HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

اہل قدر سے قطع تعلق

(مشکوٰۃ المصابیح ، حدیث :۱۰۸۔۱۰۹) 


عن عمر رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: لا تجالسوا أہل القدر ولا تفاتحوہم.
’’حضرت عمر رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اہل قدر کے ساتھ نہ بیٹھو اور نہ انھیں حاکم بناؤ۔‘‘

لغوی مباحث

لاتفاتحوہم : فتح کے معنی کھولنے، واضح کرنے اور فیصلہ کرنے کے ہیں۔ باب مفاعلہ میں آخری معنی کے اعتبار سے اس میں حکم بنانے اور فیصلہ لینے کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس سے گفتگو کا آغاز کرنے ، سلام میں پہل کرنے یا مناظرہ کرنے کے معنی لیے ہیں۔ ہمارے نزدیک پہلے معنی لفظ کے عمومی استعمال کے مطابق ہیں۔ بیان کیے گئے دوسرے معانی درحقیقت اس کے تحت ہیں ۔ اس سے مختلف یا متضاد نہیں ہیں۔

متون 

 یہ روایت تمام کتب حدیث میں کم وبیش انھی الفاظ میں روایت ہوئی ہے ۔صرف ابن ابی عاصم کی السنہ میں ’ لا تفاتحوہم‘ کی جگہ ’لا تقاعدوہم‘کے الفاظ آئے ہیں۔یہ الفاظ بھی ’لا تجالسوہم ‘کے ہم معنی ہیں۔غرض یہ کہ اس روایت کا اصلاً ایک ہی متن دستیاب ہے۔

معنی

یہ روایت جس گروہ سے متعلق ہے ، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود ہی نہیں تھا۔ چنانچہ جیسا کہ ہم روایت ۱۰۵کے تحت لکھ چکے ہیں ، مضمون ہی سے واضح ہے کہ اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت محل نظر ہے۔مزیدبراں سند کے ضعف کے باعث اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت مزید مخدوش ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ محدثین کے کام کے نتیجے میں کتب حدیث میں کا حصہ نہ بن گئی ہوتی تو اسے بطور قول رسول کے زیر بحث لانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

گمان یہ ہے کہ صحابہ اورتابعین کے زمانے میں جب یہ گروہ سامنے آیا تو اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا گیا۔ یہ روایات اسی شدید ردعمل کا ریکارڈ ہیں۔

شارحین روایت کوقرآن مجید کے ان احکامات کی قبیل سے قرار دیا ہے جو قرآن مجید میں یہود اور مشرکین کی دشمنی اور فتنہ پردازی واضح ہونے کے بعد اہل اسلام کو دیے گئے تھے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اہل اسلام کے لیے لازم ہے کہ وہ باطل اور باطل کی قوتوں کے ساتھی نہ بنیں، لیکن اہل اسلام ہی میں ظاہر ہونے والے کلامی اور فقہی گروہوں کو دشمن اسلام قرار دینامحل نظر ہے۔

کتابیات

ابوداؤد، رقم ۴۰۸۷، ۴۰۹۷۔احمد، رقم ۲۰۱۔ابن حبان، رقم ۷۹۔مستدرک، رقم ۲۸۷۔بیہقی، رقم ۲۰۶۶۲۔ ابویعلیٰ، رقم۲۴۵۔ السنہ لابن ابی عاصم، رقم ۳۳۰۔

ـــــــــــــــــــ


چھ ملعون 


عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا قالت: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: ستۃ لعنتہم ولعنہم اﷲ وکل نبی یجاب: الزائد فی کتاب اﷲ، والمکذب بقدر اﷲ، والمتسلط بالجبروت لیعز من أذلہ اﷲ ویذل من أعزہ اﷲ، والمستحل لحرم اﷲ، والمستحل من عترتی ما حرم اﷲ، والتارک لسنتی.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھ ہیں جن پر میں نے لعنت کی اور اللہ تعالیٰ نے لعنت کی۔اور ہر نبی کی دعا قبول کی جاتی ہے۔اللہ کی کتاب میں اضافہ کرنے والا، اللہ کی تقدیر کا انکار کرنے والا، زبردستی حاکم بننے والا تاکہ وہ جسے اللہ نے معزز کیا ، اسے رسوا کرے اور جسے اللہ نے رسوا کیا ، اسے معزز بنائے، اللہ کی محرمات کو حلال کرنے والا، میرے خاندان پروہ(تعدی) حلال کرنے والا جسے اللہ نے حرام کہا ہے، اور میرے طریقے کو چھوڑنے والا۔‘‘

لغوی مباحث

ستۃ : چھ ، اس کا معدود اشخاص یا اقوام محذوف ہے۔ یہ مبتدا ہے اور ’لعنتہم‘ والا جملہ اس کی خبر ہے۔نکرۂ موصوفہ اس صورت میں بھی مبتدا بن جاتا ہے جب اس کی صفت محذوف ہو۔

الزائد فی کتاب اﷲ: قرآن مجید میں ایسی بات داخل کرنے والا جواس میں نہ ہو۔ یہ اضافہ لفظی بھی ہو سکتا ہے اور معنوی بھی۔

