HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

مسلمان اور دنیا پرستی (۲)


دنیا کی غلط رہنمائی

ہم نے تفصیل کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ دنیا اللہ تعالیٰ نے عبث نہیں بنائی۔ اس کا ایک متعین مقصد ہے۔ یہ مقصد ان پاکیزہ نفوس کا حصول ہے جو اس دنیا کی آلایشوں میں رہتے ہوئے تمام تر اختیار و ارادے کے باوجود اپنے آپ کو اس دنیا کی آلودگیوں سے بچاتے ہیں۔ ختم نبوت کے بعد لوگوں کے پاس اس خدائی منصوبے کو جاننے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ مسلمان اپنے قول و فعل سے انسانوں کو اس معاملے سے آگاہ کریں۔

تاہم آج کے مسلمان دنیا کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے منصوبے کو خود ہی فراموش کر چکے ہیں تو دوسروں کو اس سے کیا آگاہ کریں گے؟یہ بات کہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، یہ بات کہ دنیا تو محض ایک آزمایش اور دھوکا کی جگہ ہے جس کا مقصد امتحان کے سوا کچھ نہیں۔ یہ کھونے اور پانے، کامیابی اور ناکامی، عروج وزوال، خوشی وغم کی جگہ نہیں، بلکہ صرف اور صرف امتحان کی جگہ ہے جس میں انسان کو تمام حالات میں اپنے وجود کو ہر طرح کی غلاظتوں سے بچاکر اپنے آپ کو خدا کی جنت کا مستحق ثابت کرنا ہے، یہ حقیقت آج کے مسلمان کے لیے بھی اتنی ہی اجنبی ہے جتنی کہ ایک غیر مسلم کے لیے۔

آج کسی مسلمان سے کبھی دریافت کیجئے کہ وہ اداس کیوں ہے تو وہ جواب میں دنیا سے اپنی محرومی کی داستان سنائے گا۔ کسی سے پوچھیے وہ خوش کیوں ہے تو وہ دنیا میں اپنی کامیابی کی کہانی سے آگاہ کرے گا۔ اس کی زندگی کا نصب العین دریافت کیجیے تو وہ ایک کامیاب دنیوی زندگی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دے گا۔ اس کی راہِ عمل دریافت کیجیے تو جواب میں ’’شاہراہِ مال‘‘ کے سوا کسی اور راستے کا نشان بھی سامنے نہیں آئے گا۔ آج کے مسلمان زبان حال سے دنیا کو صرف ایک پیغام دیتے ہیں۔ وہ یہ کہ ان کی خوشی اور غم، راحت اور کلفت، دکھ اور آرام، سب اسی دنیا سے وابستہ ہے اور یہ کہ وہ موت کے بعد کی کسی زندگی سے واقف نہیں۔

دنیا پرستی کی دوڑ میں آج کے مسلمان ٹھیک اسی انحراف کا شکار ہو چکے ہیں جس میں بنی اسرائیل اپنے زمانہ میں مبتلا ہوئے تھے۔ وہ دنیا کو شرک کی لعنت سے بچانے کے لیے کھرے ہوئے تھے، مگر خود اپنے پیغمبروں سے بچھڑے کو خدا بنانے کی فرمایش کر بیٹھے۔ آج کے مسلمان کی بھی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا پرستی کے اس فتنہ میں کھڑا ہو کر لوگوں کو یہ بتائے کہ اصل زندگی دنیا کی نہیں، آخرت کی ہے۔ ایک مسلمان کو دیکھ کر لوگوں کو دنیا کے بارے میں خدا کے منصوبہ کا پتا چلنا چاہیے۔ انھیں جاننا چاہیے کہ جنت کی امید پر جینے والے کیسے ہوتے ہیں، مگر اس کے بجائے مسلمان بھی مال ودولت کے اس معبود کو سجدہ کرنے لگا جس کے پجاری چہار عالم ہیں۔ ہم دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی اپنے لیے بھی ’’دنیا کا ایک سنہری بچھڑا‘‘ چاہتے ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ ہمیں تو دنیا کو اس سنہری بچھڑے کے جال سے نکالنا تھا اور انسانیت کو جنت کی ابدی بادشاہی کی خبر دینی تھی۔

