HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر شہزاد سلیم

متفرق سوالات

قسمت کا حال پوچھنا

سوال: اکثر یہ سننے میں آیا ہے کہ بعض لوگ مستقبل کی خبریں صحیح صحیح بتا دیتے ہیں۔ کیا اللہ نے انسانوں کو ایسی کوئی خاص صلاحیت عطا کی ہے اور کیا اسلام ایسی باتوں کی اجازت دیتا ہے؟کیا یہ ضروری ہے کہ ہم ایسے لوگوں پر یقین کریں اور ان کی نصیحت پر عمل کریں؟

جواب: مستقبل کے احوال بتانے کے علم نے ابھی سائنس کا درجہ حاصل نہیں کیااور نہ ایسا ہونے کی امید ہے ۔ ہمیں یہ بات کائنات کے بارے میں اللہ کی اسکیم کے خلاف محسوس ہوتی ہے۔ اللہ نے انسانوں کو اس دنیا میں آزمایش کے لیے بھیجا ہے ۔ اگر کسی شخص کو یہ علم ہو جائے کہ کل اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے تو اس شخص کے لیے تو آزمایش کا پہلو یقیناًختم ہو جائے گا۔ وہ لوگ جن کے بارے میں ہمیں یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کے پاس مستقبل بینی کا کوئی خاص فن ہے ، وہ اپنی پیشین گوئیوں کی عمارت بالعموم قیاسات پر استوار کرتے ہیں ۔ بعض اوقات ان کے اندازے سچ بھی ثابت ہو جاتے ہیں۔

بہتر یہ ہے کہ اس قسم کے لوگوں سے اجتناب کریں اور کوشش کریں کہ ہمیشہ اپنے فیصلے عقل وشعور اور مضبوط دلائل کی بنیاد پر کریں۔بصورت دیگر ہم توہمات کا شکار ہو کر رہ جائیں گے اور توہمات بہر حال انسان کا تعلق اللہ سے کمزور کر دیتے ہیں۔


نا مناسب ٹی وی پروگرام

سوال : ٹی وی پروگراموں میں بعض اوقات نیم عریاں لباس اور غیر شایستہ زبان استعمال کی جاتی ہے۔میرا انھیں دیکھنے کا مقصد کسی سفلی جذبے کی تسکین نہیں ، بلکہ محض تفریح ہوتا ہے۔کیا اسلام ایسے پروگرام دیکھنے کی اجازت دیتا ہے؟

جواب: اسلام چاہتا ہے کہ انسان ممکن حد تک پاکیزہ زندگی گزارے ، کیونکہ اللہ کی جنت میں پاکیزہ نفوس ہی داخل ہو سکیں گے ۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ہر اس عمل سے باز رہیں جو ہمارے تزکیہ میں رکاوٹ بنے ۔ چنانچہ ہمیں ایسے پروگراموں کا انتخاب کرنا چاہیے جو ہمار ی روح اور ہمارے قلوب و اذہان کو آلودہ کرنے والے نہ ہوں۔اس معاملے میں ہمارا ضمیر یقیناسب سے بہتر فیصلہ کر سکتا ہے۔


غیر مسلم ملک سے حب ا لوطنی

سوال: کسی غیر مسلم ملک میں رہتے ہوئے کیا مسلمان وہاں کا یوم آزادی منا سکتے ہیں؟وہ غیر مسلم ملک جہاں ایک مسلمان پیدا ہوا ہو ،پلا بڑھا ہو ،تعلیم حاصل کی ہو ،رہایش پزیر ہو ،اور اس کی معاش بھی وہیں سے وابستہ ہو ، اس کے بارے میں اس کے کیا جذبات ہونے چاہییں اور اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے ؟کیا ایسی سر زمین کے ساتھ محبت کے جذبات رکھے جا سکتے ہیں اور کیا اس ملک کا پاسپورٹ استعمال کیا جا سکتا ہے ؟