المتسلط بالجبروت: ’تسلط‘ کے معنی غالب آنے ، قبضہ کرنے اور قدرت حاصل کرنے کے ہیں۔ یہاں یہ اقتدار میں آنے کے معنی میں ہے ۔ ’جبروت‘ ’جبر‘ سے ’فعلوت‘ کے وزن پر ہے اور اس میں مبالغے کا مفہوم بھی ہے۔ اس کے معنی قہرو جبر کے ہیں۔

عترتی: میرا خاندان ۔ ’عترۃ‘ کا اطلاق قریبی اعزہ و اقارب پر ہوتا ہے۔

متون

 یہ روایت معمولی فرق کے ساتھ کتب حدیث کا حصہ بنی ہے۔ مثلاً یہ کہ ایک روایت میں ترتیب بیان قدرے مختلف ہے۔ ایک روایت میں نبی کے ساتھ ’ مجاب‘ کی صفت کا اضافہ ہے۔ ایک روایت میں ’قدر‘کی جگہ اس کی جمع ’اقدار‘کا لفظ آیا ہے ۔ اسی طرح ایک روایت میں ’المتسلط‘ کے بدلے میں ’المسلط‘ کالفظ آیا ہے۔اس روایت کے کسی متن میں کوئی معنی خیز کمی بیشی نہیں ہے۔

معنی

ہمارا دین کے ساتھ تعلق ہمارے کردارمیں جو بنیادی خصوصیات پیدا کرتا ہے ، یہ روایت ان سے انحراف کی صورتوں کو واضح کرتی ہے۔

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہدایت ہے۔ قیامت تک کے لیے اب یہی حق کے پہچاننے کی کسوٹی اور خدا کی مرضیات کو جاننے کا ذریعہ ہے۔ اس میں لفظی یا معنوی تحریف درحقیقت ایک طرف لوگوں کے لیے سامان گمراہی کی فراہمی ہے اور دوسری طرف دین سازی ہے اور ان دونوں جرموں کی شناعت کسی توضیح کی محتاج نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ایک حی وقیوم خدا کے ساتھ تعلق ہے۔ ہم یہ بات جانتے اور مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کو براہ راست دیکھ اور چلا رہے ہیں۔یہ ایک علیم و حکیم پروردگار کی کائنات ہے۔ اس میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے ، سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور وہ اپنی حکمت کے مطابق ہونے والے کو ہونے دیتے اور جسے چاہتے ہیں ، روک دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے جسے تقدیر کے لفظ سے روایات میں واضح کیا گیا ہے ، جو شخص اسے نہیں مانتا اس کے اللہ تعالیٰ پر ایمان کی کوئی حقیقت نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے مشاورت کو اسلام کے اجتماعی نظام کا اصل الاصول قرار دیا ہے۔اقتدار میں تبدیلی کا عمل بھی مشاورت کے تحت ہے۔ چنانچہ زبردستی اقتدار پر قبضہ کرنے والا اس اصول سے انحراف کرتا ہے۔ اس کی یہ روش اس بنیادی قدر کے انہدام کا باعث بنتی ہے جس میں اجتماعی زندگی کی تمام برکات مضمر ہیں۔ مزید براں اس کا اگلا جرم یہ ہے کہ اقتدا رکے اصل حق داروں کا حق تلف کرتااور کچھ دوسروں کو وہ مناصب دے دیتا ہے جو اس کے حق دار نہیں تھے۔ علاوہ ازیں اس کارروائی میں بسا اوقات کچھ جانیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ یہ قتل کسی قانونی استحقاق کے بغیر ہوتا ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس جرم کی سزا قرآن مجید کی رو سے ابدی جہنم ہے۔یہ اور اس طرح کے دوسرے پہلو ہیں جو اقتدار کے حصول کے لیے کی گئی اس کارروائی کو انتہائی سنگین جرم بنا دیتے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واضح ارشاد کے باوجود خلافت راشدہ کے بعد سے لے کر آج تک کی ہماری تاریخ اقتدار پر زبردستی قبضہ کرنے والوں ہی کی تاریخ ہے۔

اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کر لینا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑنا دین سے انحراف کے مترادف ہے۔ ظاہر ہے جس نے دین کو چھوڑ دیا ، وہ لعنت کے علاوہ کس چیز کا مستحق ہو سکتا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں کا احترام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہمارے دل میں موجود محبت اور عقیدت کے جذبات ہی کی توسیع ہے۔ یہ محبت اور عقیدت کو ئی معمولی چیز نہیں ہے ۔ یہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق کی صحیح اساس ہے۔ اس سے ہمارا ایمان قوت پاتا اور ہمارا عمل اسوۂ رسول کی پیروی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے بارے میں کوئی بری روش نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق میں کمی کی قیمت پر اختیار کی جاسکتی ہے۔ یہی چیز اسے شنیع بنا دیتی ہے ۔بعض شارحین نے عترت سے خانوادۂ علی رضی اللہ عنہ مراد لیا ہے۔ہمارے نزدیک اس تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

کتابیات

  ترمذی، رقم۲۰۸۰۔ابن حبان، رقم ۵۷۴۹۔ المستدرک ، رقم ۹۳، ۱۰۲، ۷۰۱۱، ۳۹۴۱ ۔

ـــــــــــــــــــــــ

B