سچی دین داری کی موت

مسلمان جب دنیا پرستی کے مرض میں گرفتار ہوتے ہیں تو وہ آخرت کا انکار نہیں کر دیتے، بلکہ وہ ایسے ذرائع ڈھوند لیتے ہیں، جن سے ان کی آخرت بھی محفوظ رہتی ہے اور ان کی دنیا پرستی پر بھی حرف نہیں آتا۔یہ ذرائع بالعموم وہ سفارش کرنے والے ہوتے ہیں جو ان کی ہر بدعملی کے باوجود خدا کی پکڑ سے انھیں بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح کچھ ایسے آسان اعمال لوگوں میں مقبول ہو جاتے ہیں جو کسی خاص وقت اور طریقے پر اگر ادا کر دیے جائیں تو اس کے بعد انسان کے لیے لازماً جنت میں جگہ محفوظ اور نار جہنم ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔

دین کی تعلیمات پر نگاہ رکھنے والے یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ رویہ سچی دین داری اور فلسفۂ دین کی موت ہے۔ دینی تعلیم کا خلاصہ فکر آخرت ہے جس میں ایک انسان قدم قدم پر محتاط زندگی گزارتا ہے۔ وہ مسجد ہی میں خدا کا بندہ نہیں بنتا، بلکہ اپنے دفتر، گھر، سڑک اور دکان، غرض یہ کہ ہر جگہ خدا کا بندہ بن کی زندگی گزارتا ہے۔ اس کے لیے دین محض ایک ثقافتی مظہر اور دینی شعائر کی پابندی کوئی رسم وعادات نہیں رہتی، بلکہ ان کے ذریعے سے وہ اپنے روحانی ، حیوانی، عقلی اور اخلاقی وجود کا تزکیہ کرتا اور انھیں پاکیزہ تر بناتا ہے۔ اس کے برعکس ایک دنیا پرست مسلمان نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر دینی اعمال کو محض ایک رسم وعادت کے تحت اختیار کرتا ہے۔جس کا کوئی اثر اس کے کردار، اخلاق، عادات اور معاملات میں ظاہر نہیں ہوتا۔ چنانچہ ان سب کے ساتھ وہ اخلاق وکردار کی ہر گندگی میں اسی طرح لتھڑا ہوتا ہے جس طرح ایک دنیا دار شخص۔ ہمارا حال ، بلاشبہ، اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔

اخلاقی انحطاط

دنیا پرستی کے فتنہ نے ہمیں بدترین اخلاقی زوال سے دوچار کر دیا ہے۔ معاشرے کو مستحکم رکھنے والی ہماری اعلیٰ اقدار ماضی کا ایک قصہ بن کر رہ گئی ہیں۔ معاشرے میں اس وقت اگر کوئی قدر پوری قوت کے ساتھ زندہ ہے تو وہ صرف زرپرستی کی قدر ہے۔ دنیا پیسے سے ملتی ہے۔ چنانچہ لوگ پیسا کمانے کو زندگی کا واحد مقصد قرار دے دیتے ہیں۔ اس دھن میں لوگ حلال و حرام، خیر وشر اور نیک وبد کے ہر امتیاز کو بھول جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں اس معاملے میں صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ مذہبی پابندیوں کا لحاظ تو دور کی بات ہے، عام انسانی اخلاق، جن سے غیر مسلم بھی پہلو تہی نہیں کرتے، لوگوں کے لیے بے معنی ہو چکے ہیں۔بازار میں دستیاب کسی شے کے متعلق ہم یہ بات اعتماد سے نہیں کہہ سکے کہ یہ ملاوٹ سے پاک ہے۔اس معاملے میں ہماری بے حسی اس درجہ میں پہنچ چکی ہے کہ غذا اور دوا جیسی اشیا بھی، جن پر زندگی اور موت کا انحصار ہے اور دنیا کے کسی مہذب ملک میں ان چیزوں میں ملاوٹ کا تصور نہیں کیا جا سکتا، ہمارے ہاں خالص نہیں ملتیں۔

