HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۲۳۳-۲۳۵ (۴۹)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ ) 


وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ، وَعَلَی الْمَوْلُوْدِلَہٗ رِزْقُھُنَّ وَ کِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ، لَا تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلاَّ وُسْعَہَا ، لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ ، وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ . فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا ، وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْا اَوْلَادَکُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ. {۲۳۳}

وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجاً یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّ عَشْرًا، فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ، وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ. وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا عَرَّضْتُمْ بِہٖ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَآئِ اَوْاَکْنَنْتُمْ فِیْ اَنْفُسِکُمْ، عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ سَتَذْکُرُوْنَھُنَّ، وَلٰکِنْ لَّا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا اِلَّا ٓ اَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلاًمَّعْرُوْفاً، وَلاَ تَعْزِمُوْا عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتٰبُ اَجَلَہٗ، وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ فَاحْذَرُوْہُ، وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ . {۲۳۴۔۲۳۵} 


اور (طلاق کے بعد بھی) مائیں اُن لوگوں کے لیے جو دودھ کی مدت پوری کرنا چاہتے ہوں ، اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں گی اور بچے کے باپ کو(اِس صورت میں) دستور کے مطابق اُن کا کھانا کپڑا دینا ہو گا ۔ کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے ۔ نہ کسی ماں کواُس کے بچے کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور نہ کسی باپ کو اُس کے بچے کے سبب سے ـــــ اور اِسی طرح کی ذمہ داری اُس کے وارث پر بھی ہے ــــــ پھر اگر دونوں باہمی رضا مندی اور آپس کے مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔ اور اگر تم کسی اور سے دودھ پلوانا چاہو تو اِس میں بھی کوئی مضایقہ نہیں ، بشرطیکہ (بچے کی ماں سے) جو کچھ دینا طے

کیا ہے ، وہ دستور کے مطابق اُسے دے دو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُسے دیکھ رہا ہے ۔ ۶۱۵  ۲۳۳

اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑیں تو وہ بھی اپنے آپ کو چار مہینے دس دن انتظار کرائیں ۔ ۶۱۶ پھر جب اُن کی عدت پوری ہو جائے تو اپنے حق میں دستور کے مطابق جو کچھ وہ کریں ، اُس کا تم پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔ ۶۱۷ اور جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اُسے خوب جانتا ہے ۔ اور اِس میں بھی کوئی گناہ نہیں جو تم اشارے کنایے میں نکاح کا پیغام اُن عورتوں کو دو یا اُسے دل میں چھپائے رکھو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم اُن سے یہ بات تو کرو گے ہی ۔ (سو کرو)، لیکن (اِس میں) کوئی وعدہ اُن سے چھپ کر نہ کرنا۔ ہاں ، دستور کے مطابق کوئی بات ، البتہ کہہ سکتے ہو ۔ اور عقد نکاح کا فیصلہ اُس وقت تک نہ کرو، جب تک قانون اپنی مدت پوری نہ کر لے ۔ اور جان رکھو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے ، اِس لیے اُس سے ڈرو اور جان رکھو کہ اللہ بخشنے والا ہے ، وہ بڑا بردبار ہے ۔ ۶۱۸  ۲۳۴۔ ۲۳۵ 

۶۱۵؎ طلاق کے بعد بچے کی رضاعت کے جو احکام اس آیت میں بیان ہوئے ہیں ، ان کا خلاصہ استاذ امام امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں یہ ہے :

’’۱۔ مطلقہ پر اپنے بچے کو پورے دو سال دودھ پلانے کی ذمہ داری ہے ، اگر طلاق دینے والا شوہر یہ چاہتا ہے کہ عورت یہ رضاعت کی مدت پوری کر ے ۔
۲۔ اس مدت میں بچے کے باپ پر مطلقہ کے کھانے کپڑے کی ذمہ داری ہے اور اس معاملے میں دستور کا لحاظ ہو گا ، یعنی شوہر کی حیثیت ، عورت کی ضروریات اور مقام کے حالات پیش نظر رکھ کر فریقین فیصلہ کریں گے کہ عورت کو نان و نفقہ کے طور پر کیا دیا جائے ۔
۳۔ فریقین میں سے کسی پر بھی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا ، نہ بچے کے بہانے سے ماں کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی ، اور نہ بچے کی آڑ لے کر باپ پر کوئی ناروا دباؤ ڈالا جائے گا ۔
۴۔ اگر بچے کا باپ وفات پا چکا ہو تو بعینہٖ یہی پوزیشن مذکورہ ذمہ داریوں اور حقوق کے معاملے میں اس کے وارث کی ہو گی۔
۵۔ اگر باہمی رضا مندی اور مشورے سے دو سال کی مدت کے اندر ہی اندر بچے کا دودھ چھڑا دینے کا عورت مرد فیصلہ کر لیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں ۔
۶۔ اگر باپ یا بچے کے ورثابچے کی والدہ کی جگہ کسی اور عورت سے دودھ پلوانا چاہتے ہیں تو وہ ایسا کرنے کے مجاز ہیں ، بشرطیکہ بچے کی والدہ سے دینے دلانے کی جو قرار داد ہوئی ہے ، وہ پوری کر دی جائے ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۴۵)

