بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ )
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْــبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ، فِیْ کُلِّ سُنْــبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ، وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ، وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ{۲۶۱} اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ، ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًی، لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ، وَ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ{۲۶۲} قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُھَآ اَذًی، وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ{۲۶۳} یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی، کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہٗ رِئَآئَ النَّاسِ، وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ، فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ، فَتَرَکَہٗ صَلْدًا، لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْ ئٍ مِّمَّاکَسَبُوْا، وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ{۲۶۴}
(ہدایت و ضلالت کے معاملے میں اللہ کا طریقہ یہی ہے ۔اِ س لیے یہ نہیں مانتے تو اِ نھیں چھوڑو اور تم اچھی طرح سمجھ لوکہ)اللہ کی راہ میں ۶۹۸؎ اپنے مال خرچ کرنے والوں کے اِس عمل کی مثال اُس دانے کی ہے جس سے سات بالیں نکلیں ، اِس طرح کہ ہر بال میں سو دانے ہوں ۔ اللہ( اپنی حکمت کے مطابق )جس کے لیے چاہتا ہے ، (اِسی طرح ) بڑھا دیتا ہے ۔ ۶۹۹؎ اور (حقیقت یہ ہے کہ ) اللہ بڑی وسعت والا ہے ،وہ ہر چیز سے واقف ہے ۔ ۷۰۰؎ جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ، پھر جو کچھ خرچ کیا ہے ، اُس کے پیچھے نہ احسان جتاتے ہیں ، نہ دل آزاری کرتے ہیں، ۷۰۱؎ اُن کے لیے اُن کے پروردگار کے ہاں اُن کا اجر ہے اور اُنھیں (وہاں) کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ کوئی غم کھائیں گے۔ ۷۰۲؎ ایک اچھا بول اور (ناگواری کا موقع ہو) تو ذرا سی چشم پوشی اُس خیرات سے بہتر ہے جس کے ساتھ اذیت لگی ہو ئی ہو۔ اور (تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اِس طرح کی خیرات سے) اللہ بے نیاز ہے۔ (اِس رویے پر وہ تمھیں محروم کر دیتا، لیکن اُس کا معاملہ یہ ہے کہ اِس کے ساتھ) وہ بڑا بردبار بھی ہے ۔ ایمان والو ، احسان جتا کر اور (ددسروں کی ) دل آزاری کر کے اپنی خیرات کو اُن لوگو ں کی طرح ضائع نہ کرو جو اپنا مال لوگو ں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور وہ نہ خدا پر ایما ن رکھتے ہیں او ر نہ قیامت کے دن کو مانتے ہیں۔ سو اُن کی مثال ایسی ہے کہ ایک چٹان ہو جس پر کچھ مٹی ہو ، پھر اُس پر زور کا مینہ پڑے اوراُس کو بالکل چٹان کی چٹان چھوڑجائے۔ ۷۰۳؎ (قیامت کے دن ) اُن کی کمائی میں سے کچھ بھی اُن کے ہاتھ نہ آئے گا ۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) اِس طرح کے نا شکروں کو اللہ کبھی راہ یاب نہیں کرتا۔ ۷۰۴؎ ۲۶۱-۲۶۴