رشوت نے ہمارے ہر قانون کو عملاً غیر موثر کر دیا ہے۔ جس معاشرے میں ہر ناجائز کام رشوت دے کر ممکن ہوا اور رشوت کے بغیر کوئی جائز کام ممکن نہ ہو، وہاں قانون اور ضابطے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔

مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ اس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، مگر ہمارے ہاں مال ودنیا کی خاطر کسی کی بھی جان، مال اور عزت وآبرو کو نقصان پہنچانا ایک بہت معمولی بات ہے۔ ہر ظلم، ہر خیانت اور ہر ناجائز کام جس سے پیسا مل سکتا ہو، ہم بلاجھجک اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس صورت حال کا سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ یہ انحطاط کم ہونے کے بجائے روزبروز بڑھتا چلا جارہا ہے۔ یہ صورت حال اگر تبدیل نہ ہوئی تو اس کے بدترین نتائج پورے معاشرے کو بھگتنے پڑیں گے۔

سادگی کا خاتمہ اور عیش پرستی کا فروغ

دین اسلام اپنے ماننے والوں کے سامنے آخرت کا جو نصب العین رکھتا ہے، اس کا لازمی تقاضا ہے کہ انسان کی تو جہالت اور وسائل کا بیش تر حصہ آخرت کے لیے صرف ہو۔ ہر چند کہ دین کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ انسان اپنی ضروریات کا گلا گھونٹ دے اوراپنے ذوق جمال کو مردہ کر دے، مگر آخرت پسند نہ سوچ کا ایک لازمی نتیجہ سادہ زندگی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اس سادگی کا معیار فرد اور حالات کے اعتبار سے مختلف ہو سکتا ہے، مگر آخرت پر یقین رکھنے والا یک شخص مجبور ہوتا ہے کہ اپنے مال کا ایک بڑا حصہ آخرت کی ابدی زندگی کے لیے بچا کر رکھے۔ اس کے برخلاف دنیا پرست انسان کی سوچ صرف اس دنیا تک محدود ہوتی ہے، اس لیے وہ اسی کو سنوارنے اور سجانے کی فکر میں رہتا ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ دور حاضر کا میڈیا دنیا کو اس قدر حسین بنا کر دکھاتا ہے کہ انسان بے اختیار اس بت کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔ زمانۂ قدیم کا ایک شہنشاہ جن نعمتوں کا تصور نہیں کر سکتا تھا، میڈیا آج کے انسان کے سامنے اس کی تصویر کشی اس طرح کرتا ہے کہ انسان اس کے تصور میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ سیروتفریح، کھانا پینا، عالی شان محلات اور شان دار گھر، نئے ماڈل کی چمک دار گاڑیاں، قیمتی فرنیچر، انگریزی درس گاہوں میں اولاد کی تعلیم، زندگی کو حد درجہ سہل و آسان بنا دینے والی مشینوں اور پر تعیش اشیا کی کثرت بس یہی کچھ اس کی زندگی کا مقصد بن کر رہ جاتا ہے۔

اس صورت حال کے نتیجے میں ہمارے ہاں معیار زندگی بلند کرنے کی ختم نہ ہونے والی دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ ہوس زر کا مرض جو بالعموم خوش حال طبقات تک محدود ہوتا ہے، معاشرے کے گھر گھر میں پھیل چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف وہ اخلاقی بگاڑ پیدا ہوا ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا اور دوسری طرف اسراف، نمود ونمایش اور عیش پرستی جیسے امراض معاشرے میں عام ہو گئے ہیں۔ یہ امراض ہمارے معاشرے کو کمزور کر رہے ہیں اور قوم میں داخلی اور خارجی چیلنج کا سامنا کرنے کی صلاحیت بتدریج ختم ہو رہی ہے۔ یہ رویہ کسی بھی قوم کو آخر کار تباہی سے دو چار کر دیتا ہے۔