۶۱۶؎ بیوہ کی عدت میں عام مطلقہ کی نسبت سے یہ اضافہ اس لیے ہوا ہے کہ اس کو تو ایسے طہر میں طلاق دینے کی ہدایت کی گئی ہے جس میں شوہر سے اس کی ملاقات نہ ہوئی ہو ، لیکن بیوہ کے لیے اس طرح کا ضابطہ بنانا چونکہ ممکن نہیں ہے ، اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی تھاکہ دن بڑھا دیے جاتے ۔ قرآن نے یہی کیا ہے اور مطلقہ کی نسبت سے اس کی مدت ایک ماہ دس دن زیادہ مقرر کر دی ہے ۔

مطلقہ اور بیوہ کے لیے عدت کا حکم چونکہ ایک ہی مقصد سے دیا گیا ہے ، اس لیے جو مستثنیات طلاق کے حکم میں بیان ہوئے ہیں ، وہ بیوہ کی عدت میں بھی اسی طرح ملحوظ ہوں گے ۔ چنانچہ بیوہ غیر مدخولہ کے لیے کوئی عدت نہیں ہو گی اور حاملہ کی عدت وضع حمل کے بعد ختم ہو جائے گی ۔ بخاری کی روایت (رقم ۵۳۲۰) ہے کہ ایک حاملہ عورت ، سبیعہ رضی اللہ عنہا نے جب اپنا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے یہی فیصلہ فرمایا ۔

۶۱۷؎ یعنی عدت گزر جائے تو اس کے بعد وہ آزاد ہے اور اپنے معاملے میں جو قدم مناسب سمجھے اٹھا سکتی ہے ۔ معاشرے کے دستور کی پابندی ، البتہ اسے کرنی چاہیے ۔ یعنی ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے جس سے متعلق خاندانوں کی عزت ، شہرت ، وجاہت اور اچھی روایات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔ یہ ملحوظ رہے تو اس پر یا اس کے اولیا پر پھر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’مطلب یہ ہے کہ غیر شرعی رسوم کوشریعت کا درجہ دے کر خواہ مخواہ ایک دوسرے کو مورد طعن و الزام نہیں بنانا چاہیے ۔ نہ شوہر کے وارثوں اور عورت کے اولیا کو یہ طعنہ دینا چاہیے کہ عورت اپنے شوہر کا پورا سوگ بھی نہ منا چکی کہ وہ اس سے تنگ آگئے اور نہ عورت کو یہ طعنہ دینا چاہیے کہ ابھی شوہر کا کفن بھی میلا نہ ہونے پایا تھا کہ یہ شادی رچانے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ خدا نے جو حدود مقرر کر دیے ہیں ، بس انھی کی پابندی کرنی چاہیے اور اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ بندوں کے ہر عمل سے باخبر ہے ۔ ‘‘ (تدبرقرآن ۱/ ۵۴۶)

۶۱۸؎ یعنی اگر کوئی شخص بیوہ سے نکاح کرنا چاہتا ہو تو عدت کے دوران میں وہ یہ تو کر سکتا ہے کہ اپنے دل میں اس کا ارادہ کر لے یا اشارے کنایے میں کوئی بات زبان سے نکال دے ، لیکن اس کے لیے ہرگز جائز نہیں ہے کہ ایک غم زدہ خاندان کے جذبات کا لحاظ کیے بغیر عورت کو نکاح کا پیغام بھیجے یا کوئی خفیہ عہد و پیمان کرے ۔ اس طرح کے موقعوں پر جو بات بھی کی جائے ، اسے ہم دردی اور تعزیت کے اظہار تک ہی محدود رہنا چاہیے ۔ چنانچہ تنبیہ فرمائی ہے کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم اپنا یہ ارادہ ظاہر کرو گے، مگر اس طرح نہیں کہ نکاح کی پینگیں بڑھانا شروع کر دو، قول و قرار کرو یا چھپ کر کوئی عہد باندھ لو ۔ اس کا انداز وہی ہونا چاہیے جو ایسے حالات میں پسندیدہ اور دستور کے موافق سمجھا جاتا ہے ۔ عدت گزر جائے تو ان عورتوں سے نکاح کا فیصلہ ، البتہ کر سکتے ہو ۔ اس کے بعد تم پر کوئی الزام نہیں ہے ۔

اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ زمانۂ عدت میں عورت کا رویہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پر عورتوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اگر اپنے مرحوم شوہر کے گھر میں اس کے لیے عدت گزار رہی ہیں تو سوگ کی کیفیت میں گزاریں اور زیب و زینت کی کوئی چیز استعمال نہ کریں ۔ ابوداؤد کی روایت (رقم ۱۹۶۰) ہے کہ آپ نے فرمایا : بیوہ عورت رنگین کپڑے نہیں پہنے گی ، نہ زرد، نہ گیرو سے رنگے ہوئے ۔ وہ زیورات استعمال نہیں کرے گی اور نہ مہندی اور سرمہ لگائے گی ۔

[باقی]

ــــــــــــــــــــــ

B