HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

مولانا زاہد الراشدی کے فرمودات کا جائزہ

ماہنامہ ’’اشراق‘‘ فروری اور مئی ۲۰۰۱ میں جہاد، زکوٰۃ اور علما کے فتووں کے بارے میں استاذِ محترم کی بعض آرا کے حوالے سے مولانا زاہد الراشدی کے فرمودات اور ان سے متعلق ہمارا تجزیہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا چکا ہے۔ زیرِ نظر شمارے کے پچھلے صفحات میں مولانا محترم نے ہمارے تجزیے کا جواب دیا ہے۔ اس مضمون میں ہم مولانا محترم کے مذکورہ جواب کا جائزہ لیں گے۔


غیر ملکی تسلط کے خلاف جہاد

اس سے پہلے کہ مولانا محترم کے حالیہ فرمودات کا جائزہ لیا جائے، ہم مختصراً اب تک کی بات کا خلاصہ پیش کیے دیتے ہیں۔

مولانا محترم نے اپنے پہلے مضمون میں یہ فرمایا تھا کہ جب کسی مسلمان آبادی پر کافروں کا جابرانہ تسلط قائم ہو جائے اور مسلمانوں کی حکومت اس تسلط کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار نہ ہو یا اس میں مزاحمت کی سکت نہ رہے تو پھر آزادی کے حصول کے لیے جہاد کا آغاز کسی حکومت کے اعلان یا اجازت پر موقوف نہیں رہے گا اور ایسے موقع پر اگر علما مسلمان معاشرے کی قیادت کرتے ہوئے کافر قوت کے تسلط کے خلاف مزاحمت کا اعلان کریں گے تو وہ شرعاً جہاد ہی کہلائے گا۔

اس کے جواب میں ہم نے مولانا محترم کی خدمت میں قرآنِ مجید کی آیات اور اللہ کے جلیل القدر پیغمبروں کے اسوہ کو پیش کرتے ہوئے یہ گزارش کی تھی کہ وہ ان کے نقطۂ نظر کی تائید نہیں کرتے۔ اس کے برعکس، ان سے جو بات معلوم ہوتی ہے، اس کا خلاصہ کرتے ہوئے ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں لکھا تھا:

’’۱۔ ایسا جابرانہ تسلط، جہاں محکوم قوم کو اپنے اختیار کردہ مذہب وعقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہو۔ اس صورت میں جابرانہ تسلط سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا ہر محکوم قوم کا حق تو بے شک ہے، لیکن یہ دین کا تقاضا نہیں ہے۔ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کے اسوہ سے یہی رہنمائی ملتی ہے۔
۲۔ ایسا جابرانہ تسلط، جہاں محکوم قوم کو اپنے اختیار کردہ مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل نہ ہو۔ اس صورت میں اگر محکوم قوم کے علاقے سے ہجرت کر جانے کا موقع موجود ہوں تو اس کے لیے دین وشریعت کا حکم یہی ہے کہ اپنے ایمان کی سلامتی کی خاطر، وہ اپنے ملک وقوم کو خیرباد کہہ دیں۔ حضرت موسیٰ اور نبیِ اکرم کے اسوہ سے یہ رہنمائی ملتی ہے۔ اس کے برعکس، محکوم قوم کے لیے اگر ہجرت کی راہ مسدود ہو تو ان حالات میں درجِ ذیل دو امکانات قرآنِ مجید میں بیان ہوئے ہیں:
اولاً، محکوم قوم اپنی مدد کے لیے کسی منظم اسلامی ریاست سے مدد طلب کرے۔ قرآنِ مجید کے مطابق، اگر اس اسلامی ریاست کے لیے ظلم وجبر کا نشانہ بنے بغیر ان مسلمانوں کی مدد کرنی ممکن ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کی مدد کرے، الاّ یہ کہ جس قوم کے خلاف اسے مدد کے لیے پکارا جا رہا ہے، اس کے اور مسلمانوں کی اس ریاست کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ موجود ہو۔ (الانفال ۸: ۷۲، النساء ۴: ۷۵)
ثانیاً، محکوم قوم کے لیے کسی منظم ریاست سے استمداد یا کسی منظم ریاست کے لیے اس محکوم قوم کی مدد کرنے کی راہ مسدود ہو۔ اس صورت میں محکوم قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کا اسوہ یہی ہے کہ وہ اللہ کا فیصلہ آنے تک حالات پر صبر کریں۔ (الاعراف ۷: ۸۷)‘‘
اپنے جواب میں، مولانا محترم نے ہماری ان معروضات کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ:
’’... مجھے افسوس ہے کہ وہ مسئلہ کی نوعیت کو سرے سے نہیں سمجھ سکے کیونکہ ان آیاتِ کریمہ میں ان مسلمانوں کے لیے احکام بیان کیے گئے ہیں جو کافروں کی سوسائٹی میں مسلمان ہو گئے ہیں اور ان کے زیرِ اثر رہ رہے ہیں۔ ... جبکہ ہم جس صورت پر بحث کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی پر باہر سے آ کر کافروں نے تسلط جما لیا ہو اور مسلمان اکثریت پر کافر اقلیت کا جبر واقتدار قائم ہو گیا ہو۔‘‘