انسانی اقدار اور رشتوں کی کمزوری

زرپرستی نے نفسانفسی کی ایک ایسی کیفیت ہمارے معاشرے میں پیدا کر دی ہے جس میں رشتے ناتے کمزور اور اعلیٰ انسانی اقدار مردہ ہوتی چلی جارہی ہیں۔ملک وملت سے وفاداری جو ہردور میں مسلمہ انسانی قدر رہی ہے جس طرح ہمارے ہاں پامال کی جاتی ہے، دنیا میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ہمارے اجتماعی ادارے جن سے ملک وقوم کی ترقی وابستہ ہوتی ہے، لوٹ گھسوٹ کا سب سے بڑا مرکز بن چکے ہیں۔ اپنے مالی مفادات کی خاطر پوری قوم کے مفادات کو بیچ دینے والے وہ لوگ ہیں جنھیں قوم نے قیادت کے منصب پر فائز کیا تھا۔

یہ معاملہ صرف خواص ہی تک محدود نہیں، عام لوگوں میں بھی امانت، دیانت، سچ، عدل، ایثار، ہمدردی اور دیگر اخلاقی تصورات بے حد کمزور ہو چکے ہیں۔ کچھ لوگ کروڑوں کے گھر بناتے ہیں اور اسی معاشرے میں غربا علاج کے پیسے نہ ہونے کی بنا پر مر جاتے ہیں۔ یہاں لوگ اپنی اولاد کی تعلیم پر لاکھوں روپے صرف کرتے ہیں اور قوم کی اکثریت کو ابتدائی تعلیم کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ لوگ ہر سال نئے ماڈل کی گاڑی بدلتے ہیں اور غریبوں کی بچیاں تنگ دستی کی بناپر بن بیاہی رہ جاتی ہیں۔

لوگ دن بھر مال کمانے کی ان تھک جدوجہد کرتے ہیں اور شام کو تھکن اتارنے کے لیے ایسے تفریحی پروگرام دیکھتے ہیں جو قلب ونظر کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ اس بنا پر ہم شرم وحیا کے ان تصورات سے محروم ہو رہے ہیں جو ہمارا بہت قیمتی اثاثہ ہیں۔ ہماری دینوی مشغولیات ہمیں اولاد کی تربیت کا موقع نہیں دیتیں جس کے بعد میڈیا ان کے معصوم ذہنوں میں دنیا بھر کی غلاظت انڈیل دیتا ہے۔ نئی نسلوں کی تعمیر کرنے والے اساتذہ اب پیسے لے کر پڑھانے والے ملازم بن گئے ہیں۔ وہ ملازم جو صرف تنخواہ لیتے ہیں، تربیت نہیں کرتے۔

معیارِ عزت و شرافت میں تبدیلی

عزت وشرافت کے ہمارے معیار اب روپے پیسے سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ ایک صاحب کردار ، صاحب علم وفضل شخص کو معاشرے میں وہ مقام نہ ملے جس کا وہ مستحق ہو، مگر ایک حرام مال کھانے والے گو اس کی دولت کی وجہ سے معاشرے میں عزت وتوقیر حاصل ہو جائے؟لوگوں کی عزت اس بنیاد پر کی جائے کہ وہ کہاں رہتے ہیں، ان کے مالی حالات کیسے ہیں، وہ کس گاڑی میں سفر کرتے ہیں۔

نوجوان جو کسی قوم کا اثاثہ اور مستقبل کا سرمایہ ہوتے ہیں، اس معاشرے میں، اپنے مستقبل کا تعین صرف اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ کس شعبہ میں زیادہ پیسا ہے۔ ہمارے ہاں اب لوگ رشتے ناتے طے کرتے وقت خاندانی شرافت اور اخلاقی حیثیت پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ ان کا معیار اکثر حالات میں صرف لڑکے کا مالی استحکام ہوتا ہے۔اسی طرح لڑکی کا جہیز سسرال میں اس کی عزت وشرافت کا ضامن ہوتا ہے اور جس سے محرومی کی تلافی اس کے کردار اور اخلاق کی کوئی خوبی نہیں کر سکتی۔

بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں نہ صرف یہ معیار بدلے ہیں، بلکہ ہم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ جو شخص مال ودولت میں پیچھے ہے، وہ دراصل خدا کی ناراضی کا شکار ہے اور جوخوش حال ہے، وہ اللہ کی رحمت سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ بلاشبہ یہ تصور انتہائی قابل مذمت ہے جو دین کے اس فلسفۂ آزمایش سے ٹکراتا ہے جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔

