HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

فرض عبادات

[اس روایت کی ترتیب و تدوین اور شرح و وضاحت جناب جاوید احمد غامدی کی رہنمائی میں زاویۂ فراہی کے رفقا معزا مجد ، منظور الحسن ، محمد اسلم نجمی اور کوکب شہزاد نے کی ہے ۔]


روی ۱ انہ قال رجل من اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : نھینا ان نسال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن شئ فکان یعجبنا ان یجئ الرجل من اھل البادیۃ العاقل فیسالہ و نحن نسمع. فجاء ۲ رجل الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من اھل نجد ۳ ثائر الرأس ، یسمع دوی صوتہ ، ولایفقہ ما یقول حتی دنا فإذا ھو یسال عن الإسلام. فقال: یا رسول اللّٰہ ، اخبرنی ماذا فرض اللّٰہ علی من الصلاۃ؟ ۴ فقال رسول اللّٰہ صلی علیہ وسلم : خمس صلوات فی الیوم واللیلۃ ۔ فقال : ھل علی غیرھا ؟ قال: لا الا ان تطوع.
فقال : اخبرنی ما فرض اللّٰہ علی من الصیام ؟ ۵ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : صیام شھر رمضان. ۶ فقال : ھل علی غیرھا ؟ قال : لا الا ان تطوع .
فقال : اخبرنی بما فرض اللّٰہ علی من الزکاۃ. ۷ قال : وذکر لہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الزکاۃ. ۸ قال : ھل علی غیرھا ؟ قال : لا الا ان تطوع.
قال : فادبر الرجل وھو یقول : واللّٰہ لا ازید علی ھذا ولا انقص ۹ منہ. ۱۰ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : افلح ان صدق. ۱۱
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک صاحب ۱ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ہمیں اس بات سے روک دیا گیا تھا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات پوچھیں ۲ ۔ چنانچہ ہم بہت خوش ہوتے جب ہمارے سامنے اہل بدو میں سے کوئی سمجھ دارآدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر (دین کے بارے میں )سوال کرتا۔ ایک دن یہ ہوا کہ نجد کے لوگوں میں سے ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ اس کے بال پراگندہ تھے۔ آواز کی بھنبھناہٹ سنائی دیتی تھی ، لیکن کیا کہتا ہے ، یہ سمجھنا مشکل تھا۔ وہ کچھ قریب ہوا تو ہم نے سنا کہ اسلام کے بارے میں کچھ پوچھ رہا ہے ۔ اس نے سوال کیا : یا رسول اللہ ، مجھے بتایئے کہ اللہ نے میرے لیے کتنی نماز پڑھنا ضروری قرار دیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دن اور رات میں پانچ نمازیں۔ اس نے پوچھا : کیا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں ، مگر یہ کہ تم اپنی خوشی سے کچھ زیادہ پڑھ لو ۔
اس نے پوچھا: مجھے بتائیے کہ اللہ نے مجھ پر کتنے روزے فرض کیے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماہ رمضان کے روزے۔ اس نے پوچھا : کیا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، مگر یہ کہ تم اپنی خوشی سے کچھ زیادہ رکھ لو ۔
اس نے پھر سوال کیا : اللہ نے مجھ پر کتنی زکوٰۃ فرض کی ہے ؟ آپ نے اسے زکوٰۃ کی تفصیلات بتائیں۔ اس نے پوچھا: کیا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، مگر یہ کہ تم اپنی خوشی سے کچھ زیادہ دے دو ۔۳
راوی کا بیان ہے کہ وہ لوٹا تو کہہ رہا تھا : میں اس پر نہ (اپنی طرف سے)کوئی اضافہ کروں گا اور نہ کوئی کمی ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا : اگر یہ سچا ہے تو فلاح پا گیا۔

ترجمے کے حواشی

۱۔ مسلم، رقم ۱۳ کے مطابق یہ صحابی انس بن مالک رضی اللہ عنہ تھے۔

۲۔ سورۂ مائدہ (۵)کی آیت۱۰۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام کو نزول قرآن کے دوران میں غیر ضروری سوالات سے منع کر دیا گیا تھا۔ اس کا سبب یہ خدشہ تھا کہ وہ یہود کی طرح بے جا سوال کر کے اپنے اوپر ایسی پابندیاں نہ لگوا بیٹھیں جو ان کے لیے مشکلات کا باعث بنیں ۔ ارشاد فرمایاہے :