اس کے علاوہ مولانا محترم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسود عنسی کے خلاف کی جانے والی کارروائی سے یہ استدلال کیا تھا کہ اسود عنسی نے چونکہ مسلمانوں کی اکثریت پر جابرانہ تسلط جما لیا تھا، اس وجہ سے مسلمانوں نے اس کے خلاف ’گوریلا طرزِ جنگ‘ کی اور اس کے نتیجے میں یمن پر مسلمانوں کا اقتدار بحال ہو گیا۔ اس ضمن میں انھوں نے لکھا تھا:

’’... جب کسی مسلمان ملک پر کافروں کا تسلط قائم ہو تومسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے جو صورت بھی اس وقت کے حالات کی روشنی میں اختیار کر سکیں، اس سے گریز نہ کریں اور وہ کافر وظالم قوت کے جابرانہ تسلط کے خلاف مزاحمت کی جو صورت بھی اختیار کریں گے، وہ حضرت فیروز دیلمی کی اس گوریلا کارروائی اور شب خون کی طرح ’جہاد‘ ہی کہلائے گی۔‘‘

مولانا محترم کے پہلے اعتراض کے جواب میں ہم نے دو باتیں عرض کی تھیں: اولاً،اللہ تعالیٰ کے اولوالعزم پیغمبروں میں سے اگرچہ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کو بعینہٖ وہی حالات پیش آئے، جنھیں مولانا محترم نے ’مسلمانوں کی آبادی پر باہر سے آ کر کافروں نے تسلط جما لیا ہو اور مسلمان اکثریت پر کافر اقلیت کا جبر واقتدار قائم ہو گیا ہو‘ کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے، مگر اس کے باوجود، انھوں نے اپنی قوم میں، کسی موقع پر بھی، جابر وغاصب حکومت کے خلاف ’جہاد‘ کی روح پھونکنے کی کوشش نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں اگر جدوجہدِ آزادی اگر دین وشریعت کا تقاضا ہوتی تو حضرتِ مسیح اس کے لیے ضرورپیش رفت فرماتے۔

ثانیاً، مولانا محترم سے استفسار کرتے ہوئے ہم نے لکھا تھا:

’’... جبر واستبداد خواہ اپنی غیر مسلم حکومت کی طرف سے ہو یا مسلمانوں کے علاقے پر حملہ آور ہو کر قبضہ کر لینے والی حکومت کی طرف سے، دونوں صورتوں میں دینی لحاظ سے وہ کون سا فرق واقع ہوتا ہے، جس کے باعث ان دونوں صورتوں کے دینی احکام میں تفاوت ہو گا۔ معاملہ اگر دینی جبر واستبداد اور ظلم وعدوان ہی کے خلاف لڑنے کا ہے تو وہ تو دونوں صورتوں میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، معاملہ اگر قومی وملی حمیت کا ہے تو پھر اس صورتِ حال میں اور قبطیوں کے آلِ یعقوب (بنی اسرائیل) کو من حیث القوم اپنا غلام بنا لینے کی صورت میں وہ کون سا فرق ہے، جس کے باعث حضرتِ موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی قوم کو قبطیوں کے خلاف جہاد کی نعمتِ عظمٰی کا درس نہیں دیا؟‘‘