قلبی سکون اور وقار سے محرومی

انسان اصلاً روحانی وجود ہے۔ مادی ضروریات کی تسکین اس کے وجود کی بقا کے لیے ضروری ہے، مگر ذہنی سکون کے لیے وہ روحانی وجود کی تسکین چاہتا ہے۔ یہ تسکین روپے پیسے اور پرتعیش اشیا کے انبار میں نہیں ملتی۔ یہی سبب ہے کہ ہم ذہنی سکون کی اس دولت سے، جو انسان کی ہر تگ ودو کا حاصل ہوتی ہے، محرورم ہیں۔ چیزوں کی دوڑ میں لگ کر ہم اس قلبی آسودگی سے قطعاً محروم ہو چکے ہیں جو ایک سچے خدا پرست کی زندگی کو بہت سہل اور آسان کر دیتی ہے۔

اجتماعی سطح پر ہم اس شے سے محروم ہیں جسے دنیا عزت اور وقار کے نام سے جانتی ہے۔ ہم اپنے سیاسی فیصلوں میں خود مختار ہیں نہ معاشی پالیسیوں میں۔ بعض مسلمان ملک دنیا کی امیر ترین اقوام میں سے ہیں، مگر دنیا میں وہ اتنے ہی بے وقعت اور بے حیثیت سمجھے جاتے ہیں۔ اس کا سبب بھی یہ ہے کہ حقیقی عزت ووقار اخلاق اور کردار کی بلندی سے ملا کرتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں دنیا پرستی کا سیلاب اصول واخلاق کی ہر عظمت کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ہے۔

طبقاتی کشمکش

زرپرستی کا لازمی نتیجہ دولت کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ جس کے نتیجے میں کچھ لوگ امیر سے امیر تر اور اکثریت غریب تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک غریب نوجوان جب خود کو بنیادی ضروریات سے بھی محروم اور دوسروں کے پاس مال کے انبار دیکھتا ہے تو اس میں مجرمانہ ذہنیت جنم لیتی ہے۔اس کے اندر وہ احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے جومعاشرے میں ایک چور، ڈاکو اور بدعنوان شخص جنم دیتا ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے کا امن وسکون غارت کر دیتے ہیں۔ غریب کی ماری لڑکیاں جب اپنے گھروں سے نکلتی ہیں تو دولت کی چکا چوند انھیں حیا کے راستوں سے بھٹکا دیتی ہے۔ بعض کے پاس تو اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ اپنے آپ کو بیچ کر اپنے خاندان کی ضروریات پوری کریں۔

بڑی بڑی عالی شان عمارتوں اور سوسائٹیوں کی کثرت، چمکتی دمکتی گاڑیوں کا ازدحام اور خوش نما لباس پہنے خوش حال لوگوں کا نظارہ جب وہ غریب کرتے ہیں جنھیں جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے بھی وسائل دستیاب نہیں تو اس کے نتیجے میں ایک زبردست طبقاتی کشمکش جنم لیتی ہے۔ نفرت، غصہ اور انتقام کی یہ آگ آہستہ آہستہ سلگتی ہے اور ایک روز پورے معاشرے کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔

نتائج

دنیا پرستی اہل مغرب میں بھی موجود ہے، مگر وہ ہماری طرح الہامی ہدایت کے امین ہیں نہ انھوں نے دنیا پرستی کے نتیجے میں وہ معاشی، اخلاقی اور سماجی مسائل اپنے معاشرے میں پیدا ہونے دیے جن کا آج ہم شکار ہیں۔ ان تمام معاملات میں اہل مغرب کا رویہ ہم سے اچھا ہے۔ صرف صنفی معاملات میں وہ انحراف کا شکار ہوئے ہیں، مگر ہمارے ہاں تو زندگی کا ہرشعبہ اس سے متاثر ہو چکا ہے۔ اصحاب رسول کو اللہ تعالیٰ نے خیرامت (بہتری گروہ) قرار دیا تھا، مگر ہم لوگ تو شرامت (بدترین گروہ) ثابت ہو رہے ہیں۔ ایسے میں کیا عجب کہ ہم خدا کے عذابوں کی زد میں اور عزت و وقار سے محرورم ہیں۔

