HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

ابو شعیب صفدر علی کی یاد میں

جو والدین مال و دولت چھوڑ کردنیا سے رخصت نہیں ہوتے ، اکثر ان کی اولاد انھیں تمام عمر کوستی رہتی ہے ۔وہ شکن آلود چہرے اور شکوہ آمیز لہجے میں یہی کہتی ہے کہ ہمارے والد نے تو ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔لیکن وہ اس معاملے میں دنیا سے بالکل مختلف آدمی تھے۔ وہ اصل دولت اور اصل جائدادسے واقف تھے۔ان کے والد مولانا نقش بند ایک گاؤں کی مسجدمیں مولوی تھے۔ مختلف لوگ اپنے گھروں سے ان کے لیے روٹیاں بھیجا کرتے تھے۔نکاح پڑ ھانے کی کچھ خدمت کر دیا کرتے تھے۔جنازہ پڑھانے پر کچھ کپڑے وغیرہ دے دیا کرتے تھے۔ان کے والد تھے تو مولوی ہی ،مگر’’مولوی ٗ‘ اپنے لغوی مفہوم میں ، نہ کہ اصطلاحی مفہوم میں۔انھوں نے یہ روٹیاں ، پیسے اور کپڑے ،سب کچھ وصول کرنے سے انکا ر کر دیا۔بطور استاد زمین داروں سے معاوضہ وصول کرنا بھی بند کردیا۔وہ گھاس کاٹتے اور منڈی میں جا کر فروخت کر تے ۔اس کے علاوہ ایک اسکول میں پڑھانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔اس کے باوجود گھر میں بہت غربت تھی۔ بعض اوقات گھر میں کھانا نہ پکتا۔ بچوں کو تھوڑے سے دودھ میں پانی ڈال کر ،اس کے ساتھ روٹی کھلا دی جاتی۔بچوں کے اسکول کی معمولی فیس دینے کے لیے ادھار لینا پڑتا۔ لیکن اس کے باوجود دین و اخلاق کی دولت حاصل کرنا ان کی پہلی ترجیح رہی ،جس کے نتیجے میں انھیں اور ان کی اولاد کو غیر معمولی عزت ملی۔گاؤں میں کوئی لڑائی جھگڑا ہو جاتا تو کوئی تھانے نہ جاتا ،ایسے تمام مسائل مسجد میں ان کے والد کے پاس آتے اور وہ مسجد ہی میں انھیں نمٹادیتے ۔بڑے بڑے رئیس راہ چلتے ان کے سامنے آجاتے تو ان کے گھٹنوں کو چھو کر گزرتے۔ ان کی عورتیں کسی گلی سے گزرتیں اور سامنے سے کوئی مرد آ جاتا تو واپس مڑ جاتا اور ان کے لیے گلی خالی کردیتا ۔ لیکن گھر میں غربت پوری طرح موجود تھی۔ اسی غربت کا ترکہ چھوڑ کر یہ مولوی صاحب دنیا سے رخصت ہوگئے۔لیکن ان کے یہ برخوردار شکوہ سنج نہیں ہوئے ، بلکہ اپنے والد کے لیے یہ شعر کہے:

 وہ مرشد مرے اور استاد بھی ہیں

نہاں خانۂ دل میں آباد بھی ہیں

رگوں میں مری ان کا خوں دوڑتا ہے

میری فکر صالح کی بنیاد بھی ہیں

مولانا نقش بند کے اس فرزند صالح کا نام ہے ، صفدر علی گوندل ۔

آہ! ۲۲ جولائی ۲۰۰۲ کوپیر کے روز صبح ساڑھے چار بجے صفدر صاحب وفات پا گئے ۔ ان کی عمر ۶۲ برس تھی ۔ وہ استاذ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی کے شاگردہی نہیں ،ان کی علمی تحریک کے ابتدائی اور بہت قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔غامدی صاحب کے رسائل ’’ الجریدہ ‘‘اور ’’الا علام‘‘ میں ان کا نام سرورق پر شائع ہوتا رہا ہے ۔غامدی صاحب بتاتے ہیں کہ ابتدا میں میرے اور ان کے مابین اتفاق زیادہ اور اختلاف بہت کم تھا، لیکن آہستہ آہستہ اختلاف بڑھتا گیا اور اتفاق بہت کم رہ گیا، لیکن اس کے باوجود باہمی محبت میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔

صفدر صاحب کا تعلق ضلع سرگودھا کے کے ایک گاؤں دھریمہ سے تھا۔ وہیں ایک اسکول میں استاد بھی رہے ۔ مڈل تک باقاعدہ تعلیم حاصل کی ۔باقی تعلیم نجی طور پر حاصل کی۔ مڈل ہی سے خطابت کا آغاز کردیا ۔۴۲ برس کی عمر میں ایم اے اسلامیات کیا ۔وہ گورنمنٹ کالج ،سر گودھا میں استادتھے ۔ والد صاحب جماعت اسلامی کے رکن ہونے کے علاوہ امیر ضلع بھی تھے۔صفدر صاحب جماعت اسلامی کے کارکن تھے ۔

گھر والوں کو ان کی جان لیوا بیمار ی کا علم ان کی وفات سے ایک مہینا قبل ہوا، جب ان کی آنکھوں کارنگ پیلا ہوا تو گھر والوں کویرقان کا اندیشہ ہوا۔ ٹسٹ وغیرہ کرائے گئے۔یرقان کی تصدیق نہ ہوسکی، لیکن یہ زیادہ پریشانی کی بات تھی۔ پھر دیگر ٹسٹ ہوئے۔جگراورپتے کے درمیانی حصے میں کینسر کی تشخیص ہوئی۔ڈاکٹروں نے کہا کہ سرجر ی سے وہ تین مہینوں سے پانچ برس تک زندہ رہ سکتے ہیں ،ورنہ یہ چند ہفتوں کی بات ہے ، لیکن سرجری سے معذوری کی کوئی صورت بھی پیدا ہوسکتی ہے ۔صفدر صاحب سرجری کے لیے آمادہ نہیں ہوئے ۔

ڈاکٹرکہتے تھے کہ کینسر کی علامتیں یہ ہیں کہ مریض کوبخار ہوجاتا ہے ،جسم کے مختلف حصوں میں شدید درد ہوتا ہے ،معذوری کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، بھوک ختم ہو سکتی ہے ،کھانا کھانا مشکل ہوسکتا ہے ۔لیکن وفات سے دو دن پہلے تک انھیں کوئی بخار نہیں تھا، کوئی درد نہیں تھا ، بھوک پوری طرح لگ رہی تھی، کھانا کھا رہے تھے،نماز پڑھ رہے تھے، لطیفے سنا رہے تھے۔سب کچھ ٹھیک تھا۔ہاں آخری دنوں میں کچھ کم گو ہوگئے تھے ،مگر ایسا نہیں تھاکہ وہ دوستوں میں بیٹھے ہوئے ہوں اور کوئی لطیف بات ان کی زبان پر نہ آئے ۔

صفدر صاحب ایک سوچنے والے انسان تھے ۔ ان کے خیالات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن ان کا بڑے سے بڑا مخالف بھی ان کے اندر پائی جانے والی خوبیوں کا انکار نہیں کر سکتا ۔

جوبات صفدر صاحب کے نزدیک حق قرار پا جاتی تھی، وہ اس پر پوری قوت کے ساتھ عمل کرتے تھے۔اس معاملے میں کوئی خوف،کوئی ترغیب،کوئی ناراضی،کوئی محبت ،کوئی عقیدت، ان کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی تھی۔

