عروج و زوال اس دنیا کا ایک غیر متبدل واقعہ ہے۔دنیا میں ہر شے عروج کی خواہش مند اور اسی راہ کی مسافر ہے، مگر ہر عروج کا مقدر ہے کہ ایک روز وہ زوال کی آغوش میں جاگرے۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے کہ جس کو ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ انسان کا اپنا وجود اس کا سب سے بڑا گواہ ہے۔ ہم اس دنیا میں ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے ایک حقیر گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں آتے ہیں ۔ ایک ایسے وجود کی شکل میں جو اپنے عجز کا بیان آپ ہوتا ہے۔ شعر و ادب کے شاہکار تخلیق کرنے والا انسان بھی اس دور میں بے معنی چیخ پکار کے سوا اظہار مدعا کی دوسری صورت نہیں پاتا۔تاہم یہی عاجز انسان مناسب غذا اور تحفظ ملنے پر نشوونما پاتا ہے۔ وہ اٹھنا اور بیٹھنا ، ہنسنا اور بولنا ، چلنا اور دوڑنا ، کھیلنا اور جھگڑنا سیکھتا ہے۔ وہ تعلیم و تربیت کی منزلیں طے کرتا ہے۔اس کا شعور آگہی کے نت نئے معرکے سر کرتا ہے۔پھر بچپن کی دہلیز عبور کرکے وہ لڑکپن کے حد ودمیں قدم رکھتا ہے ۔ابھی تک صرف مطالبات کرنے والا بچہ والدین کی ذمہ داریوں میں ہاتھ بٹانے لگتا ہے۔ وہ دوڑ دوڑ کر ان کے کام کرتا ہے۔ما ں باپ سے لینے والا اب انھیں کچھ دینے بھی لگتا ہے۔
اسی سعی و جہد میں جوانی اس کے دروازے پر دستک دیتی ہے۔ وہ احساسات و جذبات کی ایک نئی دنیا دریافت کرتا ہے۔توانائی کا ایک انتھک خزانہ اس کے اندر سے ابلنے لگتا ہے۔زندگی کو وہ ایک ایسے روپ میں دیکھتا ہے جو اس سے قبل اس نے دیکھا نہ اس کے بعد دیکھ سکے گا۔وہ ستاروں پر کمند ڈالنے کے منصوبے بناتا ہے۔ وہ عظمت کی بلندیوں کو چھونا چاہتا ہے۔ اس کے بلند عزائم کے آگے ہررکاوٹ ہیچ ہوتی اورہر مشکل آسان ہوتی ہے۔ وہ معاشرے میں اپنی جگہ بناتا ہے ۔ اپنی معاش کی راہ تلاش کرتا ہے۔اس کی بے پناہ قوتیں اسے مجبور کرتی ہیں کہ اب وہ بھی صفحۂ ہستی پر اپنا عکس بکھیرے ۔ اس کے لیے وہ ایک خاندان کی تشکیل کرتا ہے۔ اس کی ذمہ داریوں کا کوہِ گراں اپنے کندھوں پر اٹھالیتا ہے۔ اب وہ نئی زندگیوں کا محافظ ہوتا ہے۔ مگر اسی دوران میں اس کے اپنے عروج کو زوال کا غیر محسوس سایہ گہنانے لگتا ہے۔جوانی کی فولادی سیاہی کو بڑھاپے کاسفید زنگ لگنا شروع ہوجاتا ہے۔ ضعف بڑھتا ہے اور اسے لاغر و ناتواں کرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسے مقام پر آجاتا ہے جہاں وہ خود محسوس کرتا ہے کہ اب زوال کی تاریک رات ابدی ہوتی جارہی ہے۔ اس کے حوصلے جواب دے دیتے ہیں۔ وہ عوارض جن سے اس کا وجود آگاہ نہیں تھا ، اسے چار طرف سے گھیر لیتے ہیں۔وہ بیماریاں جنھیں اس نے کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا تھا ، اب اس کی جان کا روگ بن جاتی ہیں۔اب کوئی غذا زندگی بخش رہتی ہے اور نہ کوئی دوا صحت بخش ۔ آخرکار یہ روگی موت کے ہاتھوں شکست کھاکر وادی عدم میں اترجاتا ہے۔یوں عروج و زوال کا یہ قصہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
عروج و زوال کے اس قانون کے بارے میں جو عالم جمادات، عالم نباتات عالم حیوانات اور عالم انسانیت میں یکساں طور پر جاری و ساری ہے ، دوباتیں واضح رہنی چاہیے۔ اول جیسا کہ اوپر کی مثال سے ظاہر ہے کہ یہ تدریجی شکل میں رونما ہوتا ہے۔دوم یہ کہ اس کو تقویت اور ضعف دینے والے بہت سے عوامل ہوتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے۔ دوسری ہر چیز کی طرح عروج و زوال کا قانون بھی اسباب کے پردے میں منصہ شہود پر جنم لیتاہے۔ ہر عروج کے پیچھے کچھ متعین اسباب ہوتے ہیں اور ہر زوال بہرحال کچھ بنیادیں رکھتا ہے ۔ان اسباب و علل کا سلسلہ کسی بنا پر اگر متاثر ہوجائے تو واقعات اپنی رفتار اور ترتیب بدل لیا کرتے ہیں۔پھر موت بچپن میں بھی آجاتی ہے اور عالم پیری میں بھی اولاد ہوجایا کرتی ہے۔پھر ایک نوجوان بھی ضعف کی تصویر نظر آسکتا ہے اور ایک کہن سال شخص پر بھی نوجوانی کا رنگ چڑھ سکتا ہے۔
عروج و زوال کے اس قانون سے ہم واقف ہوں یا نہیں ، اس کے پابند ضرور ہیں۔دوسری ہر چیز کی طرح وہ قوم بھی ، جس کے ہم فرد ہیں اور وہ معاشرہ جس کا ہم جز ہیں، اسی راہ کے مسافر ہیں۔ایک قوم پر وہ سارے ادوار کم و بیش اسی طرح گزرتے ہیں جس طرح ایک انسان پر ۔جزئیات میں یقیناًفرق ہے ، مگر اصول میں یہ واقعہ قوم کی زندگی میں بھی لازما پیش آتا ہے۔اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے ، مگر اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس با ت کو جاننے کی قومی زندگی میں کیا اہمیت ہے۔مان لیا کہ اس دنیا میں قوموں کا عروج و زوال کچھ مخصوص خدائی ضابطوں کے تحت روبہ عمل ہوتا ہے ، مگر سوال یہ ہے کہ وہ کیا فرق ہے جو اس حقیقت کو جاننے اور نہ جاننے سے پیدا ہوجاتا ہے۔
