HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

ایک خورشید جو غروب ہوا

بارہ ربیع الاوّل کو ہم نے ایک ایسے صاحبِ خیر کو سپردِ خاک کیا جو اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دیا دل میں فروزاں کیے جیتا رہا اور شاید زندگی کے آخری سالوں میں اس نے اسی دیے کی لو سے چراغِ حیات کو بھی روشن کیے رکھا۔ ورنہ سرطان جیسا مرض کہاں کسی کو جینے کی اتنی مہلت دیتا ہے ۔ صاحب زادہ خورشید احمد گیلانی جب دنیا سے رخصت ہوئے تو ایک جواں سال کے آنگن میں اترنے والی اس مرگ پر صرف وہی لوگ افسردہ نہیں تھے جن کے ساتھ ان کا تعلق برسوں سے تھا، بلکہ مجھ جیسے ہزاروں ایسے بھی اشک بار تھے جنھوں نے ان کو کبھی پڑھا، سنا یا ایک دو مرتبہ ملے۔

یہ اتفاق ہے کہ میری ان سے پہلی ملاقات پچھلے سال انھی ربیع الاوّل کے دنوں میں ہوئی جب ہم دونوں لالہ موسیٰ میں ایک سیرت کانفرنس میں مدعو تھے۔ استاذِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کے ساتھ چونکہ وہ محبت کا تعلق رکھتے تھے، اس لیے میری تحریریں بھی ان کی نظرسے گزرتی رہتی تھیں جو ’’اشراق ‘‘ اور پھر ’’ جنگ ‘‘ میں باقاعدگی سے شائع ہوتی رہیں۔ پہلی ملاقات میں، میری طالب علمانہ حیثیت کی انھوں نے جس طرح پزیرائی کی، حقیقت یہ ہے کہ گیلانی صاحب کی یہ ادا ان کی وسعتِ قلبی کی ایک دلیل بن کر میرے دل میں محفوظ ہو گئی۔ یہی نہیں، جب میں نے کانفرنس میں بعض ایسی باتیں کیں جو عوامی مذاق سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں تو انھوں نے میری اس گستاخی کی بھی برسرِ ممبر تحسین کی۔ پھر ایک مرتبہ کہوٹہ کے نواح میں عرس کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے وہ اسلام آباد آئے تو واپسی پر انھوں نے کئی گھنٹے میرے ساتھ گزارے۔ میری ان سے بس یہی دو ملاقاتیں ہیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ جب ان کے انتقال کی خبر سنی تو دل پر ایک چرکا سا لگا۔ محسوس ہوا کہ جیسے ایک متاعِ عزیز سے محروم ہو گیا ہوں۔

ان کی اس خوبی سے تو بہت لوگ واقف ہیں کہ وہ مسلمانوں کے گروہی اور فرقہ دارانہ تعصبات سے بہت نالاں تھے۔ وہ خود بریلوی مسلک سے قریب تر تھے، لیکن جماعتِ اسلامی میں بھی رہے اور آخری سالوں میں تو اس کے لیے کوشاں ہو گئے کہ مذہبی طبقات میں فاصلے کم ہوں اور وہ مسلمانوں کو در پیش مسائل کے حل کے لیے یک سو ہوں۔ ا ن کا ماہنامہ ’’تسخیر ‘‘ جب تک شائع ہوتا رہا، اسی بات کا علم بردار رہا۔ ان کا یہ سوزِ دروں اب بہت نمایاں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مسلکی وابستگی سے ماورا ہو کر ان سے تعلقِ خاطر قائم کر لیتے تھے۔ میں محسوس کر سکتا ہوں کہ ان کی وفات سے ان کے دلوں پر کیا گزری ہوگی۔ ان کے جنازے کا ہجوم بتاتا ہے کہ لوگ مسلک میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن ان کے لیے دعاے مغفرت کے معاملے میں ہم آہنگ ہیں۔