دوسری طرف تعیشّات میں مبتلا، اخلاقی طور پر زوال پزیر اور طبقاتی کشمکش کا شکار معاشرے کے لیے تاریخ کوئی اچھا پیغام نہیں دیتی۔ ایسے معاشرے کا استحکام مکڑی کے جالے سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس کی مثال اس لکڑی کی طرح ہے جسے دیمک لگ چکی ہے۔ بظاہر وہ مضبوط لگتی ہے، مگر اصلاً وہ ایک معمولی ضرب بھی نہیں سہ سکتی۔ ہمارا معاشرہ بھی کم وبیش ایسا ہی بنتا جا رہا ہے۔ اگر اصلاح احوال کی کوشش نہ کی گئی تو اب بہت زیادہ دیر نہ لگے گی کہ اس کے پرخچے اڑ جائیں گے۔ قوموں کی زندگی میں بیس پچیس سال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اگر ہم نے اپنا رخ درست نہیں کیا تو اس سے زیادہ مہلت ہمارے پاس اب نہیں ہے۔ اس وقت میں دیر سویر ہو سکتی ہے، مگر یہ انجام متعین ہے۔ ہم یہ پیش گوئی کسی علم غیب کی بنیاد پر نہیں کر رہے۔ یہ نوشتۂ دیوار ہے جو قرآن اور تاریخ کے ہر طالب علم کو معلوم ہے۔ تاریخ دہرانے کا تو یہ موقع نہیں، البتہ ایک قرآنی آیت ہم نقل کیے دیتے ہیں جو بتاتی ہے کہ جب معاشرہ کے اہل ثروت قارون کی طرح زمین میں فساد پھیلانے لگیں اور عوام الناس ان کی اصلاح کے بجائے ان کے مقام ومرتبہ کو اپنا آئیڈیل قرار دے دیں تو اس قوم کی بربادی یقینی ہو جاتی ہے:

’’اور جب ہم کسی قوم کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس میں فساد شروع کردیتے ہیں پس ان پر عذاب کی بات ثابت ہو جاتی ہے اور انھیں برباد کر ڈالتے ہیں۔‘‘ (بنی اسرائیل۱۷: ۱۶)

کیا دنیا کی نعمتیں شجر ممنوعہ ہیں؟

اس مسئلہ کا حل بیان کرنے سے پہلے اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے کہ کیا یہ دنیا اور اس کی نعتیں بالکلیہ ممنوع ہیں؟ کیا ایک مسلمان کی زندگی ہر نعمت اور مسرت سے خالی ہونی چاہیے؟ کیا حسن وزیبایش، لطف ولذت، چین وسکون اور راحت و آرام پہنچانے والی چیزوں کا استعمال مسلمانوں کے لیے برا ہے؟یقیناًیہ بات نہیں ہے۔ اوپر قارون کا قصہ میں ہم نے دیکھا کہ اسے نصیحت کی گئی کہ مال کا اصل مقصد تو آخرت ہی کا حصول ہونا چاہیے، مگر دنیا سے بھی اپنا حصہ نہ بھولو۔ قرآن بتاتا ہے کہ اللہ سے آخرت کے ساتھ دنیا کی بھلائی بھی مانگنی چاہیے۔ ۱؂ خداکی نعمتیں اور زینتیں آخرت کی طرح دنیا میں بھی مسلمانوں کے لیے ہیں؂۲۔ اسی طرح مال اس دنیا میں انسانوں کے قیام وبقا کا ذریعہ ہے ؂۳۔جائز طریقے سے مال کمانے والا اللہ کا دوست ہے۔ قرآن جگہ جگہ یہ بتاتا ہے کہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کر کے انسان بڑے درجات حاصل کر سکتا ہے۔

