HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

مسلمان اور دنیا پرستی (۱)

قارون سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ بنی اسرائیل سے ہونے کے باوجود وہ فرعون کا ساتھی اور حضرت موسیٰ کا مخالف تھا۔ اس کی وجہ شہرت اس کی بے پناہ دولت تھی۔ مگر یہی دولت اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار کرنے کا سبب بن گئی۔ اس واقعہ کی تفصیل قرآن یوں بیان کرتا ہے:

’’یہ ایک واقعہ ہے کہ قارون موسیٰ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہو گیا۔ اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی۔ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا: پھول نہ جاؤ، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا، جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے، اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کوپسند نہیں کرتا۔ تو اس نے کہا: یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھے حاصل ہے...کیا اس کو یہ علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے؟ مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے۔
ایک روز وہ اپنی قوم کے سامنے اپنے پورے ٹھاٹھ میں نکلا۔ جو لوگ حیات دنیا کے طالب تھے، وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے: کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے، یہ بڑا نصیبے والا ہے، مگر جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے: افسوس تمھارے حال پر، اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اور یہ دولت نہیں ملتی، مگر صبر کرنے والوں کو۔
آخر کار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا۔ پھر کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کو آتا اور نہ خوداپنی مدد آپ کر سکا۔ اب وہی لوگ جو کل اس کے مقام کی تمنا کر رہے تھے کہنے لگے: افسوس، ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے، کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے۔ اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا۔ افسوس ہمیں یاد نہ رہا کہ کافر فلاح نہیں پایا کرتے۔
وہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور فساد کرنا چاہتے ہیں۔ اور انجام کی بھلائی اللہ سے ڈرنے والوں ہی کے لیے ہے۔‘‘ (القصص ۲۸: ۷۶۔۸۳)

قرآن کا یہ بیان کسی شرح و وضاحت کا محتاج نہیں ہے۔ یہ انسانوں کے دلوں میں پیوست دنیا پرستی کے جذبہ اور اس سے متعلقہ تمام معاملات پر انتہائی تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے۔ دنیا پرستی کا یہ مرض جو زمانۂ قدیم سے انسانوں کو خدا کی نافرمانی میں مبتلا کرتا رہا ہے، آج پہلے سے کہیں زیادہ قوت کے ساتھ ہمارے دلوں میں گھر کر چکا ہے۔ یہ مرض عام لوگوں کے لیے تو آخرت میں محرومی کا سبب ہے ہی، مگر مسلمانوں کے لیے تو اس دنیا میں بھی تباہ کن ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس مسئلہ کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تاکہ ہم دنیا اور آخرت کے نقصان سے محفوظ رہ سکیں۔

انسانوں کے بارے میں خدا کا منصوبہ

اس مسئلہ پر گفتگو کے آغاز میں خدا کی اس حکمت کو واضح کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جس کے تحت اس نے یہ دنیا بنائی۔ قرآن کے مطابق یہ حکمت خدا کا وہ منصوبہ ہے جس کے مطابق خدا نے جنت کی ایک انتہائی خوب صورت اور حسین دنیا بنائی۔ یہ ایک ابدی بادشاہی ہے جوموت ، غم، محرومی، مایوسی، تکلیف اور تکان کے ہر شائبہ سے خالی ہے۔ ہر وہ نعمت جس کا تصور کوئی ذی شعور کر سکتا ہے، اس میں رکھ دی گئی ہیں۔ عالی شان محلات، دل کش ازواج، مزاج شناس خدام، لذیذ غذائیں، پر کیف مشروبات، غرض انسان کے حواس جن نعمتوں کی طلب کر سکتے ہیں، انسان کا ذوق جمال جن چیزوں کی رغبت کر سکتا ہے اور انسان کے دل ودماغ جن خواہشات کی تسکین چاہتے ہیں، وہ سب اس جنت میں جمع ہیں۔

