محمد بلال
یکم اگست ۲۰۰۳ کو علم حدیث کے ایک بڑے عالم حافظ عطاء الرحمٰن وفات پا گئے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور ان کے درجات بلند کرے۔
حافظ صاحب پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے بھیرہ میں ۱۹۳۹ء میں پیدا ہوئے۔ مقامی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ خاندان کا تعلق بریلوی مکتب فکر کے ساتھ تھا۔ قرآن مجید کا ترجمہ مولانا عبد الرحمٰن صاحب سے پڑھا۔ مزید علم حاصل کرنے کے لیے ایک دیو بند استاد مولانا عبدالرشید کی شاگردی اختیار کی۔ ان کے مدرسے میں آخری سال میں تھے کہ اہل حدیث مکتب فکر کی طرف راغب ہو گئے۔ اس دوران میں دیو بند مکتب فکر کے مدرسے سے سند حاصل کی۔ خاندان کی بھرپور مخالفت کے باوجود جس راہ کو درست سمجھا، اس پر چلتے رہے۔ جامعہ محمدیہ، گوجرانوالہٰ میں حافظ محمد گوندھلوی سے تعلیم حاصل کی اور سند فراغت حاصل کی۔
اہلیہ کی وفات کے بعد اپنے اہل وعیال کو لے کر مستقل طور پر لاہور میں اقامت پزیر ہو گئے۔ان کے اندر دین کی طلب کا غیر معمولی ذوق تھا۔ انھوں نے اپنی تمام عمر دین کے ایک سچے طالب علم کی حیثیت سے گزار دی۔ علم اور علما کے بے حد قدردان تھے۔ ساری زندگی پڑھنے پڑھانے میں مشغول رہے۔ بہت سے لوگوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم سے آراستہ کیا۔ جہلا کی مجالس میں بیٹھنے سے اجتناب کرتے اور علما کی مجالس میں بیٹھ کر خوشی محسوس کرتے تھے۔ اللہ کی خاطر محبت کرتے اور اللہ ہی کی خاطر بغض رکھتے تھے۔ کتابیں جمع کرنے کا بے حد شوق تھا۔ ماہانہ گھریلو بجٹ سے کچھ رقم مخصوص کر لیتے تھے۔پھر چند ماہ بعد مطلوبہ کتاب خرید لیتے اور دن رات اسی کا مطالعہ میں مصروف رہتے۔ علم کے تجس اور مطالعہ کے شوق کے باعث ان کے پاس کتابوں کا ذخیرہ جمع ہو گیا تھا۔ روزانہ بہت دیر تک مطالعہ کرتے تھے۔ پھر خوشی سے گھر کے کسی فرد کو بتاتے کہ میں نے آج اتنا پڑھا ہے۔ جب تک صحت نے اجازت دی مختلف علما کی نشستوں میں شریک ہوتے رہے۔
جس پس منظر میں ان کی پرورش ہوئی، اس میں کچھ مخصوص نقطہ ہائے نظر ہی تھے جن کو اصل دین سمجھا جاتا تھا۔ مگر جیسے جیسے ان پر حقائق واضح ہوتے گئے، وہ پرانی بات چھوڑتے گئے اور اتنی بات کو اپناتے گئے۔ ایک زمانے میں وہ شرک و بدعت کے معاملے میں غیر معمولی طور پر حساس تھے۔ حتیٰ کہ وہ جمعہ کی نماز بھی کسی کے ساتھ نہیں پڑھتے تھے، بلکہ اس نماز کا الک سے اہتمام کیا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بہت سے لوگ جو جمعہ کی نماز پڑھ یا پڑھاتے ہیں، وہ شرک و بدعت میں ملوث ہیں، مگر آہستہ آہستہ ان کے ہاں اس معاملے میں اعتدال آگیا۔