اس کے ساتھ ساتھ تاریخی روایات کی روشنی میں، اسود عنسی کے خلاف مسلمانوں کی کارروائی کا تجزیہ کرتے ہوئے، ہم نے یہ بیان کیا کہ:

’’۱۔ اسود عنسی کے خلاف اس کے محکوم ومظلوم عوام نے کوئی کارروائی نہیں کی، بلکہ وہ بے چارے تو اس کے ظلم وستم سے تنگ آکر مرتد ہونا شروع ہو گئے تھے۔
۲۔ یہ پوری کارروائی، اصلاً مسلمانوں کی منظم ریاست ہی کی طرف سے اپنے ایک صوبے میں ہونے والی بغاوت کے قلع قمع کے لیے کی گئی تھی۔
۳۔ اس کارروائی کا عملی ظہور اسود عنسی کے اپنے گروہ میں پھوٹ پڑنے اور اس کے اپنے ہی عمال کی طرف سے اس کے قتل کا کامیاب منصوبہ بنانے کی صورت میں ہوا۔‘‘

اپنے حالیہ مضمون میں مولانا محترم نے ہماری باقی ساری گزارشات اور استفسارات کو تو قابلِ اعتنا ہی نہیں سمجھا، البتہ اسود عنسی کے خلاف مسلمانوں کی کارروائی پر ہمارے تجزیہ پر تبصرہ ضرور فرمایا ہے۔ ان کی پوری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے بیان کردہ ان نکات سے نہ صرف یہ کہ کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ یہ نکات تو ہمارے موقف کے بجائے، الٹے مولانا محترم کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔

ہمیں نہیں معلوم کہ اگر ہمارے پیش کردہ نکات سے کوئی فرق نہیں پڑتا یا یہ نکات بھی اگر مولانا محترم ہی کے موقف کی تائید کرتے ہیں، تو پھر آخر وہ کون سے نکات ہو سکتے ہیں، جو مولانا محترم کو اپنے موقف پر کم از کم غور کرنے ہی پر آمادہ کر سکیں۔مولانا محترم کو تو معلوم نہیں کیا بات غور کرنے پر آمادہ کر سکے گی، ہم یہاں، البتہ قارئین کے سامنے یہ بات مزید واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے پیش کردہ ان نکات سے، فی الواقع کیا فرق پڑتا ہے۔

ہمارے پیش کردہ تین نکات میں سب سے پہلا نکتہ درجِ ذیل ہے:

’ اسود عنسی کے خلاف اس کے محکوم ومظلوم عوام نے کوئی کارروائی نہیں کی، بلکہ وہ بے چارے تو اس کے ظلم وستم سے تنگ آکر مرتد ہونا شروع ہو گئے تھے۔‘

یہاں ہم یہ بات واضح کرتے چلیں کہ تاریخ کی کم وبیش تمام ہی کتابوں میں یہ بات نقل ہوئی ہے۔ اس بات کے حقیقت ہونے پر تو امید ہے کہ مولانا محترم کو بھی شبہ نہیں ہو گا۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ اگر ’کسی مسلم علاقہ پر کافروں کے تسلط کی صورت میں وہاں کے مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اس تسلط کے خاتمے کے لیے جدوجہد کریں‘، جیسا کہ مولانا محترم نے اپنے حالیہ مضمون میں بیان فرمایا ہے تو پھر کیا یمن سے تعلق رکھنے والے، یہ سارے ہی لوگ اس ’شرعی ذمہ داری‘ سے واقف نہیں تھے؟ یہاں قارئین یہ بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ اس وقت یمن کے علاقے میں محض حدیث الاسلام قسم کے لوگ ہی نہیں رہتے تھے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ بھی وہاں مقیم تھے۔ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’البدایہ والنہایہ‘ میں ان میں سے حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری کا ذکر خاص طور پر کیا ہے۔ ابنِ کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

