ندوہ کے زمانے ہی میں انھیں وجع المفاصل کی شکایت پیدا ہوئی ۔ کچھ عرصے بعد معدہ و جگر کی خرابی کا بھی شکار ہو گئے ۔ اس کے بعد پاؤں میں سرطانی پھوڑا نمودار ہوا ۔ جس پر عملِ جراحی کیا گیا ،لیکن کامیاب ثابت نہ ہوا اور بالآخر یہ مردِ درویش اپنے عالمِ جوانی ہی میں ۶ مارچ ۱۹۲۶ کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا ۔ ۱۳
مولانا نگرامی کو رانہ تقلید سے عاری سچے متبع سنت اور عالمِ باعمل درویش منش انسان تھے ۔ مولانا سید سلیمان ندوی جو ان کے بچپن سے جو اں سال وفات تک ، پوری زندگی کے شاہد تھے ، ان کی سیرت و اخلاق کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’یہ فضل و کمال ، تقریر و تحریر ، مطالعہ و وسعتِ نظر تو الگ چیزیں ہیں ، مرحوم کی زندگی کا اصل جوہر اس کے اخلاق تھے ، سر تاپا انکسار ، سرتا پا تواضع ، حددرجہ فروتن، مگر اس کے ساتھ حد درجہ بے نیاز ، عفی نفس ، بلند حوصلہ ،اپنے اساتذہ اور بزرگوں کا حد درجہ لحاظ رکھنے والا ، مطیع و فرماں بردار ، مگر اس کے ساتھ خدا کے سوا ہر بڑائی سے نڈر اور ہر کبریائی سے بے خوف ۔‘‘ (یادِ رفتگان ، سید سلیمان ندوی ، ص ۶۳)
مولانا عبد الماجد دریا بادی نے ان کی زندگی کا قریب سے مشاہدہ کیا ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’قید سے چھوٹے (شروع ۱۹۲۲ء) تو اپنے پرانے دارالعلوم ندوہ میں مدرس ہو کر آئے ۔ استادوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ قد کے لحاظ سے بھی اور عمر کے لحاظ سے بھی۔ لیکن چند روز میں بڑے بھی انھیں اپنا بڑا ماننے لگے۔ علم و فضل، صلاح و تقویٰ، تواضع و مسکنت ، ایثارہر لحاظ سے مستحق بھی اسی کے تھے۔ ہر وقت خندہ رو رہتے۔ ہر ایک کی خدمت کر کے خوش ہوتے ۔ اپنے ندوی ہونے پر فخر کرتے اور اس سے زیادہ خود ندوہ ان پر فخر کرتا تھا ۔ اتنا بے لوث ، اتنا بے شر ، دنیوی آلودگیوں سے اتنا بلند و برتر نمونۂ انسانیت کم ہی دیکھنے میں آیا ۔ ...ندوہ میں شاید پچاس روپے مشاہرہ پا رہے تھے اور خاص حلقوں میں معروف و متعارف تھے کہ ڈھاکہ یونیورسٹی سے ایک مانگ چار سو ماہوار کے مشاہرے کی آئی ۔ چپکے سے انکار کر دیا اور پھر جیسے یہ کوئی قابلِ ذکر بھی نہیں ۔ اس کا تذکرہ تک اپنے دوستوں رفیقوں سے نہ کیا ۔‘‘(معاصرین ، عبد الماجد دریا بادی ، ص ۲۲۴۔ ۲۲۵)
سید غلام بھیک نیرنگ معتمد جمعیت مرکزیہ تبلیغِ اسلام مولانا نگرامی کے کردار پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں:
’’مولانا عبد الرحمن نگرامی ندوی ادیب ،دارالعلوم ندوۃالعلما لکھنؤ، علم و فضل اور طہارت و تقویٰ کے علاوہ قوم و ملت کے مخلص خادم رہے اور بے ریا خاموش کارکن تھے ۔ ان کے محاسن کا شمار مشکل ہے۔ جس بات کا ذکر یہاں خاص طور سے کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کو تبلیغ سے خاص دلچسپی تھی ۔ اور فنِ تبلیغ میں خاص بصیرت حاصل تھی ۔ وہ جمعیتِ ہذا اور اس کی جماعتِ منتظمہ کے رکن تھے۔‘‘ ۱۴
مولانا نگرامی سے سیکڑوں طلبہ نے اکتسابِ فیض کیا ۔جن شاگردوں نے علمی دنیا میں نام پیدا کیا ، ان میں سے چند اہم نام درجِ ذیل ہیں:
۱۔ سیدریاست علی ندوی رفیق دارالمصنفین ،اعظم گڑھ
۲۔ شاہ معین الدین احمد ندوی نگران دارالمصنفین و مدیر ’’معارف‘‘ ،اعظم گڑھ
۳۔ مولانا محمد حنیف ندوی رفیق ادارہ ثقافتِ اسلامیہ ، لاہور
۴۔ مولانا عبد الباری المعروف ابو علی اعظمی معروف ادیب نقاد و شاعر ۱۵
۵۔ مولانا عبد السلام قدوائی ندوی سابق مدیر ’’معارف‘‘ و نائب ناظم دارالمصنفین ،اعظم گڑھ ۱۶
۶۔ مولانا امین احسن اصلاحی صاحبِ تفسیر ’’تدبرِ قرآن‘‘ ۱۷
۷۔ مولانا اختر احسن اصلاحی سابق مہتمم مدرستہ الاصلاح ،سراے میر (اعظم گڑھ) ۱۸
۸۔ مولانا نجم الدین اصلاحی استاذ مدرستہ الاصلاح ، صحافی و مصنف ۱۹
۹۔ مولانا عزیر الرحمن سابق ایڈیٹر اخبار ’’مشرق‘‘ و ماہنامہ ’’کونین‘‘ ، گورکھپور ۲۰
۱۰۔ مولانا داؤد اکبر اصلاحی سابق استاذ جامعہ عربیہ احیاء العلوم ، مبارک پور ، استاذ التفسیر جامعہ الفلاح ،بلیریا گنج ۲۱
۱۔ نور الحق مولانا ثناء اللہ امرتسری کی کتاب ’’حق پرکاش‘‘ کا حشووزواید نکال کر عربی ترجمہ کیا ۔
۲۔ لالیٰ الحکم مجموعۂ احادیث
۳۔ خواتینِ اسلام آیات و احادیث کی روشنی میں عورتوں کے فضائل اور حقوق و فرائض کے بیان پر مبسوط تحقیقی مقالہ ۔
۴۔ درسِ آزادی مجموعۂ سیاسی مضامین
۵۔ عدمِ تشدد کی فتح ٍ ٍ ۲۲
۶۔ ذکرِ مبارک سیرتِ رسول
۷۔ عقائدِ اسلام نوعمر طلبہ کے لیے ۲۳
۸۔ ’’محمد‘‘ اسمِ محمد کی تشریح پر مشتمل رسالہ ۲۴
اس کے علاوہ بیسیوں مضامین ’’پیغام‘‘ ، کلکتہ ، ’’سچ ‘‘ لکھنؤ، ’’الندوۃ‘‘ لکھنؤ، ’’معارف ‘‘ اعظم گڑھ اور دیگر جرائد میں شائع ہوئے ۔
مولانا نگرامی نے مولانا شبلی سے قرآنِ مجید پڑھا تھا اور ان کے مطالعۂ قرآن سے بطورِ خاص متاثر تھے ۔ بعد ازاں مولانا حمید الدین فراہی سے اکتسابِ فیض کیا ۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی صحبت و تربیت بھی انھیں حاصل رہی ۔ اس طرح وہ وقت کے تین جید علما کے اسلوب سے فیض یافتہ تھے ۔ اس کے علاوہ امام ابنِ تیمیہ کی تحریروں سے انھیں خاص دلچسپی تھی اور علامہ ابنِ قیم کی فکر کے گرویدہ تھے۔ ان چیزوں نے ان کے اندر قرآنی ادبیات کا ایک خاص ذوق پیدا کر دیا تھا۔ اسی ذوق کے وسعتِ مطالعہ اور اپنی خداداد ذہانت کے سبب وہ نہایت مقبول استاد تھے ۔ ان کے شاگرد مولانا عبد السلام قدوائی ندوی اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دبلے پتلے چھوٹے سے قد میں بلا کی کشش تھی ۔ گہری علمیت ، بے مثال ذہانت ، غیر معمولی وسعتِ نظر اور بلندیِ اخلاق کا عجیب و غریب مرقع تھے ۔ مولانا شبلی کے فیضان اور مولانا ابو الکلام آزاد کی تربیت نے انھیں علم و خطابت کی جامعیت بخشی تھی جو مشکل ہی سے کہیں اور نظر آتی ہے ۔ نگاہ ایسی کیمیا تھی کہ جس پر پڑ گئی ، کندن بن گیا ۔ ان کی بدولت طلبہ کی علمی اور ذہنی سطح بہت بلند ہو گئی تھی ۔ اور ان کے اندر غیر معمولی بیداری پیدا ہو گئی تھی ۔ ۲۵ ‘‘
سید سلیمان ندوی کی نظر میں اپنے اس شاگرد کا جو مقام تھا ،اس بارے میں لکھتے ہیں:
