بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَا لرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ{۱۶۳} اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَاِر وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَابِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَ بَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِبَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ{۱۶۴}
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْن اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ وَلَوْ یَرَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْآ اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا وَّ اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ{۱۶۵}
اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُ الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِھِمُ الْاَسْبَابُ{۱۶۶} وَقَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنْھُمْ کَمَا تَبَرَّئُ وْا مِنَّا کَذٰلِکَ یُرِیْھِمُ اللّٰہُ اَعْمَالَھُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْھِمْ وَمَا ھُمْ بِخَارِجِیْنَ مِنَ النَّارِ {۱۶۷}
(ایمان ۴۱۳ والو، اِنھیں فیصلہ کرنے دو) اور (اِن سے قطعِ نظر کر کے تم یہ حقیقت اب اچھی طرح سمجھ لو کہ)تمھارا الٰہ ایک ہی الٰہ ۴۱۴ہے۔ اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ سراسر رحمت ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ ۴۱۵ اِس میں شبہ نہیں کہ آسمان اور زمین کے بنانے میں، ۴۱۶ اور شب و روزکے بدل کر آنے میں ، ۴۱۷ اور لوگوں کے لیے دریا میں نفع کی چیزیں لے کر چلتی ہوئی کشتیوں میں، ۴۱۸ اور اُس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا ہے ، پھر اُس سے مردہ زمین کو زندہ کیا ہے اور اُس میں ہر قسم کے جان دار ۴۱۹ پھیلائے ہیں ، اور ہواؤں کے پھیرنے میں، ۴۲۰ اور آسمان و زمین کے درمیان حکم کے تابع بادلوں میں ، ۴۲۱ (اِس حقیقت کو سمجھنے کے لیے) بہت سی نشانیاں ہیں ۴۲۲ اُن کے لیے جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں۔ ۱۶۳۔ ۱۶۴
اور (زمین و آسمان کی اِن نشانیوں کے باوجود) لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو اوروں کو اللہ کے برابر ٹھیراتے ہیں۔۴۲۳ وہ اُن سے ایسی محبت کرتے ہیں، جس طرح کی محبت اُنھیں اللہ سے کرنی چاہیے۔ اور ایمان والوں کو اِس سے زیادہ (اپنے) اللہ سے محبت ہوتی ہے۔۴۲۴ اور اگر یہ ظالم اُس وقت کو دیکھیں، جب یہ عذاب دیکھیں گے (تو اِن پر یہ حقیقت واضح ہو جائے۴۲۵) کہ زور و اختیار سب اللہ ہی کا ہے اور یہ کہ (اِس طرح کے لوگوں کو) اللہ بڑا ہی سخت عذاب دینے والا ہے ۔ ۱۶۵
اُس ۴۲۶وقت جب وہ لوگ جن کی پیروی کی گئی ، اپنے پیرووں سے بے تعلقی ظاہر کر دیں گے اور عذاب سے دوچار ہوں گے اور اُن کے تعلقات ۴۲۷ یک قلم ٹوٹ جائیں گے اور اُن کے پیرو کہیں گے کہ اے کاش، ہمیں ایک مرتبہ پھر دنیا میں جانے کا موقع ملے تو ہم بھی اِن سے اِسی طرح بے تعلقی ظاہر کریں ، جس طرح اِنھوں نے ہم سے بے تعلقی ظاہر کی ہے۔ یوں اللہ اُن کے اعمال ۴۲۸ اُنھیں حسرت بنا کر دکھائے گا اور دوزخ سے نکلنے کے لیے وہ کوئی راہ نہ پا سکیں گے۔ ۱۶۶ ۔ ۱۶۷