دین کی ان تعلیمات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مال برا ہے نہ دنیا۔ دولت مند ہونا قابل مذمت ہے نہ دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا۔ برائی اس میں انہماک، اسے مقصدِ زندگی بنا لینے، اس کی وجہ سے آخرت کو بھولنے، اسے معیار عزت وذلت بنا لینے اور اس کے لیے مذہب واخلاق کی ہر قدر کو پامال کرنے میں ہے۔

راہِ نجات ___ فکر آخرت

ہم آغازِ مضمون میں بیان کر چکے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی دنیا کے اس فتنہ سے ہمیں خبردار کر دیا تھا۔ قرآن وحدیث دنیا پرستی کی مذمت سے بھرے پڑے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دینی تعلیمات، بالخصوص قرآن کریم کے مطالعہ کو اپنی زندگی کا جز بنائیں۔ قرآن سب سے بڑھ کر اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ دنیا کی زندگی اور اس کی کامیابی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ قرآن تو یہاں تک کہتاکہ اگر خدا کو یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ دولت کی ہوس میں سب لوگ خدا کے نافرمان ہو جائیں گے تو وہ کفار کے گھربار، درودیوار اور سازوسامان سے کو چاندی اور سونے کا بنا دیتا؂۴۔

قرآن کا یہ پیغام کہ آخرت کی کامیابی اصل کامیابی ہے، اس کے ہر صفحہ پر نقش ہے۔ یہ خدا کے ہر پیغمبر کی تعلیم کا خلاصہ ہے۔ یہ اس کی ہر کتاب کا موضوع رہا ہے۔ آج کے ہر مصلح کے لیے لازم ہے کہ وہ دین کے اس بنیادی پیغام کو عام لوگوں تک پہنچائے تاکہ مسلمان دنیا اور آخرت، دونوں کی کامیابی سے ہم کنار ہوں۔

ضروری ہے کہ لوگوں میں خدا کی ابدی بادشاہی یعنی اس کی جنت کی سچی طلب پیدا کی جائے۔ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ یہاں پاپیادہ شخص اسکوٹر کی، اسکوٹر والا گاڑی کی اور گاڑی والا بڑی گاڑی کی خواہش کرتا ہے۔ یہی معاملہ دیگر ہر چیز کا ہے۔ ہمارے دور کے مصلحین لوگوں کے اندر سے ترقی کی اس فطری خواہش کو ختم کرنا چاہتے ہیں، جبکہ خدا ایسا نہیں کرتا۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس خواہش کا رخ دنیا کے بجائے آخرت کی طرف مڑ جائے۔ دنیا کی اشرافیہ اور اہل ثروت کے گروہ میں شامل ہونے کے بجائے لوگوں میں یہ خواہش پیدا ہو جائے کہ وہ خدا کے مقربین اور جنت کی اشرافیہ میں شامل ہوں۔ آپ پورے قرآن کی دعوت پڑھ لیں، وہ اس کے سوا انسان میں کوئی ذہن پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ قرآن کے اولین مخاطبین صحابۂ کرام اسی ذہن کی حامل ہستیاں تھیں۔ ابو بکر عمر کا انفاق، عبدالرحمٰن و عثمان کی سخاوت اور علی وبوذر کی سادگی آخرت پر اسی ایمان کے مختلف مظاہر تھے۔

آخرت پر ایمان آدمی میں کیا تبدیل لاتا ہے، اس بات کو سمجھنے کے لیے قرآن کی اس آیت کو ملاحظہ فرمائیں:

’’تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے، وہ محض دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے،وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے۔کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟ بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو کبھی اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف حیات دنیا کا سروسامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے دن سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو؟‘‘ (القصص ۲۸: ۶۰۔۶۱)