بات یہ ہے کہ یہ دنیا خدا کی بنائی ہوئی ہے۔ اس میں رہنے اور ترقی کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہاں خدا کے بنائے ہوئے قوانین سے موافقت کرتے ہوئے زندگی گزاری جائے۔ جو لوگ یہ رویہ اختیار کرتے ہیں، وہ کامیابی حاصل کرتے ہیں اور جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں، وہ بربادی کا شکار ہوجاتے ہیں۔قوموں کے بارے میں خدا کے بنائے ہوئے عروج وزوال کے قانون کی بھی یہی حیثیت ہے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ کسی قوم کو اس قانون سے استثنا مل جائے ، مگر جو قومیں اس قانون اور اس کے پس پردہ کام کرنے والے اسباب و علل کو سمجھ لیتی ہیں ، وہ عروج کی منزلیں جلد اور زیادہ توانائی کے ساتھ طے کرتی ہیں۔ ان کے اقبال کا زمانہ طویل اورزوال کا دور ممکنہ حد تک دور ہوجاتا ہے۔ ہم آگے چل کر بعض مغربی اقوام کے حوالے سے یہ بتائیں گے کہ کس طرح عصر حاضر میں وہ اس قانون سے واقفیت کی بنا پر اپنے زوال کے فطری عمل کو موخر کر رہی ہیں۔
عروج و زوال کے قانون سے آگہی کی اہمیت کو ایک اور پہلو سے دیکھیں۔ ہم پیچھے یہ بتا چکے ہیں کہ یہ قانون تدریجی طور پر قوموں میں اثر دکھاتا ہے۔کسی قوم کے عروج و زوال کا واقعہ ایک دن میں رونما نہیں ہوتا ، بلکہ اس دوران میں قوم مختلف مراحل سے گزرتی ہے ۔یہ عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتی کہ وہ اس کے حالات کا مشاہدہ کرکے یہ بتائیں کہ قوم اس وقت کس مرحلہ میں ہے۔ یہ کام رہنماؤں کا ہوتا ہے کہ وہ اس بات کو جانیں اور اسی اعتبار سے قوم کے اہداف و مقاصد اور لائحۂ عمل کا تعین کریں۔ مثال کے طور پر ایک بچے سے اس کے والدین یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ نکاح کرے اور ان کے آنگن میں مزید بچوں کی خوشیاں بکھیرے۔ اسی طرح کوئی شخص اپنا کاروبار اپنے ناسمجھ لڑکے کے حوالے نہیں کرتا ، کیونکہ اس طرح نقصان کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔
تاہم قوم کے معاملے میں ناعاقبت اندیش رہنما ٹھیک اسی طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ قوم کے مرحلۂ حیات سے ناواقفیت کی بنا پر اس کے سامنے ایسے مقاصد رکھ دیتے ہیں جو اس کی استعداد سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ وہ قوم جو ابھی اپنے پیروں پر چلنے کے قابل نہیں ہوتی ، اسے اکھاڑے کے میدان میں کسی پہلوان قوم سے بھڑا دیا جاتا ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ناکامی اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔اسی طرح قوموں کے عروج و زوال کی حقیقی بنیادوں سے ناواقف رہنمانہ ان کو لاحق امراض کی صحیح تشخیص کرپاتے ہیں اور نہ مناسب علاج۔ وہ نہ بھرپور غذا دے پاتے ہیں اور نہ وقت پر دوا۔ اس کے بعد قوم کمزور ہوجاتی ہے ۔ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں ، مگر کسی کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا۔ایک بیمار کے سامنے طبل جنگ بجایا جاتا ہے اور ایک ناتواں اور ناسمجھ بچے کودنیا کی امامت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے ، اسے الفاظ میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ عالم اسلام بالخصوص مملکت خداداد پاکستان پر ایک نظر ڈالنے سے باقی کہانی سامنے آجاتی ہے۔
مختصرا یہ کہ کسی قوم کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے اس کے حالات سے درست آگہی جتنی ضروری ہے ، اتنا ہی قوموں کے عروج وزوال کے بارے میں خدائی قانون کا گہرا شعور بھی لازمی ہے۔ چنانچہ اگلے صفحات میں ہم اس قانون کے ان مختلف پہلووں کی وضاحت کریں گے جو ہمیں تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتے ہیں اورجن کا براہ راست تعلق ہماری قوم سے ہے۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس دھرتی پر سدا ایک قوم کا اقتدار نہیں رہتا۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ خدا نے حکومت واقتدار کو ہمیشہ ایک رنگ، نسل، گروہ، خاندان یا قوم کے لیے مختص کردیا ہو۔ہرخطۂ ارض پر مختلف قومیں اور ملتیں آباد رہی ہیں جن میں قوت و حشمت کے لحاظ سے فرق رہا ہے۔ بعض قومیں اپنے معاصرین سے قوت و اقتدار میں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ اپنے قرب وجوار میں رہنے والی اقوام پر غلبہ حاصل کرلیتی ہیں۔