HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : کوکب شہزاد

متفرق مضامین

عید الاضحٰی

شوال کے مہینے کی پہلی تاریخ کو عید الفطر اور ذی الحجہ کی ۱۰ تاریخ کو عید الاضحی یعنی قربانی کی عید منائی جاتی ہے۔ یہ دونوں دن اسلام میں خوشی کے دن ہیں، جن میں دودو رکعت نماز بطور شکر کے پڑھی جاتی ہے۔

زمانۂ جاہلیت میں اہل مدینہ کے لیے دو دن خوشی کے مقرر تھے جن میں وہ لہو ولعب میں مشغول ہوتے تھے اور خوشیاں منایا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک دن ’’نو روز‘‘کا تھا اور دوسرا دن ’’مہرجان ‘‘کا ۔ نو روز کے دن آفتاب برج حمل میں جاتا ہے اور مہر جان کے دن برج میزان میں داخل ہوتا ہے ۔ ان دونوں دنوں میں آب وہوا چونکہ معتدل ہوتی ہے اور رات دن برابر ہوتے ہیں، اس لیے ان دنوں کو لوگوں نے خوشی منانے کے لیے مقرر کر رکھا تھا۔ جب اہل مدینہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھیں ان دنوں سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان دنوں سے بہتر دن عنایت فرمائے ہیں ، تم عیدین کے ان بابرکت دنوں میں خوشی مناسکتے ہو۔

عید الاضحی یعنی قربانی کی عید کا فلسفہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے خواب کو حکم خداوندی سمجھتے ہوئے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے پر تیار ہوگئے ۔سورۂ صا فا ت میں ہے:

’’پس جب وہ اس کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچا اس نے کہا ،اے میرے بیٹے ، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کررہا ہوں تو غور کر لو تمھاری کیا رائے ہے۔ اس نے جواب دیاکہ اے میرے باپ ، آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اس کی تعمیل کیجیے۔آپ ان شاء اللہ مجھے ثابت قدم پائیں گے۔پس جب دونوں نے اپنے تئیں اپنے رب کے حوالے کر دیا اور ابراہیم نے اس کو پیشانی کے بل پچھاڑ دیا اور ہم نے اس کو آواز دی:اے ابراہیم ،بس، تم نے خواب سچ کر دکھایا۔بے شک ہم خوب کاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں۔بے شک یہ کھلا ہوا امتحان تھا اور ہم نے اس کی ملت پر پچھلوں میں ایک گروہ کو چھوڑا۔ سلامتی ہو ابراہیم پر اسی طرح ہم خوب کاروں کو صلہ دیتے ہیں۔‘‘ (۱۰۲ ۔ ۱۱۰)

حضرت ابراہیم کی اس امتحان میں کامیابی کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے ۔ اس کی تحسین اللہ تعالیٰ نے ’’قد صدقت الرؤیا‘‘ کے شان دار الفاظ سے کی۔ہم مسلمان اپنے جدامجد کی اپنے رب کے حضور تسلیم ورضا کی علامتی پیروی میں ہر سال اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کرتے ہیں ۔ اس موقع پر یہ لازم ہے کہ اپنے رب کے آگے تسلیم ورضا کے تجدیدعہد کے لیے ہم شعوری طور پر ایسا کریں۔

عید الفطر کے موقع پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم طاق عدد میں کھجوریں کھاتے تھے ، البتہ عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے بعد کچھ تناول فرماتے، کیونکہ غربا ومساکین کو گوشت تو قربانی کے بعد ملتا ہے ، اس لیے نبی کریم خود بھی کھانے پینے میں تاخیر کرتے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرے کے پس ماندہ طبقے کی عزت و احترام اور دل جوئی اسلام کی اولین ترجیح ہے۔ احادیث نبوی کی روشنی میں ہم نماز عیداور قربانی کے بارے میں ضروری باتیں یہاں درج کر رہے ہیں :

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب عیدکے دن عید گاہ تشریف لے جاتے تو واپس دوسرے راستے سے آتے تھے۔‘‘ (دارمی)

عید گاہ جاتے ہوئے راستے میں تکبیر یعنی ’اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر ، لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد‘ پڑھتے رہنا چاہیے۔

حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عبداللہ سے روایت ہے :

’’نہ عیدالفطر کی نماز کی اذان دی جاتی ہے اور نہ بقر عید کی نماز کی۔‘‘ (مسلم)

عیدین کی نماز دو رکعت ہے جس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نماز پڑھنے والا پہلی رکعت میں تکبیر کہہ کر ہاتھ باندھ لے اور ثنا پڑھ کر تین تکبیریں کہے ،تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ کر سورۂ فاتحہ اور کوئی دوسری سورہ پڑھے۔ دوسری رکعت میں رکوع میں جانے سے پہلے تین تکبیریں کہے اور چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور دوسری رکعت مکمل کر لے۔عیدین کی نماز میں خطبہ نماز کی ادائیگی کے بعد ہوتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو جمعہ اور عیدین کی نماز میں شریک ہونے کی بہت تلقین کی ہے اور کسی عذر کے لاحق ہونے کی صورت میں فرمایا کہ کم از کم خطبہ ہی سن لیا کرو ، اس طرح دین کے بارے میں آگہی پیدا ہوتی ہے۔

حضرت جابر بیان کرتے ہیں :

’’ میں عید کے دن حضور اکرم کے ہمراہ نماز میں شریک ہوا ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان وتکبیر کے بغیر خطبہ سے پہلے نماز شروع فرمائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو (خطبہ کے لیے) حضرت بلال کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد وتسبیح بیان فرمائی ۔ لوگوں کو نصیحت کی اور انھیں عذاب وثواب (کے احکام ) یاد دلائے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنے کی ترغیب دلائی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے حضرت بلال بھی آپ کے ساتھ تھے ۔آپ نے عورتوں کو اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا،ان کو نصیحت کی اور انھیں عذاب وثواب (کے احکام )یاد دلائے۔ ‘‘ ( نسائی)

