HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

علامہ خالد مسعود اور ان کی خدمات

معظم صفدر


علامہ خالد مسعود یکم اکتوبر ۲۰۰۳ کو رحلت فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ صاحب ’’تدبر قرآن‘‘ امام امین احسن اصلاحی کے شاگرد رشید تھے اور ان کے فکر کے ترجمان تھے۔ ان کے رخصت ہو جانے سے علم کی دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔

جناب خالد مسعود ۱۹۳۵ء کو جہلم کے ایک گاؤں للہّ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد محمد اسماعیل صاحب سے اور مقامی اسکول سے حاصل کی۔ ایف ایس سی اور بی ایس سی گورنمنٹ کالج، سرگودھا اور گورنمنٹ اسلامیہ کالج، لاہور سے کی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ مزید تعلیم کے حصول کے لیے لندن چلے گئے، جہاں سے کیمیکل انجینئرنگ میں ڈپلوما حاصل کیا۔ لاہور میں کسب معاش کے لیے پہلے نظامت صنعت اور بعد ازاں قائد اعظم لائبریری میں سرکاری ملازمت اختیار کی۔اس زمانے میں انھوں نے سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی لی اور مختلف موضوعات پر بچوں کے لیے متعدد کتابیں تصنیف کیں۔اس کے علاوہ نیوٹن، فرانسس بیکن اور برٹینڈرسل کی بعض معروف کتابوں کے تراجم بھی کیے۔ اسلامی علوم کے حوالے سے دیکھا جائے تو خالد مسعود صاحب نے علوم اسلامیہ میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور مولانا امین احسن اصلاحی سے عربی ادب، قرآن اور حدیث کے علوم کی باقاعدہ تحصیل کی۔

خالد مسعود صاحب نے نہایت گراں قدر تحقیقی اور تصنیفی کا م کیا۔ اس ضمن میں ان کابیش تر کام امام حمید الدین فراہی اور امام امین احسن اصلاحی کے افکار کی شرح ووضاحت پر مبنی ہے۔ تحریری اعتبار سے ان کا کام ترجمہ وتہذیب، ترتیب وتدوین اور تصنیف وتالیف ، تینوں پہلووں سے ہے۔ اسے دیکھ کر یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ بلاشبہ ، انھوں نے فکر فراہی کی ترویج و اشاعت میں عظیم خدمات سر انجام دیں۔

خالد مسعود صاحب ابتدا ہی سے دینی رجحان رکھتے تھے، انھیں مذہب سے خاص لگاؤ تھا۔ مولانا اصلاحی کا ایک لیکچر سن کر وہ بہت متاثر ہوئے اور باقاعدہ ان کی درس وتدریس کی مجالس میں شریک ہونے لگے۔ یہیں سے ان میں خدمت دین کا جذبہ اجاگر ہوا اور انھوں نے سائنسی شعبہ سے کنارہ کشی کر کے خود کو دین کی خدمت کے لے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ مولانا اصلاحی نے جب ’’حلقۂ تدبر قرآن‘‘ قائم کیا تو وہ اس میں بہت شوق کے ساتھ شامل ہوئے۔ وہ خود بیان کرتے ہیں:

’’۱۹۶۰ء کی دہائی کے آغاز میں مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے کچھ نوجوانوں کو دین کی تعلیم دینے کے لیے ’حلقۂ تدبر قرآن‘‘منظّم کیا جو چند سالوں تک قائم رہا۔ میں نے اس حلقہ میں شامل ہو کر مولانا سے عربی سیکھی، قرآن وحدیث پر غوروفکرکی تربیت پائی اور دین کا فہم حاصل کیا۔ بعد میں یہ حلقہ تو حوادث کا شکار ہو گیا، لیکن مولانا کی ذات، ان کے علمی مشاغل اور ان کے طرز فکر کے ساتھ فی الجملہ میرا تعلق قائم رہا۔‘‘ (حیات رسول امی۹)