’’دارالعلوم ندوہ نے اپنی تیس برس کی مدت میں جتنے کارآمد اور علمِ دین کے خادم پیدا کیے ، یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ عبد الرحمن ان سب سے بہتر تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ذات میں علم و عمل کی ساری خوبیاں پیدا کر دی تھیں ۔‘‘( ’’یادِ رفتگان ‘‘ ، سید سلیمان ندوی ، ص ۶۰)
مولانا عبد الماجد دریابادی نے مولانا نگرامی کی جواں مرگ پر جن الفاظ میں اپنے دکھ کا اظہار فرمایا ہے ، وہ پتا دیتے ہیں کہ ان کی نظر میں مولانا کی کیا قدرو منزلت تھی ۔ لکھتے ہیں:
’’ایک چراغ جلا لیکن قبل اس کے ،اس کا اجالا پوری طرح پھیلے ، بجھ گیا ۔ ایک آفتاب چمکا ، لیکن پیشتر اس کے کہ اس کی شعاعیں پورا نور پھیلائیں ،غروب ہو گیا ۔ ایک پھول کھلا ،مگر معاً مرجھا گیا ۔ سبزہ لہلہایا مگر فوراً خشک ہو کر زمین کے برابر ہو گیا۔ حق کی پکار بلند ہوئی ،لیکن معاً فضاے لامتناہی میں گم ہو گئی ۔‘‘(وفیاتِ ماجدی، عبد الماجد دریا بادی، ص ۵۴۔۵۵، لکھنؤ ۱۹۷۸ء)
مولانا امین احسن اصلاحی کو مولانا نگرامی کی صحبتِ فیض رساں سے اکتساب کا موقع حاصل رہا ۔وہ کہتے ہیں :
’’مولانا عبد الرحمن نگرامی بے حد ذہین اور ہمہ صفت موصوف استاد تھے ۔ وہ بہت زبردست ادیب ،شعلہ بیان خطیب اور ایک بے مثل شاعر تھے ۔ فلسفہ اور علمِ کلام سے بھی آگاہ تھے ۔ اپنی ان متنوع صلاحیتوں کی وجہ سے مدرسہ میں ’’ہر فن مولا‘‘ مشہور تھے۔‘‘ (شہزاد سلیم ،’’ مولانا اصلاحی کی کہانی‘‘ ،ماہنامہ اشراق ،جنوری ۱۹۹۸ ۔ ص ۱۱۱ )
مولانا نگرامی کی علمی قابلیت ،سیاسی ذہانت اور صحافیانہ لیاقت کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ انھوں نے اپنی صرف ستائیس سالہ زندگی میں اتنا نام پیدا کیا کہ وقت کے معروف اہلِ علم ان کی شان میں رطب اللسان ہیں۔
________
۱۳ یادِ رفتگان ، سید سلیمان ندوی ، ص ۶۳۔
۱۴ جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام کی رپورٹ، یکم مارچ ۱۹۲۵ تا ۳۱ دسمبر ۱۹۲۵ ، ص ۲۵۔۲۶، سید غلام بھیک نیرنگ ،نگرام مطبوعہ ۱۹۲۶ ۔
۱۵ مولانا عبد الرحمن نگرامی، پروفیسر اختر راہی ، ص ۴۹۔ ماہنامہ ’’المعارف‘‘ لاہور اگست ۱۹۸۱۔
۱۶ پرانے چراغ، ابوالحسن علی ندوی ،ص ۲۸۷ ۔ ۲۹۷ ،مجلسِ نشریاتِ اسلام کراچی ، ۱۹۸۱ء ۔
۱۷ یادِ رفتگان، سید سلیمان ندوی ، ص ۶۱۔
۱۸ اشفاق احمد طویٰ ،مولانا اختر احسن اصلاحی ، مجلہ مدرستہ الاصلاح سرائے میر ، میر شخصیات نمبر شمارہ نمبر ۹ ، ۱۹۹۶ ء ۔ ص ۲۴ ۔
۱۹ محمد عارف اعظمی ،مولانا نجم الدین ، مجلہ ایضاً ، ص ۴۴۔ ۴۷ ۔
۲۰ عبد الماجد گونڈوی ،مولانا عزیر الرحمن ،ایضاً ، ص ۸۲ ۔
۲۱ ہشام الدین نیپالی ، مولانا داؤد اکبر اصلاحی ، مجلہ ایضاً ، ص ۱۱۹ ۔
۲۲ یادِ رفتگان، سید سلیمان ندوی ، ص ۶۴۔
۲۳ پروفیسر اختر راہی ایضاً ، ص ۴۹ ۔
۲۴ مطلوب الرحمن ، ماہنامہ ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ ،خاص نمبر ۱۹۳۲ء ، ص ۲۳۶ ۔
۲۵ عبد السلام قدوائی ندوی ، مقالہ :تاثرات اور یادیں ،مشمولہ سید رئیس احمد جعفری: شخصیت اور فن ،کراچی ۱۹۷۰ء، ص ۱۸ ۔
____________