ان کا یہ غلبہ اس قدر بڑھتا ہے کہ موجودہ دور کی اصطلاح کے مطابق وہ اپنے وقت کی سپر پاور بن جاتی ہیں۔ کسی کو ان کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں ہوتی اوراقوام عالم ان سے جان کی امان پاکر ہی اپنے معاملات چلاتی ہیں۔ تاہم ایک وقت کے بعد اس قوم کو زوال آتا ہے۔ سپر پاور کی جگہ کسی اور سپر پاور کے لیے خالی ہوجاتی ہے۔ ناواقف لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک یا ایک سے زیادہ سپر پاو رز کاموجودہ معاملہ صرف آج شروع ہوا ہے۔یہ بات درست نہیں ہے ۔یہ سلسلہ اس وقت سے شروع ہوا تھا جب انسانوں نے گروہوں کی شکل میں رہنا شروع کیا تھا اور آج کے دن تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ مصری، ایرانی، یونانی، رومی ، عرب، ترک، یورپین، روسی اور اب امریکی سب اسی سلسلۂ عروج وزوال کی کڑیاں ہیں۔
سپر پاورز کے علاوہ دیگر اقوام بھی عروج وزوال کے اس سلسلے سے گزرتی ہیں ، مگر وہ تاریخ عالم میں اس لیے زیادہ نمایاں حیثیت نہیں رکھتیں کہ ان قوموں کا عروج و زوال اپنے ظہور کے لیے بڑی حد تک سپر پاورز ہی کا محتاج رہا ہے۔ ورنہ ہر قوم بہرحال اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے جس میں اس کا ایک متعین آغاز ہوتا ہے۔ وہ ترقی کے مراحل طے کرتی ہے اور عروج کی سیڑھیاں چڑھتی ہوئی مسند کمال پر براجمان ہوتی ہے۔پھر ایک وقت کے بعد زوال سے دوچار ہوجاتی ہے۔جیسا کہ ہم نے پیچھے بیان کیا کہ قوموں کا یہ عروج وزوال تدریجی عمل کے بعد جنم لیتا ہے۔ اس لیے اس بحث میں سب سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ قطعیت کے ساتھ متعین کیا جائے کہ ایک قوم کے عروج و زوال کے دوران میں اسے کن کن مراحل سے گزرنا ہوتا ہے اور ان مراحل میں وہ کن حالات و کیفیات سے گزرتی ہے۔
یہاں ہم اس بات کی وضاحت کرنا چاہیں گے کہ ضروری نہیں کہ ہر قوم یکساں طور پر ان تمام مراحل سے گزرے۔ایک تاریخی عمل میں اتنے زیادہ عوامل و محرکات کام کررہے ہوتے ہیں جن کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ محرکات حالات، زمانہ اور لوگوں کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں۔ اس لیے ایک تاریخی مرحلہ اپنی ظاہری ہےئت کے اعتبار سے ہر قوم میں مختلف انداز میں ظہور کرتا ہے۔بعض جگہ یہ بہت واضح ہوتا ہے اور بعض جگہ بہت مبہم۔ بعض اقوام میں یہ بہت طویل ہوتا ہے اور بعض میں بہت مختصر۔ چنانچہ ہم کوشش کریں گے کہ قوموں کے مراحل حیات بیان کرتے ہوئے اپنی بات کی وضاحت میں ان قوموں کی مثالیں پیش کریں جن کی زندگی میں یہ مراحل بہت واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں اورجن کے حالات سے لوگ عام طور پر آگاہ ہیں ۔
قوموں کی زندگی کا پہلا مرحلہ تشکیل کا ہوتا ہے جس سے قبل وہ گم نامی کا شکار ہوتی ہیں۔لفظ گم نامی سے ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ انسانوں کی طرح قوم عدم سے وجود میں نہیں آتی۔ ایک جدید قوم کے عناصر ترکیبی بہرحال پہلے سے موجود ہوتے ہیں جو مختلف عوامل کے زیر اثر ایک قوم کی شکل اختیار کرجاتے ہیں۔قوموں کی تشکیل کا نقطۂ آغاز بالعموم جنگ و فتح اور پناہ و ہجرت کا کوئی واقعہ یا کوئی مذہبی و سیاسی عمل ہوتاہے۔اس کے بعد تاریخ کا دھارا اپنا کام کرنا شروع کردیتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کوئی تاریخ دان تو نہیں تھے ، مگر ان کا یہ جملہ کہ پاکستان اسی روز بن گیا تھا جس روز بر صغیر کا پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا، تاریخ کے اس قانون سے ان کی واقفیت کی دلیل ہے۔
قوموں کے دور تشکیل کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں ان کا ایک اجتماعی مزاج تشکیل پاتا ہے ۔تشکیل کے اس مرحلے میں کام کرنے والے عوامل ان گنت اور بالعموم بہت پیچیدہ ہوتے ہیں۔یہ عوامل ایک طویل عرصے تک عمل کرتے ہیں اور انھی کے زیر اثر کسی قوم کامذکورہ بالا خاص مزاج تشکیل پاتا ہے جسے ہم اس کی قومی نفسیات کہہ سکتے ہیں۔یہی وہ قومی نفسیات ہوتی ہے جو اگلے تمام مراحل میں اس قوم کے رویے کا تعین کرتی ہے۔اس بات کو آپ انسان کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں ۔ ماہرین نفسیات کی رائے یہ ہے کہ انسانی شخصیت کی تشکیل دور طفولیت میں ہی ہوجاتی ہے۔جسے بعد میں بدلنا آسان نہیں ہوتا اور جس کے اثرات تازیست انسان کے ساتھ رہتے ہیں۔