۶۹۸؎ اصل میں ’فی سبیل اللّٰہ‘کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہ قرآ ن کی ایک اصطلاح ہے جس کے تحت وہ سب کا م آتے ہیں جو دین کی خدمت او رلوگو ں کی فلاح وبہبود کے لیے کیے جائیں ۔
۶۹۹؎ اِس مضمون کی وضاحت مسلم کی ایک حدیث (رقم ۱۱۵۲)میں بھی ہوئی ہے ۔ بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :نیکی کا بدلہ دس گنے سے لے کرسات سو گنے تک ہے۔ استا ذ امام لکھتے ہیں :
’’۔۔۔یہ فرق ظاہر ہے کہ عمل کی نوعیت ، عمل کے زمانے اور عمل کرنے والے کے ظاہر ی و باطنی حالات پر مبنی ہوگا ۔ اگر ایک نیکی مشکل حالات اور تنگ وسائل کے ساتھ کی گئی ہے تو اُس کا اجر زیادہ ہو گا او راگر ایک نیکی آسان حالات او رکشادہ وسائل کے ساتھ کی گئی ہے تو اُس کا اجر کم ہو گا ۔ پھر نیکی کرنے والے کے احساسات کا بھی اُس پر اثر پڑے گا ۔ ایک نیکی پوری خوش دلی اور پورے جوش و خروش کے ساتھ کی گئی ہے او ردوسری سرد مہری اور نیم دلی کے ساتھ ۔ ظاہرہے کہ دونو ں کے اجر وثواب میں بھی فرق ہو گا۔‘‘(تدبر قرآن ۱/ ۶۱۳)
۷۰۰؎ لہٰذا اللہ کے وعدوں کو اپنی تنگ دامانی پر قیاس نہ کرو اور اپنے اجر پر مطمئن رہو ۔ اللہ کے خزانے لامحدود ہیں ۔ وہ جس کو جتنا چاہے کسی نیکی کا اجر دے سکتا ہے ۔ تمھا را کوئی عمل بھی اُس سے چھپا ہو ا نہیں ہے ۔ چھو ٹی ،بڑی اور پوشیدہ یا علانیہ جو نیکی تم کرو گے ،وہ اُس کے علم میں رہے گی۔
۷۰۱؎ یعنی کم ظرفوں کی طرح کسی کو کچھ دے کر طعن و تشنیع اورتو ہین و تحقیر کا نشانہ نہیں بناتے۔
۷۰۲؎ یہ جنت کی تعبیر ہے اور استاذ امام کے الفاظ میں یہاں اِس تعبیر میں ایک لطیف اشارہ اِس بات کی طرف بھی ہے کہ انفاق کرنے والے اِس جنت کے سزاوار اِس لیے ٹھیریں گے کہ نہ تو خدا کی راہ میں خرچ کرکے اُنھوں نے کبھی اِس بات کا غم کیا کہ کیوں خرچ کردیا اور نہ کبھی شیطان کے ڈراووں سے متاثر ہوکر مستقبل کے اندیشوں میں مبتلا ہوئے کہ کل کیا کھائیں گے ۔ اُن کے اِس حوصلے کے صلے میں خدا اُن کو سات سو گنے تک اجر بھی دے گا اور وہ بہشت بھی جو ماضی اور مستقبل، دونوں طرف سے اُنھیں مطمئن کر دے گی ۔
۷۰۳؎ یہ اُس کسان کی مثال ہے جس نے کسی چٹان پر مٹی دیکھی اور اُس کو زرخیز پا کر کھیتی شروع کر دی ، لیکن بارش پڑی اوراُس کے ایک ہی دونگڑے سے ساری مٹی فصل سمیت وادی میں بہ گئی اور نیچے سے بالکل سپاٹ پتھر نکل آیا ۔ فرمایاہے کہ خیرات کے بعد احسان جتانے او ردل آزاری کرنے والو ں کی خیرات بھی اِس طرح بربا د ہو جائے گی او رآخرت میں اُن کو اُس کا کوئی اجر نہ ملے گا ۔ایمان پرہو نے کے باوجود اُن کایہ عمل اُسی طرح ضائع ہو جائے گا، جس طرح دکھانے کے لیے خرچ کرنے والے منکروں کے اعمال ضائع ہوں گے ۔
۷۰۴؎ یعنی اُن کے اعمال کے ثمرا ت و نتائج تک نہیں پہنچنے دیتا اور دنیا میں بہت کچھ کرنے کے باوجود انجام کے لحاظ سے وہ بالکل نامراد ہو کر رہ جاتے ہیں ۔
[باقی]
ــــــــــــــــــ