تاہم، اس ابدی جنت کی قیمت ایک امتحان میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔ وہ امتحان یہ ہے کہ انسانوں کو اس دنیا میں چند سال اس طرح رہنا ہے کہ وہ اپنے دل ودماغ اور قول وفعل کو علم وعمل اور اخلاق وکردار کی ہر آلایش سے بچا کر رکھے اور یہ ثابت کر دے کہ وہ خدا کی اس ابدی بادشاہت میں داخل ہونے کا مستحق ہے۔ اس امتحان میں ایک طرف اس کا نفس ہے جس میں حیوانی خواہشات کی نہ مٹنے والی بھوک ہے۔ دوسری طرف شیطان ترغیبات کی ختم نہ ہونے والی یلغار ہے۔ یہ دونوں اس کے وجودکو آلودہ کرنا چاہتے ہیں۔ انسان کو ان دونوں سے لڑکر اپنے آپ کو پاکیزہ بنانا ہے۔ جو لوگ اپنے رب کے حضور اس طرح لوٹتے ہیں کہ ان کا وجود پاکیزہ اور ایمان وعمل صالح کے زیور سے آراستہ ہو، وہ خدا کی اس جنت میں داخلہ کے مستحق قرار پاتے ہیں جس کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں۔ خدا کی نافرمانی میں لتھڑے ہوئے سرکشوں کا انجام، البتہ جہنم کی آگ ہوگا۔

ہم کون ہیں؟

خدا اس آزمایش کے عرصے میں انسانوں کے سامنے تو نہیں آتا، البتہ ان کی مدد اور رہنمائی کے لیے وہ اپنے پیغمبر بھیجتا رہا ہے۔ یہ پیغمبر ہر دور میں ایمان وعمل صالح کی دعوت دے کر پاکیزگی حاصل کرنے کا انتہائی موثر راستہ انسانوں کے سامنے رکھتے رہے۔ مگر انسانوں نے ہمیشہ ان پیغمبروں کی تعلیمات کو فراموش کر کے علم وعمل کی آلایشوں سے خود کو آلودہ کر لیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ انسانوں کی مدد کے لیے ایک اور انتظام کیا جائے۔ وہ یہ کہ نبیوں کی رہنمائی میں ایک پوری امت اٹھائی جائے جو ایک گروہ کی شکل میں لوگوں کے سامنے حق کی گواہی دیتی رہے۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم کی نسل سے دو امتیں اٹھائیں۔پہلی امت بنی اسرائیل تھے جو حضرت ابراہیم کے چھوٹے بیٹے حضرت اسحٰق کے صاحب زادے حضرت یعقوب کی اولاد میں سے تھی۔ جبکہ دوسری امت آپ کے پہلوٹھی کے صاحب زادے حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے تھی اور بنی اسماعیل کہلائی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسماعیل میں مبعوث ہوئے۔ آپ آخری نبی تھے۔ ہم مسلمان آپ ہی کے امت میں سے ہیں۔

اس بحث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مسلمان ہونا کسی فخر اور بڑائی کا معاملہ نہیں۔ نہ یہ جنت ہی میں جانے کی یقینی ضمانت ہے۔ یہ توایک ذمہ داری کا معاملہ ہے۔ یہ ذمہ داری ایمان اور عمل صالح کی ہے۔ دراصل خدا چاہتا ہے کہ مسلمانوں کی شکل میں ایک گروہ دنیا میں موجود رہے جو ایمان وعمل صالح کی پیغمبرانہ دعوت کو عملی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرتا رہے۔ ہدایت جس طرح انفس وآفاقی ، عقل وفطرت اور صحف آسمانی کے ذریعے سے لوگوں کے سامنے آتی ہے، اسی طرح ایمان وعمل صالح پر قائم ایک مسلم معاشرہ بھی لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کاسبب بنتا ہے۔ تاہم دنیا پرستی کا مرض جب کسی مسلم معاشرہ میں پھیل جاتا ہے تو یہ اسے ایمان وعمل صالح کا ایک حقیقی نقشہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ چنانچہ وہ مسلم معاشرہ ہی برائی اور شرکا محور بن جاتا ہے۔ قرآن اور حدیث، دونوں میں مسلمانوں کو مال و دنیا کے اس فتنہ سے خبردار کر دیا گیا تھا۔ اس سلسلے کی سب سے صریح روایت مسند احمد کی وہ حدیث ہے جس میں اس معاملے کو یوں بیان کیا گیا ہے: ’’ہر امت کا یک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔‘‘

آج کا دور کیا ہے؟

تاریخ بتاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور موجودہ دور میں دنیا پرستی کا یہ فتنہ اپنی انتہا پر پہنچ گیا ہے۔ عصر حاضر میں مال ودنیا، بلاشبہ سب سے بڑی قدر بن چکے ہیں۔ مذہب اور اہل مذہب لوگوں کو اس فتنہ سے کیا بچاتے، وہ خود اس کی لپیٹ میں آگئے۔ آخرت کی زندگی کا وہ تصور جسے لوگوں تک پہنچانے کے لیے تمام نبی آئے اور دو عظیم امتیں اٹھائی گئیں، تمام انسانی معاشروں، بالخصوص مسلمانوں کے اندر سے رخصت ہو چکا ہے۔