ففر معاذ بن جبل من ھنالک واجتاز بابی موسی الاشعری فذھبا الی حضر موت وانحاز عمال رسول اللّٰہ الی الطاھر ورجع عمر بن حرام وخالد بن سعید بن العاص الی المدینۃ. (ج ۶، ص ۳۰۷)
’’معاذ بن جبل وہاں سے روانہ ہو گئے۔ راستے میں ابو موسیٰ اشعری کے پاس سے ان کا گزر ہوا تو وہ دونوں حضرموت کی طرف چلے گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمال طاہر کی طرف چلے گئے، جبکہ عمر بن حرام اور خالد بن سعید بن عاص مدینہ کی طرف چلے گئے۔‘‘

کیا فی الواقع مولانا محترم یہ گمان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ تمام عمال اس ’شرعی ذمہ داری‘ سے ناواقف تھے، جسے مولانا محترم نے بیان فرمایا ہے؟

اب قارئین ہی فیصلہ کریں کہ یہ نکتہ مولانا محترم کے ’شرعی ذمہ داری‘ والے موقف کی تائید کرتا ہے، یا اس کے بے دلیل ہونے کو برہنہ کر دیتا ہے۔

اس کے بعد، اپنے دوسرے نکتے میں ہم نے لکھا ہے:

’ یہ پوری کارروائی، اصلاً مسلمانوں کی منظم ریاست ہی کی طرف سے اپنے ایک صوبے میں ہونے والی بغاوت کے قلع قمع کے لیے کی گئی تھی۔‘

اس سلسلے میں ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں یہ بات بھی ثابت کی تھی کہ یمن میں ہونے والی یہ ساری کارروائی ایک صوبے میں بغاوت کا قلع قمع کرنے کے لیے ایک منظم ریاست ہی کی طرف سے کی گئی تھی۔ اس ضمن میں ہم نے ’الاصابہ‘ کی اس روایت کا بھی حوالہ دیا تھا جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ یہ کارروائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ملنے کے بعد عمل میں آئی۔

اس کے جواب میں مولانا محترم اپنے حالیہ مضمون میں لکھتے ہیں:

’’اس سے ہمارا یہ موقف مزید پختہ ہو گیا ہے کہ کسی مسلم علاقہ پر کافروں کے تسلط کی صورت میں وہاں کے مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اس تسلط کے خاتمے کے لیے جدوجہد کریں اور اس سلسلہ میں جناب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت یہی ہے کہ جو حافظ ابنِ حجر کی ’اصابہ‘ کے حوالے سے معز امجد نے نقل کی ہے کہ جناب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فیروز دیلمی اور ان کے رفقا کو اسود عنسی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ معز امجد کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بحیثیتِ ’حاکم‘ دیا تھا اور ہمارے نزدیک اس میں ان کی پیغمبرانہ حیثیت بھی شامل ہے اس لیے اب اگر دنیا کے کسی حصہ میں کسی مسلم علاقہ پر کافروں کا تسلط ہو جائے، تو وہاں کے مسلمانوں کے لیے جناب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور حکم وہی ہے، جو یمن کو اسود عنسی کے تسلط سے آزاد کرانے کے لیے حضرت فیروز دیلمی اور ان کے رفقا کو دیا گیا تھا۔ پھر یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر صوبۂ یمن میں بغاوت کو کچلنے کے لیے صرف ریاستی کارروائی کرنا ہوتی تو اس کے لیے فوج کشی مدینہ منورہ سے ہوتی، مگر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ریاست کی طرف سے فوج کشی کرنے کی بجائے یمن کی لوکل آبادی کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ اسود عنسی کے تسلط کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔‘‘

سب سے پہلے تو ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے اپنے مضمون میں ہر گز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیتِ ’حاکم‘ اور حیثیتِ نبوت میں کوئی تفریق نہیں کی۔ ہماری بات تو صرف اتنی سی ہے کہ یہ حکم اللہ کے پیغمبر نے بحیثیتِ حاکم دیا، بالکل اسی طرح، جس طرح ماعز اسلمی کے رجم کا حکم اللہ کے نبی نے بحیثیتِ حاکم دیا۔ اس وجہ سے مولانا تسلی رکھیں، اس ضمن میں ہماری اور ان کی بات میں کوئی فرق نہیں ہے۔