قربانی چونکہ خدا کے سامنے تسلیم ورضا اور اس کی اطاعت کا علامتی اظہار ہے ، اس لیے ان احساسات کو شعوری طور پر الفاظ میں بھی ادا کرنا چاہیے۔قرآن مجید میں ہے :

’’اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون ، بلکہ اس کو صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ (الحج۲۲: ۲۲۔۳۷)

حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح کے دن دودنبے ذبح کرنا چاہے ۔ آپ نے ان کا رخ قبلہ کی طرف کیا اور یہ دعا پڑھی:

انی وجھت وجھی للذی فطر السموات والارض علی ملۃ ابراھیم حنیفاً وما انا من المشرکین ان صلاتی ونسکی و محیای ومماتی للّٰہ رب العالمین لا شریک لہ و بذلک امرت وانا من المسلمین اللھم منک ولک . (ابو داؤد)
’’میں اپنا منہ اس ذات کی طرف متوجہ کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا،اس حال میں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں جو توحیدکو ماننے والے تھے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز،میری تمام عبادتیں، میری زندگی،اور میری موت (سب کچھ) اللہ ہی کے لیے ہے جوتمام جہانوں کا پروردگار ہے اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمان ہوں۔اے اللہ یہ قربانی تیری عطا سے ہے اور خالص تیری ہی رضا کے لیے ہے۔‘‘

اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کے لیے بہترین جانور کا انتخاب کرنا چاہیے۔حضرت علی فرماتے ہیں:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم (قربانی کے جانورکی )آنکھ اور کان کو اچھی طرح دیکھ لیں(کہ ایسا کوئی عیب اور نقص نہ ہوجس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو)۔‘‘ (ترمذی)

عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے جانور کو نماز کی ادائیگی کے بعد ہی ذبح کرنا چاہیے، نماز سے پہلے جانور کوذبح کرنا جائز نہیں ہے ۔ اس سلسلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت ہے:

’’حضرت جندب ابن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں عید قربان کے موقع پر نبی کریم کے ساتھ (عید گاہ ) حاضر ہوا ،ابھی آپ نمازاور خطبہ سے پوری طرح فارغ نہیں ہوئے تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ قربانی کا گوشت رکھا ہے اور نماز پڑھنے سے پہلے ہی قربانی ہوگئی ہے ، آپ نے فرمایاکہ جس نے قبل اس کے کہ نمازپڑھے ،(جانور) ذبح کردیا ، اسے چاہیے کہ وہ اس کے بدلے میں دوسرا جانور ذبح کرے۔‘‘ (مسلم)

عیدالاضحی کے موقع پر سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو دیا جاسکتا ہے؟

قربانی کا گوشت معاشرے کے تمام غربا ،مساکین ،اور مستحق لوگوں کو دیا جاسکتا ہے ، چاہے وہ مسلم ہوںیا غیر مسلم کیونکہ غیر مسلم بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔قرآن مجید اور احادیث میں جہاں بھی صدقہ و خیرات کی ترغیب دی گئی ہے ، وہاں مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ۔سورۂ بقرہ میں ہے:

’’وہ اپنے مال ،اس کی محبت کے باوجود،قرابت مندوں،یتیموں،مسکینوں،مسافروں،سائلوں اور گردنیں چھڑانے یعنی (غلام آزاد )کرنے پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (۲: ۱۷۷)

جب ہم اس طرح کسی غیر مسلم کو اپنی خوشیوں میں شریک کریں گے تو ان کے دل میں قربانی کے فلسفے کو جاننے اور اسلام کے پیغا م سمجھنے کی ترغیب پیدا ہو گی۔ اور یہ چیز اسلام کی طرف دعوت دینے کا محرک بھی بن سکتی ہے۔

بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اگر قربانی کا جانور ذبح کرنے کے بجائے اتنے ہی پیسے کسی غریب کو دے دیں تو اس میں کیا قباحت ہے ؟ اس بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ صدقہ وخیرات کے لیے پورا سال ہوتا ہے ،جب بھی کوئی ضرورت مند ہمارے سامنے آئے،ہمیں اپنے حالات ووسائل کے مطابق اس کی مددکرنی چاہیے۔اس کا اللہ کے ہاں بڑا اجر ہے،قربانی تو در حقیقت حضرت ابراہیم کی سنت کی پیروی میں تجدید عہد ہے کہ ہم اپنے رب کی اطاعت اور تسلیم ورضا کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔

                                   کوکب شہزاد

_______


دانش سرا کا پیغام

میں نے زندگی میں، اپنے والد سمیت، بہت سے جنازوں کو کندھا دیا ہے ، مگرکسی نے میری کمر اس طرح نہ توڑی جس طرح پچھلے دو جنازوں نے توڑ ڈالی۔ پہلا جنازہ چھ ماہ کی ایک معصوم بچی کا تھا۔ وہ زندہ میری گود میں آتی تو ایک پھول کی طرح بے وزن محسوس ہوتی۔ مگر جب میں مسجد سے باہر اس کا مردہ جسم اپنے ہاتھوں میں اٹھائے کھڑا تھا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ گویا ایک پہاڑ ہے جس کے تحمل کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی ہے۔ قبرستان کے سناٹے میں اس معصوم کے روتے ہوئے باپ کو دیکھ کر دل پھٹتا تھا۔سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس نوجوان حافظِ قرآن کو کیسے تسلی دوں۔ اگر کوئی بیماری ، کوئی ناگہانی آسمان سے آئی ہوتی تو صبر کی تاکید کرتا۔ اس بچی کو تو جاہل مسیحاؤں اور ان کی غفلت نے مارا تھا۔ صبح جس ہسپتا ل میں اسے حصول شفا کے لیے لے جا یا گیا، وہاں کے قاتل مسیحاؤں نے ایک غلط انجکشن لگا کر اس معصوم کو اپنے ہاتھوں موت کے حوالے کردیاتھا۔