وہ علم حدیث کے ایک بڑے عالم تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ تمام احادیث کی اسناد پر نظر ثانی کریں۔ اس غرض سے انھوں نے بخاری ومسلم پر کچھ کام کیا۔ طویل عرصے تک وہ احادیث کے رجال پر کام کرتے رہے۔ موطا امام مالک پر ان کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تھا۔ وہ عربی زبان کے ایک بڑے عالم تھے۔ چنانچہ انھوں نے یہ کام عربی زبان میں کیا۔ آخری دنوں میں ان کے زیر مطالعہ مسند احمد تھی۔
علمی اعتبار سے انھوں نے عوام الناس کی بہت خدمت کی۔ کبھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو جب تک اچھی طرح تحقیق نہ کر لیتے مطمئن نہ ہوتے۔ حدیث بیان کرنے سے پہلے اس کی صحت کی پڑتال کرتے۔ اگر کوئی شخص کسی مسئلہ کی بابت پوچھتا تو فوراً اس مسئلے کا حل نہ بتا دیتے ، بلکہ اس کا حل تحریری طور پر دینے کا وعدہ کرتے اور جب جواب دیتے تو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کے لیے باقاعدہ دلائل دیتے تاکہ مسئلہ جاننے والا قائل ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد نرینہ سے محروم رکھا۔ اپنے دامادوں کے بارے میں ان کی یہ خواہش تھی کہ وہ قرآن و حدیث کو سمجھنے والے ہوں۔
ان کی شخصیت کا اصل حسن ان کا تقویٰ تھا۔ جس چیز کو وہ دین سمجھتے تھے، اس معاملے میں آخری درجے میں عمل کیا کرتے تھے۔ اللہ نے انھیں بڑی سخت اور طویل آزمایشوں میں مبتلا کیا۔ روزگار کے لیے رحمان پورہ میں جنرل اسٹور بھی بنایا۔ مالی طور پر بہت تنگ دست تھے۔ ان کی اہلیہ بڑے طویل عرصے تک بیمار رہیں۔ ان کی پانچ بچیاں تھیں۔ ان کی پرورش اور تعلیم کے مسائل سے دوچار رہے۔ وہ کام جو وہ کرنا چاہتے تھے، اس کی ہمارے ہاں پزیرائی نہیں تھی۔ کوئی آدمی ان کے کام کی قدر کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس کے باوجود کبھی ان کے ماتھے پر شکن نہیں دیکھی۔ کوئی شکوہ نہیں سنا، بلکہ اس کے برعکس انفاق کا یہ معاملہ تھا کہ کسی مہینے مثال کے طور پر دوہزار روپے میسر ہوئے تو ایک ہزار روپیہ انفاق کر دیتے۔انفاق فی سبیل اللہ پر خود بھی عمل پیرا تھے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ انھوں نے ایک ڈبا بنایا ہوا تھا جس کو وہ بیت المال کے نام سے موسوم کرتے تھے۔ اس میں صدقات وغیرہ ڈالتے رہتے تھے اور مہینے کے بعد غریبوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے۔ کبھی دینوی چیزوں یا ضرورتوں کو دیکھتے یا ذکر کیا جاتا تو کہتے: یہ سب کچھ آخرت میں ہمیں ملے گا۔ دنیا میں ہمارے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ دنیا فانی ہے۔ لمبے لمبے منصوبے بنا کر کیا کرنا ہے!