اس صورت حال کا آغاز یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے عمل سے ہوا۔ چرچ کے جبر اور انتہا پسندانہ رویے کے خلاف جو رد عمل ہوا، اس کے نتیجے میں نہ صرف معاشرے پر اہل مذہب کی گرفت ختم ہوگئی، بلکہ خود مذہب اور مذہبی تصورات پر سوالات اٹھائے جانے لگے۔ خدا، آخرت اوروحی جیسے بنیادی اور معقول مذہبی تصورات اسی طرح معاشرے میں غیر سائنسی قرار پائے جس طرح یہ عقیدہ سائنسی بنیادوں پر رد کیا گیا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔

دوسری طرف مغربی معاشروں میں فکر وعمل کی حریت، فرد کی آزادی اور ذوق حسن وجمال کا چلن عام ہو گیا۔ اس کے ساتھ صنعتی دور میں سائنسی ایجادات کی کثرت نے زندگی کو بے حد تیز، آسان اور خوب صورت بنا دیا۔ ریل، کار،بجلی، ٹیلی فون، سینما اور ان جیسی دیگر ایجادات نے اس دور کے انسان کو اپنا اسیر بنا لیا۔اسے یقین ہوگیا کہ حقیقت وہ نہیں جو مذہب ہمارے سامنے رکھتا ہے، بلکہ حقیقت صرف وہ ہے جو دنیا کی رنگینیوں کی صورت میں ہمیں نظر آرہی ہے۔ اس نے محسوس کیا کہ سائنس اس کے ہر مسئلہ کو حل اور ہر مشکل کو دور کر سکتی ہے۔ وہ ناقابل علاج امراض میں شفا بن سکتی ہے۔ سردی کو گرمی اور گرمی کو سردی میں بدل سکتی ہے۔ اندھیرے کو روشنی اور غربت کو امارات میں تبدیل کر سکتی ہے۔ فاصلوں کو گھٹا سکتی اور انسانی قوت کو بڑھاسکتی ہے۔ غرض یہ کہ سائنس نے انسان کی ان تمام کمزوریوں کو دور کردیا ہے جن کی بنا پر اسے مذہب کی ضرورت پڑتی تھی۔ مذہب توہم پرستی کے سوا کچھ نہیں جو زمانۂ قدیم کے ناواقف انسان نے اپنے دکھوں کی دوا کے طور پر ایجاد کر لیا تھا۔

ان حالات میں جب مذہب، خدا اور آخرت جیسے تصورات اپنی معنویت کھو چکے اور دنیا بہت رنگین و دلکش ہو گئی تو کیسے ممکن تھا کہ مغرب کا انسان دنیا پرست نہ بنتا۔ انیسویں صدی کا یہ دنیا پرست مغربی انسان صرف یورپ تک محدود نہ تھا، بلکہ اپنی سائنسی برتری کے بل بوتے پر پوری دنیا کا حاکم بھی بن چکا تھا۔ چنانچہ حاکموں کے اثرات محکوم اقوام پر پڑنے لگے۔ تاہم متعدد وجوہات کی بنا پردنیا پرستی کی یہ یلغار مدھم پڑگئی۔ جن میں مشرقی معاشروں کی روایت پسندی، ایک ایک فرد تک پہنچ کر اس کے ذہن کو مسخر کرنے والے میڈیا کی عدم موجودگی، دو عالمی جنگوں کے بعد مغربی قوت کی کمزوری، بیسویں صدی کی سائنسی دریافتوں کا اثباتِ مذہب وغیرہ نمایاں ہیں۔

اس عرصہ میں انکار مذہب سے متعلق اہل مغرب کی سوچ تو نہ بدلی، مگر اس میں ایک بنیادی تبدیلی آگئی۔ دراصل مغربی معاشروں میں پیدا ہونے والے بعض مسائل خصوصاً دو جنگوں کی تباہ کاریوں نے مغربی انسان کے سائنس پر اعتقاد کو کمزور اور مذہب کی اہمیت و ضرورت کو اجاگر کر دیا۔ خود جدید سائنسی دریافتیں مذہبی تصورات کے حق میں دلائل فراہم کر رہی تھیں۔ پھر مذہب مخالف سوویت یونین سے مقابلہ کرنے اور کمیونزم کا زور توڑنے کے لیے مغربی اقوام نے مذہب کے فروغ ہی میں عافیت محسوس کی۔ چنانچہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں مذہب سے متعلق ان کا نقطۂ نظر بہت سخت نہ رہا۔ وہ اس کی آسمانی حیثیت تسلیم کرنے پر تو تیار نہ تھے، البتہ انھوں نے اسے معاشرتی زندگی کا ایک ناگزیر اور مفید جز مان لیا۔

