ڈاکٹر ام کلثوم
ہم انھیں ماموں چن جی کہتے تھے۔ بعد میں جب ’’چندا ماموں‘‘ والی نظم پڑھی تو بڑی مدت تک اس مخمصے میں رہے کہ نظم لکھنے والے کو کس طرح معلوم ہوا کہ ہم اپنے ماموں کو ماموں چن جی کہتے ہیں جو اس نے ’چندا‘ ہی کو ماموں کہنا شروع کر دیا۔ فی الواقع وہ ہمیں چاند سے بھی زیادہ خوب صورت لگتے تھے، گورے چٹے، متوازن جسم، معتدل قد اور اس پر خوب صورت نرم دھیمی گفتگو۔ ہم جب بھی للہّ اپنے ننھیال جاتے، اگر وہ وہاں ہوتے تو ضرور ہمیں اسٹیشن سے لینے آتے۔ ہمیں ان کا یوں لینے آنا اس لیے اچھا لگتا کہ پھر ان کے کندھوں پر سوار ہو کر گھرجانے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ راستہ بھر ہنستے مسکراتے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے ہم مزے سے گھر پہنچ جاتے جہاں نانی اماں ہماری منتظر ہوتیں۔
مجھے وہ منظر بھی کبھی نہیں بھولتاجب ماموں للہّ سے روانہ ہوتے۔ نانی اماں انھیں گھر سے رخصت کر کے چھت پر چلی جاتیں، انھیں گلیوں میں سے گزر کر اسٹیشن پر جاتے دیکھتیں اور پھر اس وقت تک اوپر رہتیں، جب تک ریل گاڑی انھیں لے کر نظروں سے اوجھل نہ ہو جاتی۔ اس دوران میں وہ مسلسل کچھ پڑھ پڑھ کر دم کر رہی ہوتیں۔
ماموں ہمارے لیے ایک معیاری شخصیت رہے۔ وقار، سادگی، نفاست، متانت، خوش مزاجی، نرم گفتاری، تحمل کا پیکر، ان کے ہم راہ نشست ہمیشہ پر لطف رہتی۔ یہ بات اس وقت بھی صحیح تھی جب ہم ان کے کندھوں پر سوار ہوتے اور پھر اس وقت بھی جب ان سے مختلف علمی موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ زندگی کی آخری ملاقات تک اس لطف وسرور میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی۔ علمی گفتگو میں بالعموم ان کے اظہار خیال کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ بعض اوقات رائے کا اختلاف بھی پیدا ہو جاتا۔ ہم اپنے اشکالات ان کے سامنے رکھتے۔ وہ تحمل سے بات سنتے اور اپنے دلائل دیتے۔ لیکن کبھی اپنی رائے ٹھونسنے کی کوشش نہ کرتے۔
وہ ہر ایک سے اس کی ذہنی سطح اور ذوق کے مطابق گفتگو کا سلیقہ رکھتے تھے۔ ہنستے ہنساتے تھے۔ کھلاتے پلاتے تھے۔ ہم نے انھیں کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔ میری سمجھ میں یہ بات اب تک نہیں آئی کہ آخر انھیں غصہ کیوں نہیں آتا تھا۔ شاید اللہ میاں نے ان کے اندر غصے کے جینز ہی نہیں رکھے تھے یا شاید ضبط نفس ہی کمال درجے کا تھا۔ انھیں یہ صفت نانا جی سے وراثت میں ملی تھی۔ ہمارے دوسرے ماموں جان اور امی جان اس معاملہ میں ان سے حیرت انگیز مماثلت رکھتے تھے۔ تحمل، بردباری، معاملہ فہمی، نرمی، خوش مزاجی جیسی خصوصیات ان کی شخصیت کا حصہ تھیں۔ ان پر جھلاہٹ طاری ہوتے ہم نے کبھی نہیں دیکھی۔ کبھی بلند آواز سے چلاتے نہیں سنا۔ ان کی زبان پر ناشایستہ الفاظ کوئی راہ ن پا سکے۔ بس اتنا ہے کہ جب کسی کی جانب سے بہت ہی اشتعال انگیری ہوتی تو بالکل خاموش ہو جاتے۔ یہ خاموشی بھی مختصر دورانیے کی ہوتی۔ اشتعال انگیزی ختم ہوتے ہی ان کی بشاشت لوٹ آتی۔
ان کا صبر وتحمل بیماری میں بھی برقرار رہا۔ طویل اور تکلیف دہ بیماری کے دوران میں کئی مرتبہ انھیں کئی کئی دن ہسپتال رہنا پڑا۔ بیماری کی شدت خطرناک حدوں کو چھونے لگتی۔ کئی مریضوں کو ایسی حالت میں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ بڑے بڑوں کے حواس جواب دے جاتے ہیں، گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے، یاس چھا جاتی ہے، حتیٰ کہ ڈاکٹروں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں، لیکن ماموں جی کو اس حالت میں بھی ہم نے کبھی خوف زدہ نہیں دیکھا۔ ان کے اطمینان اور سکون کو دیکھ کر ان کے اطبا حیران ہوتے کہ یہ کیسا شخص ہے جس کے لب اف اور ہائے سے قطعی ناآشنا ہیں۔