ہم ایک قوم کی تاریخ کے حوالے سے تشکیل کے مرحلے کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افریقہ نسل انسانی کا اولین گہوارہ اور دریائے نیل انسانی تہذیب کا ابتدائی مسکن سمجھا جاتا ہے۔مصر میں انسانی آبادی کے دریافت ہونے والے قدیم ترین آثار ڈھائی سے ایک لاکھ سال ق م پرانے ہیں۔انسانی تمدن نے چیونٹی کی چال سے اپنا سفر طے کیااور آہستہ آہستہ پتھر کے اوزار وجود میں آنا شروع ہوئے جو تیس ہزار سال قبل مسیح تک بہت بہتر ہوگئے۔ قریباً دس سے پانچ ہزار سال قبل مسیح کے درمیان مصری معاشرہ گاؤں اور قصبہ کے دور میں داخل ہوا اور ایک قوم کے آثار ابھرنے لگے۔ تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح کے لگ بھگ پہلی دفعہ مصر میں ایک متحدہ ریاست بنی۔ اور اس کے بعد مصری قوم نے عروج کی سیڑھیاں طے کرنی شروع کیں۔ اپنے دور عروج میں انھوں نے زمین پر ایسے آثار چھوڑے جن کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔اہرام مصر اور ابوالہول آج کے دن تک عظمت کی اس داستان کو سنانے کے لیے موجود ہیں۔ یہاں تک کہ تین ہزار سال تک نشیب وفراز سے گزرنے کے بعد اس وقت مصر کی انفرادی حیثیت کا خاتمہ ہوا جب ۲۳ ق م میں مصر کی آخری حکمران کلوپیٹرا کو رومی فوج کے ہاتھوں شکست ہوئی اور مصر رومی حکومت کا ایک حصہ بن گیا۔
تشکیل کے پورے مرحلے میں مصری قوم نے کسی جزیرے پر تنہا زندگی نہیں گزاری ، بلکہ وہ اسی دنیا کا حصہ رہی جہاں دوسرے انسان بھی بستے ہیں۔ وہ فطرت کی ان قوتوں کے ماتحت تھی جو انسانی زندگی پر فیصلہ کن اثرات ڈالتی رہتی ہیں۔ اس لیے مصر ی قوم نے دوسری اقوام کا اثر بھی قبول کیا اور فطرت کی طاقتوں کے تحت اپنی زندگی کا نقشہ ترتیب دینے پر بھی مجبور ہوئی۔وہ بار بار ان ہجرتوں سے متاثر ہوئی جو افریقی قبائل نے مصر اور ایشیا کی طرف کیں۔یا وہ ہجرتیں جو ایشیائی باشندوں نے نیل کی وادی کی طرف خوراک کی تلاش میں کیں۔اسے جنگ وجدل سے بھی سابقہ پیش آیا اور تیر جیسا جدید ہتھیار مصریوں نے بارہ ہزارق م میں ہی بنالیا تھا ، جبکہ یورپ میں تیر کئی ہزار سال بعد بنا۔ نیز سیلاب، زلزلے، قحط وغیرہ بھی مصریوں کی زندگی پر اثر ڈالتے رہے۔ چنانچہ مصریوں نے فطرت کے پید اکردہ حالات اور دوسری تہذیبوں کے اثرات کے زیرِ اثر اپنا ایک قومی مزاج پیدا کیا جس نے صدیوں میں جاکر ایک قوم کی تشکیل کی۔اس قومی مزاج کے اثرات ان کے فنون لطیفہ، فن تعمیر، مذہبی تصورات اور طرز حکومت میں واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہی وہ قومی مزاج تھا جس نے مصر یوں کو نہ صرف دوسری اقوام سے ممتاز کیا ، بلکہ خود دوسری اقوام نے مصریوں کا بے حد اثر قبول کیا۔
کسی قوم کا دور تشکیل صدیوں پر بھی محیط ہوسکتا ہے۔ تاہم جب ایک قوم اس مرحلے سے گزر جاتی ہے تو وہ اپنی ایک انفرادی شناخت بنالیتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب قوم کے مختلف گروہ اپنی الگ الگ خصوصیات کو بتدریج ایک قومی حوالے میں ضم کردیتے ہیں۔ یہ قومی حوالہ اس قوم کا اجتماعی قومی مزاج ہوتا ہے۔ جس کے زیر اثر قوم کے افراد میں وہ جدید خصوصیات پیدا ہونے لگتی ہیں جو انھیں دوسری اقوام سے ممتازکرتی ہیں۔ وہ عصبیت جسے ابن خلدون غیر معمولی اہمیت دیتا ہے، اب واضح طور پر قومی جذبات میں نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔اس مرحلے کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کے اندر سے ایسے زندہ افراد پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں جو اپنی قوم کو سر بلندی اور عظمت کے مقام پر پہنچا ناچاہتے ہیں۔ وہ اسے اقوام عالم میں ممتاز دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری اقوام کے مقابلے میں اس کی برتری کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اس دور میں مختلف شعبہ ہاے حیات میں قوم کے افراد نمایاں کارنامے سر انجام دینے لگتے ہیں۔
اس مرحلے پر قوم واضح طور پر اپنے لیے ایک راہ عمل کا تعین کرتی ہے۔ اس سے قبل زمانہ اس کا فاعل تھا ، مگر اب وہ اپنی راہ خود تلاش کرتی ہے۔ دور تشکیل میں چونکہ قوم حالات کے رحم و کرم پر ہوتی ہے ، اس لیے اچھی یا بری ، دونوں خصوصیات اور رویے قوم میں پیدا ہوجاتے ہیں۔ لیکن تعمیر کا مرحلہ آنے پر ایسے مصلحین اٹھتے ہیں جو قوم کی رہنمائی کرکے اسے یہ بتاتے ہیں کہ کون سی خوبیاں ایسی ہیں جو انھیں اپنے اندر برقرار رکھنی چاہییں اور وہ کون سی خصوصیات ہیں جن سے اسے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے۔ اس طرح وہ اس کے قومی مزاج کی تشکیل نو کرتے ہیں۔