ایسی ہی کچھ کیفیت میری اس وقت تھی جب چند دن بعدمیں ایک اور قبرستان میں کھڑا تھا۔ میرے کندھے اس بیس سالہ نوجوان کے جنازے کو کندھا دینے کے بعد شل ہوچکے تھے، جسے اب قبر میں اتارا جارہا تھا۔ وہ صبح سویرے اپنی بہن کو اسکوٹر پر کالج چھوڑنے گیا تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ واپسی کا سفر موت کا سفر ہوگا۔ جب خدا و قانون سے بے خوف اور سڑک کے قواعد سے جاہل و بے پروا ایک ویگن ڈرائیور نے اسے کچل ڈالا۔ وہ ڈرائیور بھاگ نکلا۔میں جھلستی ہوئی دھوپ میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ ٹرانسپورٹ مافیا کے زر پرستوں نے اسے ڈرائیونگ کے صرف دو آداب سکھائے ہوں گے۔ حادثہ سے پہلے گاڑی بھگایا کرو اور حادثے کے بعد خود بھاگ جایا کرو۔ایسے میں اس نوجوان کے بھائی کی آسمان تک بلند چیخیں میرے کانوں میں پڑیں۔ میرا افسردہ وجود اور دکھی ہوگیا۔وہ روتے روتے بے ہوش ہوگیا اور میں اوپر آسمان کو دیکھنے لگا۔ زمین پر دیکھنے کے لیے رکھا ہی کیا ہے بجز غربت و جہالت اور ان کے المناک نتائج کے۔

میں سوچتا ہوں کہ خدا نے مجھے لکھنے اور بولنے کی صلاحیت دی ہے۔ اس قوم میں نمایاں مقام حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ میں امریکا وروس اور یہود و ہنود کے ان مظالم کا پرچارک بن جاؤں جو وہ مسلمانوں پر ڈھارہے ہیں۔میرا قلم ان کے خلاف زہر اگلے اور میری زبان ان پر شعلے برسائے۔ میں کشمیر،فلسطین ،افغانستان اور چیچنیا کے مسلمانوں کا مرثیہ لکھوں۔ مسلمانوں کا لہو گرماؤں، جذبۂ جہاد پیدا کروں اور شوقِ شہادت بیدار کروں۔ خطابت پسند اور جذبات گزیدہ اس قوم میں ایسی باتوں کی بڑی مانگ ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس خدا نے قلم و بیان دیا ہے اسی نے مجھے فکر ونظرسے بھی نوازاہے ۔

یہ فکر و نظربتاتا ہے کہ جتنے مظالم مسلمانوں پر غیر مسلم ڈھارہے ہیں ، اس سے کہیں زیادہ ستم مسلمانوں پر ان کے اپنے بھائیوں کے ہاتھوں ہورہے ہیں۔ یہ قوم جتنی اپنے ہم قوموں کے ہاتھوں ستائی جارہی ہے ، اس کا عشرِ عشیر بھی غیروں نے نہیں کیا ۔جان ، مال ، عزت و آبرو جس طرح اپنے برباد کررہے ہیں ، اس کا کوئی حصہ بھی غیروں نے پامال نہیں کیا ۔ کہیں ہوس زر میں اور کہیں ہوس اقتدار میں، کہیں جہالت سے مغلوب ہوکر اور کہیں غربت سے تنگ آکر، کہیں اخلاق سے محرومی کی بنا پر اور کہیں دین سے ناواقفیت کے سبب، کہیں جان بوجھ کر اور کہیں انجانے میں۔

جان کا قصہ تو سن لیا۔ کرپشن زدہ معاشرے کے باسیوں کومال کا قصہ سنانے کی ضرورت نہیں۔ اب ان دونوں سے زیادہ قیمتی شے کی داستان سن لیں آبرو جس کی خاطر جان مال سب لٹادیا جاتا ہے۔ عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمہ کے دن پر جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مملکت خدا داد پاکستان میں ہر دو گھنٹے بعد ایک بیٹی بے آبرو کردی جاتی ہے۔ یاد رہے یہ اس معاشرے کا بیان ہے جہاں جان و مال لٹ جانے کا سانحہ تو رپورٹ ہوجاتا ہے ، مگر آبرو لٹنے کا معاملہ پولیس کچہری تو کجا ہم دردوں تک بھی لے جانے کا رواج نہیں۔حقیقت کا بیان تو اس قدر بھیانک ہوگا کہ سوچ کر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔تاہم زیادہ بڑا سانحہ یہ ہے کہ اس گھناؤنے فعل کے ارتکاب کے لیے ہندو، یہودی، روسی یا امریکی باہر سے نہیں درآمد کیے جاتے۔ قوم کی یہ خدمت اپنے ہم قوم و ہم مذہب خود سر انجام دے رہے ہیں۔

اس قوم میں بڑے لیڈر اور دانش ور ہیں جو اخباری کاغذ کے مینار پر چڑھے قوم کو اذن جہاد دے رہے ہیں۔وہ قوم کے جذبات کو دوسری اقوام کے خلاف مشتعل کرکے خود مقبولیت حاصل کرتے اور انتہائی قیمتی نوجونوں کو’’ ایمل کاسی ‘‘بنادیتے ہیں۔ پھر یہ نوجوان تمام مسلمہ اخلاقی اور دینی اقدار کو بالاے طاق رکھ کرقتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔اور آخر کار ان لوگوں کو اپنی دکان چمکانے کے لیے ایک اور شہید ہاتھ آجاتا ہے۔