اگرچہ خود بہت خوش حال نہ تھے، مگر صدقہ دینا انھیں بہت پسند تھا۔ کوئی کام اٹکا ہوتا، بیماری یا مشکل ہوتی تو فوراً صدقہ دیتے۔ انفاق ہی کے ذریعے سے ہر مشکل کا حل نکالتے۔ اکثریہ حدیث قدسی بیان کرتے کہ فرشتوں سے اللہ تعالیٰ کا مکالمہ ہوا کہ پہاڑ، لوہا، آگ، پانی ہوا سے طاقت ور مومن کا وہ صدقہ ہے جو وہ دائیں ہاتھ سے کرے اور بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ اس حدیث کی وضاحت یوں فرماتے کہ اگر آپ پر پہاڑ جیسی کوئی مشکل آگئی ہے تو صدقہ کریں۔ اگر لوہے جیسے کوئی مصیبت ہے تب بھی صدقہ سے ٹالیں۔ آگ جیسی کوئی مشکل آڑے آگئی ہے تو صدقہ کریں۔ پانی اور ہوا کے مثل کوئی ناگہانی صورت پیدا ہو گئی ہے تو صدقہ سے مدد حاصل کریں۔ کیونکہ سب سے طاقت ور صدقہ ہے۔ خود اس عمل میں اتنا آگے جا چکے تھے کہ اپنی آمدنی سے ۳۳ فی صد انفاق کرتے اور خواہش ظاہر کرتے کہ اسے ۵۰ فیصد تک لے جاؤں۔ کبھی اصل تنخواہ کے علاوہ کوئی شاگرد خدمت کرتا تو وہ ساری کی ساری رقم اللہ کے راستہ میں خرچ کر دیتے اور کہا کرتے: میں نے بینک بیلنس بنایا ہوا ہے اور میرا بینک ایسا ہے جہاں سات سو گنا سے زیادہ منافع کی امید ہے۔ کبھی کسی مادی چیز کی خواہش کا اظہار نہ کرتے۔ صرف عید پر نئے کپڑے پہننے کا شوق تھا۔ اس کے علاوہ کسی خاص مقصد کے لیے بھی کوئی پیسہ جمع نہ کرتے، کبھی اصرار کیا جاتا تو کہتے کہ میں نے آخرت کو دنیا پر ترجیح دی ہے۔ دنیا کے معاملات بھی میں نے اللہ کے سپرد کر دیے ہیں۔ وہ خود کار ساز ہے۔
سال کے تمام مہینوں میں سے رمضان میں زکوٰۃ دینے کی تلقین کرتے اور کہتے: رمضان میں اگر ستائیسویں شب کو زکوٰۃ اور صدقات کا اہتمام کیا جائے تو بہت ثواب کا کام ہے اور خود بھی اسی پر عمل پیرا ہوتے۔
خوفِ الٰہی اس قدر تھا کہ تندرستی میں تو استغفار کرتے ہی تھے، سخت بیماری میں بھی بہت روتے تھے ۔ وفات سے تقریباً ایک ماہ پہلے اونچی آواز سے رویا کرتے تھے۔ اس کی وجہ پوچھنے پر اصرار کیا جاتا تو ایک دن کہنے لگے: یہ میرا آخری وقت ہے۔ میرے پاس کوئی عمل نہیں ۔ میں اللہ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ مجھے جہنم اور عذاب قبر سے ڈر لگتا ہے۔ وماغی حالت بگڑ جانے کے باوجود نماز، قرآن اور حدیث کا ذکر کرتے رہتے۔ ہر وقت یہی کہتے: فلاں بات قرآن وحدیث میں ہے۔ میں نے نماز پڑھنی ہے۔ مجھے نماز پڑھنے دیں اور بغیر وضو کیے جس کی طرف چہرہ ہوتا جہاں کھڑے ہوتے، خیال کرتے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں۔ نسیان نے سب کچھ بھلا دیا تھا، لیکن قرآن پھر بھی یاد تھا۔ تصوف سے سخت بے زار تھے۔ شاعری میں چونکہ صوفیانہ رنگ زیادہ جھلکتا ہے، اس لیے اس سے اکثر گریز ہی کرتے۔
بیت اللہ سے وابستگی اس قدر تھی کہ دعا کیا کرتے تھے کہ یا اللہ مجھے حج کی سعادت نصیب فرما اور وہیں کا مقیم بنا دے۔ بیت اللہ کا جب بھی خیال آتا کہتے: میرا اصل گھر بیت اللہ ہے، لیکن مجھے میرے گھر سے دور کر دیا گیا ہے۔
ہماری دعا ہے کہ یا اللہ، حافظ صاحب کو جنت کا مقیم بنا دے۔ انھیں اپنا قرب عطا فرمادے۔ جن اخروی نعمتوں کے لیے انھوں نے دنیا کے دکھ جھیلے، اب ان کے لیے ابدی راحتوں کا اہتمام کر دے۔
____________