اللہ تمھارے گناہ مٹا دے گا اور (اِس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ) جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے ۔ ۷۱۵ ۲۷۱ 

(بنی اسرائیل نہیں مانتے تو اے پیغمبر)، اِن کو ہدایت پر لے آنا تمھاری ذمہ داری نہیں ہے ، بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ، (اپنے قانون کے مطابق) ہدایت دیتا ہے۔۷۱۶ (اِس لیے اِس سے قطع نظر کر کے تم، مسلمان یہ سمجھ لو کہ) جو مال بھی تم خرچ کرو گے ، اُس کا نفع تمھیں ہی ملنا ہے ، او رتم اِسی لیے تو خرچ کر رہے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو ، اور (اِس مقصد سے) جو مال بھی تم خرچ کرو گے ، وہ (قیامت میں) تمھیں پورا کر دیا جائے گا او رتمھارے حق میں ذرا بھی کمی نہ ہو گی ۔ ۲۷۲ 

یہ ۷۱۷ (بالخصوص) اُن غریبوں کے لیے ہے ۷۱۸ جو اللہ کی راہ میں گھرے ہوئے ہیں ، اپنے کاروبار کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے ، اُن کی خودداری کے باعث ناواقف اُن کو غنی خیال کرتا ہے ، اُن کے چہروں سے تم اُنھیں پہچان سکتے ہو ، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے ۔۷۱۹ (اُن کی مدد کرو) اور (سمجھ لو کہ اِس مقصد کے لیے) جو مال بھی تم خرچ کرو گے ، (اُس کا صلہ تمھیں لازماً ملے گا)، اِس لیے کہ اللہ اُسے خوب جانتا ہے۔ جو لوگ شب و روز ، علانیہ اور چھپا کر اپنا مال (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں ، اُن کا اجر اُن کے کے پروردگار کے پاس ہے اور (وہاں) کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ کوئی غم کبھی کھائیں گے ۔ ۲۷۳- ۲۷۴

(اِس کے برخلاف) جو لوگ سود کھاتے ہیں ، ۷۲۰ وہ قیامت میں اٹھیں گے تو بالکل اُس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے اپنی چھوت سے پاگل بنا دیاہو ۔ ۷۲۱ یہ اِس لیے کہ اُنھوں نے کہا ہے کہ بیع بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے اور تعجب ہے کہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام ٹھیرایا ہے۔۷۲۲ (اِس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ نے اُسے حرام ٹھیرا یا ہے) ، لہٰذاجسے اُس کے پروردگار کی تنبیہ پہنچی ۷۲۳ اور وہ باز آ گیا تو جو کچھ وہ لے چکا، سو لے چکا، ـ(اُس کے خلاف کوئی اقدام نہ ہو گا) اور اُس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ ۷۲۴ اور جو (اِس تنبیہ کے بعد بھی) اِس کا اعادہ کریں گے تو وہ دوزخ کے لوگ ہیں ، وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ۷۲۵ (اُس دن) اللہ سود کو مٹا دے گا ۷۲۶ اور خیرات کو بڑھائے گا ۷۲۷ اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ کسی ناشکرے اور کسی حق تلفی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ ہاں ، جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے اور نماز کا اہتمام کیا اور زکوٰۃ ادا کی ، اُن کے لیے اُن کا اجر اُن کے پروردگار کے پاس ہے اور اُن کے لیے نہ (وہاں) کوئی اندیشہ ہو گااور نہ وہ کوئی غم کبھی کھائیں گے۔ ۲۷۵- ۲۷۷

ایمان والو، اگر تم سچے مومن ہو تو اللہ سے ڈرو اور جتنا سود باقی رہ گیا ہے ، اُسے چھوڑ دو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اللہ اوراُس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے خبردار ہو جاؤ ، ۷۲۸ اور اگر توبہ کر لو تو اصل رقم کا تمھیں حق ہے ۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو گے ، نہ تم پر ظلم کیا جائے گا ۔اور مقروض تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اُسے مہلت دو اور اگر تم بخش دو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے ، اگر تم سمجھتے ہو ۔ ۷۲۹ اور اُس دن سے ڈرو، جب اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔ پھر ہر شخص کو اُس کی کمائی وہاں پوری مل جائے گی اور لوگوں پر کوئی ظلم نہ ہو گا۔ ۲۷۸- ۲۸۱ 