ایک دفعہ جماعت کا ایک اجتماع منعقد ہورہا تھا۔ وہ صحت مند اور عظیم الجثہ آدمی تھے۔انھیں وہاں گارڈ مقرر کیا گیا۔ اجتماع کا یہ اصول تھا کہ پنڈال میں وہی شخص داخل ہوسکتا تھاجس کی قمیض پر بیج لگا ہوا ہو۔وہ گیٹ پر کھڑے تھے۔ امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی اپنے قریبی احباب کے ساتھ وہاں آئے اور پنڈال کے اندرداخل ہونے لگے ۔ ان کی قمیض پر بیج نہیں تھا۔صفدر صاحب نے اپنا ہاتھ ا میر جماعت کے آگے کر دیا اور سپاٹ لہجے میں بولے : ’’بابا جی ، آپ اندر نہیں جاسکتے ۔‘‘گردوپیش کے لوگ حیران اور پریشان ہوگئے : ’’بھئی یہ امیر جماعت ، مولانا مودود ی ہیں۔‘‘مگرصفدر صاحب کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیںآئی۔ انھوں نے جذبات سے عاری لہجے میں کہا:’’میرے لیے یہ اجنبی ہیں۔ یہاں کا اصول یہ ہے کہ پنڈال میں وہی شخص داخل ہوسکتا ہے جس کی قمیض پربیج لگا ہوگا۔‘‘بالآخربیج حاصل کیا گیا ،مولانا مودودی کی قمیض پر لگایا گیا، تب صفدر صاحب نے انھیں اندر آنے کی اجازت دی۔

صفدر صاحب ، جناب جاوید احمد غامدی کے شاگرد تھے، ان کے رسا لے میں ان کے معاون تھے، لیکن رجم کے معاملے میں غامدی صاحب سے اختلاف ہوگیا ، جس کا نتیجہ یہ تھاکہ اسی رسالے میں غامدی صاحب کے مضمون کے ساتھ ان کا تنقیدی مضمون بھی شائع ہوا۔

ایک زمانے میں گورنمنٹ کالج ، سرگودھا کی مسجد میں ایک ہردل عزیز شخصیت جمعہ کا خطبہ دیتی تھی ۔ ان کے بعد بہت سے خطبا کو آزمایا گیا ، لیکن بات نہ بن سکی ۔قاضی خاور حسین اعوان ایڈوکیٹ بتاتے ہیں’’ ایک جمعہ پر جب میں کالج کی مسجد میں حاضر ہوا تو ایک نئے صاحب منبر پر بیٹھے تقریر فرما رہے تھے ۔ میں اسے بھی کالج انتظامیہ کی تجرباتی اسکیم کا ایک حصہ سمجھ کر مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ گیا، تقریر کی طرف میری قطعاً توجہ نہ تھی ۔ میں اپنے خیالات میں گم بیٹھا تھا کہ مقرر کا ایک جملہ زناٹے کے ساتھ میری کانوں سے ٹکرایا ۔ منبر پر بیٹھے خطیب صاحب فرما رہے تھے کہ حضرات گرامی میں اگر اللہ کا کوئی ایسا حکم جس میں اس نے اپنے جلال اور غضب کا اظہار فرمایا ہو ، اسے نرم اور شریں کر کے آپ کی سماعت کی نذر کروں ، صرف اس خوف سے کہ سخت باتیں کرنے پر کہیں آپ لوگ مجھ سے ناراض نہ ہو جائیں اور مجھے اگلا جمعہ پڑھانے سے روک نہ دیں تو صاحبان جان لیجیے کہ ایساکر کے میں بددیانتی کا مرتکب ہوں گا ۔ اور میں اپنے اس فریضہ سے عہدہ برآ نہیں ہو ں گا جو منبر رسول پر بیٹھنے کے بعد مجھ پر عائد ہوتا ہے۔ میں نے یہ جملہ سن کر پہلی بار خطیب صاحب کو غور سے دیکھا ، وہ سفید سادہ سے لباس میں ملبوس تھے۔ قمیض کے کف کھلے تھے۔ سر پر مدرسے کے عام طالب علموں جیسی معمولی سی ٹوپی پہنی ہوئی تھی ۔ نظر کی عینک کے پیچھے چھپی موٹی موٹی آنکھوں میں ذہانت کی چمک صاف نظر آ رہی تھی ۔ لہجہ ضرورت کے مطابق کبھی سخت ہو جاتا تھا اور کبھی نرم۔ مگر الفاظ بڑے نپے تلے تھے ۔میں نے باقی تقریر بڑے غور سے سنی ۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ مقرر نے مجھے سننے پر مجبور کر دیا۔۔۔ اس نئے خطیب نے ہم جیسے ٹیڑھے لوگوں کے’’ٹیڑھ‘‘ نکالنے شروع کر دیے ۔ باوجود اس کے کہ ان کی باتیں بڑی سخت ہوتی تھیں اور میرے جیسے گناہ گار انسان کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہر بات مجھے مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں ، لیکن پھر بھی میں ان کی تقریر شروع ہونے سے پہلے مسجد پہنچ جاتا تھا۔ ‘‘