طبیعت ذرا بہتر ہوتی تو فوراً باتیں شروع ہو جاتیں۔ لکھنے پڑھنے کا سامان ان کے بستر پر پہنچ جاتا اور تیماداروں کو وہ مزے لے لے کر، ہنس ہنس کر اپنی بیماری کی ساری کیفیت کی روداد سنا رہے ہوتے۔ ڈاکٹروں کی بدحواسی اور پریشانی کی روداد کہتے۔ گویا یہ سب ایک تماشا تھا جو ہوا اور بس ہوگیا۔ میں تو سوچتی ہوں کہ اب بھی اگر اللہ میاں انھیں تھوڑی دیر کے لیے ہمارے پاس بھیج دیں تو وہ مزے لے لے کر ہنستے ہنستے اپنی موت کی کیفیت کا حال سنائیں گے۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام کی فرض شناسی کی داستان کہیں گے کہ سننے والوں کے لیے مرنا آسان ہو جائے گا۔
اللہ نے انھیں بہترین علم عطا فرمایا۔ قرآن پڑھنا پرھانا ان کا پسندیدہ ترین کام تھا، وہ فنافی القرآن شخص تھے۔ بلند پایہ کتابیں جمع کرنے کا ذوق رکھتے تھے، لیکن ہر وقت ضخیم کتابوں میں گھرے رہنے والے شخص سے گفتگو کے دوران میں کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ اپنے علم وفضل سے مخاطب کو مرعوب کرنا چاہتا ہے۔ گاؤں کی بوڑھی خواتین بھی ان سے مل کر اتنی ہی فیض یاب ہوتیں جس طرح بڑے بڑے فضلا اور علم کے جویا ان سے فیض یاب ہوتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ گاؤں کی مسجد کے ایک نیم خواندہ مولوی صاحب گھر کی بیٹھک میں دوران ملاقات میں ایک لمبی تقریر کر رہے تھے۔ ماموں ان کے سامنے یوں سرجھکائے عاجزی سے بیٹھے تھے گویا طفل مکتب ہوں اور مولوی صاحب بڑے فاضلانہ دلائل دے رہے ہوں۔ انھوں نے ایک مرتبہ بھی انھیں نہیں جتایا کہ جو باتیں وہ کر رہے ہیں، ان کی علمی حیثیت کیا ہے۔ہم اندر بیٹھے اس تقریر پر پیچ وتاب کھا رہے تھے۔ بعد میں ہم نے ماموں جان سے کہا کہ آخر آپ ان صاحب کی بے سروپا باتیں کیوں سنتے چلے گئے؟ انھوں نے بس اتنا کہا: ’’ان صاحب کی تسلی ہو گئی میرا کیا بگڑا!‘‘
مقصد کی لگن، انضباط اوقات، عزم وہمت، اپنے کام میں انہماک ماموں جی کی خصوصیات تھیں انھیں وقت ضائع کرنا نہیں آتا تھا۔ ان کی زندگی تکاثر اور لہو الحدیث سے پاک زندگی تھی۔ حرص وطمع سے کوسوں دور تھے۔ کسی پریشانی یا تکلیف کو انھوں نے آرام طلبی کا ذریعہ نہیں بنایا۔ ریٹائر منٹ کے بعد بھی گھر میں ہر کام کا وقت مقرر تھا، لکھنے پڑھنے کے اوقات یوں مقرر تھے گویا اس دفتر میں حاضر ی نہ ہوئی تو جواب طلبی ہو جائے گی۔ ان کی کتابیں، لکھنے کی میز، ہر چیز ایک قرینے اور سلیقے سے رکھی ہوتی۔ زندگی کی آخری رات بھی تحریر وتالیف میں مشغول رہے۔ لکھنے کا سامان ان کے سرہانے کی میز پر رکھا تھا، ان کی پنسل ان کے زیر تحریر مسودے پر پڑی تھی۔
کتابوں میں یہ انہماک گھر کے معاملات سے ان کو بے خبر نہ رکھنے پاتا۔ انھیں یہ ہدایت ازبر تھی کہ تم میں سے اچھے وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھے ہیں۔ گھر والوں کی سہولت اور راحت کا خیال ان سے بڑھ کر کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔ باورچی خانے کا کام ہو یا کپڑوں کی دھلائی، وہ ہر جگہ ہاتھ بٹانے کو تیار تھے۔
گھر کی ضروریات پر ان کی نظر رہتی۔ ضرورت کا سودا سلف اور ہر چیز وہ خود ہی لاکر رکھ دیتے۔ جب تک ہمت رہی بازار سے لاتے رہے، زندگی کے آخری ایام میں بھی جہاں تک بن پڑتا یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔
اپنی ذات کے لیے انھوں نے کبھی کسی کو تکلیف نہیں دی۔ بیماری میں مجبوراً انھیں خدمت لینا پڑتی، ورنہ حتی الامکان انھیں اپنا کوئی کام کسی سے کرانا پسند نہ تھا۔ اپنے کام اپنے ہاتھوں سے کر کے اطمینان حاصل کرتے۔
وہ خاندان بھر کے ہر معاملہ میں بہترین مشیر تھے۔ رشتے ناتے طے کرنے جیسے بڑے معاملات اور لباس کی خریداری، رنگ کا خیال، کراکری کی خرید جیسے چھوٹے چھوٹے معاملات میں وہ بڑے شوق سے مشورہ دیتے اور معاملات میں شریک ہوتے۔
اب وہ رب کریم کے پاس اپنے ٹھکانے پر پہنچ چکے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ وہاں ان کا استقبال بلند پایہ فرشتوں نے کیا ہو، ان کو اپنے رب کے جوار رحمت میں جگہ حاصل ہو، ان کا شمار ابرار وصالحین میں ہو اور ہر گھڑی میں ان کے لیے مغفرت کا سامان ہو۔ آمین۔
میں سوچتی ہوں صرف ماموں جی ہی نہیں گئے، ایک بہترین رہنما، ایک مشفق استاد اور ایک قابل قدر مشیر رخصت ہو گیا۔ الھم أجرنی فی مصیبتی واخلفنی خیراً منھا۔
____________