ایسا نہیں ہوتا کہ اس دوران میں تاریخ اور فطرت اپنا عمل چھوڑدیتے ہیں۔مسائل اب بھی سر اٹھاتے ہیں، حادثات اب بھی جنم لیتے ہیں ۔ ہر آن قوم کو نت نئے چیلنجز درپیش رہتے ہیں ، مگر اب قوم میں وہ میکنزم جنم لے لیتا ہے جو ہر مشکل موقع پر قوم کے رد عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ہم یہ دعویٰ نہیں کررہے کہ لازما قوم ان تمام چیلنجز سے کامیابی سے عہدہ برا ہوجاتی ہے جو اس کے قومی وجود کو درپیش ہوتے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ اب قوم میں حالات کا جواب دینے کی اور اپنے تحفظ و بقا کی جنگ لڑنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔
اس دور میں کسی قوم کو دھچکے بھی لگتے ہیں، ترقی معکوس کی سی کیفیت بھی بعض اوقات پیش آجاتی ہے ، لیکن اگر قوم میں جان ہے اورحالات کا جبر اس کی استعداد سے باہر نہیں تو آخر کار وہ بحران کی کیفیت سے باہر نکل آتی ہے۔بحران کی یہ کیفیت اندرونی حالات کے تحت بھی پیش آتی ہے اور کسی خارجی چیلنج کی بنا پر بھی ۔یہ مرحلہ تشکیل کے دور کی طرح طویل تو نہیں ہوتا ، مگر بے حد ہنگامہ خیز ہوتا ہے جس میں قومی زندگی مسلسل ایک تلاطم سے دوچار رہتی ہے۔ دراصل یہی ہنگامہ خیزی اور حالات کا دباؤ ہوتا ہے جو اس قوم کے اندر وہ امکانات پیدا کردیتا ہے جو مستقبل میں اس کے عروج کا سبب بنتے ہیں۔ اگر قوم اس دباؤ کا سامنا کامیابی سے کرلیتی ہے تو اس کے بعد اس کے لیے ترقی و استحکام کی راہیں کھلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرپاتی تو یا صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہے یا پھر ایک طویل عرصے کے لیے کاروبار عالم سے بے نیاز ہوکر ایک معذور کی طرح دوسروں کی دی ہوئی زندگی کی بھیک پر جیتی ہے۔مختصر یہ کہ اس دور میں قوم میں زندہ افراد پیدا ہوتے ہیں جو ایک طرف قوم کی ذہنی اور عملی تعمیر کرتے ہیں اور دوسری طرف ان چیلنجز سے نبرد آزما ہوتے ہیں جو قومی وجود کی بقا کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
اس دور کی ایک نمایاں مثال مسلمانوں کی تاریخ میں اس دور سے ملتی ہے جو حضرت عثمان کی شہادت سے شروع ہوتا ہے اور عبد الملک بن مروان کے دور تک چلا جاتا ہے۔یہ چالیس سالہ دور انتہائی ہنگامہ خیز ہے جس میں خلافت راشدہ کے خاتمہ اور نواسۂ رسول کی مظلومانہ شہادت کے واقعات بھی ہوتے ہیں ، مگر اس کے باوجود بنو امیہ کی بیدار مغز قیادت تمام مسائل پر قابو پاکر امت مسلمہ کو ترقی و عظمت کی راہوں پر ڈال دیتی ہے ۔
اس دور کی ایک اور نمایاں مثال یورپ کے عروج کے عمل میں ہمیں نشاۃ ثانیہ(Renaissance) اور مذہبی اصلاح (Reformation) کے دور میں نظر آتی ہے۔عین اس وقت جب یورپی اقوام بادشاہ ، پوپ اور جاگیرداروں کے شکنجہ میں آخری حد تک جکڑ گئی تھیں ، وہاں مسلمانوں کے اثر سے قومی تعمیر کا عمل شروع ہوگیا۔ ان میں مسلسل ایسے بڑے بڑے لوگ پیدا ہوتے گئے جنھوں نے یورپ کو ایک نئی شناخت اور نئی زندگی دی اوریوں یورپی اقوام کے عروج کی بنیاد رکھ دی۔
جو قومیں دور تعمیر میں پیش آیندہ چیلنجز کا سامنا کامیابی سے کرتی ہیں ، اس کا ثمر ان کی نسلیں دور ترقی و استحکام میں چکھتی ہیں۔تعمیر کے پرپیچ اور ناہموار راستوں سے گزرنے کے بعد استحکام کا وہ ہموار دور آتا ہے جس میں زندگی کی گاڑی انتہائی تیزی سے آگے کی سمت دوڑتی ہے۔ قوم پچھلے مرحلے کی کامیابیوں کے نشے سے چور ہوتی ہے۔ اس کے زخم اسی طرح بھرتے ہیں جس طرح کسی نوجوان کے زخم تیزی سے مندمل ہوتے ہیں۔ اپنے اوپر اس کا اعتماد غیر معمولی ہوجاتا ہے۔ اب اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے بازووں میں کتنا زور ہے۔چنانچہ بنو امیہ کی مندرجہ بالا مثال میں ہم دیکھتے ہیں کہ بحران سے نمٹنے کے فورا بعد، عبد الملک کے بیٹے ولید کے دور میں مسلمان ایک طرف اسپین اور ہندوستان میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اوردوسری طرف ان کی فتوحات کا سیلاب چین تک پہنچ گیا۔
اس دور میں قوم کا ہر فرد بایقین ہوتا ہے اور پوری قوم مل جل کر قومی تعمیر کے کام میں حصہ لیتی ہے۔ اول تو راہ کی مشکلات، خصوصا اندرونی مشکلات، پیش نہیں آتیں۔ اور اگر آتی بھی ہیں تو قوم ایک اجتماعی جذبہ سے ان کا سامنا کرتی ہے۔ اس دور میں زندگی کا نظام مستحکم ہوتا ہے۔ ادارے فروغ پاتے ہیں۔ معاشی ترقی ہوتی ہے۔ امن وامان کی کیفیت بہت اچھی ہوتی ہے۔دنیا کے سامنے ایک طاقت ور قوم کا نقشہ سامنے آنے لگتا ہے۔ ہمارے پڑوس میں واقع چینی قوم اس وقت ٹھیک اسی مرحلے سے گزر رہی ہے۔