جواب: کسی بھی ایسے وطن کے ساتھ محبت اور حب الوطنی کے جذبات رکھناجہاں انسان اپنی زندگی کی بہاریں گزار رہا ہو، فطری بات ہے ۔ یہ کسی طرح بھی قابل مذمت نہیں ہے ، البتہ ایسی قومی تقریبات میں شرکت سے احتراز کرنا چاہیے جو اسلامی اقدار اور اسلامی تعلیمات سے متصادم ہوں ۔ غیر مسلم ملک کے پاسپورٹ کو استعمال کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔


مرنے والے کا سوگ

سوال: یہ کہا جاتا ہے کہ مردے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا منع ہے ۔ یہ کیوں منع ہے ؟ کیا یہ کسی کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ سوگ یا اظہار افسوس نہ کرے؟

جواب: سوگ یا اظہار افسوس میں تین دن کی کوئی قید نہیں ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ جو شخص دنیا سے رخت سفر باندھ لے ، اس کے لواحقین کو اس سے بقدر رشتہ جو افسوس یا غم ہوتا ہے ، وہ ان کے بس میں نہیں ہوتا۔

بخاری کی روایت کے مطابق جب ابراہیم کا وقت رخصت قریب تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم کو اٹھایا ، پیار کیا اس حال میں کہ آنسو آنکھوں سے رواں تھے ۔ صحابہ میں سے کسی نے پوچھا : یا رسول اللہ آپ کی آنکھیں بھی نم ناک ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ رونا رحمت ہے ، آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور دل غم زدہ ہے ، لیکن ہم اپنی زبانوں سے وہی کہیں گے جس سے اللہ راضی ہو ۔اور ہم تیری جدائی پر غم زدہ ہیں اے ابراہیم۔ اس سے واضح ہوا کہ ایسے موقعوں پر آنکھوں سے آنسو نکل آنا غلط نہیں ہے ۔ پسندیدہ امر بہرحال یہی ہے کہ انسان تین دن بعد اپنی معمول کی زندگی پر لوٹ آئے۔


بیٹی کے گھر رہنا

سوال: ہمارے معاشرے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ بیٹو ں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے والدین کی دیکھ بھال کریں۔بوڑھے والدین سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے کسی بیٹے کے ساتھ ہی رہیں اور اگر کسی وجہ سے والدین اپنی بیٹی کے ساتھ رہنا شروع کر دیں تو یہ بیٹوں کی توہین سمجھی جاتی ہے۔ اس بارے میں اسلامی نقطۂ نظر کی وضاحت فرمائیں۔

جواب: بوڑھے والدین کی خدمت کے لیے ساری اولاد برابر کی ذمہ دار ہے خواہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں ۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ عام طور پر والدین بیٹے کے ساتھ رہنے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں، کیونکہ بیٹے کا رشتہ داماد کی بہ نسبت بہرحال زیادہ قریبی ہوتا ہے۔جہاں تک شریعت کا تعلق ہے ، اس میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے ۔ہمارے معاشرے میں والدین کا بیٹی کے گھر رہنا جو معیوب سمجھا جاتا ہے ، اس کا تعلق معاشرے کے عرف سے ہے نہ کہ شریعت کے کسی حکم سے۔ ان تمام معاملات میں جن میں شریعت خاموش ہے انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حالات کے تناظر میں اپنے لیے خود زیادہ بہتر فیصلہ کر سکتا ہے۔


چور کے مقطوع ہاتھ کی پیوند کاری

سوال: موجودہ زمانے میں میڈیکل سائنس کی ترقی نے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ کٹے ہوئے ہاتھ کی پیوند کاری کی جا سکے ۔ اگر کسی چور پر قطع ید کی سزا نافذ کی جائے اور وہ سائنس کی اس ترقی سے فائدہ اٹھا کر ہاتھ دوبارہ لگوا لے تو پھر وہ کس طرح معاشرے اور دوسرے مجرموں کے لیے باعث عبرت بن سکتا ہے ؟ کیا اس صورت میں اسلام کی تجویز کردہ یہ سزا غیر موثر نہ ہو جائے گی؟

جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ قطع ید کی سزا کا مقصد عادی چوروں کو دوسروں کے لیے باعث عبرت بنانا ہے تا کہ معاشرے سے اس جرم کی بیخ کنی ہو سکے ، مگر مجرم کو عبرت زدہ حالت میں قائم رکھنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ وہ اسلامی سلطنت کی حدوداور عدالتی دائرہ اختیار کے اندر ہو۔ایسی صورت میں عدالت کسی بھی مناسب حال پابندی کا نفاذ کر سکتی ہے۔ لیکن اگر مجرم اسلامی سلطنت کی حدود یا عدالت کے دائرۂ اختیار ہی سے باہر جا چکا ہو یعنی کسی دوسرے ملک میں تو پھر اسلامی سزاؤں کے نفاذ یا ان کے برقرار رہنے کی توقع رکھنا بے معنی ہو جاتا ہے۔


معذور بچے کا وراثت میں حصہ

سوال:کیا ایک ذہنی طور پر معذور بچہ بھی اپنے باپ کی وراثت میں اسی طرح اور اتنے ہی حصے کا حق دار ہے جس طرح کہ ایک نارمل بچہ؟

جواب: جی ہاں ایسا بچہ بھی اتنے ہی حصے کا حق دا رہے ، تا ہم یہ حصہ ایک سر پرست کی تولیت میں دیا جائے گا جو اسے اس معذور بچے کی دیکھ بھال پر خرچ کرے گا۔البتہ اگر سر پرست تنگ دست ہو تو ایسی صورت میں وہ بھی بقدر ضرورت معاشرے کے معروف طریقے پر اس میں سے لے سکتا ہے۔


صحیح مسلک کا تعین

سوال: مجھے یہ کس طرح اطمینان ہو سکتا ہے کہ میں اسی اسلام پر عمل پیرا ہوں جس پر چلنے کا مجھے خدا کی طرف سے حکم ہے ؟بہت سے مسالک کے متضاد نظریات بعض اوقات پریشان کر دیتے ہیں۔ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب: اس سلسلے میں ایک بنیادی مقدمے کا مستحضر رہنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ انسانی عقل کے کچھ حدود ہیں ۔اسے غلطی بھی لگ سکتی ہے اور مختلف علما کی عقل ایک ہی مسئلے میں انھیں مختلف نتائج تک بھی پہنچا سکتی ہے ۔چنانچہ مختلف احکامات کی مختلف تعبیرات اور تشریحات اسی بنیادی مقدمے کا منطقی نتیجہ ہیں۔اس سلسلہ میں اصل اہمیت ان دلائل کی ہوتی ہے جو کسی نقطۂ نظر کو ثابت کرنے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔تلاش حق کے متلاشی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان دلائل کو نہایت دیانت داری سے عقل و شعور کے ترازو میں تول کر دیکھے اور پھر یہ فیصلہ کرے کہ کون سی بات اسے زیادہ اپیل کرتی ہے اور پھر اسے چاہیے کہ وہی نقطۂ نظر اختیار کرے جس کے بارے میں اسے عقل وشعور کی روشنی میں اطمینان ہے۔

مزید براں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ ختم نبوت کے بعد وحی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے ۔ اب کلام وحی کے بعد انسان کی عقل ہی اس کی رہنما ہے ۔ انسانی عقل کے بارے میں چونکہ یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے حق کی آخری شکل پا لی ہے ، اس لیے یہ اشدضروری ہے کہ انسان ہر وقت اپنے نظریات کے بارے میں تنقید کا دروازہ کھلا رکھے اور دوسروں کی آرا کا دیانت داری سے جائزہ لیتا رہے ۔ مذہبی معاملات میں آرا کو اختیار کرنے میں اصل اہمیت اخلاص اور سنجیدگی کی ہے ۔ اگر ایک شخص تلاش حق کے بارے میں دیانت دار اور مخلص ہے تو پھر یہ بات ثانوی ہے کہ وہ کس نتیجے تک پہنچا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر ایک شخص اپنے اجتہاد میں صحیح نتیجہ تک پہنچتا ہے تو اسے دہرا اجر ملے گا اور اگر غلط نتیجہ اخذ کرتا ہے تو پھر بھی اکہرا اجر پائے گا۔ اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس راہ میں اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ایک شخص نے تلاش حق کی کوشش و سعی کس قدر کی اور وہ اس میں کس حد تک مخلص ہے ۔

____________

B