۷۰۵؎ اصل میں ’تثبیتاً من انفسھم‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’من ‘ گویا ’ تثبیتاً‘ کے مفعول پر داخل ہے۔ یعنی اللہ کی خوشنودی کے ساتھ وہ اِس لیے بھی خرچ کرتے ہیں کہ اِس سے اُنھیں نفس کی خواہشات پر قابو پانے اور اُسے حق پر جمائے رکھنے کی تربیت حاصل ہو ۔

۷۰۶؎ اصل میں لفظ ’ربوۃ‘ استعمال ہوا ہے ۔ اِس کے معنی بلنداور مرتفع زمین کے ہیں ۔ یہ لفظ یہاں جس مقصد سے آیا ہے ، استاذ امام نے اِس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’۔۔۔بلند اور ہموار زمین کے لیے آب و ہوا کی خوش گواری ایک مسلم شے ہے ۔ اگر ایسی زمین پر باغ ہو تو اُس کی بلندی ایک طرف تو اُس کی خوش منظری کا باعث ہوتی ہے ، دوسری طرف اُس کو سیلاب وغیرہ سے محفوظ کرتی ہے ۔ نیز ہموار زمین پر ہونے کے سبب سے اُس کے لیے اُس طرح پھسل کر فنا ہو جانے کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا جو ڈھلوان زمینوں کے باغوں اور فصلوں کے لیے ہوتا ہے ۔ پھر آب و ہوا کی خوبی اُس کی بار آوری کی ضامن ہوتی ہے ۔ اگر موسم سازگار رہا تو پوچھنا ہی کیا ہے، اگر ساز گار نہ ہوا، جب بھی وہ پھل دے جاتا ہے ۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۶۱۷)

۷۰۷؎ یہ عربوں کے تصور کے مطابق ایک اچھے باغ کی تصویر ہے ۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’ اُن کے ہاں اچھے باغ کا تصور یہ ہے کہ اُس کے کنارے کنارے کھجوروں کے درخت ہوں ، بیچ میں انگور کی بیلیں ہوں، مناسب مواقع سے مختلف فصلوں کی کاشت کے لیے قطعات ہوں ، باغ بلندی پر ہو، اُس کے نیچے نہر بہ رہی ہو جس کی نالیاں باغ کے اندر دوڑادی گئی ہوں۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۶۱۸)

۷۰۸؎ یعنی اپنے اُس مال میں سے خرچ کرو جو اچھا ہو ، بے وقعت اور گھٹیا نہ ہو اورتم نے اُسے کسی غلط اور مشتبہ طریقے سے نہیں ، بلکہ جائز طریقے سے کمایا ہو ۔

۷۰۹؎ اِس سے واضح ہے کہ پہلے اُس کمائی کا ذکر ہے جو تجارت وغیرہ کے طریقوں سے حاصل ہوتی ہے ۔ زراعت اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک الگ قسم ہے ۔ چنانچہ اُس کے لیے زکوٰۃ کی شرح بھی اِسی بنا پر الگ رکھی گئی ہے ۔

۷۱۰؎ اصل میں ’امر ‘ کا لفظ آیا ہے ۔ یہ جس طرح حکم دینے کے معنی میں آتا ہے ، اِسی طرح ترغیب دینے اور سجھانے کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ شیطان ایک تو مستقبل کے موہوم خطرات سے ڈرا کر تمھیں اللہ کی راہ میں انفاق سے روکتا ہے اور دوسرے نفس کی راہ میں فضول خرچی اور عیاشی کی ترغیب دیتا ہے تاکہ کسی بڑے مقصد کے لیے خرچ کرنے کی گنجایش ہی باقی نہ رہ جائے ۔

۷۱۱؎ چنانچہ وہ دنیا اور اُس کی نقد لذتوں کو چھوڑ کر خدا کے فضل اور اُس کی بخشش کی امید میں اور ایک نادیدہ عالم کی کامیابیوں کے لیے اپنی کمائی لٹانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ۔

۷۱۲؎ نذر منت کو کہتے ہیں ۔ یعنی اللہ سے عہد کیا جائے کہ میری فلاں مراد پوری ہو گئی تو میں فلاں اور فلاں عبادت یا ریاضت کروں گا یا اتنا صدقہ دوں گا ۔ یہ اگرچہ کوئی پسندیدہ چیز نہیں ہے ، لیکن اِس طرح کا عہد کر لیا جائے تو صاف واضح ہے کہ اُسے ہرحال میں پورا ہونا چاہیے ۔

