HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

جناب پرویز مشرف: حقائق یہ ہیں

۲۰جون ۲۰۰۱ کو چیف ایگزیکٹو جناب پرویز مشرف نے صدرِ پاکستان کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ وہ افواجِ پاکستان کے سربراہ اور جائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ گویا اب وہ چار مناصب کے بلاشرکتِ غیرے مالک ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا نادر واقعہ ہے کہ ایک شخص کی ذات میں چاروں عہدے جمع ہوئے ہوں۔

پرویز مشرف ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۱ کو نواز شریف کی ’’عوامی حکومت‘‘ کو گرا کر اپنے ہی جاری کردہ پی سی او کے تحت چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان سے پہلے پاکستان کے نظمِ سیاسی میں اس عہدے کا کوئی وجود نہ تھا، اور نہ آئین ہی میں اس کا کوئی ذکر ہے، اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس منصب کے خالق اور ماوراے آئین اقدام کے نتیجے میں اس منصب پر فائز ہونے والے پہلے شخص ہیں، تو یہ غلط نہ ہو گا۔۱؂

صدرِ پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھاتے وقت سیاسی، معاشی اور انتظامی حوالوں سے اس اقدام کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اس پر مثبت اور منفی بہت سی باتوں کی گنجایش موجود ہے، مگر یہ ہماری بحث کا موضوع نہیں ہے۔ ہمارے پیشِ نظر ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ کے اقدام اور اب تک کے سیاسی حالات و واقعات کا اخلاقی اور دینی پس منظر میں جائزہ لینا ہے۔

یہ بات ابتدا ہی میں واضح ہو جانی چاہیے کہ اسلام (ضابطۂ حیات نہیں) زاویۂ حیات ہے۔ اس کا اصل مسئلہ آخرت ہے۔ دنیوی معاملات کو اس نے انسانی عقل پر چھوڑ دیا ہے اور معلوم انسانی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے اپنے اس آخری ذریعۂ علم کو بالعموم صحیح طریقے سے استعمال کیا ہے، اور حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ البتہ حیاتِ انسانی کے جن گوشوں میں اس کے ٹھوکر کھانے کا امکان تھا، ان کے بارے میں کائنات کے خالق و فاطر نے وحی کے ذریعے سے اس کی رہنمائی کر دی ہے۔۲؂

انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایسا واقع ہوا ہے کہ تمدن اور معاشرت اس کی ابدی ضرورت بن گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسے دنیا میں ارادے کی آزادی اور اختیار حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ ارادہ و اختیار اگر کسی قاعدے اور ضابطے کے پابند نہ رہیں اور بے لگام ہو جائیں تو اس سے معاشرتی اور تمدنی زندگی کے تہ و بالا ہونے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اس خطرے سے بچنے اور ارادہ و اختیار کو سوے استعمال سے بچانے کے لیے انسان نظمِ اجتماعی قائم کرتا، حکومت تشکیل دیتا اور مختلف معاشرتی ادارے بناتا ہے۔ وہ اس کے لیے اپنے ابناے نوع میں سے اربابِ حل و عقد کے سامنے اپنے ارادہ و اختیار میں سے بہت کچھ سے دست بردار ہو کر اپنے آپ کو آئین و قانون کا پابند بنا لیتا ہے۔ یہ اس کے تمدن اور نظمِ اجتماعی کی ناگزیر ضرورت ہے۔

انسانی معاشرے میں نظمِ سیاسی کا قیام ابتدا ہی سے انسان کی فطری اور عمرانی ضرورت رہی ہے۔ اس لیے اس نظم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے چند ایسی چیزیں طے کر دی ہیں جن میں انسانی عقل کی رہنمائی ناگزیر تھی۔ نظم سیاسی کے کچھ امور متعین ہو چکے ہیں۔ ان طے شدہ امور کی خلاف ورزی کی صورت میں تمدن کی تباہی، تہذیب کی شکست و ریخت اور معاشرے کا انتشار و اختلال تاریخِ انسانی کے مشہود حقائق ہیں، جنھیں ثابت کرنے کے لیے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہے۔