اس مرحلے پر قوم کے سامنے دو طرح کے حالات آتے ہیں۔ایک یہ کہ ترقی و استحکام کا یہ سلسلہ طویل عرصہ تک یونہی جاری رہتا ہے اور قوم اس کی عادی ہوجاتی ہے۔ آنے والی نسلیں اس سکون کے زیر اثر اس توانائی سے محروم ہونا شروع ہوجاتی ہیں جس کے سہارے ان کے آباء نے یہ استحکام حاصل کیا تھا۔قوم کو کوئی داخلی یا خارجی چیلنج درپیش نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں وہ بلند نظر قائدین پیدا ہوتے ہیں جو اس کے لیے اعلیٰ مقاصد کا تعین پیدا کریں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس قوم نے اپنا عروج دیکھ لیا اور اب اس کے قویٰ کو زنگ لگنے لگا ہے۔جس کے بعد انحطاط کے اس دور کا آغاز ہوجا تاہے جس پر ہم آگے چل کر گفتگو کریں گے۔ہمارے اپنے دور میں اس کی ایک بڑی اچھی مثال جاپانی قوم کی ہے۔ جس کی ترقی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے یہ خیال کیا جارہا تھا کہ یہ مستقبل کی ایک عظیم حکومت اور ایک سپر پاور کی شکل اختیار کرے گی ۔ اس کے بار ے میں حتمی طور پر کچھ کہنا تو قبل از وقت ہوگا ، لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا دور انحطاط شروع ہو چکا ہے۔
دوسرا امکان یہ ہوتا ہے کہ عین اس دور میں جب کہ قوم اپنے شباب پر ہواس کے سامنے ایسے حالات پیش آئیں جو اسے اپنی توانائیوں کے استعمال کا بہترین موقع فراہم کردیں۔ جس کے بعد وہ قوم عروج کی اس منزل کی طرف بڑھتی ہے جسے ہم آج کی زبان میں سپر پاور کا منصب کہتے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا،عروج کا آغاز بھی چیلنج سے ہوتا ہے۔ یہ داخلی بھی ہوتا ہے جب کہ کسی زبردست ہلچل کے بعد قوم کی قیادت ایک نیا اور تازہ دم گروہ سنبھالتا ہے اور قوم کے سامنے ایسے مقاصد رکھتا ہے جو اس کی ابلتی ہوئی توانائیوں کو ایک نیا میدان عمل دے دیتے ہیں۔ یا بعض اوقات قوم کو اپنے دور استحکام میں خارج میں کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے یا پھر کوئی عظیم مقصد اس کے سامنے آجاتا ہے ۔نتیجے کے طور پر ایک دفعہ پھر وہ بلا خوف و خطر آگ میں کودنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے اوربالعموم سرخ رو ہوتی ہے۔
اس کے بعد وہ قوم ایک نئی توانائی کے ساتھ دنیا کی زمام کار اپنے ہاتھوں میں لے لیتی ہے۔پھر اس کا اقتدار صرف اپنے ملک تک محدود نہیں رہتا ، بلکہ اردگرد کے تمام علاقے میں پھیل جاتا ہے۔اب وہ حقیقی معنوں میں زمانے کی فاعل بن جاتی ہے۔دوسری اقوام اس کے آگے سر اطاعت خم کرنے پر خود کو مجبور پاتی ہیں۔اس کا اقتدار فوجی اورسیاسی ہی نہیں ، بلکہ معاشی اور تہذیبی بھی ہوتا ہے۔ اقوام عالم اب اس سے علم و ہنر سیکھتی ہے۔ ان کی زبان اس کا اثر قبول کرتی ہے۔ ان کا طرز زندگی اس سے متاثر ہوتا ہے۔زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہوتا جہاں وہ دوسری اقوام کو متاثر نہ کرے۔ وہ اس سے نفرت تو کرتی ہیں ، مگر اس کے اثرات سے خود کو بچا نہیں سکتیں۔ اس وقت صورتحال ’ انا ولا غیری‘ کا نقشہ پیش کرتی ہے۔
عرب حکومت میں اس کا ایک بڑا اچھا نمونہ عباسی خلافت میں ہارون الرشید کا دور حکومت تھا۔ عباسی امویوں کو ہٹاکر اقتدار میں آئے تھے۔ابتدائی حکمران ا بوالعباس سفاح، منصوراور مہدی وغیرہ حکومت کے استحکام میں مصروف رہے ۔جس کے بعدہارون الرشید تخت نشین ہوا۔ اس کے دور میں ایک طرف تو علوم و فنون کے میدان میں غیر معمولی ترقی شروع ہوئی اور دوسری طرف وہ قیصر روم تک سے خراج وصول کرتا تھا۔اس کے اقتدار کی عظمت کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے جس کے مطابق اس نے بادل کے ایک ٹکڑے کو دیکھ کر کہا تھا کہ تو جہاں دل چاہے جاکر برس، تیری پیداوار کا خراج میرے پاس ہی آئے گا۔
دور عروج کی ہر چیز بہت اچھی ہوتی ہے سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ زوال لازمی لگا ہوتا ہے۔عروج کی یہ عجیب و غریب تاثیر ہے کہ وہ غیر محسوس طریقے پر بہت جلد انحطاط میں بدل جاتا ہے۔اس دور کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں بلند نظر افراد پیدا ہونا ختم نہیں تو کم ضرور ہوجاتے ہیں۔ اور جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، ان کی تعداد کم ہوتی چلی جاتی ہے۔تاہم دور انحطاط کی کوئی ظاہری علامت نہیں ہوتی ، بلکہ عیش وعشرت، فارغ البالی، آسانی و راحت میں یہ دور باقی تمام ادوار سے بڑھا ہواہوتا ہے۔ اجتماعی طور پر ایک سکون کی سی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ظاہر بین نگاہیں تو حالات دیکھ کر یہ اندازہ بھی نہیں کرسکتیں کہ انحطاط شروع ہو چکا ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ گویا قوم دور استحکام میں جی رہی ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ عروج کی چڑھائی کے فورا بعد قوم کی گاڑی آہستہ آہستہ اس راستے پر آجاتی ہے جو ایک غیر محسوس ڈھلان پر واقع ہوتا ہے۔ اور یہ زوال کی ڈھلان ہوتی ہے۔