۴۱۳؎ آیت ۱۶۲ پر اس سورہ کی دوسری فصل ختم ہوئی ۔ اس فصل میں یہود امامت سے معزول ہوئے اور ان کی جگہ ایک نئی امت کی تاسیس کا اعلان ہوا ۔ اب یہاں سے تیسری فصل شروع ہو رہی ہے جس میں اس امت کے لیے دینِ ابراہیمی کی تجدید کی جا رہی ہے ۔ اس کی ابتدا توحید کے بیان سے ہوئی ہے اور اس کے بعد ایک مناسب ترتیب کے ساتھ امت کو شریعت کے وہ احکام دیے گئے ہیں جو اس سورہ کے زمانۂ نزول میں دینا موزوں تھے اور ان کے تحت ان بدعات کی تردید کی گئی ہے جو یہود اور مشرکین ، دونوں نے دین میں داخل کر دی تھیں ۔
۴۱۴؎ ’الٰہ‘ عربی زبان میں اس ہستی کے لیے آتا ہے جس کی عبادت کی جائے اور اسباب و علل سے ماورا جس سے مدد کی توقع کی جائے ۔ لفظ ’اللّٰہ‘ اسی پر تعریف کا الف لام داخل کر کے بنا ہے ۔
۴۱۵؎ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مثبت اور منفی، دونوں پہلوؤں سے بیان کرنے کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ کے اسماے حسنیٰ میں سے رحمن اور رحیم کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ یہ حوالہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی بے ہمگی کے تصور سے جو مایوسی پیدا ہو سکتی ہے ، اسے دور کر کے خلق کے ساتھ اس کے تعلق کو واضح کرتا ہے تاکہ انسان وسیلے اور واسطے تلاش کرنے کے بجائے خود اپنے پروردگار ہی کی طرف لپکے اور اسی کے دامنِ رحمت میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کرے ، اور دوسری طرف یہ حوالہ اس کی صفتِ رحمت و شفقت کو نمایاں کر کے صفاتِ الہٰی کے باب میں وہ صحیح نقطۂ اعتدال متعین کر دیتا ہے جہاں انسان خدا کے قہر و جلال سے محفوظ رہنے کے لیے اس کے مقربین تلاش نہیں کرتا ، بلکہ ہر مشکل میں بغیر کسی تردد کے اسی کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔
۴۱۶؎ یعنی ان کی پیدایش، ساخت ، نفع رسانی اور مقصدیت میں جو ان کے بنانے والے کی عظیم قدرت ، بے مثل حکمت، بے پایاں رحمت اور ہمہ گیر ربوبیت کو نمایاں کرتی ہے اور ان کی اس موافقت اور ساز گاری میں جو شہادت دیتی ہے کہ آسمان و زمین ، دونوں کا خالق ایک ہی ہے ۔ ان کے اندر کسی دوسرے کے ارادے اور تصرف کو کوئی دخل نہیں ہے۔
۴۱۷؎ یعنی جس طرح یکے بعد دیگرے یہ پورے نظم اور پابندیِ اوقات کے ساتھ اور اپنے مزاج ، اپنی فطرت اور اپنے اثرات و نتائج کے حیرت انگیز اختلافات صفحۂ عالم پر بکھیرتے ہوئے آتے اور جاتے ہیں ۔
۴۱۸؎ اصل میں لفظ ’الفلک‘ استعمال ہوا ہے ۔ اس کے معنی کشتی کے ہیں اور یہ اسی صورت میں واحد جمع ، مذکر اور مونث سب کے لیے آتا ہے ۔
۴۱۹؎ اصل میں لفظ ’دابۃ‘ آیا ہے ۔ یہ جس طرح زمین پر چلنے والے جانوروں کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اسی طرح اگر قرینہ موجود ہو تو اس معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جس معنی میں ہم ’جان دار‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ اس صورت میں چرند پرند ، بلکہ بنی نوعِ انسان بھی اس کے مفہوم میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہاں یہ اسی دوسرے معنی میں ہے ۔
۴۲۰؎ یعنی ہواؤں کے ان عجائب ِ تصرفات میں جو بہاروخزاں ، ابروباراں اور نعمت و نقمت کی صورت میں ہر آن ایک نئی شان کے ساتھ نمودار ہوتے رہتے ہیں ۔
