مجیب الرحمٰن شامی/ معظم صفدر
[یہ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے چیف ایڈیٹر جناب مجید الرحمٰن شامی کی تقریر
ہے، جو خالد مسعود صاحب کی یاد میں منعقدہ تعزیتی اجلاس میں کی گئی]
خالد مسعود صاحب سے مجھے کوئی دوستی کا دعویٰ نہیں ہے، لیکن میں ان کا ایک ادنیٰ قاری اور طالب علم ضرور رہا ہوں۔ ان کی شخصیت کے بارے میں، ان کے علم کے بارے میں، ان کے کردار کے بارے میں، ان کی گفتار کے بارے میں، بہت گفتگو ہو چکی، میں اس میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ جو شخص اس دنیا میں آیا ہے، اسے بالآخر اس دنیا سے جانا ہے۔
خالد مسعود صاحب نے زندگی کو بہترین انداز سے صرف کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں جو صلاحیت عطا فرمائی تھی، اس کا انھوں نے بہترین استعمال کیا۔ وہ ہمارے درمیان سے رخصت ہوئے ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ وہ رخصت نہیں ہوئے، بلکہ ہم ان کے کام سے استفادہ کرتے رہیں گے، ان کے افکار سے رہنمائی لیتے رہیں گے۔ فکر فراہی و اصلاحی میں ان کی جو حیثیت و اہمیت تھی اور ان کے بعد جاوید احمد صاحب غامدی کا جو مقام ومرتبہ ہے، اس سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا۔
آج ملت اسلامیہ میں اسلام کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے ایک خلفشار برپا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ بڑے بڑے اسلام کے نام لیوا، جن کی وجہ شہرت ہی اسلام ہے، اسلام کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہیں، بلکہ اسے اپنے سامنے جھکانے کے درپے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمیں ایسے رہنماؤں، ایسے لیڈروں اور ایسے دانش وروں سے پالا پڑا ہوا ہے جن کا دعویٰ اور مطالبہ ہی یہ ہے کہ جوان کی زبان سے نکلا ہے، وہ اسلام ہے اور جو ان کی زبان سے نہیں نکلا، وہ اسلام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں بہت سے ایسے واقعات ہمارے سامنے گزرے ہیں کہ اپنی خواہشات، تعبیرات اور معاملات کو اسلام کا نام دے دیا گیا۔ مولانا اصلاحی نے ایسی ہی ایک صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اہل سیاست نے اپنے لیے ایسا اسلام وضع کیا ہے جو ان کے ساتھ لوٹنیاں کھاتا پھرتا ہے، جووہ نقطۂ نظر اختیار کرتے ہیں، اسلام بھی انگلی پکڑ کر ساتھ ساتھ چلنے پر مجبور ہوتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بے شمار ایسے معاملات ہیں جن پر ٹھنڈے دل سے غور وفکر کرنے اور اسلام کی تعلیمات سے روشنی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی تعلیمات سے علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ خالد مسعود صاحب ہمارے معاشرے کے ان افراد میں سے تھے جو اسلام کو گھوڑا بنا کر اس پر سواری کرنے کا شوق نہیں رکھتے تھے، بلکہ اسلام کے مطالبوں اور تقاضوں کی تحقیق وجستجو میں لگے رہتے اور پھر معاشرے کو اس کے مطابق ترتیب دینے کی کوشش کرتے تھے۔ ایسے افراد کی مثال ریشم کے کیڑے کی سی ہے۔ ریشم کا کیڑا یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ وہ ریشم چھوڑجاتا ہے، لیکن خود ختم ہو جاتا ہے۔ آج اسلام کو ایسے ہی سپاہیوں کی ضرورت ہے، ایسے ہی مجاہدوں کی ضرورت ہے، ایسے ہی دانش وروں کی ضرورت ہے اور ایسے ہی عالموں کی ضرورت ہے جو خالص اسلام کو ہمارے سامنے پیش کر سکیں۔ اپنی سیاست یا اپنی خواہشات کے تابع معاملات کی تعبیر نہ کریں۔
میرے نزدیک فکرِ فراہی کا اصل امتیاز یہ ہے کہ اس نے یہ بات پوری شدت سے کہی ہے کہ اجہتاد کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ اس کے علما نے علم وعمل میں اس کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس مکتب فکر کے لوگ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں، لیکن ایک دوسرے کا احترام بھی کرتے ہیں۔ یہاں آنکھیں بند کرنے کا نام عقیدت ومحبت نہیں ہے۔ آج اسلام اور پاکستان کو اسی رویے کی ضرورت ہے اور یہی وہ رویہ ہے جس کی بنا پر ہم اسلام کی حقیقی تعبیر پیش کر سکیں گے۔ عقیدت واحترام کے باعث آج سے چھ سات سو سال پہلے کی مرتب کردہ فقہ کو نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ اس نفاذ پر اصرار کرنے والا میرے نزدیک نہ اسلام کا ادراک رکھتا ہے اور نہ وہ کبھی اسلامی اقدار پر کسی معاشرے کی تشکیل کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی معاشرے کے ماحول، مزاج اور عصر حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کی اصل تعبیر اور تشریح کی جائے۔ یہی وہی کام ہے جس کی طرف علامہ اقبال نے بار بار اشارہ کیا تھا، یہ وہی کام ہے جس کی ضرورت ہم سب محسوس کرتے رہتے ہیں اور یہ وہی کام ہے جو آج کرنے کا ہے۔
خالد مسعود صاحب، ہمارے بھائی، ہمارے رہنما اور ہمارے ساتھی، ہمارے درمیان سے اٹھ کر گئے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوا ہے کہ ان کے جانے سے کتنا بڑا خلا پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور جیسا کہ اقبال نے کہا ہے کہ:
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
اللہ تعالیٰ ان کا نور بصیرت عام کرے اور ہم سب کو اپنے نفس کی پیروی سے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
____________