دورِ انحطاط کی ایک اچھی مثال خلافت عثمانیہ کے تاجدار سلیمان عالی شان کے دور حکومت کے بعد کا زمانہ ہے۔سلیمان اعظم کا اقتدار دنیا کے تین براعظموں پر محیط تھا۔ اس وقت تک خلافت عثمانیہ کوتقریباً تین سوسال ہوچکے تھے اور وہ تین سو سال تک مزید اقتدار میں رہی۔ سلیمان کے مرنے کے فوراََ بعد اس کے اقتدار میں کوئی فرق نہیں پڑا ، بلکہ یورپ کو عثمانیوں کے خلاف اپنی پہلی فتح حاصل کرنے کے لیے مزید ایک صدی کا انتظار کرنا پڑا۔ لیکن اس دوران میں خلافت کا دور انحطاط شروع ہو چکاتھا۔ اس کے خاتمے میں اتنی دیر اس لیے ہوئی کہ یورپ نے نیند سے بیدار ہونے میں کافی وقت لیا۔
موجودہ زمانے میں اس دور کی ایک بڑی ا چھی مثال امریکا کی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ امریکا نے اپنے عروج کی انتہا دیکھنے کے بعد انحطاط کی ڈھلان پر قدم رکھ دیا ہے۔تاہم امریکی قیادت انتہائی زندہ لوگوں پر مشتمل ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ انحطاط کے عمل کو روکنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ قوم کے سامنے ہمہ وقت کوئی نہ کوئی چیلنج رہنا چاہیے۔ چنانچہ وہ اپنی سہولت سے کوئی سافٹ ٹارگٹ چنتے ہیں اور اس کو قوم کے سامنے چیلنج کے طور پر پیش کردیتے ہیں۔ اس سافٹ ٹارگٹ کو ختم کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، مگر وہ اسے مشکل سے مشکل بناکر اپنی قوم کو دکھاتے ہیں۔ اس کے بعد اس پر ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ یہ وہ عمل ہے جو ان کے انحطاط کو نمایاں نہیں ہونے دے رہا ، بلکہ ان کے عروج کے عظیم تر اور طویل تر ہونے کا تاثر دے رہا ہے۔
انحطاط کا دور بہت خاموشی سے دور زوال میں تبدیل ہوجاتا ہے۔دراصل عروج کا لازمی نتیجہ رفاہیت اور سیاسی غلبہ کا لازمی نتیجہ معاشی استحکام ہوتا ہے۔ معاشی استحکام قوموں میں ان طریقوں کو رواج دیتا ہے جس میں ان کی توانائیاں اور صلاحیتیں عیش وعشرت کے ہاتھوں زنگ آلود ہونے لگتی ہیں۔ایک بڑی اور عظیم سلطنت کی بقا واستحکام کے لیے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ ناپید ہونے لگتی ہے۔ وہ بڑے افراد جو دور انحطاط میں کم ہوجاتے ہیں ، اب اکا دکا ہی رہ جاتے ہیں۔طاؤس و رباب قو م کے اعصاب پر اس طرح سوار ہوتا ہے کہ شمشیر و سناں اپنا مقام کھوبیٹھتی ہے۔ عظیم تر مقاصد کی خاطر تکلیفیں جھیلنے کا داعیہ ختم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔مختلف امراض گھن کی طرح قومی وجود کو کھانا شروع کردیتے ہیں۔
یہ وہ دور ہوتا ہے جب اپنے پرائے سب کو معلوم ہوجا تا ہے کہ اب اس مریض کا خاتمہ قریب آگیا ہے۔ چنانچہ کبھی اندرونی خلفشار قومی استحکام میں دراڑیں ڈال دیتا ہے اور کبھی خارجی حملہ آور قومی زندگی کی بنیادوں کو ہلاڈالتے ہیں۔ملک کا جغرافیہ قوم کی توانائیوں کی طرح محدود ہو جاتا ہے اور اس کی طاقت اس کے حوصلے کی طرح معدوم ہوجا تی ہے۔ماضی قریب میں اورنگ زیب کے بعد کی مغلیہ سلطنت کی تاریخ اس کا بہت واضح نمونہ ہے۔
ایسے میں ایک قوم اکثر اپنی بقا کے لیے دوسری قوموں کی توانائیاں مستعار لیتی ہے۔ یہ عمل ممکن ہے کہ کسی قوم کی ڈوبتی نبض کو کچھ عرصے تک سہارا دے دے ، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ یہ قومی زوال کی سب بڑی علامت ہوتی ہے۔ کیونکہ دوسر ی قوم جب آتی ہے تو صرف اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں ہی ساتھ نہیں لاتی ، بلکہ وہ اپنے خیالات، نظریات، حوصلے اور میلانات بھی ساتھ لاتی ہے۔یہ سب آہستہ آہستہ اس قوم کے اقبال کا سورج غروب کرنا شروع کردیتے ہیں۔اس دور میں بعض مغربی اقوام اس اصول سے واقف ہونے کی بنا پر اجنبی قوموں کو اپنے اندر صرف ایک حد تک آنے کی اجازت دیتی ہیں۔ وہ انھیں قوم کی گاڑی کے کل پرزوں کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور حتی الامکان انھیں ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں آنے دیتیں۔ تاہم اس سے زوال کا عمل موخر تو ہوسکتا ہے ، مگر قدرت کا قانون بدل نہیں سکتا۔ اور وہ قانون یہ ہے کہ جب زوال کا آغاز ہوجا تا ہے تو سوائے تباہی کے ہر دوسرا راستہ بند ہوجاتا ہے۔ کیونکہ زوال ہمیشہ داخلی کمزوری سے شروع ہوتا ہے اور کوئی خارجی طاقت اسے دور نہیں کرسکتی۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک دفعہ پھر مغلیہ سلطنت کے زوال پر نگاہ ڈال لیجیے۔ اورنگ زیب کے بعد آنے والا زوال کسی کے روکے نہ رکا۔ یہاں تک کے شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو دعوت دے کر خاص طور پر ہندوستان بلایا تاکہ مرہٹوں کا زور ٹوٹ جائے۔ مرہٹوں کا زور تو اس نے توڑ دیا ، مگر وہ کتنوں کا زور توڑتا؟ تھوڑے عرصے میں انگریز آندھی طوفان کی طرح پورے ملک پر چھاگئے۔ ٹھیک یہی معاملہ اندلس میں ہوا۔ جہاں دور زوال کے آغاز پر مراکش کے مسلمانوں نے پہلے یوسف بن تاشفین کی زیر قیادت مرابطین کی شکل میں اور پھر موحدین کی صورت میں مسلمانان اندلس کو عیسائیوں کے غلبے سے بچانے کی کامیاب کوششیں کیں۔ مگر کب تلک؟ موحدین کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ساری مسلم ریاستیں ایک ایک کرکے عیسائیوں کے قبضے میں چلی گئیں۔