۷۱۳؎ اِس لیے کہ اِس سے دوسروں کو انفاق کی ترغیب ہوتی ہے ۔

۷۱۴؎ اِس لیے کہ اِس سے حاجت مندوں کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوتی اور خود دینے والا بھی ریا اور نمایش کے فتنے سے محفوظ رہتا ہے ۔

۷۱۵؎ مطلب یہ ہے کہ چھپا کر دو گے تو یہ اللہ سے چھپا نہیں رہے گا ۔ علانیہ اور پوشیدہ ، سب تمھارے لحاظ سے ہے ۔ اللہ سے کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں رہتی ۔ تم جو کچھ بھی کرو گے اور جہاں بھی کرو گے ، وہ اُس سے باخبر ہے ۔

۷۱۶؎ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے کہ پیغمبر کی حیثیت سے آپ کی ذمہ داری اِس سے زیادہ کچھ نہیں کہ اپنے مخاطبین کو اتمام حجت کے درجے میں اللہ کی ہدایت سے آگاہ کر دیں۔ اِس کے بعد یہ اُن کا کام ہے کہ اُسے قبول کریں یا رد کر دیں ۔ آپ کو اِس کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اگر اُسے قبول نہیں کرتے تو اِس کا خمیازہ بھی خود ہی بھگتیں گے ۔

۷۱۷؎ اصل میں ’للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللّٰہ‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ اِن میں ’للفقراء ‘ سے پہلے مبتدا بربناے قرینہ حذف ہو گیا ہے ۔

۷۱۸؎ یہ اُن مہاجرین کی طرف اشارہ ہے جو مدینہ آنے کے بعد کئی برس کے لیے اِس طرح گھر گئے تھے کہ تجارت کے لیے باہر نکلنا بھی اُن کے لیے ممکن نہ تھا ، اور انصار کے ساتھ مواخات کا معاملہ بھی ایک حد سے زیادہ نہیں ہو سکتا تھا۔ پھر ایک چھوٹے سے گاؤں میں معاش کے دوسرے ذرائع تلاش کر لینا بھی آسان نہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی بنا پر اُنھیں مسجد میں ٹھیرا لیا تھا۔ تاریخ میں یہ لوگ اصحاب صفہ کے نام سے مشہور ہیں ۔

۷۱۹؎ اِس سے مقصود اُن کے مانگنے کی نفی ہے ۔ ’ لپٹ کر‘ کے الفاظ مانگنے والوں کی عام حالت کو ظاہر کرنے کے لیے آئے ہیں ۔ کسی چیز کے گھنونے پن کو واضح کرنے کے لیے یہ اسلوب قرآن میں جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے ۔ اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ مانگتے تو ہیں ، مگر لپٹ کر نہیں مانگتے ۔

۷۲۰؎ اصل میں لفظ ’رِبٰوا‘ استعمال ہوا ہے ۔ اردو زبان میں اِس کے لیے سود کا لفظ مستعمل ہے اور اِس سے مرادوہ معین اضافہ ہے جو ایک قرض دینے والا مقروض سے اپنی اصل رقم پر محض اِس لیے وصول کرتا ہے کہ اُس نے ایک خاص مدت کے لیے اُس کو یہ رقم استعمال کرنے کی اجازت دی ہے ۔ یہ قرض کسی غریب اور نادار کو دیاگیا ہو یا کسی کاروباری اور رفاہی اسکیم کے لیے ، اِس چیز کو ربا کی حقیقت کے تعین میں کوئی دخل نہیں ہے ۔ عربی زبان میں ربا کا اطلاق قرض دینے والے کے مقصد اور مقروض کی نوعیت و حیثیت سے قطع نظر محض اُس معین اضافے ہی پر ہوتا ہے جو کسی قرض کی رقم پر لیا جائے۔ چنانچہ یہ بات سورۂ روم (۳۰) کی آیت ۳۹ میں خود قرآن نے واضح کر دی ہے کہ اُس کے زمانۂ نزول میں سودی قرض زیادہ تر کاروباری لوگوں کے مال میں جا کر بڑھنے کے لیے دیے جاتے تھے ۔ اِس کے لیے آیت میں ’لیربوا فی اموال الناس‘ (اِس لیے کہ وہ دوسروں کے مال میں پروان چڑھے) کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ تعبیر ، ظاہر ہے کہ غریبوں کو دیے جانے والے سودی قرضوں کے لیے کسی طرح موزوں نہیں ہے ، بلکہ صاف بتاتی ہے کہ اُس زمانے میں سودی قرض بالعموم تجارتی مقاصد کے لیے دیا جاتا تھا اور اِس طرح قرآن کی اِس تعبیر کے مطابق گویا دوسروں کے مال میں پروان چڑھتا تھا۔

              یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ سود کا تعلق صرف اُنھی چیزوں سے ہے جن کا استعمال اُن کی اپنی حیثیت میں اُنھیں فنا کر دیتا اور اِس طرح مقروض کو اُنھیں دوبارہ پیدا کر کے اُن کے مالک کو لوٹانے کی مشقت میں مبتلا کرتا ہے ۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اِس پر اگر کسی اضافے کا مطالبہ کیا جائے تو یہ عقل و نقل ، دونوں کی رو سے ظلم ہے ۔ لیکن اِس کے برخلاف وہ چیزیں جن کے وجود کو قائم رکھ کر اُن سے استفادہ کیا جاتا ہے اور استعمال کے بعد وہ جس حالت میں بھی ہوں، اپنی اصل حیثیت ہی میں اُن کے مالک کو لوٹا دی جاتی ہیں ، اُن کے استعمال کا معاوضہ کرایہ ہے اور اُس پر ، ظاہر ہے کہ کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔

۷۲۱؎ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین کی چھوت بھی اُن اسباب میں سے ہے جن سے آدمی بعض اوقات پاگل ہو جاتا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت میں لکھا ہے :

’’۔۔۔نیک بندوں پر تو ارواح خبیثہ کا اثر اِس سے زیادہ نہیں ہوتا کہ اُن کو کوئی اذیت یا آزمایش پیش آ جائے ، لیکن جن کی روحیں خود خبیث ہوتی ہیں ، جس طرح اُن کا قلب شیطان کی مٹھی میں ہوتا ہے ، اِسی طرح کبھی کبھی اُن کے عقل و دماغ ، سب پر شیطان کا تسلط ہو جاتا ہے او روہ ظاہر میں بھی بالکل پاگل ہو کر کپڑے پھاڑتے، گریبان چاک کرتے ، منہ پر جھاگ لاتے اور پریشان حال ، پراگندہ بال ، جدھر سینگ سمائے ، اُدھر آوارہ گردی اور خاک بازی کرتے پھرتے ہیں ۔ ‘‘(تدبر قرآن ۱/ ۶۳۱)                            

۷۲۲؎ یہ قرآن نے سود خواروں کے قیامت میں پاگلوں کی طرح اٹھنے کی وجہ بتائی ہے کہ وہ اِس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اللہ نے بیع و شرا کو حلال اور سود کو حرام ٹھیرا دیا ہے، دراں حالیکہ اِن دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جب ایک تاجر اپنے سرمایے پر نفع لے سکتا ہے تو ایک سرمایہ دار اگر اپنے سرمایے پر نفع کا مطالبہ کرے تو وہ آخر مجرم کس طرح قرار پاتا ہے ؟ قرآن کے نزدیک یہ ایسی پاگل پن کی بات ہے کہ اِس کے کہنے والوں کو جزا اور عمل میں مشابہت کے قانون کے تحت قیامت میں پاگلوں اور دیوانوں کی طرح اٹھنا چاہیے ۔

              استاذ امام سود خواروں کے اِس اظہار تعجب پر تبصرہ کرتے ہوئے اِن آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