۴۲۱؎ اصل میں ’السحاب المسخر بین السماء والارض ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’تسخیر ‘ کے معنی ہیں تابع فرمان بنا کر بغیر کسی معاوضے کے کسی کی خدمت میں لگا دینا ۔ قرآن میں انسانوں کی نسبت سے جب بادوباراں اور مہ و آفتاب کی تسخیر کا ذکر آتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ سب چیزیں انسان کے ہاتھ میں مسخر ہیں یا وہ انھیں مسخر کر سکتا ہے ، بلکہ صرف یہ ہوتا ہے کہ پروردگارِ عالم نے ان چیزوں کو مسخر کر کے اس کی خدمت میں لگا دیا ہے ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں یہ مضمون جگہ جگہ ’سخرلکم‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمھاری خدمت میں لگا دیا ہے ، یہ نہیں ہیں کہ ان کو تمھارا تابعِ فرمان بنا دیا ہے ۔
۴۲۲؎ یعنی اس بات کی نشانیاں ہیں کہ اس عالم کا معبود ایک ہی معبود ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ استاذ امام اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’اس آیت پر اگر تدبر کی نگاہ ڈالیے تو یہ حقیقت واضح ہو گی کہ اس میں شروع سے لے کر آخر تک اس کائنات کے متقابل، بلکہ متضاد اجزا و عناصر کا حوالہ دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کے اس حیرت انگیز اتحاد و توافق اور ان کی اس بے مثال بہم آمیزی و سازگاری کی طرف اشارہ کیاگیا ہے، جو ان کے اندر اس کائنات کی مجموعی خدمت کے لیے پائی جاتی ہے۔ آسمان کے ساتھ زمین، رات کے ساتھ دن، کشتی کے ساتھ دریا۔ بظاہر دیکھیے تو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ضدین کی نسبت رکھتے ہیں ،لیکن ذرا گہری نگاہ سے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ اگر یہ ایک طرف ضدین کی نسبت رکھتے ہیں تو دوسری طرف اس کائنات کی خانہ آبادی کے نقطۂ نظر سے آپس میں زوجین کا سا ربط و اتصال بھی رکھتے ہیں۔ یہ آسمان اور اس کے چمکتے ہوئے سورج اور چاند نہ ہوں تو ہماری زمین کی ساری رونقیں اور بہاریں ختم ہو جائیں، بلکہ اس کی ہستی ہی نابود ہو جائے۔ اسی طرح یہ زمین نہ ہو تو کون بتا سکتا ہے کہ اس فضاے لامتناہی کے بے شمار ستاروں اور سیاروں میں سے کس کس کا گھر اجڑ کے رہ جائے۔ علیٰ ہذا القیاس، ہماری اور ہماری طرح اس دنیا کے تمام جان داروں کی زندگی جس طرح دن کی حرارت، تمازت، روشنی اور نشاط انگیزی کی محتاج ہے، اسی طرح شب کی خنکی، لطافت، سکون بخشی اور خواب آوری کی بھی محتاج ہے۔ یہ دونوں مل کر اس گھر کو آباد کیے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سمندر کو دیکھیے۔ اس کا پھیلائو کتنا ہوشربا اور ناپیدا کنار ہے اور اس کی موجیں کتنی مہیب اور ہول ناک ہیں، لیکن دیکھیے اس سرکشی و طغیانی کے باوجود کس طرح اس نے عین اپنے سینہ پر سے ہماری کشتیوں اور ہمارے جہازوں کے لیے نہایت ہموار اور مصفا سڑکیں نکال رکھی ہیں جن پر ہمارے جہاز دن رات دوڑ رہے ہیں اور تجارت و معیشت، تمدن ومعاشرت اور علوم و فنون ،ہر چیز میں مشرق اور مغرب کے ڈانڈے ملائے ہوئے ہیں۔
