[اس روایت کی ترتیب وتدوین اور شرح ووضاحت جناب جاوید احمد غامدی کی رہنمائی میں ان کے رفقا معز امجد، منظورالحسن، محمد اسلم نجمی اور کوکب شہزاد نے کی ہے۔]
روی۱ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اذا جئتم الی الصلاۃ ونحن سجود فاسجدوا ولا تعدوھا شیئا۲ ومن ادرک رکعۃ من الصلاۃ مع الامام۳ قبل ان یقیم الامام صلبہ۴ فقد ادرک الصلاۃ۵ الا انہ یقضی ما فاتہ.۶
روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم (جماعت کے ساتھ) نماز پڑھنے کے لیے آؤ اور ہم سجدے میں ہوں تو تم بھی سجدہ کرو، مگر اسے (رکعت) شمار نہ کرو۔۱
جو شخص نماز کی کسی رکعت میں امام کے (رکوع سے) اٹھنے سے پہلے شامل ہوا، اس نے نماز باجماعت (کی وہ رکعت) پالی، (البتہ) اس کے علاوہ دوسری چھوٹ جانے والی رکعتیں اسے (امام کے سلام پھیرلینے کے بعد) پوری کرنی ہوں گی۔ ۲
۱۔ سجدے کے موقع پر جماعت میں شامل ہونے سے رکعت شمار نہیں ہوگی، تاہم اس کے باوجود بہتر یہی ہے کہ نمازی امام کے اٹھنے کا انتظار کرنے کے بجائے سجدے ہی میں اس کے ساتھ شامل ہوجائے اور اس اضافی سجدے کو اپنے لیے باعث شرف و افتخار سمجھے۔
۲۔ جمعہ سمیت تمام نمازوں میں یہی طریقہ ملحوظ رکھا جائے گا۔
۱۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ مسلم کی روایت، رقم ۶۰۷ ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ حسب ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:
بخاری، رقم ۵۵۵۔ ترمذی، رقم ۵۲۴۔ نسائی، رقم ۵۵۳، ۵۵۴، ۵۵۵، ۵۵۶، ۵۵۷، ۵۵۸، ۱۴۲۵۔ ابوداؤد، رقم ۸۹۳، ۱۱۲۱۔ ابن ماجہ، رقم ۱۱۲۱، ۱۱۲۲، ۱۱۲۳۔ موطا، رقم ۱۵، ۲۳۸۔ دارمی، رقم ۱۲۲۰، ۱۲۲۱۔ احمد بن حنبل، رقم ۷۶۵۲، ۷۷۵۲، ۸۸۷۰۔ ابن حبان، رقم ۱۴۸۳، ۱۴۸۵، ۱۴۸۶، ۱۴۸۷۔ ابن خزیمہ، رقم ۱۵۹۵، ۱۶۲۲، ۱۸۴۸، ۱۸۴۹، ۱۸۵۰، ۱۸۵۱۔ سنن الکبریٰ، رقم ۱۵۳۶، ۱۵۳۷، ۱۵۳۸، ۱۵۳۹، ۱۵۴۰، ۱۵۴۱، ۱۷۴۱۔ بیہقی، رقم ۱۶۸۴، ۲۴۰۷، ۲۴۰۸، ۵۵۲۲، ۵۵۲۳، ۵۵۲۴، ۵۵۲۵، ۵۵۲۶، ۵۵۲۷، ۵۵۲۸، ۵۵۳۱۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۲۶۲۵، ۵۹۶۲، ۵۹۶۶، ۵۹۶۷، ۵۹۸۸۔ حمیدی، رقم ۹۴۶۔
۲۔ ’اذا جئتم الی الصلاۃ ونحن سجود فاسجدوا ولا تعدوہا شیئا‘ (اگر تم اس وقت نماز پڑھنے کے لیے آؤ جب ہم سجدے میں ہوں تو تم بھی سجدہ کرو اور اسے رکعت شمار نہ کرو) کے الفاظ ابوداؤد، رقم ۸۹۳ سے لیے گئے ہیں۔
۳۔ ’مع الامام‘ (امام کے ساتھ) کے الفاظ مسلم، رقم ۶۰۷ میں تو روایت ہوئے ہیں، مگر بیش تر روایتوں مثلاً بخاری، رقم ۵۵۵ میں یہ نقل نہیں ہوئے۔
۴۔’قبل ان یقیم الامام صلبہ‘ (اس سے پہلے کہ امام اپنی کمر رکوع سے اٹھا لے) کے الفاظ ابن خزیمہ، رقم ۱۵۹۵ سے لیے گئے ہیں۔ ان سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص رکوع میں شامل ہو تو اس کی رکعت شمار ہوگی۔
۵۔ بعض روایات میں ’فقد ادرک الصلاۃ‘ (تو اس نے نماز پالی) کے الفاظ کی جگہ ’فقد ادرک الصلاۃ کلہا‘ (تو اس نے پوری نماز پالی) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ نسائی، رقم ۵۵۷ میں یہی بات ’فقد تمت صلاتہ‘ (تو اس نے اپنی نماز مکمل کر لی) کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔
۶۔ ’الا انہ یقضی ما فاتہ‘ (سوائے اس کے کہ وہ چھوٹ جانے والی نماز پوری کرے) کے الفاظ نسائی، رقم ۵۵۸ سے لیے گئے ہیں۔ ابن ماجہ، رقم ۱۱۲۱ میں ’فلیصل الیھا اخری‘ (تو اسے چاہیے کہ وہ چھوٹ جانے والی رکعتیں مکمل کرے) کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے، جبکہ ابن حبان، رقم ۱۴۸۶ میں یہ بات ’ولیتم ما بقی‘ (اور اسے چاہیے کہ وہ باقی نماز پوری کرے) کے الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔
اس سے واضح ہے کہ جمعہ اور جماعت کے ساتھ پڑھی جانے والی دیگر تمام نمازوں کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ چنانچہ اس موضوع کی بعض روایات نماز جمعہ کی تخصیص کے ساتھ نقل ہوئی ہیں:
روی انہ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من ادرک من صلاۃ الجمعۃ رکعۃ فقد ادرک.(نسائی، رقم ۱۴۲۵)
’’روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے جمعہ کی ایک رکعت پالی، اس نے اس (نماز) کو پالیا۔‘‘
روی انہ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من ادرک من الجمعۃ رکعۃ فلیصل الیہا اخری فان ادرکہم جلوسا صلی اربعا.(بخاری، رقم۵۵۲۷)
’’روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے جمعہ کی ایک رکعت پالی، اسے چاہیے کہ وہ (امام کے سلام پھیرنے کے بعد) چھوٹ جانے والی رکعت مکمل کرے۔ (البتہ)، اگر وہ قعدے میں شامل ہوا ہے تو پھر اسے (ظہر کی) چار رکعتیں پڑھنی چاہییں۔‘‘
____________