مولانا امین احسن اصلاحی نے تومبر ۱۹۸۰ء میں ’’ادارۂ تدبر قرآن وحدیث‘‘ قائم کیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ امت کے ذہین طبقے کو مخاطب کیا جائے اور اسے قرآن وحدیث کا حقیقی فہم حاصل کرنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اس ضمن میں یہ کام متعین کیے گئے کہ قرآن مجید پر اس انداز سے تحقیقی کام کیا جائے کہ وہ علوم وافکار کے لیے کسوٹی اور حق وباطل میں امتیاز کر دینے والی کتاب بن جائے؛ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے اور اس کی بنا پر پیدا ہونے والے گروہی اختلافات کو حل کیا جائے؛ جید علما تیار کرنے کے لیے اعلیٰ عربی زبان کی تعلیم دی جائے؛ جدید نظریات کو قرآن وسنت کی روشنی میں پرکھا جائے؛ تہذیب وتمدن کے مسائل کا اسلامی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا جائے؛ علمی وتحقیقی ضرورتوں کے پیش نظر ایک لائبریری کا قیام عمل میں لایا جائے اور تحقیقات وافکار کی اشاعت کے لیے علمی جریدہ اور مکتبہ کا انتظام کیا جائے۔

اس ادارے کے صدر مولانا امین احسن اصلاحی اور ناظم جناب خالد مسعود منتخب ہوئے۔ ادارے کے قیام اور اس کی تنظیم کے بارے میں خالد مسعود صاحب لکھتے ہیں:

’’تفسیر تدبر قرآن کی تکمیل کے بعد مولانا نے مخلصین اور احباب کے مشورہ سے یہ فیصلہ کیا کہ حلقۂ تدبر قرآن کو وسعت دے کر کوشش کی جائے کہ وہ بالتدریج تمام اسلامی علوم کی تحقیق وتنقید کے لیے ایک انسٹی ٹیوشن کی حیثیت حاصل کر لے۔ اس فیصلہ کے تحت مولانا نے تین ارکان جاوید احمد صاحب، ماجد خاور صاحب اور راقم پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل کر دی جو مجوزہ ادارہ کے لیے ایک دستور مرتب کرے۔ اس کمیٹی کے دستور کو ان رفقاء کے ایک اجلاس میں پیش کیا گیا جو ادارہ کے مقاصدسے متفق تھے۔ انھوں نے غوروفکر کے بعد اس دستور کو معمولی ترامیم کے ساتھ قبول کر لیا۔ چنانچہ یکم محرم الحرام ۱۴۰۱ مطابق ۱۰ نومبر ۱۹۸۰ کو ادارۂ تدبر قرآن وحدیث، وجود میں آیا جس کے رکن اول مولانا امین احسن اصلاحی ہیں۔...
مجلس عاملہ نے کثرت رائے سے راقم کو ادارہ کے انتظامی معاملات سرانجام دینے کے لیے ناظم منتخب کیا۔ اس کے بعد علمی معاملات میں ادارہ کی رہنمائی کے لیے مجلس علمی کا انتخاب ہوا جس میں حسب ذیل ارکان منتخب ہوئے:
مولانا امین احسن اصلاحی، جاوید احمد، خالد مسعود، ماجد خاور، عبد اللہ غلام احمد۔
ان ارکان نے مولانا امین احسن اصلاحی کو اپنا صدر چنا اور اس طرح دستور کی روسے مولانا مدظلہ ’ادارۂ تدبر قرآن و حدیث‘ کے سربراہ ہیں۔‘‘ (تدبر، جولائی ۸۱، ۷۔۸)

مولانا امین احسن اصلاحی کی علمی تحقیقات کی اشاعت کے لیے ایک باقاعدہ مجلہ کی ضرورت تھی جس کے ذریعے سے ان کی تحقیقات و افکار کو تعلیم یافتہ طبقے تک پہنچانا ممکن ہو۔ اس مقصد کے پیش نظر ادارۂ تدبر قرآن وحدیث کے تحت سہ ماہی ’’تدبر‘‘ کا اجرا ہوا۔ یہ رسالہ مولانا اصلاحی کی سرپرستی میں نکلنا شروع ہوا اور خالد مسعود صاحب اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ انھوں نے رسالے کی ادارت کے فرائض نہایت خوبی کے ساتھ انجام دیے۔ دینی جرائد میں ایک معتبر اور منفرد جریدے کی حیثیت سے نمایاں ہوا۔ اس میں قرآن وحدیث کی شرح ووضاحت کے علاوہ دوسرے علمی موضوعات پر بھی تحقیقی مباحث شائع ہوتے رہے۔ اس میں سوالوں کے جواب بھی ایسے مدلل انداز سے دیے جاتے کہ وہ بھی تحقیقی مقالے کی حیثیت اختیار کر جاتے۔ اس کا ہر شمارہ ابتدا سے انتہا تک فکر فراہی کا ترجمان ہوتا۔ خالد مسعود صاحب لکھتے ہیں:

’’رسالہ کی اشاعت کے آغاز ہی سے ہمارے سامنے یہ مقصد رہا ہے کہ اس کو فکر فراہی کی ترویج کا ذریعہ بنایا جائے اور اس ضمن میں مولانا امین احسن اصلاحی مدظلہ جو کام کر رہے ہیں، لیکن کبرسنی کے باعث اس کو سپرد قلم کرنے سے قاصر ہو رہے ہیں،اس کو مرتب کر کے اس کے قدر دانوں تک پہنچایا جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ ’’تدبر‘‘ کے ذریعہ سے یہ کام خاصی مقدار میں ہوگیا ہے۔‘‘ (تدبر، دسمبر ۸۹، ۳)

مولانا اصلاحی کی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ کو تفاسیر میں ایک غیر معمولی مقام حاصل ہے۔ ۹ ضخیم جلدوں پر مشتمل یہ تفسیر اگرچہ ابھی عام لوگوں تک نہیں پہنچی، لیکن ارباب علم ودانش اس کے بلند پایہ مقام ومرتبے سے پوری طرح باخبر ہیں۔ مولانا اصلاحی کے ترجمۂ قرآن کو عامل کرنے کے لیے اس بات کی ضرورت تھی کہ اسے تفسیر سے الگ کر کے شائع کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ مولانا کے منفرد طرز فکر کی وجہ سے یہ بھی ناگزیر تھا کہ ترجمے کے تحت تفسیر سے ماخوذ مختصر حواشی درج کیے جائیں۔ خالد مسعود صاحب نے یہ کام نہایت احسن طریقے سے انجام دیا۔ ان حواشی کی نوعیت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

’’ترجمہ کے نیچے مختصر حواشی دیے گئے ہیں۔ یہ ان مقامات پر ہیں جہاں قاری ذرا وضاحت کے بعد مفہوم بہتر طور پر اخذ کر سکتاہے۔ یہ حواشی مولانا کی تفسیر سے ماخوذ اور بیش تر انھی کے الفاظ میں ہیں۔ ان کی بدولت قاری مولانا کے افکار اور ان کی اہم تحقیقات سے کسی قدر واقف ہو سکے گا۔ ... حواشی کے بابت یہ بتانا بے محل نہ ہوگا کہ راقم مولانا اصلاحی سے تلمذ کی نسبت رکھتاہے اور سورۂ نور تک کے حواشی مولانا کی حیات ہی میں قسط وار ان کے رسالہ ’’تدبر‘‘ میں شائع ہوتے رہے اور انھوں نے بارہا ان کی تحسین فرمائی۔ ‘‘ (ترجمۂ قرآن۵)

خالد مسعود صاحب نے امام حمید الدین فراہی کی عربی تصانیف ’’حکمت القرآن‘‘ ، ’’النظام فی الدیانۃ الاسلامیہ‘‘ اور ’’اصول تفسیر قرآن‘‘ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ یہ کتابیں اگرچہ نہایت دقیق فنی اسلوب میں لکھی گئی ہیں، مگر خالد مسعود صاحب نے انھیں ممکن حد تک سہل کر کے پیش کیا۔ امام فراہی کی ان کتابوں کے اصل مسودات مرتب نہیں تھے، لیکن خالد مسعود صاحب نے انھیں نہایت خوبی کے ساتھ ترتیب دیا۔

خالد مسعود صاحب نے مولانا امین احسن اصلاحی کے مضامین، خطبات اور دیگر افادات کی روشنی میں ’’مقالات اصلاحی‘‘، ’’تفہیم دین‘‘ ، ’’مبادی تدبر حدیث‘‘، ’’شرح صحیح بخاری‘‘، ’’شرح موطا امام مالک‘‘ اور ’’فلسفے کے بنیادی مسائل‘‘ جیسی بلند پایہ کتب ترتیب دیں۔ ’’تفہیم دین‘‘ کے عنوان سے آپ نے مولانا اصلاحی کے ان خطوط کو مرتب کیا ہے جو انھوں نے سائلین کے جواب میں لکھے۔ اسی طرح ’’مقالات اصلاحی‘‘ میں آپ نے مولانا اصلاحی کے بعض اہم مقالات کو کتابی شکل دی ہے۔ مولانا اصلاحی نے آخری عمر میں ضعف وناتوانی کے باوجود موطا وبخاری کے دروس دیے۔ خالد مسعود صاحب اور سعید احمد صاحب انھیں کتابی صورت میں مرتب کیا۔ دروس سے ماخوذ تحریریں مولانا اصلاحی کی زندگی میں ان کی نظر سے بھی گزرتی رہیں۔ خالد مسعود صاحب لکھتے ہیں:

’’ان دروس کا معتدبہ حصہ مولانا کی حیات میں ’’ادارۂ تدبر قرآن وحدیث‘‘ کے ترجمان رسالہ ’’تدبر‘‘ میں چھپا اور برابر ان کی نظر سے گزرتارہا۔ مولانا نے اس کوشش پر ہمیشہ اطمینان کا اظہار کیا۔‘‘ (تدبر حدیث، شرح موطاامام مالک ۱۱)

خالد مسعود صاحب نے سیرت نگاری کے باب میں ایک نئے طرز فکر کو پیش کیا۔ اس کے مطابق سیرت کا سب سے اہم ماخذ روایات وآثار نہیں، بلکہ قرآن مجید ہے۔ اس نقطۂ نظر کی تفصیل انھوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’قرآن اور رسول حقیقت میں ایک ہی ہیں۔ ایک الفاظ کی شکل میں ہے تو دوسرا انسانی جسم کی شکل میں ہے۔ قرآن پڑھیے تو اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات وصفات، آپ کی بعثت کے کوائف ، دعوت دین کے مراحل، ہجرت، جنگوں کے واقعات، مشرکین اور یہود کے ساتھ اہم بحثوں اور حضور کی زندگی سے متعلق دیگر موضوعات کا بیان ملتا ہے۔ ایک آدمی قرآن کا مطالعہ غور سے کرے تو وہ سیرت النبی کے تمام ضروری مباحث سے آگاہی حاصل کر لیتا ہے۔ اسی لیے یہ بات علمی حلقوں میں مانی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک یا سیرت کا سب سے اہم ماخذ قرآن مجید ہے۔ اس کے بعد احادیث صحیحہ اور اولین کتب سیرت کا مطالعہ اس کے ماخذ کی حیثیت سے رہنمائی دیتا ہے۔ اس اعتراف کے باوجودعملاً یہ دیکھا گیا ہے کہ حضور کے جدید سیرت نگاروں نے ماضی میں لکھی گئی کتب سیرت ہی پر اعتماد کیا ہے۔ جن لوگوں نے قرآن سے استفادہ کیا ہے، وہ بالعموم محض آیات کو نقل کر دیتے ہیں، ان سے سیرت نگاری میں مدد نہیں لیتے۔ اس لیے نقل کردہ آیات بے ربط سی نظر آتی ہیں۔‘‘ (حیات رسول امی ۱۱)

یہ کتاب اگرچہ مولانا اصلاحی کی زندگی میں منظر عام پر نہیں آئی، مگر اس کی تالیف کے لیے ایک موقع پر مولانا اصلاحی نے خالد مسعود صاحب ہی کا نام تجویز کیا تھا۔ خالد صاحب لکھتے ہیں:

’’شاید یہ ۱۹۶۷ء کا سال تھا کہ مولانا رحمہ اللہ کے ایک دوست نے ان سے قرآن مجید کی روشنی میں سیرت النبی پر ایک کتاب لکھنے کی فرمایش کی اور کہا کہ اگر آپ یہ کام کر سکیں تو ایک بڑی علمی ودینی خدمت ہوگی۔ مولانا نے فرمایا کہ بلاشبہ یہ ایک اچھی تجویز ہے اور میں اس کی ضرورت کا بھی قائل ہوں، لیکن میں نے تفسیر قرآن لکھنے کا جو بیڑا اٹھایا ہے، وہ اس وقت میری ہمہ تن مشغولیت کا تقاضا کرتا ہے اور میں اس مرحلہ میں اس سے صرف نظر نہیں کرنا چاہتا۔ ان صاحب نے پوچھا کہ آپ نے جن طلبہ کو پڑھایا ہے، کیا ان میں سے کوئی اس کام سے عہدہ برا ہونے کی استعداد رکھتا ہے۔ مولانا نے اس کے جواب میں میرا نام لیا۔ مولانا کے اس جواب پر میں دل ہی دل میں ہنسا کہ من آنم کہ من دانم، مولانا میرے بارے میں کس قدر خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔‘‘ (حیات رسول امی ۹)

