بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًا وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ{۱۶۸} اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ بِالسُّوْٓئِ وَالْفَحْشَآئِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ{۱۶۹}
وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ قاَلُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآ ئَ نَا ، اَوَلَوْ کَانَ آبَآؤُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّلَا یَھْتَدُوْنَ{۱۷۰}
وَمَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا کَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلاَّ دُعَآئً وَّنِدَآئً ، صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَعَقِلُوْنَ{۱۷۱}
لوگو، (اپنے اِنھی پیشوائوں کے پیداکیے ہوئے توہمات کے تحت تم نے جو حلال و حرام ٹھیرائے ہیں، اُن کی کوئی حقیقت نہیں، اِس لیے) زمین کی چیزوں میں سے جو حلال و طیب ہیں، اُنھیں کھائو۴۲۹ اور شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو۴۳۰۔ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۴۳۱۔ وہ تو یہی کرے گا کہ تمھیں برائی۴۳۲ اوربے حیائی کی ترغیب دے ۴۳۳ اور اِس کی کہ تم وہ باتیں اللہ کے نام لگائو۴۳۴ جو تم نہیں جانتے۔۱۶۸۔۱۶۹
اور جب اِنھیں دعوت دی جاتی ہے کہ (اپنی اِن باتوں کو چھوڑ کر) اُس چیز کی پیروی کرو جوا للہ نے اتاری ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اُسی راہ پر چلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو چلتے پایا ہے۔ کیا اُس صورت میں بھی کہ اگر اِن کے باپ دادوں نے نہ اپنی عقل سے کام لیا ہو اور نہ راہِ ہدایت پائی ہو۴۳۵؟
اور(حقیقت یہ ہے کہ) یہ لوگ جنھوں نے (اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے سے اِس طرح) انکار کر دیا ہے، اِن کی تمثیل ایسی ہے، جیسے کوئی شخص اُن چیزوں کو پکارے جو پکارنے اورچلانے کے سوا کچھ نہ سنتی ہوں۴۳۶۔ یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، اِس لیے کچھ نہیں سمجھتے۴۳۷۔۱۷۰۔۱۷۱
۴۲۹؎ اس سے معلوم ہوا کہ شرک اور تحلیل و تحریم، دونوں ایک دوسرے سے متعلق مضمون ہیں۔ چنانچہ اسی تعلق سے شرک کی تردید کے بعد اب یہ عربوں کو خطاب کر کے تمام جائز اور پاکیزہ چیزیں کھانے کی تلقین فرمائی ہے۔ سورۂ انعام(۶) کی آیات ۱۳۶ سے ۱۴۵ اور مائدہ (۵) کی آیت ۱۰۳ میں قرآن نے اُن چیزوں کی تفصیل کی ہے جو شیطان کی پیروی میں مشرکینِ عرب نے اپنے مشرکانہ توہمات کے تحت حلال یا حرام ٹھیرائی تھیں۔
۴۳۰؎ مطلب یہ ہے کہ خدا کی جائز کی ہوئی چیزوں کو حرام ٹھیرانے کی راہ تمھیں شیطان نے سجھائی ہے۔ اس کے لیے دین و شریعت میں کوئی سند نہیں ہے، لہٰذا اس کے سجھائے ہوئے اس راستے پر نہ چلو۔ قرآن میں دوسری جگہ بیان ہوا ہے کہ شیطان نے شروع ہی سے یہ چیز اپنے پروگرام میں شامل کر رکھی ہے کہ وہ اس طرح کے توہمات پیدا کر کے لوگوں کو توحید کی راہ سے ہٹائے گا۔ ملاحظہ ہو: سورۂ نساء (۴) آیت ۱۱۹۔
۴۳۱؎ یعنی ایسا دشمن ہے جو ابتدا ہی سے نہایت کھلے ہوئے الفاظ میں تمھارے خلاف اعلانِ جنگ کر چکا ہے۔ شیطان کا یہ اعلان سورۂ اعراف (۷) کی آیات ۱۶ ،۱۷ میں نقل ہوا ہے۔