اسلام کے نظمِ سیاسی میں اولوالامر (حکمرانوں) اور رعایا، دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ و رسول کے احکام کے پابند رہیں۔ اولوالامر کو ایسی کسی قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے جو دین کے خلاف ہو۔ اسی طرح اگر اولوالامر قرآن وسنت کے پابند ہوں تو مسلمان ریاست کے شہریوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر صورت میں اپنے نظمِ سیاسی کے وفادار اور اُس سے وابستہ رہیں، حتیٰ کہ سیاسی خلفشار کی صورت میں بھی کسی مسلمان کے لیے یہ روا نہیں ہے کہ وہ نظمِ اجتماعی کے خلاف کسی اقدام کی حمایت میں علمِ بغاوت بلند کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ناپسندیدگی، عصبیت اور کسی بھی طرح کے ذہنی تحفظ کے باوجود قانون سے فرار اختیار کرنے یا اس کی خلاف ورزی کرنے کے بجائے، ہر حال میں اس کے پابند رہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ معاملہ اس وقت ہو گا، جب اولوالامر خود اللہ و رسول کی اطاعت میں زندگی گزاریں، فیصلے کریں اور قانون بنائیں۔ وہ اگر خدا اورسول کی اطاعت سے نکل جاتے ہیں اور ان کے باغی بن کر اپنا اقتدار قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ایسی صورت میں رعایا ان کی وفادار رہنے کی پابند نہیں ہے۔ لیکن ایسے موقعوں پر بھی مسلمانوں کی واضح اکثریت کی تائید و حمایت کے بغیر اربابِ حکومت کے خلاف خروج، بغاوت قرار پائے گا اور بغاوت اسلامی شریعت کی رو سے زمین پر فساد برپا کرنے کے مترادف ہے، جس کی سزا قرآن میں قتل بیان ہوئی ہے۔

اسی طرح دین میں حکمرانوں اور رعایا کی الگ الگ ذمہ داریاں بیان ہوئی ہیں۔

حکمرانوں کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عدل و انصاف کو ہر سطح پر اس کی آخری صورت میں قائم کریں اور اسے عام آدمی کے لیے سہل الحصول بنائیں۔ عام آدمی کو اگر انصاف حاصل کرنے میں دقت پیش آئے یا کوئی رکاوٹ محسوس ہو تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس کی یہ مشکل حل کرے اور جو بھی رکاوٹ ہو، اسے دور کرے۔

اہلِ اقتدار کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر خدا کی بندگی میں داخل ہونے اور دنیا کی تنگ نائے سے نکل کر آخرت کی وسعتوں کی طرف سفر کرنے میں ان کی مدد کرے۔

دینی اعتبار سے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کی سطح پر لوگوں کو نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا پابند بنائیں۔ اور اپنے اسلام و ایمان کی شہادت کے طورپر مسجدوں میں عام مسلمانوں کے ساتھ نماز ادا کریں۔ بالخصوص نمازِ جمعہ میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے اورپھر انھیں نماز پڑھانے کا اہتمام اہلِ اقتدار ہی کی ذمہ داری ہے۔ ان کے لیے لازم ہے کہ کاروبارِ حکومت چلانے کے لیے دوسرے محکموں کی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا شعبہ بھی قائم کریں۔

اسلامی ریاست کے مسلمان شہریوں کی بنیادی ذمہ داری نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا ہے۔ وہ اگر یہ دو کام کرگزرتے ہیں تو انھیں وہ تمام حقوق حاصل ہو جائیں گے جو ایک مسلمان کی حیثیت سے اسلامی ریاست کے شہریوں کو ملنے چاہییں۔

اس سلسلے کی ایک نہایت اہم چیز یہ ہے کہ اربابِ اقتدار اور ریاست کے شہریوں کا باہمی تعلق حاکم و محکوم کا نہیں، بلکہ اخوت کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حاکم و محکوم کی تقسیم ذمہ داریوں کے لحاظ سے ہے، ورنہ وہ آپس میں بھائی بھائی ہیں اور قانونی لحاظ سے برابر ہیں۔ اقامتِ صلوٰۃ اور ادائیگیِ زکوٰۃ کے بعد حکمران اپنی رعایا سے کوئی اور مطالبہ کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ ریاست کے شہری اگر یہ بنیادی مطالبات پورے کر دیں تو ان کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت حکمرانوں کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔

اسلام کے نظمِ سیاسی کے بنیادی خط وخال واضح ہوجانے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا نظمِ حکومت کیسے تشکیل پائے گا؟ اس کے بارے میں قرآنِ مجید کی واضح ہدایت ہے کہ:

’’اور ان کا نظام باہمی مشورے پر مبنی ہے۔‘‘ (الشوریٰ ۴۲: ۳۸)