یہ لوگ نہیں بدلیں گے۔ ہم انھیں ان کے حال پر چھوڑتے ہیں۔ ہم اپنے جہاد کا رخ اس دشمن کی طرف کرتے ہیں جو ہمارے اندرسے ہمیں زیادہ بڑا نقصان پہنچارہا ہے۔ یہ دشمن جہالت ہے، غربت ہے، اخلاقی اقدار سے غفلت ہے، صحیح دینی علم سے بے رغبتی ہے۔ ہر وہ شخص جسے خدا نے شعور کا ایک ذرہ بھی عطا کیا ہے، اس پر فرض ہے کہ وہ ہمارا ساتھ دے۔ اس طرح کہ وہ اپنے گھر، اپنے محلے، اپنے حلقے، اپنے دفتر اور ہر اس جگہ جہاں اس کی بات سنی جاسکتی ہے ، وہ یہ پیغام پہنچائے کہ ہمارادشمن ہمارے اپنے اندر ہے۔ ہمیں ہر سطح پر اس دشمن کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ جب ہم یہ کرلیں گے تو ہمارے بیرونی دشمن بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اور اس کے بغیر ہمارے دشمنوں کو ہمارا کچھ بگاڑنے کی ضرورت نہیں۔ ہم اپنی صورت آپ بگاڑنے کے لیے بہت ہیں۔

یہ شعور و آگہی کا پیغام ہے۔یہ عقل و دانش کا پیغام ہے۔ یہ ’’دانش سرا‘‘ کا پیغام ہے۔

                               ریحان احمد یوسفی

_______


کثرت اختلاف و اظہار اختلاف

جب میری شادی ہوئی تو مجھے اپنے سسرال والوں کے کچھ رواج اوران کی کچھ عادتیں بہت پسندآئیں، البتہ کچھ طور طریقے میری مرضی کے مطابق نہ تھے۔میں ان کے مقابلے میں اپنے گھر کی ریت کو بہتر سمجھتا تھا۔میں نے سوچا کہ میں اپنے گھروالوں کے اچھے معمولات اور اپنے سسرال والوں کی پسندیدہ روشوں کا اختلاط کر کے بہترطور طریقوں کو رواج دوں گا، لیکن ہائے افسوس کہ واقعات میری خواہشوں کے برعکس ہونے لگے۔ہمارے گھرکے برے اطوار اور سسرال والوں کی بری رسومات میں میل ہوا اور ان کے اتحاد نے وہ کُھل کھیلا، وہ طوفان مچایا کہ اللہ پناہ!یوں امیدوں کاخاتمہ ہوا اور حسرتوں کا جنازہ نکلا۔

بالکل ایسے ہی دنیا میں ہر سو ناخوبیوں کے اتفاق اور نیکیوں کے بٹوارے کا منظر دیکھا جا سکتا ہے۔شیطان شیطان سے معانقہ کرتا ہے اور اہر من اہر من کو آواز دیتا ہے۔بندگان خدا منتشرہیں،ہرکوئی اپنی محدوددنیا میں مگن ہے۔زاہد پری رخوں کے جھرمٹ سے گھبراکراپنے کنج میں جا بیٹھا اور یاد خدا میں مصروف ہو گیا ،عالم نے عبا پہنا اور اپنی سحر بیانی سے لوگوں کا دل موہنے لگا،قاضی نے کتابوں کا پلندا اٹھایا،دفتر سجایا اور ظاہری الفاظ کوفیصلوں کا روپ دینے لگا۔رفتہ رفتہ یہ سب الگ الگ گروہ بن گئے اور ان کی نمایاں خوبیاں ان کی چھاپ بن گئیں۔یہ اپنے اپنے شعبے کو پورا دین سمجھنے لگے اوردوسرے شعبے کے افراد کوکج رو شمار کر نے لگے۔صدیاں بیتیں ا ور جتنے شعبے تھے اتنے فرقے وجود میں آ گئے۔یہ باہم برسر پیکار ہوئے اور کبھی تکفیر کا بازار گرم ہوا۔

اصلاحی تحریکوں نے اس انتشار کو مزید نمایاں کیا۔ایک تحریک کی بنیاد توحید باری تعالیٰ کے پرچار پر تھی۔اس نے بجاطور پرشرک کارد کیا، لیکن اس کی تطہیری مہم کئی مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی گئی یہاں تک کہ بڑے بڑے علماکی تحریروں میں سے مشرکانہ رنگ نکال کر دکھا دیا گیا۔یہ اکابر گزر چکے تھے،ہمارے لیے ممکن نہ تھا کہ خودان کو اپنی صفائی کاموقع دیتے۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ کار پردازان اصلاح اور ان بزرگوں کے پیروکاروں میں ٹھن گئی ، فتووں اور الزامات کی ایسی گرد اٹھی کہ ا صلاح عقائد کا مقصد غبار آلود ہو گیا۔دوسری تحریک نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کافروغ دینا اپنا نیک مقصدبنایا ، لیکن نجانے کیوں غیر مصدقہ واقعات اور چندنیک افراد کے خوا ب سنا کریہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی۔پھر یہ عاشقان رسول ، اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوئی مٹانے کے درپے ہو گئے۔ایسا ہو نہ سکتا تھا ، لہٰذا موحدین اور عاشقین میں معرکہ آرائی ہوئی ،کئی مناظرے ہوئے اور جنگ وجدال تک نوبت پہنچی۔ہر فریق نے اپنے موقف کو زبردست دلائل سے مضبوط کیااور مد مقابل کو مشرک و کافر یا گستاخ رسول ثابت کر دیا۔یوں رخ اﷲ اور نبی کا مقام متعین کرنے کی طرف پھر گیااور محبت رسول کا مقصد فروگزاشت ہوگیا ۔ ان کے بعد وحدت امت کا پرچار کرنے والے آئے۔ ان کاطریقہ تھا ،اپنے موقف کو چھوڑونہ دوسرے کوبرا بھلا کہو ۔ اسے زیادہ سے زیادہ ایک طرح کی جنگ بندی کہا جا سکتا ہے،اختلاف کی خلیج پھر بھی نہ پاٹی جا سکی۔