آگے آسمان سے بارش اور اس بارش سے زمین کے ازسرِ نو باغ و بہار اور معمورو آباد ہو جانے کا ذکر ہے۔ غور کیجیے کہاں زمین ہے اور کہاں آسمان، لیکن اس دوری کے باوجود دونوں میں کس درجہ گہرا ربط و اتصال ہے۔ زمین اپنے اندر روئیدگی اور زندگی کے خزانے چھپائے ہوئے ہے، لیکن یہ سارے خزانے اس وقت تک مدفون ہی رہتے ہیں جب تک آسمان سے بارش نازل ہو کر ان کوابھار نہیں دیتی۔ اسی طرح کا رشتہ بادلوں اور ہوائوں کے درمیان ہے۔ بادلوں کے جہاز لدے پھندے اپنے بادبان کھولے کھڑے ہیں، لیکن یہ اپنی جگہ سے ایک انچ سرک نہیں سکتے جب تک ہوائیں ان کو دھکے دے کر ان کی جگہ سے نہ ہلائیں اور ان کو ان کی مقرر کی ہوئی سمتوں میں آگے نہ بڑھائیں، یہ ہوائیں ہی ہیں جو ان کومشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں ہنکائے پھرتی ہیں اور جب چاہتی ہیں ان کوغائب کر دیتی ہیں اور جب چاہتی ہیں ان کو افق پر نمودار کر دیتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ غوروتدبر کی نگاہ اس دنیا کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ کیا یہ اضداد اور متناقضات کی ایک رزم گاہ ہے جس میں مختلف ارادوں اور قوتوں کی کشمکش برپا ہے یا ایک ہی حکیم ومدبر ارادہ ان سب پر حاکم و فرماں روا ہے جو ان تمام عناصرِ مختلفہ کو اپنی حکمت کے تحت ایک خاص نظام اور ایک مجموعی مقصد کے لیے استعمال کر رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کائنات کے مشاہدہ سے یہ دوسری ہی بات ثابت ہوتی ہے۔ پھر مزید غور کیجیے تو یہیں سے ایک اور بات بھی نکلتی ہے، وہ یہ کہ دنیا آپ سے آپ وجود میں نہیں آئی ہے اور نہ اس کے اندر جو ارتقا ہوا ہے وہ آپ سے آپ ہوا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کے عناصرِ مختلفہ میں ایک بالاتر مقصد کے لیے وہ سازگاری کہاں سے پیدا ہوتی جو اس کائنات کے ہر گوشہ میں موجود ہے۔
غور کیجیے تو یہ ایک ہی حقیقت ایک طرف شرک کے تمام امکانات کا سدِّباب کر رہی ہے اور دوسری طرف یہ ڈارونزم کے بھی تمام وساوس کی جڑ کاٹ رہی ہے۔‘‘ (تدبرِ قرآن ، ج۱ ، ص ۴۰۱۔۴۰۲)
۴۲۳؎ یہ اندازِ کلام اظہارِ تعجب کا ہے ۔ یعنی اس حماقت کے لیے کوئی گنجایش تو نہیں ہے ، لیکن اگر کوئی اپنی عقل استعمال کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہو تو اس کا کیا علاج ، اس کے لیے یہ سب نشانیاں بے معنی ہو جائیں گی ۔
۴۲۴؎ یعنی جب ان کے سامنے اللہ اور غیر اللہ کی محبت کے ایک دوسرے سے متضاد مطالبات آتے ہیں تو ان پر ہمیشہ اپنے پروردگار کی محبت غلبہ پاتی ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ محبت دوسروں سے بھی کی جا سکتی ہے ،لیکن اسے ہر حال میں اللہ کی محبت کے تابع ہونا چاہیے ، اس کے برابر یا اس سے بڑھ کر نہیں ہونا چاہیے۔ انھیں معلوم ہے کہ محبت ِ الٰہی کو دوسری محبتوں پر مقدم رکھنا اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے ہے ۔ اس میں کسی دوسرے کو اس کا شریک نہیں کیا جا سکتا ۔
۴۲۵؎ اصل میں جو حرف ’لو‘ جملے کی ابتدا میں آیا ہے ، یہ اس کا جواب ہے جو عربی قاعدے کے مطابق حذف کر دیا گیا ہے۔ ’ان القوۃ للّٰہ جمیعاً ‘ اور اس کے بعد کے الفاظ اس کی وضاحت کر رہے ہیں ۔
۴۲۶؎ یہ اسی عذاب کی مزید وضاحت ہے جس کا ذکر پیچھے ہوا ہے۔ عربیت کی رو سے یہ پچھلے جملے میں ’اذ یرون العذاب‘ کے الفاظ سے بدل واقع ہوا ہے ۔
۴۲۷؎ اصل میں لفظ ’اسباب‘ استعمال ہوا ہے ۔ یہ ’سبب‘ کی جمع ہے جس کے معنی رسی کے ہیں۔ اس کے اندر یہیں سے توسل کا مفہوم پیدا ہوا اور اس سے مزید وسیع ہو کر یہ کسی چیز کے متعلقات کے لیے استعمال ہونے لگا ۔
۴۲۸؎ اس سے ان کی وہ وفاداریاںاور قربانیاں مراد ہیں جو وہ اپنے ان باطل معبودوں اورگمراہ کرنے والے پیشواؤں کے لیے کرتے رہے ۔
(باقی)
ــــــــــــــــــــــــــــــــ