’’اِس اعتراض سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آ گئی کہ سود کو بیع پر قیاس کرنے والے پاگلوں کی نسل دنیا میں نئی نہیں ہے ،بلکہ بڑی پرانی ہے ۔قرآن نے اِس قیاس کو ... لائق توجہ نہیں قرار دیا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بداہتاً باطل اور قیاس کرنے والے کی دماغی خرابی کی دلیل ہے ۔ ایک تاجر اپنا سرمایہ ایک ایسے مال کی تجارت پر لگاتا ہے جس کی لوگوں کو طلب ہوتی ہے۔ وہ محنت ،زحمت اور خطرات مول لے کر اُس مال کو اُن لوگوں کے لیے قابل حصول بناتا ہے جو اپنی ذاتی کوشش سے اول تو آسانی سے اُس کو حاصل نہیں کر سکتے تھے اور اگر حاصل کر سکتے تھے تو اُس سے کہیں زیادہ قیمت پر ، جس قیمت پر تاجر نے اُن کے لیے مہیا کر دیا ۔ پھر تاجر اپنے سرمایہ اور مال کو کھلے بازار میں مقابلے کے لیے پیش کرتا ہے اور اُس کے لیے منافع کی شرح بازار کا اتار چڑھاؤ مقرر کرتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اِس اتار چڑھاؤ کے ہاتھوں بالکل دیوالیہ ہو کر رہ جائے اور ہو سکتا ہے کہ کچھ نفع حاصل کر لے ۔ اِسی طرح اِس معاملے میں بھی اُس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کہ وہ ایک بار ایک روپے کی چیز ایک روپے دو آنے یا چار آنے میں بیچ کر پھر اُس روپے سے ایک دھیلے کا بھی کوئی نفع اُس وقت تک نہیں کما سکتا ،جب تک اُس کا وہ روپیہ تمام خطرات اور سارے اتار چڑھاؤ سے گزر کر پھر میدان میں نہ اترے اور معاشرے کی خدمت کر کے اپنے لیے استحقاق نہ پیدا کرے ۔
بھلابتائیے کیا نسبت ہے ایک تاجر کے اِس جاں باز ،غیور اور خدمت گزار سرمایے سے ایک سود خوار کے اُس سنگ دل، بزدل ،بے غیرت اور دشمن انسانیت سرمایے کو جو جوکھم تو ایک بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ،لیکن منافع بٹانے کے لیے سر پر سوار ہو جاتا ہے ۔‘‘ ( تدبر قرآن ۱/ ۶۳۲)         

۷۲۳؎ اصل میں ’ فمن جاء ہ موعظۃ من ربہ ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ اِن میں ’موعظۃ‘ کے لیے فعل مذکر آیا ہے ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس کی تانیث غیر حقیقی ہے اور غیر حقیقی تانیث کے لیے فعل بعض اوقات لفظ کے مفہوم کے لحاظ سے آ جاتے ہیں ۔ مدعا یہ ہے کہ اس بات کو سہل نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ تمھارے پروردگار کی تنبیہ ہے۔ اسے نظر انداز کر دینے کا نتیجہ تمھارے لیے نہایت خطرناک ہو سکتا ہے۔

۷۲۴؎ یعنی دنیا میں کوئی اقدام نہیں کیا جائے گا ، لیکن آخرت کے حوالے سے معاملہ اللہ کے سپرد ہے ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت کی پکڑ سے بچنے کے لیے اتنی بات کافی نہیں ہے کہ آدمی نے سود لینا چھوڑ دیا ۔ وہاں تو اللہ تعالیٰ یہ بھی دیکھیں گے کہ اِس موقع پر دل کی حالت کیا رہی اور پچھلے مظالم کی تلافی کے لیے کیا کچھ کیا گیا۔

۷۲۵؎ اِس سزا کی وجہ یہ ہے کہ اُن کا یہ رویہ اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اِس حکم کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ صریح کفر ہے اور اِس کی سزا وہی ہونی چاہیے جو کافروں کے لیے مقرر ہے ۔

۷۲۶؎ یعنی سود خواروں کے لیے قیامت میں صرف حسرت و ندامت ہو گی ۔ وہ دیکھیں گے کہ دنیا میں اُن کے لاکھوں وہاں ایک کوڑی بھی نہیں رہے ۔

۷۲۷؎ ترمذی کی ایک روایت (رقم ۶۶۲) کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کی وضاحت اِس طرح فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقے کو قبول کرتا اور اُسے اپنے داہنے ہاتھ سے لیتا ہے ۔ پھر وہ تمھارے لیے اِس طرح اُس کی پرورش کرتا ہے ، جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے ، یہاں تک کہ تمھارا دیا ہوا ایک لقمہ اللہ کے ہاں احد پہاڑ بن جاتا ہے۔

۷۲۸؎ اِس کی نوعیت بالکل الٹی میٹم کی ہے، یعنی جو لوگ اب بھی اِس حکم کو نہیں مانیں گے ، اُن کے خلاف بغاوت کے جرم میں فوجی کارروائی کی جائے گی ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ سود خواری پر اصرار ایسا جرم ہے کہ اِس کا ارتکاب کرنے والوں کو محاربین قرار دے کر اُن کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے ۔