کیا ایسا نہ ہونا ممکن تھا ؟تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اختلافات صحابہ رضوان اﷲعلیہم کے زمانے ہی میں پیدا ہو چکے تھے۔ ان اختلافات کی وجہ سے صفین اور جمل نامی جنگیں بھی ہوئیں ۔بعد کے زمانوں میں اقتدار کے خانوادوں میں کشمکش اقتدار ہوئی،فقہی مسالک کے حاملین میں دلائل والزاما ت کاتبادلہ ہوا اور اہل سجادہ بھی ثمرات اختلاف سمیٹنے میں مصروف رہے۔اورآج کا دور تو تفرق وانتشار میں بازی لے گیا ہے۔ایک فرقے سے کئی فرقے پیدا ہو ئے، ہر جماعت کئی گروپوں میں بٹی ا ور ہر تحر یک نے کئی تحریکوں کو جنم دیا ہے۔

دیکھنا چاہیے، اختلاف پیدا کیسے ہوتا ہے ؟انسانی نفس دوسروں کی برائیوں کی کھو ج میں رہتاہے۔اس کا یہ شغف اچھائیوں کے ملنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔آس پاس کے لوگ بھی برائیوں کی طرف توجہ دلانے میں لگے رہتے ہیں،اس طرح نیکیوں کا ملنا دشوار ہو جاتا ہے۔پھر ہر آدمی کی پسند مختلف ہوتی ہے، یہ اختلاف مزا ج بھی اشیا کی اہمیت ونا اہمیت میں فرق ڈال دیتا ہے۔ کبھی انسان غلط فہمی سے کسی مسئلے کو وہ اہمیت دے دیتا ہے جو اس کی ہوتی نہیں،یوں افراط و تفریط کے شاہکار وجود میں آتے ہیں۔ اور آج کے دور کے پیشواؤں نے اپنے پیرووں کو یک رخا کر کے اختلاف کی دراڑیں بہت گہری کر دی ہیں۔ ’’اختلاف امت باعث رحمت ہے‘‘کسی کا مقولہ ہے جسے عام طور پرحدیث نبوی سمجھا جاتاہے ۔البتہ یہ قول بھی ایک معنی رکھتا ہے، اختلافِ آراسے سوچ کے دائرے وسعت اختیارکرتے ہیں اورکسی مسئلے کی گونا گوں صورتیں سامنے آ جاتی ہیں۔یہ اختلاف روا رکھا جا سکتا ہے اور مسائل کی تنقیح وتخریج کے لیے اسے فروغ دیا جا سکتا ہے۔

انبیا علیہم السلام نے جب اپنی دعوت کا آغاز کیاتو یہ ان کا اپنی قوم سے اظہار اختلاف ہی تھا۔ان کے طریقۂ اختلاف کا مطالعہ کرنے اور اپنی زندگی میں اس پر عمل کرنے سے اختلاف کی مضرتوں سے بچا جا سکتا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کو بڑے پیار سے ’ےآاَبَتِ‘ (اے ابا جان ) کہہ کر پکارااور پھر فرمایا کہ: ’’آپ شیطا ن کی بند گی نہ کیجیے۔ وہ تو خداے رحمان کا پکا نافرمان ہے۔‘‘ ان کے باپ نے دھمکی دی :’’ابراہیم ! کیا تو میرے معبودوں سے نفرت کرتا ہے ؟اگر تو باز نہ آیا تو میں تمھیں سنگ سار کرچھوڑوں گا۔‘‘ آپ سلام کر کے رخصت ہو گئے، ساتھ اﷲ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرنے کا وعدہ کیا۔جب آپ نے حسب وعدہ دعاے استغفار کی تو اﷲ کی جانب سے انھیں روک دیا گیا۔

حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دیتے ہوئے فرمایا: ’’ مجھے تمھارے اوپر ایک کڑے دن عذاب آنے کا خطرہ ہے۔ آپ کی قوم کے لیڈروں نے جواب دیا،ہمارا خیال ہے کہ آپ کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔‘‘ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی دعوت جاری رکھی اور ’وَاَنْصَحُ لَکُمْ‘ (میں تمھاری خیر خواہی کر رہا ہوں)کے الفاظ فرما کر اپنی بے غرضی ظاہر کی۔

یہی معاملہ حضرت ہود علیہ السلام کا ہوا ۔ جب آپ کی قوم نے کہا : ’’ہمارا خیال ہے کہ آپ حماقت میں مبتلا ہیں اور ہم آپ کو جھوٹے لوگوں میں شمار کرتے ہیں۔‘‘ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنے رسول ہونے کا بیان کیا اورفرمایا: ’وَاَنَا لَکُمْ نَاصِحٌاَمِیْنٌ‘(میں تمھارا خیر خواہ ہوں اور تمھیں امانت داری سے نصیحت کر رہا ہوں)۔

حضرت صالح علیہ السلام کی قوم پر زلزلے کا عذاب آیااور آپ کی دعوت کااختتام یوں ہوا: ’وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ‘(اے میری قوم ! میں نے تو تمھاری خیر خواہی کی تھی ، لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہ کرتے تھے)۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے حکم ہوا: ’’کہہ دو، میں اس (فریضۂ انذار و بشارت ادا کرنے) پر تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا ،پس محبت قرابت کا حق ہے جو ادا کر رہا ہوں۔ ‘‘