’یمن کی لوکل آبادی‘ کے الفاظ سے مولانا محترم شاید یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ یمن میں کسی ہرکارے نے عوام کو اسود عنسی کے خلاف کھڑے ہونے کی ترغیب دی، جس کے نتیجے میں یمن کی ساری مسلمان آبادی گھات لگا کر اسود عنسی کے سپاہیوں کو قتل کرنے میں مشغول ہو گئی۔ تاریخ کے اوراق سے صاف ظاہر ہے کہ یہ تاثر سرا سرخلافِ واقعہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’یمن کی لوکل آبادی‘ کو نہیں، بلکہ ’الاصابۃ‘ کی محولہ روایت کے مطابق، اسود عنسی کے معتمد اور ذمہ دار کارکنوں کو اور ’البدایہ والنہایہ‘ کی روایت کے مطابق، ریاست مدینہ کی طرف سے مسلمانوں کے معتمد رہنما حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام بھیجا تھا۔ اگرچہ ہمیں حسنِ ظن ہی رکھنا چاہیے، تاہم اس بات کا اندیشہ ضرور ہے کہ اس پر مولانا محترم یہ فرمائیں گے کہ اس تفصیل سے بھی انھی کی بات کی تائید ہوتی ہے، مزیدیہ کہ یہ حکم خواہ عوام کو پڑھ کر سنایا گیا ہو یا مسلمانوں کے لیڈروں کو یا اسود عنسی کے معتمد اور ذمہ دار کارکنوں کو، ہر حال میں یہ کسی منظم ریاست کی عدم موجودگی ہی میں قتال کرنے کا حکم ہے۔مولانا محترم اگر غور فرماتے تودراصل یہی وہ سوال ہے، جس کا جواب دیتے ہوئے ہم نے اپنے دوسرے نکتے میں لکھا تھا کہ ’یہ پوری کارروائی، اصلاً مسلمانوں کی منظم ریاست کی طرف سے اپنے ایک صوبے میں ہونے والی بغاوت کے قلع قمع کے لیے کی گئی تھی۔‘

یمن کے مذکورہ واقعے کی مثال موجود دنیا میں ایسے ہی ہے، جیسے امریکہ کی کسی ریاست میں بغاوت ہو جائے۔ اس بغاوت کو کچلنے کے لیے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وفاق کی طرف سے امریکی افواج کا کوئی دستہ بھیجا جائے۔ اس کے برعکس، وفاق اگر یہ محسوس کرے کہ باغی ریاست کے اندر ہی اس کے اتنے لوگ موجود ہیں کہ انھیں منظم کر کے اس بغاوت کو بآسانی کچلا جا سکتا ہے تو ظاہر ہے، پھر وفاق کی طرف سے فوج کا کوئی دستہ بھیجنے کی ضرورت ہی نہیں ہو گی، بلکہ اس صورت میں یہی کافی ہو گا کہ وفاق اپنے کسی فرد یا افراد کو اس کارروائی پر مامور کر دے۔ ایسی صورت میں، ان افراد کی طرف سے کی جانے والی کارروائی، غیر منظم کارروائی نہیں، بلکہ وفاقی حکومت ہی کی کارروائی قرار پائے گی۔

تاریخ کے اوراق سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسود عنسی کی بغاوت کو کچلنے کے لیے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو مامور فرمایا تھا۔ چنانچہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پاتے ہی اسود عنسی کے خلاف کارروائی کی تیاری شروع کردی۔ ابنِ کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

وقام معاذ بن جبل بھذا الکتاب اتم القیام
’’معاذ بن جبل پوری گرم جوشی کے ساتھ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا) یہ حکم پورا کرنے میں مصروف ہو گئے۔‘‘