۷۲۹؎ یہ آیت اِس بات کی مزید دلیل ہے کہ قرآن کے زمانۂ نزول میں قرض زیادہ تر تجارتی اور کاروباری مقاصد ہی کے لیے دیا جاتاتھا۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی تفسیر میں لکھاہے :

’’اِس زمانے میں بعض کم سواد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عرب میں زمانۂ نزولِ قرآن سے پہلے جو سود رائج تھا ،یہ صرف مہاجنی سود تھا ۔غریب اور نادار لوگ اپنی ناگزیر ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے کے لیے مہاجنوں سے قرض لینے پر مجبور ہوتے تھے اور یہ مہاجن اُن مظلوموں سے بھاری بھاری سود وصول کرتے تھے ۔اِسی سود کو قرآن نے ربا قرار دیا ہے اور اِسی کو یہاں حرام ٹھیرایا ہے ۔رہے یہ تجارتی کاروباری قرضے جن کا اِس زمانے میں رواج ہے تو اِن کا اُس زمانے میںنہ دستور تھا ، نہ اِن کی حرمت و کراہت سے قرآن نے کوئی بحث کی ہے ۔

اِن لوگوں کا نہایت واضح جواب خود اِس آیت کے اندر ہی موجود ہے ۔جب قرآن یہ حکم دیتا ہے کہ اگر قرض دار تنگ دست (ذوعسرۃ) ہو تو اُس کو کشادگی (میسرۃ) حاصل ہونے تک مہلت دو تو اِس آیت نے گویا پکار کر یہ خبر دے دی کہ اُس زمانے میں قرض لینے والے امیر اور مال دار لوگ بھی ہوتے تھے ۔ بلکہ یہاں اگر اسلوبِ بیان کا صحیح صحیح حق ادا کیجیے تو یہ بات نکلتی ہے کہ قرض کے لین دین کی معاملت زیادہ تر مال داروں ہی میں ہوتی تھی ، البتہ امکان اِس کا بھی تھا کہ کوئی قرض دار تنگ حالی میں مبتلا ہو کہ اُس کے لیے مہاجن کی اصل رقم کی واپسی بھی ناممکن ہو رہی ہو تو اُس کے متعلق یہ ہدایت ہوئی کہ مہاجن اُس کو اُس کی مالی حالت سنبھلنے تک مہلت دے اور اگر اصل بھی معاف کر دے تو یہ بہتر ہے۔ اِس معنی کا اشارہ آیت کے الفاظ سے نکلتا ہے ،اِس لیے کہ فرمایا ہے کہ : ’ان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ‘ (اگر قرض دار تنگ حال ہو تو اُس کوکشادگی حاصل ہونے تک مہلت دی جائے )۔ عربی زبان میں ’ان‘ کا استعمال عام اور عادی حالات کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ بالعموم نادر اور شاذ حالات کے بیان کے لیے ہوتا ہے ۔ عام حالات کے بیان کے لیے عربی میں ’اِذَا‘ہے ۔اِس روشنی میں غور کیجیے تو آیت کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اُس زمانے میں عام طور پر قرض دار ’ذومیسرۃ‘ (خوش حال) ہوتے تھے ،لیکن گاہ گاہ ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی تھی کہ قرض دار غریب ہو یا قرض لینے کے بعد غریب ہو گیا ہو تو اُس کے ساتھ اِس رعایت کی ہدایت فرمائی ۔‘‘( تدبر قرآن ۱/ ۶۳۸)    

              اِس کے بعد اُنھوں نے اپنی اِس بحث کا نتیجہ اِس طرح بیان کیا ہے :

’’ ظاہر ہے کہ مال دار لوگ اپنی ناگزیر ضروریاتِ زندگی کے لیے مہاجنوں کی طرف رجوع نہیں کرتے رہے ہوں گے، بلکہ وہ اپنے تجارتی مقاصد ہی کے لیے قرض لیتے رہے ہوں گے۔ پھر اُن کے قرض اور اِس زمانے کے اِن قرضوں میں جو تجارتی اور کاروباری مقاصد سے لیے جاتے ہیں ، کیا فرق ہوا؟ ‘‘(تدبر قرآن ۱ /۶۳۹)

[              باقی]

ــــــــــــــــــ

B