ان کی ایک دوسری خوبی کی میرے دل میں بہت قدر ہے کہ وہ اپنی عزتِ نفس کے معاملے میں بہت حساس تھے۔ اس کا تعلق ان کی ذات سے نہیں تھا، بلکہ ان سے تھا جو مذہبی تشخص کے ساتھ جیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ معاشرے میں مذہب کے حوالے سے تعارف رکھتے ہیں، انھیں ہمیشہ ان لوگوں سے دور رہنا چاہیے جو اہلِ دنیا ہیں۔ وہ اس بات کو بہت ناپسند کرتے تھے کہ مذہبی جماعتیں دنیا دار اہلِ سیاست سے اتحاد کر کے ان کے خدام کا کردار ادا کریں۔ وہ مذہبی لوگوں کے سیاسی کردار کے حامی تھے، بلکہ ان کی یہ شدید خواہش تھی کہ ان کا یہ کردار قائدانہ ہو۔ میری جب ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس معاملے میں ان سے اختلاف کی جسارت کی کہ اہلِ مذہب کو عملی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا چاہیے۔ میرا کہنا یہ تھا کہ اہلِ مذہب کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اہلِ سیاست کو متاثر کریں نہ کہ وہ سیاست کی حریفانہ کشمکش میں فریق بنیں، تاہم وہ اس بات کے قائل نہیں ہوئے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اہلِ سیاست میں یہ صلاحیت ہے نہ ذوق کہ وہ کسی مذہبی شخصیت سے کوئی تاثر قبول کریں۔ ا ن کا استدلال یہ تھا کہ یہ لوگ جب اہلِ مذہب سے ملتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ ان سے استفادہ کریں یا ان کے افکار کی روشنی میں اپنے منشور اور اندازِ سیاست پر نظرِ ثانی کریں، بلکہ یہ حضرات صرف یہ سوچ لے کر آتے ہیں کہ وہ کس طرح مذہبی لوگوں کے اثر و رسوخ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے انھیں لاہور کے لیے اسلام آباد ایئر پورٹ پر الوداع کہا تو ہمارے درمیان یہی موضوع زیرِ بحث تھا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے ہاں اہلِ مذہب میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اجتماعیت کا صحیح شعور رکھتے ہیں، جو یہ جانتے ہیں کہ سیاست کے مطالبات کیا ہیں؟ اور اگر مذہب کو یہاں معاشرتی تشکیل میں کوئی کردار ادا کرنا ہے تو اس کی ممکنہ صورت کیا ہے؟ میر اخیال ہے کہ صاحب زادہ خورشید احمد گیلانی انھی نایاب لوگوں میں سے تھے۔ ان کے سیاسی تجزیے ’’نوائے وقت‘‘ میں باقاعدگی سے چھپتے رہے ہیں، ان کے مطالعے سے بھی ان کی اس صلاحیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ تحریر کے ساتھ ساتھ وہ تقریر کی دنیا میں بھی بہت موثر تھے۔ وہ اپنی بات عام فہم طریقے پر کہنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ میں نے ایک دفعہ ہی اس کا مظاہرہ دیکھا اور یہ محسوس کیا کہ وہ سامعین کی توجہ کو پوری طرح اپنی جانب مرتکز رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پھر یہ کہ ان کی تقریریں محض لفاظی پر مبنی یا طلبِ داد کے لیے نہیں ہوتی تھیں، بلکہ ان میں عامۃ الناس کے لیے ایک مثبت پیغام ہوتا تھا۔ لالہ موسیٰ کی سیرت کانفرنس میں، انھوں نے اپنی گفتگو اس نکتے پر مرتکز کیے رکھی کہ کس طرح اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عام آدمی کی عزتِ نفس کو بحال کیا اور انسان کو انسان کی غلامی سے نکالا۔ وہ آج کے پاکستان کے بارے میں بھی یہی آرزو رکھتے تھے کہ یہاں بسنے والوں میں اپنی عزتِ نفس کا احساس پیدا ہو اور جیسا کہ میں نے عرض کیا، اہلِ مذہب کا وقار انھیں بہت عزیز تھا۔ بلا شبہ یہ بھی بڑی سعادت ہے کہ ایک شخص دنیا سے اٹھے اور لوگ یہ خیال کریں کہ آج زمین پر خیر کم ہو گیا ہے۔ گیلانی صاحب کی وفات پر میرے جذبات کچھ ایسے ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں ان کی مغفرت کے لیے دعا گو ہوں اور اس معاملے میں اس لیے پر امید بھی ہوں کہ اس عالم کا پروردگار سب سے بڑھ کر غیرت والا ہے اور اسے وہ بندے پسند ہیں جو عزت رکھنے والے ہیں اور انسانوں کو لوگوں کے بجائے صرف اللہ کا بندہ بنانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔

____________

B