خالد مسعود صاحب اس انداز فکر کا پورا شعور رکھتے تھے جسے امام حمید الدین فراہی نے فہم دین کے حوالے سے پیش کیا۔ ’’فکر فراہی‘‘ کے زیر عنوان انھوں نے باقاعدہ ایک مضمون تحریر کیااور اس میں نہایت جامع انداز سے اس فکر کا تعارف کرایا۔ لکھتے ہیں:

’’مولانا فراہی نے جو فکر دیا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید کلام اللہ ہونے کی حیثیت سے دوسری ہر چیز پر حاکم ہے، لہٰذا دوسرے تمام علوم قرآن کے تابع ہیں۔ ہر وہ علم جس کا تعلق قرآن کے موضوع سے ہے، اسی سے مستنبط ہونا چاہیے۔ اس کی بنیادیں قرآن کی دی ہوئی ہدایت پر استوار ہونی چاہییں۔ چنانچہ فقہ ہو یا کلام، فلسفہ ہو یا دوسرے عمرانی علوم، مولانا فراہی ہر علم کواس بنیاد پر جانچتے ہیں جو قرآن مجید نے مہیا کیا ہے۔ سنت رسول اللہ کے نزدیک دین کی بنیادوں میں سے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکام خود قرآن ہی سے مستنبط ہیں۔ علم روایت حدیث میں محدثین کی خدمات کو مولانا فراہی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ البتہ روایت میں چونکہ انسانی کوششوں کو دخل ہے، یہ قرآن کی طرح محفوظ نہیں اور محدثین کے اصول کے مطابق اس میں صدق وکذب دونوں کا احتمال ہوتا ہے، اس لیے مولانا فراہی اس بات کے قائل ہیں کہ روایت کو قرآن پر پرکھنا چاہے اور قرآن پر حاکم نہیں، بلکہ اس کا محکوم سمجھنا چاہیے۔ ان کی مطبوعہ کتابوں یا غیر مطبوعہ مسودات میں قرآن کی بالا تری کا پیغام نہایت واضح ہے۔ ...فکر فراہی دین کی تمام بنیادوں کو مانتے ہوئے قرآن وحدیث، فقہ، کلام ہر چیز کو اس کی صحیح جگہ دینے کی ایک کوشش کا نام ہے۔ اس میں ہر بات دلیل سے کرنے کا رواج ڈالا گیا ہے۔ اس کی مخالفت اسی طرح کی جا سکتی ہے جس طرح ہر علمی چیز کی کی جا سکتی ہے۔ آپ دلیل کا جواب دلیل سے دیجیے، بحث سے نکات اٹھایئے تو یہ اختلاف علم کی ترقی کا باعث اور ان شاء اللہ امت کے لیے باعث رحمت ہوگا۔‘‘ (تدبر، دسمبر ۸۷، ۴)

خالد مسعود صاحب نے تمام عمر دین کو سمجھنے اور سمجھانے میں گزاری۔ جس بات کو حق جانا، اس پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا رہے اور جس کو خلاف دین وشریعت سمجھا، ہمیشہ اس سے گریز کیا۔ جدید سائنسی علوم میں مہارت اور دلچسپی رکھنے کے باوجود آپ نے اپنے لیے جس راہ کا انتخاب کیا، اس میں یقیناًمشیت ایزدی کا خصوصی دخل ہے۔ وہ دبستان فراہی کے ائمہ امام حمیدالدین فراہی اور امام امین احسن اصلاحی کی پیروی میں علم اور تقویٰ، دونوں کا مجسم نمونہ تھے۔ مختصر سی زندگی میں انھوں نے دین کے طالب علموں کے لیے ایسے نشانات قدم چھوڑے ہیں جن پر چل کر حق وصداقت کی منزل تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان کے علم وعمل کو دیکھیں تو یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے:

وہ حق کی صداقت کی تصویر تھے
وہ انساں کے خوابوں کی تعبیر تھے

____________

B