اس سے بالبداہت واضح ہے کہ مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی باہمی مشورے سے قائم ہو گا، باہمی مشورے سے باقی رہے گا اور (حالات اورضرورت کے تحت) باہمی مشورے سے تبدیل ہو گا۔ اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں اکثریت کی رائے قابلِ لحاظ ہو گی، اور اسی سے فیصلے کیے جائیں گے۔ حکمران یہ حق نہیں رکھتے کہ وہ اجتماعی معاملات میں اپنے شہریوں کے اکثریتی فیصلے کو رد کر دیں۔ انھیں کاروبارِ حکومت چلانے اور لوگوں کے حقوق کے بارے میں فیصلے کرنے کے لیے عوام کی تائید حاصل ہونا ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ چیز اظہارِ رائے کی آزادی اور رائے کے احترام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حکمرانوں کی بے راہ روی، غلطی، خامی اور کوتاہی کی صورت میں عوام کو اُن پر تنقید کرنے اور (قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے) احتجاج کرنے کا حق حاصل ہو۔ حکمران اگر اس کے باوجود اپنی غلط روش نہ چھوڑیں، غلطیوں سے رجوع نہ کریں اور خامیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح نہ کریں تو رعایا کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اتفاقِ رائے یا کثرتِ رائے سے ان سے حقِ حکمرانی چھین کر ملک کا اقتدار اپنے اعتماد کے دوسرے لوگوں کے حوالے کر دیں۔

اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام میں استبدادی حکومت کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اسلام مسلمانوں کے باہمی مشورے (رائے عامہ) سے قائم ہونے والی بدترین حکومت کو تو گوارا کر لیتا ہے، لیکن مسلمانوں کی رائے کو نظرانداز کر کے یا ان کی رائے کے خلاف قائم ہونے والی (استبدادی) حکومت کو اللہ و رسول کی ہدایات سے بغاوت قرار دیتا ہے۔ ایسی حکومت کو برداشت کرنا تو کجا، اسلام رائے عامہ کے ذریعے سے قائم ہونے والی حکومت کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ لوگوں کو بے خبر رکھ کر اجتماعی معاملات چلائے۔ وہ اگر ایسا کرتی ہے تو یہ اسلام کے نزدیک صریح بددیانتی ہے۔

یہ واضح رہے کہ اسلامی حکومت میں کثرتِ رائے سے ہونے والا فیصلہ نافذ العمل ہوتا ہے، مگر اس فیصلے کو غلط سمجھنے والوں کا اختلافِ رائے کا حق برقرار رہتا ہے۔ اختلاف کرنے والے اس بات کے تو پابند ہوں گے کہ نافذ العمل فیصلے کا احترام کریں اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں تساہل، چشم پوشی اور غفلت سے کام نہ لیں، مگر وہ اس کے خلاف (قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے) اپنی رائے کا اظہار کرنے، اپنا استدلال پیش کرنے اور لوگوں کا ذہن (اور نقطۂ نظر) بدلنے کی کوشش کرنے میں آزاد ہوں گے۔ وہ نافذ العمل فیصلے کے اس وقت تک پابند رہیں گے، جب تک کہ وہ اکثریت کو اپنی رائے کا قائل کر کے فیصلے کی غلطی واضح نہ کر دیں اور (اتفاق رائے یا کثرتِ رائے سے) فیصلہ تبدیل کرانے کی پوزیشن میں آ جائیں۔

نظمِ سیاسی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا یہ وہ خلاصہ ہے جو قرآن و سنت، اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافتِ راشدہ سے مستنبط ہوتا ہے۔ ہم جناب پرویز مشرف سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس کی روشنی میں غور فرمائیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں؟

ہر دور میں لوگوں کی رائے جاننے کا طریقہ معروف رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافِ راشدہ کے دور میں قبائلی نظام رائج تھا۔ لوگ اپنے لیڈروں اور قبائلی سرداروں کے ذریعے سے شریکِ مشورہ ہوتے تھے۔ آج کے دور میں بھی لوگوں کی رائے جاننے کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ انھی میں سے ایک نظامِ جمہوریت ہے جس میں لوگ ووٹ کی پرچی کے ذریعے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص عوام کی رائے حاصل کرنے کے اس طریقۂ کار سے اختلاف کرے، مگر اسے پھر اس کا متبادل کوئی ایسا طریقہ تجویز کرنا ہو گا جس میں عوام کواظہارِ رائے کی آزادی حاصل ہو اور وہ بلاتکلف اپنے دل کی بات کہہ سکیں۔ اس حقیقت کو نظرانداز کر کے کوئی شخص اگر مسلمانوں کے اقتدار پر قابض ہوتا ہے تو وہ غاصب ہے، اور اس کی حکومت استبدادی حکومت ہو گی۔ اسلامی شریعت میں ایسی حکومت کی کوئی گنجایش موجود نہیں ہے۔ ایسا کرنے والا آخرت میں اسلام کا باغی قرار پائے گا۔