تمام انبیا علیہم السلام کو دعوت کا آغاز اپنے خاندان اور قبیلے سے کرنے کا حکم ہوا۔اسی اصول پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوا : ’’اپنے قریبی خاندان والوں کو خبر دار کرو‘‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفاپر چڑھ کر پکارنے لگے:’’ اے بنو فہر! اے بنو عدی میں تمھیں ایک سخت عذاب سے پہلے خبردار کرنے آیا ہوں۔‘ ‘ آپ نے اپنے جد عبد مناف کی اولاد، اپنے چچیرے عباس بن عبد المطلب، اپنی پھوپھی صفیہ اور اپنی بیٹی فاطمہ کو مخاطب کر کے فرمایا:’’ اپنا آپ بچا لو، میں اﷲ کے ہاں تمھارے کچھ کام نہ آ سکوں گا۔ ‘‘

ان نفوس قدسیہ نے خدائی رہنمائی کے تحت سچی خیر خواہی کے ساتھ اختلاف کیا ، لیکن ان کے مخاطبین نے اسے ذاتی مخاصمت پر محمول کیا ۔ انھوں نے اللہ کے رسولوں کے مدمقابل کی حیثیت اختیار کر لی۔اس طرح وہ اختلاف پیدا ہوا جو حل نہ ہو سکااور اس نے ٹکراؤ (Clash) کی صورت اختیار کی ۔بالآخر اللہ کے فیصلے کے مطابق رسول کامیاب ہوئے اور ان کے منکرین اپنے انجام کو پہنچے۔

انبیا علیہم السلام کی دعوت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف کرنے والے کو اپنے موقف کا صحیح پتا اور اس پر پختہ یقین ہونا چاہیے۔اسے حقائق کا صحیح علم حاصل ہونا چاہیے تاکہ اس کا علمی مغالطوں میں الجھنے کاامکان کم ہو۔ اسے اپنے مخاطب سے رنجش نہ ہو ، بلکہ وہ اس کاسچا خیر خواہ ہو۔وہ طرح طرح کے دل نشیں طریقوں سے اپنے اختلاف کو پیش کرے اور اپنے مخاطب کے دل میں گھر کر نے کی کوشش کرے۔اختلاف برائے اختلاف کبھی اچھا اثر نہیں چھوڑتا اور ہمیشہ جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے ،ہمیشہ نزاعی نکتے سے بحث کا آغاز کر تے ہیں۔ کوشش کرنی چاہیے ، ایک متفقہ اصل سے بات شروع ہو اور پھر مختلف فیہ فرع تک آیا جائے۔اختلاف کرنے والے کے سامنے ایک واضح مقصد ہو، تبھی اس کا اختلاف کار گر ہو گا۔وہ دوسروں کی برائیوں کونہ کریدے۔خود بھی دوسروں کی اچھائیوں پر دھیان دے اوردوسروں کی توجہ بھی انھی کی طرف دلائے ۔وہ اختلاف مزاج کو حق کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دے۔یہ چند نکات ہیں جنھیں ملحوظ رکھ کر اختلاف کو نتیجہ خیز بنایا جا سکتا ہے۔

                               محمد وسیم اختر مفتی

_______


ایمل کاسی کے قاتل

۱۴ نومبر ۲۰۰۲ کو سی آئی اے کے دو اہل کاروں کے قتل کے جرم کی پاداش میں ایمل کاسی کوامریکا کی ریاست ورجینیا کی جیل میں موت کی سزا دے دی گئی ۔

کوئٹہ کا ایمل کاسی سیدھا سادھا نوجوان اور سادہ دل مسلمان تھا ۔ وہ کوئی بنیاد پرست نہ تھا۔اس نے نہ کسی دینی مدرسے میں تعلیم پائی ،نہ وہ کسی جہادی تنظیم میں شامل ہو ااور نہ اسے جیتے جی کبھی کسی جنگی تربیتی کیمپ میں جانے کااتفاق ہوا ۔اس کے باوجود اس نے دو بے گنا ہ آدمیوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے ۔اس حادثے کے بعد سے لے کر موت کی دہلیز تک اس نے نہ کبھی اپنے جرم کے اعتراف میں بخل سے کام لیا اور نہ اس پر ندامت کا اظہار کیا ۔ایمل نے اس دوہرے قتل کی وجہ ان الفاظ میں بیان کی :

’’مجھے ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے دکھ کا اندازہ ہے ۔مجھے انھیں مار کر کوئی خوشی نہیں ہوئی ۔میرا نشانہ کوئی فرد نہیں، امریکی حکومت تھی ۔میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ اس کے سی آئی اے کے ملازم خود امریکا میں بھی نشانہ بن سکتے ہیں ۔میرا رد عمل مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں کے خلاف تھا۔‘‘

اس کے بیان سے بالبداہت واضح ہے کہ امریکا کی پالیسیوں کے خلاف رد عمل کے نتیجے میں اس نے یہ قتل کیے ہیں۔ ہمارے ہاں کسی شخص کے مباح الدم ہونے کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مسلمان نہ ہو۔یہ چیز قرآن مجید کی صریح نصوص اور دین کی واضح تعلیمات کے خلاف ہے ۔سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس نے کسی کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا ملک میں فساد برپا کیا ہو تو اس نے سب کو قتل کیا اور جس نے اس کو بچایا گویا سب کو بچایا۔