’’ایمان والو، ایسی باتوں سے متعلق سوال نہ کرو جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تمھیں گراں گزریں اور اگر تم ان کی بابت ایسے زمانے میں سوال کرو گے جب قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی۔‘‘(۵: ۱۰۱)

صحابۂ کرام اس بنا پر بہت محتاط رہتے اور بعض اوقات ضروی سوالات پوچھنے سے بھی گریز کرتے تھے۔

۳۔ مسلم، رقم۱۳ اور احمد بن حنبل، رقم۲۱۴۲سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے حج کے بارے میں بھی سوال کیاتھا ۔

متن کے حواشی

۱۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ بخاری کی روایت، رقم ۴۶ ہے۔ کچھ فرق کے ساتھ یہ حسب ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:

بخاری، رقم ۱۷۹۲، ۲۵۳۲، ۶۵۵۶۔مسلم، رقم ۱۱، ۱۲۔ ترمذی، رقم ۶۱۹۔ نسائی، رقم ۴۵۸، ۲۰۹۰، ۲۰۹۱، ۵۰۲۸۔ ابو داؤد، رقم۳۹۱، ۳۹۲، ۳۲۵۲۔ احمد ابن حنبل، رقم ۱۳۹۰، ۲۲۵۴، ۲۳۸۰، ۱۲۴۷۹، ۱۳۰۳۴، ۱۳۸۴۲۔ موطا، رقم۴۲۳۔ دارمی، رقم ۶۵۰، ۶۵۱، ۶۵۲، ۱۵۷۸۔ نسائی سنن الکبریٰ، رقم ۳۱۹، ۲۴۰۰، ۲۴۰۱، ۵۸۶۳، ۱۱۷۵۹۔ ابن خزیمہ، رقم ۳۰۶، ۲۰۷۴۔ بیہقی، رقم ۱۵۷۲، ۲۰۵۷، ۴۲۳۵، ۴۲۳۷، ۷۶۹۲، ۸۳۹۴۔ ابن حبان، رقم ۱۵۵، ۱۷۲۴، ۳۲۶۳۔ ابو یعلیٰ، رقم ۳۳۳۳۔

۲۔ ’نھینا ان نسئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلمعن شئ فکان یعجبنا ان یجئ الرجل من اھل البادیۃ العاقل فیسالہ و نحننسمع ۔ فجاء‘( ۱ ہمیں اس بات سے روک دیا گیا تھا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات پوچھیں ۔ چنانچہ ہم بہت خوش ہوتے جب ہمارے سامنے اہل بدو میں سے کوئی سمجھ دارآدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر (دین کے بارے میں )سوال کرتا۔ ایک دن یہ ہوا کہ نجد کے لوگوں میں سے ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔) کے الفاظ بخاری، رقم ۴۶میں نقل نہیں ہوئے ۔یہ مسلم، رقم ۱۲ سے لیے گئے ہیں۔

بخاری، رقم ۴۶ میں ’فجاء‘ (چنانچہ ایک آدمی آیا)کی جگہ ’جاء‘ (ایک آدمی آیا) نقل ہوا ہے اور اسی سے روایت کا آغاز ہو رہاہے۔ واقعے کے حوالے سے بھی مسلم،ترمذی اور احمد بن حنبل وغیرہ میں کچھ فرق پایا جاتا ہے۔احمد بن حنبل میں یہ واقعہ بہت تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اس روایت کا مکمل متن حسب ذیل ہے:

روی انہ بعثت بنو سعد بن بکر ضمام بن ثعلبۃ وافدا الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقدم علیہ واناخ بعیرہ علی باب المسجد، ثم عقلہ، ثم دخل المسجد ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جالس فی اصحابہ، وکان ضمام رجلا جلدا اشعر ذا غدیرتین، فاقبل حتی وقف علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی اصحابہ، فقال: ایکم بن عبد المطلب؟ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: انا بن عبد المطلب. قال : محمد؟ قال: نعم. فقال: بن عبد المطلب، انی سائلک و مغلظ فی المسالۃ، فلا تجدن فی نفسک. قال: لا اجد فی نفسی، فسل عما بدا لک. قال: انشدک اللّٰہ الھک والہ من کان قبلک والہ من ھو کائن بعدک، اللّٰہ بعثک الینا رسولا؟ا فقال: اللہم، نعم. قال: فانشدک اللّٰہ الھک والہ من کان قبلک والہ من ھو کائن بعدک، اللّٰہ امرک ان تامرنا ان نعبدہ وحدہ لا نشرک بہ شیاء، وان نخلع ھذہ الانداد التی کانت آباؤنا یعبدون معہ؟ قال: اللھم، نعم. قال: فانشدک اللّٰہ الھک والہ من کان قبلک والہ من ھو کائن بعدک اللّٰہ امرک ان نصلی ھذہ الصلوات الخمس؟ قال: اللھم، نعم. قال: ثم جعل یذکر فرائض الاسلام، فریضۃ الزکاۃ والصیام والحج وشرائع الاسلام کلھا، یناشدہ عند کل فریضۃ کما یناشدہ فی التی قبلھا. حتی اذا فرغ، قال: فانی اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان سیدنا محمدا رسول اللّٰہ،وساؤدی ھذہ الفرائض واجتنب ما نھیتنی عنہ، ثم لا ازید ولا انقص. قال: ثم انصرف راجعا الی بعیرہ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حین ولی : ان یصدق ذو العقیصتین، یدخل الجنۃ۔(رقم ۲۳۸۰)
’’روایت ہوا ہے کہ قبیلۂ سعد بن بکر نے ضمام بن ثعلبہ کو اپنے نمائندے کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ۔جب وہ پہنچا تو اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر بٹھایا اور اسے باندھ دیا۔ پھر وہ مسجد میں داخل ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ضمام ایک طاقت ور آدمی معلوم ہو رہا تھا اور اس کے بال لمبے تھے۔ اس نے اپنے بالوں کو دو چوٹیوں کی صور ت میں باندھا ہوا تھا۔وہ ہمارے قریب ہوا ، یہاں تک کہ وہاں پہنچ گیا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔پھر اس نے پوچھا: تم میں سے عبدالمطلب کا بیٹا کون ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔پھر اس نے پوچھا: کیا آپ کا نام محمد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا۔ اس نے کہا : اے عبدالمطلب کے بیٹے ، میں آپ سے چند سوال دوٹوک انداز میں کروں گا۔آپ میرے ان سوالات کا برا مت مانیے گا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں محسوس نہیں کروں گا، تم جو چاہو، پوچھو۔اس نے کہا:میںآپ کو اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جو آپ کا خدا ہے اور جو آپ سے پہلے والوں کا اور آپ کے بعد والوں کا خدا ہے، کیا اللہ نے آپ کو ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے؟آپ نے فرمایا: ہاں، اللہ اس پر گواہ ہے۔اس نے کہا:میںآپ کو اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جو آپ کا خدا ہے اور جو آپ سے پہلے والوں کا اور آپ کے بعد والوں کا خدا ہے، کیااللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمیں بتائیں کہ ہم تنہا اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور ان خداؤں کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے آبا کیا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ہاں، اللہ اس پر گواہ ہے۔اس نے کہا:میںآپ کو اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جو آپ کا خدا ہے اور جو آپ سے پہلے والوں کا اور آپ کے بعد والوں کا خدا ہے ، کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمیں پانچ نمازوں کی ہدایت فرمائیں؟ آپ نے جواب دیا:ہاں، اللہ اس پر گواہ ہے۔ پھر اس نے ایک ایک کر کے اسلام کے فرائض کے بارے میں دریافت کرنا شروع کیا۔اس ضمن میں اس نے زکوٰۃ، روزہ اور قوانین اسلام کے بارے میں پوچھا۔ ان کے بارے میں سوال کرتے ہوئے اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح قسم لی جیسا کہ پہلے سوالوں میں لی تھی۔ بالآخر وہ سوالات سے فارغ ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور ہمارے سردارمحمد اللہ کے رسول ہیں۔ میں ان تمام فرائض کو بجا لاؤں گا اور ان چیزوں سے اجتناب کروں گا جن سے آپ نے منع فرمایا ہے اور میں اپنی طرف سے ان میں نہ کوئی اضافہ کروں گا اور نہ کمی۔پھر وہ اپنے اونٹ کی طرف لوٹا۔ آپ نے دیکھا تو فرمایا: اگر یہ دو چوٹیوں والاآدمی سچ کہتا ہے تو جنت میں داخل ہو گا۔‘‘

کم و بیش یہی متن حسب ذیل مقامات پر بھی نقل ہوا ہے:

مسلم، رقم ۱۲۔ ترمذی، رقم ۶۱۹۔ نسائی، رقم ۲۰۹۱۔ احمد ابن حنبل، رقم ۱۲۴۷۹، ۱۳۰۳۴۔ دارمی، رقم ۶۵۰، ۶۵۱، ۶۵۲۔ نسائی سنن الکبریٰ، رقم۲۴۰۱، ۵۸۶۳۔ بیہقی، رقم ۸۳۹۴۔ ابن حبان، رقم ۱۵۵۔ ابو یعلیٰ، رقم ۳۳۳۳۔

۳۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۱۷۹۲ میں ’رجل من اہل نجد‘ (اہل نجد میں سے ایک شخص)کی جگہ ’اعرابیا‘ (ایک بدو)اور بعض مثلاً مسلم، رقم۱۲ میں ان کی جگہ ’رجل من اہل البادیۃ‘ (صحرائی علاقے کا ایک آدمی)کے الفاظ آئے ہیں۔

۴۔ ’فقال یا رسول اللّٰہ اخبرنی ماذا فرض اللّٰہ علی من الصلوٰۃ؟‘ (اس نے پوچھا:اے اللہ کے رسول، مجھے بتائیے کہ اللہ نے مجھ پر نمازکے حوالے سے کیا فرض کیا ہے؟)کا جملہ جو بخاری، رقم ۱۷۹۲ میں بیان ہوا ہے، سوال کے طور پر بخاری، رقم ۴۶ میں ان الفاظ میں آیا ہے : ’یسال عن الاسلام‘۔(وہ اسلام کے بارے میں سوال کر رہا تھا)۔

۵۔ ’فقال اخبرنی ما فرض اللّٰہ علی من الصیام‘ (اس نے پوچھا: مجھے بتائیے کہ اللہ نے مجھ پر روزوں کے بارے میں کیا فرض کیا ہے؟)کے الفاظ بخاری، رقم ۱۷۹۲ میں نقل ہوئے ہیں۔

۶۔’صیام شہر رمضان‘(ماہ رمضان کے روزے) کے الفاظ بخاری، رقم ۲۵۳۲ میں آئے ہیں۔ بخاری، رقم ۴۶ میں ان کی جگہ ’ وصیام رمضان‘ (اور رمضان کے روزے)اور بخاری، رقم ۱۷۹۲ میں ’شہر رمضان‘(ماہ رمضان) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

۷۔ ’فقال اخبرنی بما فرض اللّٰہ علی من الزکوٰۃ‘ (اس نے سوال کیا:اللہ نے مجھ پر زکوٰۃ کے سلسلے میں کیا فرض کیا ہے؟)کا جملہ بخاری، رقم ۱۷۹۲ میں نقل ہوا ہے۔

۸۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۱۷۹۲ میں ’الزکوٰۃ‘(زکوٰۃ) کی جگہ ’شرائع الاسلام‘ (قوانین اسلام) کے الفاظ آئے ہیں، جبکہ ابوداؤد، رقم ۳۹۱ میں ’الصدقۃ‘ (صدقہ)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

۹۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۱۷۹۲ میں ’لا ازید علی ہذا ولا انقص‘ (میں ان میں نہ اضافہ کروں گا اور نہ کمی کروں گا)کی جگہ ’لا اتطوع شیاء ولا انقص مما فرض اللّٰہ علی شیاء‘ (میں ان میں نہ کسی نفلی عمل کا اضافہ کروں گا اور نہ اللہ کی طرف سے عائد کسی فرض میں کچھ کمی کروں گا۔) کا جملہ نقل ہوا ہے۔

۱۰۔ ’لا ازید علی ہذا ولا انقص‘ ‘ (میں ان میں نہ اضافہ کروں گا اور نہ کمی کروں گا)کے بعد ’منہ‘(اس میں سے) کے الفاظ مسلم، رقم ۱۱ میں نقل ہوئے ہیں۔

۱۱۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۱۷۹۲ میں ’افلح ان صدق‘ (اگر یہ سچا ہے تو فلاح پائے گا۔)کی جگہ ’دخل الجنۃ ان صدق‘ (اگر یہ سچا ہے تو جنت میں داخل ہو گا۔)کے الفاظ آئے ہیں۔ جبکہ چند روایات میں ’افلح و ابیہ ان صدق‘ (اگر یہ سچا ہے تو یہ اور اس کا باپ فلاح پائیں گے۔) کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ بظاہر سہواً نقل ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔

____________

B