ایک بیٹے نے کامرس کی تعلیم حاصل کی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھیں ایک بنک میں ایک اچھی ملازمت مل گئی ہمارے معاشرے کے عام لوگ بنک کی ملازمت حاصل کرنے کے لیے ترستے ہیں صفدر صاحب نے بیٹے کو یہ ملازمت کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ انھوں نے کہا :’’ اگر چہ ہم حکومت سے جوتنخواہیں لیتے ہیں ، اس میں بالواسطہ سود شامل ہوتا ہے ، لیکن آپ بنک کی نوکری کر کے براہ راست سودی نظام کو چلانے والے تو نہ بنیں۔‘‘صفدر صاحب چاہتے تو ملک میں بے روز گاری کوجواز بنا کر بیٹے کو بنک کی نوکر ی کی اجازت دے سکتے تھے،جس کا ظاہر ہے کہ انھیں بھی مالی فائدہ ہوتا ، لیکن انھوں نے خود بھی عزیمت کی راہ اختیار کی اور بیٹے کو بھی عزیمت کی راہ دکھائی۔ لہٰذا اس بیٹے کو ایک اسکول میں ۱۶ویں گریڈ کی نوکر ی کر نی پڑی۔

ان کے برخوردار شعیب احمدجب ان کے ساتھ کسی معا ملے میں بحث کرتے تو پوچھتے :دلیل کیا ہے ؟ وہ جواب دیتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ۔ شعیب پوچھتے : اس کی مصلحت؟جواب ملتا : بس کہہ دیاکہنے والے نے۔ تم ڈھونڈتے پھرومصلحت۔

جب وہ ریٹائر ہوئے تو اس وقت انھوں نے اپنے ایک بھائی ، ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کی شادی کرنی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ معمولی ذمہ داری نہیں تھی۔لیکن اس موقع پر حکومت کی طرف سے انھیں جورقم ملی اس کا بڑا حصہ لینے سے انکار کردیاکہ یہ سود ہے۔ کہا: کام تو اللہ کرتا ہے اور کام ہوجاتے ہیں۔

صفدر صاحب ایک حس جمال رکھنے والے آدمی تھے۔فطرت ، انسان ، ادب ، غرض یہ کہ جہاں خوب صورتی پاتے تو اس سے بہت متاثر ہوتے ،لیکن اس کے باوجو د شریعت کی پوری پابندی کرتے تھے۔ واقعی اصل جہاد یہ ہے۔ان کا مزاج انھیں ایک طرف کھینچتا تھا اور شریعت انھیں دوسری طرف۔

افغانستان میں پچھلے دنوں جو کچھ ہوا،اس کو انھوں نے دل سے لگا لیا تھا، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ انھیں اس کا روگ لگ گیا تھا ۔جمعہ کے خطبے میں وہ خود بھی روتے اور مخاطبین کو بھی رلاتے ۔ ان کا نقطۂ نظر حکومتی موقف سے مختلف تھا ۔ وہ حکومت کے ملازم تھے ، سرکاری کالج کی مسجد کے خطیب تھے،سرکاری اقامت گاہ میں رہتے تھے ،مگر اس کے باوجود وہ اپنا موقف کھل کر بیان کرتے اور حکومت پر سخت تنقید کرتے تھے۔

استاد شاگرد کے تعلق کے معاملے میں صفدر صاحب مشرقی مزاج کے آدمی تھے۔ وہ استاد کو غیر معمولی مقام و مرتبہ دیتے تھے۔

شعیب صاحب کے بقول وہ استاد کی اتنی عزت کرتے تھے کہ استاد شرمندہ ہو جاتا تھا۔شعیب صاحب بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ میر ے ایک استاد نے مجھے بہت مارا۔میں ابا جی کے پاس آگیا اور شکایت کی۔ ابا جی نے کہا : چلو چلتے ہیں ان کے پاس۔ وہ استاد کے پاس آئے اور بولے:اسے اگر مارناہی تھا تو اتنا مارنا تھا کہ یہ آپ کی شکایت کرنے کے قابل نہ رہتا۔