نہ جانے کتنے ایمل کاسی ہر روز دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں اسی طرح موت سے ہم کنا ر ہوتے ہیں ۔اور ہم مارنے والوں کو ظالم اور اپنے ایمل کاسیوں کو شہید قرار دے کر نئی ماؤں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں جو اغیار کے مقتل میں تازہ خون سے قوس قزح کے رنگ بھرنے کے لیے اپنے جگر گوشوں کو دشمنوں کی قربان گاہ میں بھیجنے کے لیے تیا ر ہو جائیں ۔اور وہ اگر اس کے لیے رضامند نہ بھی ہوں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ،ہم دنیا میں جان رائیگاں کی ادنیٰ سی قربانی کے عوض آخرت میں جنت کی ایسی تصویر کشی کرتے ہیں کہ نوجوان اپنی بوڑھی ماؤں کو بے سہارا ، اپنی ناتواں بہنوں کو بے بس اور اپنے معصوم بیوی بچوں کو بے یارو مدد گار چھوڑ کر ہماری بنائی ہوئی خیالی جنت کو خدا کی جنت سمجھ کر دیوانہ وار اس کی طرف لپکتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ خدا کے بندوں کے جتنے حقوق ہم نے پامال کیے ہیں ،خداا س عظیم قربانی کے عوض انھیں نہ صرف معاف کردے گا ، بلکہ شاباش دے گا کہ تمھارا یہ اقدام اگرچہ دین کے احکام اور شریعت کے تقاضوں کے خلاف تھا، مگر تم نے چونکہ بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے ،اس لیے تمھاری ساری بے ضابطگیا ں اور بے اصولیاں معاف کی جاتی ہیں اور اب تمھا را ٹھکانا جنت ہے ۔

پانچ سال تک امریکی جیلوں کی سختیاں جھیلنے کے بعد ایمل کاسی کو زہر کے تین ٹیکوں کے ذریعے سے موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا ۔اسے موت کی سزا بظاہر امریکا نے دی ، مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کی موت کے پروانے پر دستخط کرنے والے اصلاً ہم مسلمان ہیں ۔ہم نے دین کا جو تصور اپنی نوجوان نسل کو دیا ،اس کے مطابق ایمل کا سی کو وہی کرنا چاہیے تھا جو اس نے کیا۔ اور اس کا جو انجام ہوا ،ہم نے اسی کے لیے اسے تیار کیا تھا۔ ہم نے اسے یہی بتایا تھا کہ کافر کو اس کی معصومیت اور بے گناہی کے باوجود قتل کرنا نہ صرف جائز ، بلکہ خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے ۔اس پر ستم یہ ہوا کہ ایمل جب ہمارے تصور دین کے مطابق دو کافروں کو جہنم واصل کرنے کے بعد کامیابی سے دیار غیر سے فرار ہو کر اپنے وطن پاکستان پہنچ گیا تو ہم نے اسے بیس لاکھ ڈالروں کے عوض ڈیرہ غازی خان کے ایک ہوٹل سے گرفتار کرایا اور مقتول کے ورثاکے حوالے کر دیا۔اور جب قاتل کے لیے اولیاے مقتول کافیصلہ امریکا کی حکومت نے نافذ کر دیا تو ہم نے ظالم امریکا کے جرائم کی فہرست میں ایک اور جرم کا اندراج کرکے اپنے شہید کو خراج تحسین پیش کیا اور اس کی لاش کو امریکا کی ناپاک زمین سے لاکر اپنے وطن کی پاک سر زمین کی لحد میں اتار دیا۔

                               محمد اسلم نجمی

_______


بسنت

ہر سال موسم بہار شروع ہوتے ہی بسنت کا تہوار منایا جاتا ہے۔اس کے پس منظر میں یہ سوچ ہوتی ہے کہ سردی کے موسم سے ٹھٹھرتی ہوئی زندگی کو قرار مل گیا ہے۔ بے لباس درختوں نے سبزے اور رنگوں کا پہناوا اوڑھ لیا ہے۔سرسوں کے پیلے پھول اپنی خوش نمائی کے جلوے دکھا رہے ہیں،لیکن ہمارے ہاں اس تہوار کو منانے کی روایت منفرد ہے۔مہینوں پہلے اس کی تیاری کے لیے تیز ڈوروں اور پتنگوں کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ فائیو اسٹار ہوٹل سیاحوں اور دور دراز سے آئے ہوئے مہمانوں سے بھر جاتے ہیں۔ ان کی چھتیں پتنگ بازوں کی اڑان،موسیقی ،نعرے بازی اور فائرنگ کے لیے سجائی جاتی ہیں۔قطع نظر اس کے کہ یہ تہوار ہندووانہ ہے یا موسمی ؛ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا کسی بھی قوم کے لیے اس طریقے سے کوئی تہوار مناناباوقار اور شایستہ بات ہے؟کیا کوئی باذوق اور مہذب انسان اس طرح کی نعرہ بازی اور فائرنگ کو اپنی خوشی کے اظہار کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

اسلام نے ہر خوشی اور تہوار کے موقع پرغریبوں اور ضرورت مندوں کو شریک کرنے کی تلقین کی ہے ، لیکن اس تہوار میں شریک ہونے کے لیے غربا کبھی چھتوں سے گرتے ہیں اور کبھی پتنگ لوٹنے کے لیے گاڑیوں کے نیچے کچلے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ موٹر سائیکل اور سائیکل پر سفر کرنے والوں اور پیدل چلنے والوں کی گردنیں تیز ڈور سے زخمی ہوجاتی ہیں۔

اس تہوار کو منانے کے لیے ایک بڑا منطقی استدلال یہ کیا جاتاہے کہ اس سے ہزاروں لوگوں کو معاشی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ بے روز گاروں کو روزگار ملتا ہے ، لیکن اس پر غور کیوں نہیں کیا جاتا کہ اس دن کتنی ماؤں کی گود ویران ہوتی ہے اور کتنی عورتوں کا سہاگ اجڑتا ہے ؟

عرب جاہلیت کی سوسائٹی میں جوئے اور شراب کا بہت رواج تھا، جب شمال کی ٹھنڈی ہوائیں چلتیں اور ملک میں قحط کی حالت پیدا ہوتی تو عرب کے سخی اور فیاض لوگ مختلف جگہوں پر اپنے حلقے بناتے ، خوب شراب پیتے اور پھر شراب کی مدہوشی میں جس کسی کے اونٹ یا اونٹنی کو چاہتے ذبح کرتے،پھر اس کے مالک کو منہ مانگے دام دیتے اور اس کے گوشت پرجوا کھیلتے۔ ہر شخص جتنا گوشت جیتتا،وہ اسے غریبوں اورضرورت مندوں میں بانٹ دیتا۔