رہی یہ بات کہ سیاست دانوں کی بداعمالیوں نے ملک کو تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا تھا، انھوں نے تمام اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کر کے انھیں ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا اور اس سے تمام ادارے یا تو عملاً ختم ہو گئے تھے یا پھر تباہی کے کنارے پر پہنچ گئے تھے، ایسی صورت میں نظریۂ ضرورت کے تحت سابقہ عوامی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار سنبھالنا ضروری ہوگیا تھا۔ اس استدلال میں بہت کچھ حقیقت موجود ہے اور اگر اس سارے استدلال کو تنقید کے بغیر من و عن درست مان لیا جائے تو بھی کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

نظریۂ ضرورت اصلاً وہی عذر و اضطرار ہے جس کا ذکر قرآن میں کھانے پینے کی چیزوں میں حلت و حرمت کے باب میں ہوا ہے۔ اس نظریے کی ضرورت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ مگر جو خرابیاں اس اضطرار کا باعث بنی تھیں اور جنھیں بنیاد بنا کر اقتدار پر قبضہ کیا گیا تھا، کیا وہ واقعی دور ہو گئی ہیں؟ یا انھیں دور کرنے کے لیے کیا کوئی واضح منصوبہ بندی کی گئی ہے؟ اگر حالات کا معروضی جائزہ لیا جائے تو جو حقائق سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں:

۱۔ ملک کا آئین معطل ہے۔

۲۔ادارے آئینی تقاضا ہوتے ہیں اور آئینی سرپرستی میں اپنا وجود قائم رکھتے اور نشوونما پاتے ہیں۔ چونکہ آئین ہی نہیں ہے، اس لیے کسی ادارے کے وجود کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

۳۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک شخص کی ذات میں اتنے اختیار (اور عہدے) جمع ہوئے ہیں۔

۴۔ عدالتیں پی سی او کے تحت کام کر رہی ہیں اور پی سی او چیف ایگزیکٹو ہی کا دوسرا نام ہے۔

۵۔ مہنگائی اور کرپشن اپنی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے، لوگوں کے لیے زندہ رہنا ناممکن ہو گیا ہے اور وہ حکومت سے مایوس ہو چکے ہیں۔

۶۔ جن سیاست دانوں کو کرپٹ قرار دے کراقتدار چھینا گیا تھا، اب اُنھی کی مشاورت کو اپنی حکومت کے جواز کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

۷۔ نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے لیے جو نظام وضع کیا گیا ہے (اور جس کے چار مرحلے مکمل ہو چکے ہیں) ، وہ غیر فطری، غیر عقلی، غیر اخلاقی اور غیر آئینی ہے۔ حالات کی تبدیلی کے ساتھ ہی اس نظام کی عمارت زمیں بوس ہو جائے گی، گویا اس نظام کو قائم کرنے میں ملک وقوم کا جو سرمایہ، وقت اور صلاحیتیں صرف ہو رہی ہیں ،وہ سب رائیگاں جانے کا پورا خدشہ موجود ہے۔

ان حقائق کی روشنی میں کچھ اور سوالات پیدا ہوتے ہیں مثلاً:

۱۔ کیا نظریۂ ضرورت کو واقعی ملک و قوم کے مفاد میں استعمال کیا گیا ہے؟

۲۔ کیا ایسا کرتے وقت دینی، اخلاقی اور قانونی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھاگیا ہے؟

۳۔ برسر اقتدار آنے کے بعد اپنے سات نکاتی ایجنڈے میں پرویز مشرف صاحب نے قومی اعتماد اور معیشت کی بحالی کا جو وعدہ کیاتھا، کیا اس کا دور دور تک کوئی نشان ہے؟ اور کیا بحالی کا یہ سفر معکوس نہیں ہوا ہے؟

اگر ملت کا احترام، قوم کی صلاح و فلاح اور ملک کی بھلائی کا احساس زندہ ہو اور خدا کے حضور پیشی کا خوف موجود ہو تو بیان کردہ حقائق کی روشنی میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دینا ضروری ہو جاتا ہے۔

________

۱ ؂ البتہ آئین میں وزیراعظم کو چیف ایگزیکٹو کہا گیا ہے۔ یہ وزیراعظم کے عوامی عہدے کی حیثیت کا بیان ہے، یہ الگ سے کسی نئے عہدے کا ذکر نہیں۔

۲؂ وحی اور عقل میں وہی رشتہ ہے جو انسان اور عقل میں ہے۔ جیسے انسان اگر عقل سے عاری ہو جائے تو پاگل قرار پاتا ہے، اسی طرح عقل اگر وحی کی روشنی سے محروم ہو جائے تو وہ بھی باؤلی ہو جاتی ہے۔

____________

B