چنانچہ عبادت گاہیں بننے لگیں لوگ بڑی تعداد میں مذہب سے دوبارہ وابستہ ہونے لگے۔ اہل مذہب کو معاشرے میں اہم مقام حاصل ہونا شروع ہوا۔ مقتدر طبقات مذہب کی اہمیت تسلیم کرنے لگے۔ لیکن مذہب کا یہ فروغ محض ایک ثقافتی مظہر کے طور پر تھا۔ مذہب کا اصلی مقصد یعنی آخرت کی کامیابی، اس نئے دور میں بالکل بھی پیشِ نظر نہ تھا۔ چنانچہ مقصد زندگی دنیا پرستی ہی رہا اور مذہب بھی ایک اچھی دنیوی زندگی کا حصہ بن گیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ جدید انسان جب مادی تفریحات سے اکتا جائے تو اس کے لیے ایک روحانی تفریح بھی ہونی چاہیے۔ جن انسانوں کو مادی لذتوں میں سکون نہیں ملتا انھیں مذہب کی غیر مادی دنیا میں ایک جائے پناہ مل جائے۔ چنانچہ مغربی تہذیب میں فلم، موسیقی، سیر وتفریح، جنس اور شراب کی طرح مذہب بھی سکون حاصل کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ اس طرح دنیا پرستی کے خلاف یہ آخری ڈھال بھی باقی نہ رہی۔

دوسری یلغار

یہ حالات تھے کہ بیسویں صدی کے آخر میں، آج سے چند سال قبل، انسانی تاریخ نے ایک نیا موڑ کھایا۔ یہ انفارمیشن ایج کا آغاز تھا۔ جس کے نتیجے میں اہل مغرب کو ایک دفعہ پھر موقع ملا کہ وہ دوبارہ مشرقی اقوام پر یلغار کریں۔ تاہم اس یلغار کی نوعیت پہلی سے بہت مختلف تھی۔ پہلی دفعہ مغرب کا مادی غلبہ اور اقتدار دیکھ کر لوگوں کی اکثریت نے ان کی تہذیب و تمدن کے اکثر پہلووں سے لاتعلقی اختیار کی تھی، مگر اس دفعہ اہل مغرب خود نہیں آئے۔ ان کی تہذیب، تمدن، ثقافت، خیالات اور نظریات وغیرہ میڈیا کی رنگین شیشوں والی کھڑکی سے ہمارے گھروں میں داخل ہو رہے ہیں۔ پہلے ان کا واسطہ ہمارے خواص (Elite)سے پڑا تھا، مگر اب ہر خاص و عام تک ان کی پہنچ ہے۔ ہمارے ملک میں یہ یلغار صرف مغرب سے نہیں ہو رہی، بلکہ ہمارے پڑوس کی ہندو تہذیب اور اس کا میڈیا مغرب سے تہذیبی طور پر شکست کھانے کے بعد ان کے تصورات ہماری زبان میں ہماری عورتوں اور بچوں تک منتقل کر رہا ہے۔ اور اب تو ہماری اشرافیہ اور میڈیا کے لوگوں نے بھی خود کو اسی خدمت کے لیے وقف کر دیا ہے۔

دنیا پرستی اور ہمارا معاشرہ

ان حالات میں ہمارا معاشرہ مکمل طور پر دنیا پرستی کی اس موجودہ یلغار کا شکار ہو چکا ہے۔ مذہب کی وہ قوت جس نے پچھلی دفعہ ہمارا دفاع کیا تھا، اس دفعہ موثر ثابت نہیں ہو سکی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ رائج مغربی نظریات انکار مذہب پر نہیں کھڑے، بلکہ ان میں مذہب کو بھی دنیا پرستی کا ایک حصہ بنا دیا گیا ہے۔ چنانچہ لوگ مذہب کو ایک تہذیبی ورثہ اور رسوم و عادات کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ ایسا مذہب انسانوں کو نہیں بدلتا، بلکہ وہ انسانوں کے ماحول، مزاج اور عادات کے مطابق ڈھل جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ اس قابل نہیں رہتا کہ انسانوں کو دنیا پرستی سے روک سکے۔ ٹھیک یہی ہمارے ساتھ بھی ہوا اور اسلام کے تمام تر دعووں کے باوجود ہمارے ہاں دنیا پرستی کا مرض خوب پھلا پھولا۔ اس کے بعد جو مسائل پیدا ہوئے ان میں سے چند کی تفصیل اب ہم بیان کریں گے۔

[جاری]

____________

B