ان کے دوست خواجہ کفایت اللہ سدیدی بتاتے ہیں:’’ آپ صرف پڑھاتے ہی نہ تھے ، پڑھتے بھی تھے ۔قدیم عربی پر عبور حاصل کرنے کے لیے غامدی صاحب کی شاگردی بھی فرمائی ۔وہ اپنے کم عمر اور مختصر سے استاد کے سامنے یوں باادب اور دوزانو بیٹھتے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ وہ مجھے قرون اولیٰ کے شخص لگتے تھے۔‘‘

ان کے اندر سیکھنے کاشوق غیر معمولی تھا۔ وہ غامدی صاحب کے شاگرد تھے ، لیکن عمر میں ان سے کافی بڑے تھے۔اسی طرح جب انھوں نے یونیورسٹی میں ایم اے کرنے کے لیے داخلہ لیاتو ان کی عمر ۴۲برس تھی ۔ اس عمر میں نوجوانوں کے ماحول میں لوگ نفسیاتی مسائل کاشکار ہوجایا کرتے ہیں اور تعلیم ادھوری چھوڑ دیا کرتے ہیں، لیکن وہ کسی ایسے مسئلے کا شکار نہیں ہوئے اور اپنی تعلیم مکمل کی۔

صفدر صاحب ایک دوست دار آدمی تھے ۔

وہ دوستوں کے کام کو اپنا کام سمجھ لیتے تھے ۔ بارہا ایسا ہوتا وہ اپنے گھر کے باہر باغیچے میں چارپائی پر بیٹھے ہوتے تھے۔ کوئی دوست آگیا ۔بولا: میرے ساتھ رالپنڈی چلیں تو وہ اسی وقت چل پڑتے۔ پھر راستے میں یا راولپنڈی پہنچ کر سوچتے کہ یہاں میرا کون کون واقف ہے جس سے تعاون لے کر اس دوست کی مدد کی جائے ۔

وفات سے ایک ہفتہ قبل ان کے ایک دوست گھر آئے یاد رہے کہ صفدر صاحب کو ڈاکٹریہ کہہ چکے تھے کہ وہ چندہفتوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے صفدر صاحب اس وقت گھر پر نہیں تھے ، کسی اور دوست کے ہاں گئے ہوئے تھے۔اِس دوست نے ان کے چھوٹے بیٹے کو اپنے ساتھ لیا اور اُس دوست کے ہاں پہنچ گئے اور کہا:میر ے ساتھ چلیں ۔ پہلے فیصل آباد جانا ہے اور پھر اسلام آباد۔صفدر صاحب نے کہا: میری ٹوپی گھر پر ہے ۔اس دوست نے کہا :ٹوپی گھر سے لے لیتے ہیں۔ صفدر صاحب ان کے ساتھ گھر آئے ۔ ٹوپی لی او ر فیصل آباد چلے گئے۔تین دنوں کے بعد گھر لوٹے ۔۔۔ اور اس کے چار دن کے بعد فرشتوں کے ساتھ اپنے پروردگار سے ملاقات کے لیے چلے گئے ۔