دور زوال کتنا ہی طویل ہو ، مگر آخر کارتباہی پر منتج ہوتا ہے۔لیکن یہ خاتمہ اور تباہی کب ہوگی ، اس کا انحصار مختلف عوامل پر ہوتا ہے۔بعض اوقات کوئی قوم مذکورہ بالا طریقے کو استعمال کرکے یعنی خارجی مدد اور نئے خون کے ذریعے سے قومی جسد کو مصنوعی تنفس فراہم کرتی ہے جس سے اس کی عمر کچھ طویل ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات حکمران حکمت عملی سے کام لیتے ہیں اور ممکنہ حد تک تباہی کو ٹال دیتے ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال غرناطہ کے حکمرانوں کا طرز عمل تھا ۔ انھوں نے چاروں طرف سے عیسائیوں میں گھرے ہونے کے باوجود حکمت عملی کے ساتھ ٹکراؤ سے پرہیز کیا اور ڈھائی سو سال تک غرناطہ اندلس کے مسلمانوں کی آخری جائے پناہ بنا رہا۔ بعض اوقات ایک قوم کا زوال توشروع ہوجا تا ہے ، مگر اسے چیلنج کرنے والی کوئی دوسری قوم سامنے نہیں آتی ، اس لیے ایک طویل عرصے تک وہ قوم دور زوال میں جی لیتی ہے۔ مثلاً خلافت عثمانیہ کا خاتمہ تو بہت پہلے مقدر ہوگیا تھا ، مگر ابھی یورپی اقوام اتنی مستحکم نہیں ہوئی تھیں کہ اس کی جگہ لے سکیں۔ اس لیے اسے کافی مہلت عمر مل گئی۔ ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ کچھ ایسے تصورات اقتدار کے ساتھ وابستہ ہوجاتے ہیں جو اسے مقدس بنادیتے ہیں۔ جن کی بنا پر کوئی دوسری قوم اس کو ختم کرنے کی ہمت نہیں کرپاتی۔ اس کی سب سے نمایاں مثال خلافت عباسیہ ہے جو دو صدیوں میں ہی اپنی طبعی عمر کو پہنچ گئی تھی۔ مگر خلافت کا تقدس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کا ایسا تصور لوگوں کے ذہن میں راسخ تھا کہ اگلی تین صدیوں تک کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ اس کے خاتمہ کا سوچ سکے۔ یہ الگ بات ہے کہ مریض زبان حال سے کہہ رہا تھا:
دل کا جانا ٹھہر گیا اب صبح گیا کہ شام گیا
آخر کار اس لب گور مریض کو داخل گور کرنے کا فریضہ ہلاکو خان نے سر انجام دیا۔یہ الگ بات ہے کہ خود ہلاکو خان خلیفہ کے قتل میں متردد تھا کہ کہیں کوئی آفت اس قتل کی بنا پر نہ ٹوٹ پڑے۔ مگر ابن علقمی کی حوصلہ افزائی پر وہ اس قتل پر آمادہ ہوا۔تاہم اسے ہاتھوں سے قتل کرنے کے بجائے گھوڑوں کے ٹاپوں تلے روندھا گیا۔
اسی طرح خاتمہ میں تاخیر کا ایک سبب جغرافیائی حالات بھی ہوتے ہیں۔مسلمانوں نے خلافت راشدہ کے دور میں ہی کسریٰ کی ایرانی حکومت کے پرخچے اڑادیے تھے۔ اسی زمانے میں انھوں نے رومیوں کو ان کے اکثر یا تمام ایشیائی اور افریقی مقبوضات سے بے دخل کردیا تھا۔تاہم ان کا مرکز قسطنطنیہ صدیوں تک اپنے انتہائی محفوظ جائے وقوع کی بنا پر مسلمانوں کی یلغار سے محفوظ رہا۔ آخر کارپندھوریں صدی میں سلطان محمد فاتح نے غیر معمولی جنگی حکمت عملی اور جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے اس ناقابل تسخیر مہم کو سر کیااوریوں رومی اقتدار کے بجھتے دیے کو ہمیشہ کے لیے گل کردیا۔
اس بحث کے اختتام پر ہم قارئین کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ اوپر ہم نے قوموں کی زندگی میں آنے والے مراحل حیات کی شرح ووضاحت کے لیے ایک سپر پاور کی زندگی کے مراحل کو بیان کیا ہے۔ کیونکہ اس کی زندگی میں مندرجہ بالا سارے مراحل لازماً آتے ہیں۔ تاہم ضروری نہیں کہ ہر قوم ان تمام مراحل سے گزرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ قومی زندگی کے بعض مراحل ظاہری حالات کے اعتبار سے بالکل مشابہ ہوتے ہیں۔ مثلاً دور تعمیر کی ہلچل اور دورزوال کا ہنگامہ بعض اوقات بالکل یکساں ہوتے ہیں ۔ اسی طرح انحطاط و استحکام کے ادوار کی یکسانی بعض اوقات اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی ہم عصر یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ یہ قوم اس وقت کہاں کھڑی ہے۔ یہی ایک مورخ اور قائد کا فرق ہوتا ہے کہ مورخ ماضی میں جھانک کر کسی قوم کی گزشتہ تاریخ لکھتا ہے ، جبکہ ایک حقیقی قائد مستقبل میں جھانک کر قوم کی ایک نئی تاریخ رقم کرتا ہے۔
[باقی]
____________