آپ اندازہ کریں کہ جس شخص کے دل میں صرف اس ایک آیت پر پکا یقین ہو، اس کی زندگی کس طرح گزرے گی؟ ایسا شخص مال کماتے وقت خدا کی اس نافرمانی کا خطرہ نہیں مول لے سکتا جس کا نتیجہ جہنم کی آگ ہے۔ اس کے مال کا بہترین مصرف، اپنی ضروریات پوری کرکے، آخرت کی ابدی اور زیادہ بہتر زندگی کی آرایش وزیبایش ہوگی۔ وہ دنیا میں کسی بھی نعمت کے حصول کے لیے آخرت کو کبھی خطرے میں نہیں ڈالے گا۔ وہ دنیا کے گھر سے پہلے آخرت کے گھر کی فکر کرے گا اور دنیا کی گاڑی سے پہلے آخرت کی سواری کی سوچے گا۔ اخلاق باختہ عورتوں کے عریاں اور نیم عریاں وجود پر نگاہ ڈالنے کی وقتی لذت کے لیے وہ ان حوروں سے محرومی گوارہ نہیں کرے گا جن کا چاند چہرہ، حسن دلکش اور ابدی شباب کبھی نہیں ڈھلے گا۔

گھر والوں کی ضروریات اور خواہشات اسے کبھی کسی ایسے راستے پر نہیں لے جا سکتیں جو آخر کار جہنم کی دہلیز تک جا پہنچتا ہو۔ بیوی بچوں سے اس کی محبت اسے مجبور کرے گی کہ وہ انھیں بھی جنت کے راستوں کا مسافر بنائے۔ ان کی تربیت کرے۔ انھیں وقت دے۔ انھیں بتائے کہ جینا تو صرف آخرت کا جینا ہے۔ کامیابی تو صرف جنت کی کامیابی ہے۔ یہ دنیا دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں۔ جہاں ہم سے پہلے بن ان گنت لوگوں کا امتحان ہوا اور ہمارا بھی امتحان ہو رہا ہے۔ چند برسوں کی بات ہے، نہ ہم رہیں گے نہ امتحان کے یہ صبر آزما لمحے۔کچھ ہوگا تو خدا کی رحمت ہوگی۔ اس کی جنت ہوگی۔ ختم نہ ہونے والی نعمتیں ہوں گی۔ عزت واکرام کی رفعتیں ہوں گی۔ لہجوں میں وقار ہوگا۔ چہروں پر نکھار ہوگا۔ صالحین کی پاکیزہ قربت ہوگی۔ دوست احباب کی پر لطف صحبت ہوگی۔ ہیرے جواہرات کے محلات ہوں گے۔ مشک وعنبر کے باغات ہوں گے۔سندس وحریر کی آرایش ہوگی۔ یاقوت ومرجان کی زیبایش ہوگی۔ دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی۔ مائے مصفا کی لہریں ہوں گی۔ سونے چاندی کے شجر ہوں گے۔ آب وشراب کے ساغر ہوں گے۔ فرشتوں کے سلام ہوں گے۔ مرغ وماہی کے طعام ہوں گے۔

غرض عیش وسرور اور حور وخدام کی یہ ابدی دنیا؛ آب وشراب اور قصر وخیام کی یہ ابدی دنیا؛ جاہ وحشم اور لذت وانعام کی یہ ابدی دنیا؛ چین وسکون اور لطف واکرام کی یہ ابدی دنیاوہ دنیا ہو گی جہاں کوئی دکھ نہ ہوگا۔ کوئی غم نہ ہوگا۔ کوئی مایوسی نہ ہو گی۔ کوئی پچھتاوا نہ ہوگا۔ کوئی محرومی نہ ہوگی۔ کوئی محدودیت نہ ہوگی۔ بدنصیب وہ نہیں جسے فانی دنیا نہیں ملی۔ بدنصیب وہ ہے جسے یہ ابدی دنیا نہیں ملی۔

جنت کے اس بیان پر مضمون کو ختم کرتے ہوئے خیال آتا ہے کہ شاید ایسے ہی احساسات کے ساتھ اقبال نے کہا ہوگا:

حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ
  حقیقت ہے آئینہ گفتار زنگ
فروزاں ہے سینے میں شمع نفس  
مگر تابِ گفتار کہتی ہے بس
اگر یک سرموئے برتر پرم  
فروغِ تجلی بسوزد پرم

________

۱؂ البقرہ ۲: ۲۰۱۔

۲؂ الاعراف ۷: ۳۱۔۳۲۔

۳؂ النساء ۴: ۵۔

۴؂ الزخرف ۴۳: ۳۳۔۳۴۔

____________

B