شعیب صاحب کہتے ہیں:’’ ہر آدمی کا اپنا ایک زمانہ ہوتا ہے ۔اپنا Age group۔ لیکن اس آدمی کا کوئی Age group نہیں تھا۔ وہ سب کا ہم عمر تھا۔ سب کے ساتھ ان کے برابر ۔ میں نے ایسا بہت کم دیکھا ہے کہ کسی آدمی کا احترام اس کے بزرگ کرتے ہوں اور اس سے محبت اس کے ہم عمر کرتے ہوں اور اس کی دوستی کا بھرم نوجوان بھرتے ہوں ۔میں نے اس کے بزرگوں کو اس کے ہاتھ چومتے ، اس کے دوستوں کو اس کے گرد پروانوں کی طرح منڈلاتے اور نوجوانوں کو اس کے ساتھ محفلیں جماتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ ‘‘۔۔۔ ’’جو لوگ تحصیل شاہ پور کے موضع شریفہ میں میرے والد کے جنازے میں شریک ہوئے اور جنھوں نے چھوٹے سے قبرستان کو جانے والی کچی سٹرک کے کنارے پر آم کے درخت کے نیچے رکھی ہوئی چارپائی پر محو آرام اس شخص کا آخری دیدار کیا ہے ، وہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ شدید گرمی میں لیٹے ہوئے اس آدمی کی چارپائی کے آس پاس اس سے محبت کرنے والوں کا ایک ہجوم تھا جس میں وہ بھی تھے جو اس کے رشتے دار تھے اور وہ بھی جو اس کے رشتے دار نہیں تھے ۔ وہ بھی تھے جن کی عمریں ستر سے متجاوز تھیں اور وہ بھی تھے جن کی مسیں ابھی بھیگ رہی تھیں ۔ اس کی چارپائی کے آس پاس وہ بھی تھے جن کے سروں پر پگڑیاں تھیں اور ان کی داڑھیاں لمبی تھیں اور چہروں پر نور تھا اور وہ بھی تھے جنھوں نے فرنگی لباس پہنے ہوئے تھے اور وہ بھی تھے جنھوں نے تہ بند باندھے ہوئے تھے اور ان کے کندھوں پر چادریں تھیں۔ ہجوم میں وہ بھی تھے جو دور دراز سے اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر آئے تھے اور وہ بھی تھے جو رکشوں، موٹر سائیکلوں ، سائیکلوں اور تانگوں پر آئے تھے ۔ہجوم میں وہ بھی تھے جو علی الصبح اپنے اپنے گاؤں سے پیدل چل پڑے تھے اور ان کے جوتے غبار سے اٹ گئے تھے اور ان کے کپڑوں پر اور ان کے چہروں پر گرد اڑ رہی تھی ۔‘‘

صفدر صاحب کے ہاں بعض معاملات میں ڈٹ جانے کی عادت میں ایک لچک بھی پائی جاتی تھی۔

شعیب جب میٹرک تک پہنچے تو صفدر صاحب نے انھیں سائنس کے ساتھ میٹرک کرنے کے لیے کہا ۔ شعیب نے آرٹس کے ساتھ میٹرک کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔صفدر صاحب نے اپنی بات پر اصرار کیا ۔ میٹر ک کا امتحان ہوااور شعیب فیل ۔ اس مسئلے پر پھر باپ بیٹے میں بحث ہوئی۔مگر صورت حال میں کوئی تبدیلی نہ آئی ۔پھر امتحان دیا اور برخوردار پھر فیل۔تیسری دفعہ پھر یہ عمل دہرایا گیا۔ ادھر امتحان لینے والوں نے بھی وہی نتیجہ دہرا دیا۔ تب صفدر صاحب نے شعیب سے کہا کہ ایک دفعہ سائنس کے ساتھ میٹر ک پاس کر لوتو اس کے بعد چاہے آرٹس رکھ لینا۔ شعیب نے اس دفعہ امتحان دیا اور پاس ہوگیا اور پھر ایف اے میں داخلہ لے لیا۔

اسی برخوردارنے اپنی پسند کی جگہ پر شا دی کرنی چاہی ۔ صفدر صاحب نے کہا : اس کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔وقت گزرتا گیا۔ باپ بیٹا اپنے اپنے موقف پر قائم رہے۔اور پھر ایک دن صفدر صاحب نے شعیب کو اس کی پسند کی جگہ پر شادی کرنے کی اجازت دے دی۔شادی کے بعد صفدر صاحب اپنی اس بہوکا زیادہ خیال رکھتے تھے،اسے دوسری بہوؤں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے تھے کہ کہیں یہ محسوس نہ کرے ۔

