خیال وخامہ
O
اے کاش ، کبھی سنتے معنی کی خبر لائی
الفاظ کے پیچوں سے انساں کی شناسائی
کیا رنگ دکھائے گی خرمن میں یہ چنگاری
ہر شخص ہے بستی میں خاموش تماشائی
اجڑے ہوئے خیموں میں خونابۂ مژگاں سے
آتی ہے تمدن کی تعمیر میں رعنائی
پھر شہر ملامت کے ہر کوچہ و منزل میں
مجروحِ تماشا ہے آشفتۂ تنہائی
میرے لیے کافی ہے ویرانۂ دل میرا
افلاک سے بڑھ کر ہے اس دشت کی پہنائی
____________