۴۳۲؎ اصل میں لفظ ’سوء‘ استعمال ہوا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ جس طرح بدی اور گناہ کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسی طرح مالی، جسمانی اور عقلی نقصانات اور مصائب کے لیے بھی آتا ہے۔ سورۂ آلِ عمران (۳) کی آیت ۱۷۴ اور سورۂ نمل (۲۷) کی آیت ۱۲ میں اس کی نظیر موجود ہے، لیکن یہاں اس پر ’الفحشاء‘ کا عطف اور اس کے لیے ’یامرکم‘ کا فعل دلیل ہے کہ یہ بدی اور گناہ ہی کے معنی میں ہے۔
۴۳۳؎ اصل میں لفظ ’امر‘ آیا ہے۔ عربی زبان میں یہ حکم دینے کے معنی میں بھی آتا ہے اور کوئی بات سجھانے یا اس کی ترغیب دینے کے معنی میں بھی۔ یہاں اس سے مراد شیطان کا ان باتوں کے لیے دلوں میں وسوسے ڈالنا اور انھیں نگاہوں میں کھبانا ہے۔ استاذ امام نے شیطان کی ان ترغیبات سے متعلق ایک خاص نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہاں ایک نکتہ قابلِ توجہ ہے۔ وہ یہ کہ رحمٰن اور شیطان کے احکام میں ایسا واضح اور محسوس عقلی و فطری امتیاز موجود ہے کہ کسی سلیم الفطرت اور خوش ذوق انسان کو ان کے درمیان کوئی گھپلا پیش نہیں آ سکتا۔ اوپر والی آیت میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں کھانے پینے کے لیے جائز ٹھیرائی ہیں، وہ اپنے اثرات، اپنے ظاہر اور اپنے باطن کے لحاظ سے پاکیزہ، خوش گوار، معتدل، صحت بخش اور روح پرور ہیں۔ اس کے بالمقابل شیطان جن باتوں کو اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے، وہ سب کی سب روح، عقل، جسم اور اخلاق کو نقصان پہنچانے والی اور بے حیائی و بدکاری کی راہیں کھولنے والی ہیں۔ اس واضح فرق کے بعد بھی جو لوگ شیطان کی پیروی کریں، ان کی شامت ہی ہے۔‘‘ (تدبرِ قرآن۱/ ۴۱۱)
۴۳۴؎ اصل الفاظ ہیں: ’وان تقولوا علی اللّٰہ مالا تعلمون‘۔ ان کے معنی وہی ہیں جو ’افتراء علی اللّٰہ‘ کے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی جھوٹی اور من گھڑت بات منسوب کرنا۔ مثلاً یہ کہنا کہ فلاں اور فلاں کو اللہ نے یہ اختیارات دے رکھے ہیں یا بغیر کسی سند کے یہ دعویٰ کرنا کہ فلاں اور فلاں چیز حرام ہے۔
۴۳۵؎ مطلب یہ ہے کہ بزرگوں کے ورثہ کو بے شک ،احترام کی نظر سے دیکھنا چاہیے، لیکن اس کی صحت و صداقت ثابت کرنے کے لیے مجرد یہ بات کافی نہیں ہے کہ فلاں اور فلاں چیز باپ دادا سے اسی طرح چلی آ رہی ہے۔ اس پر اگر کوئی تنقید کی جاتی ہے تو ہر سلیم الطبع انسان کو چاہیے کہ وہ اسے توجہ سے سنے اور اگر وہ چیز علم و عقل کی میزان پر پوری نہ اترتی ہو تو بغیر کسی تردد کے اسے چھوڑنے کے لیے تیار ہو جائے۔
۴۳۶؎ یہ بھیڑ بکریوں کے گلے کی تمثیل ہے جسے چراوہا پکارتا ہے تو اس کی آواز، بے شک اس کے کانوں سے ٹکراتی ہے، لیکن اس سے آگے اسے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ چراوہا کیا کہہ رہا ہے اور کیا چاہتا ہے۔ اس طرح کی تمثیلات میں ایک صورتِ حال کی تمثیل دوسری صورتِ حال سے دی جاتی ہے۔ اس کے لیے ممثل اورممثل بہ کے تمام اجزا کی ایک دوسرے سے مطابقت ضروری نہیں ہوتی۔
۴۳۷؎ یعنی تمام عقلی اور روحانی خصوصیات سے بالکل محروم ہیں۔ ان میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
(باقی)
ــــــــــــــــــــــــــــــــ