شعیب احمدنے ان کی مطلوب راہ اختیار نہیں کی ،لیکن اس کے باوجو د صفدر صاحب کو ان کے ساتھ بڑی محبت تھی۔ایک دفعہ اپنے ایک دوست سے کہنے لگے :تم نے وہ کہانی تو سنی ہو گی کہ جس میں جادوگر کی جان طوطے میں ہوتی ہے ۔ ایسے ہی میری جان شعیب میں ہے ۔مجھے اس سے جذباتی لگاؤ ہے ۔وہ اس کے لیے شعر کہتے ۔تحریر لکھتے توابو شعیب صفدر علی کے نا م سے لکھتے ۔ اس کے لیے روتے ۔اس سے ناراض ہوتے ۔ اس سے ترک کلام کرتے ۔ناراضی پر بڑا درد انگیز خط لکھتے ۔ شعیب کی شعر و شاعری کو پسند نہ کرتے ، لیکن اس کی غیر موجودگی میں اپنے دوستوں کو اس کے اشعار سناتے ۔ شعیب اپنے والد کے سامنے سگریٹ نہیں پیتے تھے۔ایک دفعہ دونوں باپ بیٹا باتیں کررہے تھے۔ شعیب کو سگریٹ کی طلب ہوئی ۔ اندر کی بے چینی چہرے سے ظاہر ہونے لگی ۔ صفدر صاحب نے صورت حال کوبھانپ لیا۔بولے : میں تمھار ی حالت کو سمجھ رہاہو ں ، لیکن میرے پاس سے اٹھ کرنہ جانا ۔ میر ے سامنے ہی سگریٹ پی لو۔

صفدر صاحب کی بذلہ سنجی بھی بے مثال تھی۔

شعیب احمد کا مذہب کی طرف میلان نہ ہوسکا۔ وہ شعر و ادب کا زیادہ ذوق و شوق رکھتے تھے۔صفدر صاحب اس صورت حال سے بہت پریشان رہتے تھے ۔ شعیب ایک ذہین طالب علم تھے۔ صفدر صاحب انھیں کہتے : تم مجھے جب بتاتے ہو کہ میں فسٹ آیا ہوں تو مجھے خوشی نہیں ہوتی ، کیو نکہ مجھے معلوم ہوتاہے کہ تم نے نماز نہیں پڑھی ہوئی ۔ میرے دوسرے بیٹے اپنے فیل ہونے کی خبر سنائیں تو مجھے افسوس نہیں ہوتا ، کیو نکہ مجھے معلوم ہوتاہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں ۔صفدر صاحب کے بڑے بیٹے کانا م جاوید ہے ۔ ایک دفعہ صفدر صاحب نے شعیب سے کہا: اگر کوئی مجھے یہ کہے کہ جاوید سینما گیا ہے تو میں سمجھوں گا کہ وہاں کوئی جہاد کی فلم لگی ہوگی۔اوراگر کوئی مجھے یہ کہے کہ تم مسجد میں گئے ہوئے ہو تو میں سمجھوں گا کہ وہا ں کوئی ادبی تقریب ہورہی ہوگی ۔

ایک دفعہ گورنمنٹ کالج ،سر گودھا میں مقابلہ حسن قرأت کا انعقادہو رہاتھا۔اس میں لڑکوں اور لڑکیوں ، دونوں نے شریک ہوناتھا۔صفدر صاحب نے اسے درست نہ سمجھا۔انھوں نے انتظامیہ کواس سے روکنے کی بہت کوشش کی ،مگر کامیابی نہ ہوسکی۔وہ احتجاجاً اس تقریب کا بائیکاٹ کرتے ہوئے جارہے تھے کہ راستے میں ہال کی طرف آتے ہوئے ایک پروفیسر صاحب سے ملاقات ہوگئی ۔پوچھا: کہاں جارہے ہیں؟پروفیسر صاحب نے جواب دیا: مقابلہ حسن قرأت دیکھنے ۔ صفدر صاحب فوراً بولے : جی ہاں ،مقابلہ حسن و قرأت ۔

انیس مفتی صاحب صفدر صاحب کے دوست ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ جب انھوں نے تد فین سے پہلے صفدر صاحب کا آخری دیدار کیاتو اس وقت بھی ایک شرارت آمیز مسکراہٹ ان کے چہرے پر موجود تھی۔

ا حسان دانش نے کہا ہے:

موت کے پردے سے کم ہوتی نہیں تابندگی

اس طرف بھی زندگی ہے اس طرف بھی زندگی

ہمیں امید ہے کہ ابوشعیب کی اُس طرف کی زندگی بھی تابند گی سے معمور ہوگی۔

____________

B