مولانا امین احسن اصلاحی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’جوئے اور شراب کا یہ پہلو تھاجس کی وجہ سے عرب جاہلیت کی سوسائٹی میں ان کا شمار فیاضی اور سخاوت کے خصائص اور خدمت خلق اور ہمدردیِ غربا کے محرکات میں سے ہوتا تھا ۔ چنانچہ جب قرآن نے انفاق اور ہمدردیِ غربا پر بہت زور دیا تو بعض لوگوں کے ذہن میںیہ سوال پیدا ہوا کہ جب اسلام غریبوں اور یتیموں کی ہمدردی اور ان کی امداد کے لیے مال خرچ کرنے پر اتنا زور دیتا ہے تو آخر جوئے اور شراب میں کیا خرابی ہے جو قحط کے زمانے میں غربا کی امداد کا ذریعہ بنتے ہیں۔ قرآن نے ان کے سوال کا جواب دیا:
’’وہ شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں،کہہ دو ان دونوں چیزوں کے اندر بڑا گناہ ہے اورلوگوں کے لیے فائدے بھی ہیں ، لیکن ان کا نقصان ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔‘‘(البقرہ ۲ : ۲۱۹)
یعنی اس میں شبہ نہیں کہ ان چیزوں سے سوسائٹی کو بعض اعتبارات سے کچھ فائدے تو ضرور پہنچ جاتے ہیں ، لیکن ان سے فرد اور سماج ، دونوں کو جو مادی اور اخلاقی نقصانات پہنچتے ہیں ، وہ ان کے فوائد کی نسبت سے بہت زیادہ ہیں۔ اس وجہ سے اسلام نے انھیں حرام قرار دیا ۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۰۵)

کیا ہم عالم کے پروردگار کی اس ابدی ہدایت کی روشنی میں بسنت جیسے تہوار کا جائزہ لینے کے لیے تیار ہیں جس کے نقصانات اس کے فائدے سے بڑھ کر ہیں۔

                               کوکب شہزاد

_______


یاددہانی

ہم لوگ اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ دلوں کے سکون کے لیے قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتے ہیں ۔ ہم میں سے اکثر لوگ نمازو روزہ کے پابند ہیں ، لیکن اگر اپنے اندر جھانک کر دیکھیں تو ہمارا روحانی وجود اتنا مطمئن اور پرسکون نہیں جتنا کہ ایک بندۂ مومن کا ہونا چاہیے ۔ یہ بے چینی اور اضطراب کیا ہے ۔ ہر وقت کچھ کھو جانے کا اندیشہ کیوں ہے ۔ رمضان کے مہینے میں جب انسان کو اپنا تزکیہ کرنے اور اپنے رب سے قریب ہونے کے بہت سے مواقع ملتے ہیں تو مجھے بھی اس نفسیاتی الجھن پر غور کرنے کا موقع ملا اور میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ہم کہتے تو ہیں کہ ہم اللہ کے بندے ہیں ، لیکن ہم عبودیت کا حق ادا نہیں کرتے ، ہم نعمت ملنے پر شکر کے الفاظ تو ادا کرتے ہیں ، لیکن اس نعمت پر اپنا ہی استحقاق سمجھتے ہیں اور دل میں اس نعمت کو اپنی صلاحیت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔

ہم کہتے تو ہیں کہ یہ دنیا آزمایش کی جگہ ہے ، لیکن کبھی زندگی کو آزمایش نہیں سمجھتے ۔ دنیوی کامیابیوں کے حصول میں اس قدر مشغول ہوتے ہیں کہ آخرت ایک تصوراتی چیز بن کر رہ جاتی ہے ، دنیوی فائدے کے لیے بڑی سے بڑی قیمت ادا کرنے پر تیار ہو تے ہیں ، لیکن آخرت کی کامیابی کے لیے تھوڑا سا بھی نقصان برداشت کرنے کو تیار نہیں ۔ دنیوی حرص و ہوس اپنی ذات کی حد تک محدود نہیں ہوتی ، بلکہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ اتنا مال ہو کہ ہمارے بعد ہماری اولاد اور پھر کئی نسل تک جمع کر لیں ۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس دنیوی زندگی میں صرف اللہ کے بندے بن کر رہیں ۔ اس کی پسند کے رنگ میں رنگے جائیں اپنی ذات پر اپنے رب کے کنٹرول کو اتنا مضبوط کر لیں کہ وہ جہاں روکے وہاں رک جائیں ا ور جہاں چلائے وہاں چل پڑیں اور ’راضیۃ مرضیۃ‘ کے اس مقام کو پا لیں جہاں کچھ اور پانے کی تمنا نہ رہے ، اپنے بچوں کے لیے دنیوی کامیابیوں کی دعا ضرور کریں ، لیکن اصل پیش نظر ان کی آخرت کی کامیابی ہو ’ فلیتنافس المتنافسون‘ کا میدان یہ دنیا نہیں ، بلکہ آخرت ہو۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’تم میں سے بہتر وہ ہے جس نے اپنا مال صدقہ و خیرات کر کے آگے بھیج دیا ، جو وارثوں کے لیے چھوڑا اس میں اس کا کچھ نہیں ۔‘‘

کوشش کریں کہ آخرت میں وہ موقع نہ آئے جب یہ کہا جائے گا :

’’مجرم تمنا کرے گا کہ کاش! اس دن کے عذاب سے چھوٹنے کے لیے اپنے بیٹوں، اپنی بیوی، اپنے بھائی اور اپنے اس کنبہ کو جو اس کی پناہ رہا ہے اور تمام اہل زمین کو فدیہ میں دے کر اپنے کو بچا لے۔‘‘(المعارج ۷۰: ۱۱۔۱۴

                               کوکب شہزاد

____________

B