اس کے بعد، سکون میں انھوں نے مسلمانوں کے عمال کو جمع کیا اور ان کے ساتھ مل کر کارروائی کی منصوبہ بندی کی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ ہم اپنے پچھلے مضمون میں بیان کر چکے ہیں۔ اس ساری بات کو دہرانے کا مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ قارئین پر یہ بات پوری طرح سے واضح ہو جائے کہ یہ کارروائی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، فیروز دیلمی اور ان کے ساتھیوں نے اپنی انفرادی حیثیت میں نہیں، بلکہ وفاقی حکومت کے مامور نمائندوں کی حیثیت سے کی۔ اس لحاظ سے غور کیجیے تو اسود عنسی کے خلاف کی جانے والی کارروائی میں اگر قتال کی نوبت آ بھی جاتی، تو وہ قتال دراصل ریاستِ مدینہ ہی کی طرف سے ہوتا۔ اس صورت میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ریاستِ مدینہ کے نمائندے ہوتے۔ اس کارروائی کے بارے میں کسی طرح بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی خودمختار ریاست میں آزاد اقتدار کے بغیر ہی عمل میں آ ئی ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کارروائی مدینہ کی خود مختار ریاست کے علانیہ مامورین ہی کے ہاتھوں عمل میں آتی، ان مامورین کی ناکامی کی صورت میں مدینہ سے مزید کمک بھی بھیجی جاتی اور ان مامورین کے پسپا ہونے کی صورت میں ان کے لیے ریاستِ مدینہ کے دروازے بھی کھول دیے جاتے۔صاف ظاہر ہے کہ یہ کارروائی کسی منتشر گروہ کی طرف سے نہیں، بلکہ مدینہ منورہ کی خود مختار ریاست ہی کی طرف سے کی گئی تھی۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یمن کی بغاوت کے خلاف مدینہ منورہ سے فوج کیوں نہیں بھیجی گئی تو اس کی وجہ وہی ہے جو ہم اوپر اپنی مثال میں بیان کرچکے ہیں۔ وفاقی حکومت کا اندازہ چونکہ یہی تھا کہ یمن ہی کے اندر موجود لوگوں کو منظم کر دینے کے نتیجے میں اسود عنسی کے خلاف کامیاب کارروائی کی جا سکتی ہے، اس وجہ سے مدینہ سے فوج بھیجنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔

اب قارئین ہی فیصلہ کریں کہ ان تمام حقائق کی روشنی میں مولانا محترم کے موقف پر کوئی فرق پڑنا چاہیے یا نہیں۔

یہاں تک کی بحث سے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی صحیح نوعیت واضح ہوتی ہے۔ مگر اس حکم کی تعمیل عملاً ظہور میں کیسے آئی، اسے واضح کرتے ہوئے ہم نے اپنے تیسرے نکتے میں لکھا تھا:

’اس کارروائی کا عملی ظہور اسود عنسی کے اپنے گروہ میں پھوٹ پڑنے اور اس کے اپنے ہی عمال کی طرف سے اس کے قتل کا کامیاب منصوبہ بنانے کی صورت میں ہوا۔‘

مولانا محترم اپنے حالیہ مضمون میں لکھتے ہیں:

’’لطف کی بات یہ ہے کہ معز امجد صاحب اس واقعے کو تسلیم کر رہے ہیں اور اس کے پیچھے جناب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد و ہدایت کا تذکرہ بھی کرتے ہیں، لیکن اس سب کچھ کے باوجود انھیں اس واقعے کو ’جہاد‘ کی حیثیت دینے میں تامل ہے۔ جیسا کہ ان کا ارشاد ہے کہ: ’یہ جابر وغاصب قوم کے خلاف گروہ بندی اور جتھا بندی کر کے جہاد کرنے کا واقعہ نہیں، بلکہ ایک غاصب حکمران کے قتل کا واقعہ ہے۔ گروہ بندی اور جتھا بندی کر کے جہاد کرنا اور کسی (اچھے یا برے) حکمران کے قتل کی سازش کرنا دو بالکل الگ معاملات ہیں۔‘‘

یہاں ہم یہ ذکر کرتے چلیں کہ تاریخ کے ماخذوں میں، بالعموم، اس واقعے کو اسود عنسی کے ’قتل‘ کے واقعے کی حیثیت ہی سے نقل کیا گیا ہے، اس کے خلاف ’قتال‘ کی حیثیت سے بیان نہیں کیا گیا ہے۔ چنانچہ ’الاصابہ‘ ہی میں ایک مقام پر لکھا ہے:

فاتمروا علی قتل الاسود(ج۲، ص ۳۹۷)
’’انھوں نے اسود کے ’قتل‘ کا منصوبہ بنایا۔ ‘‘

بہرحال، یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ اسود عنسی کے خلاف کارروائی کا واقعہ جس طرح عملاً رونما ہوا، اسے ’ایک غاصب حکمران کے قتل کی سازش‘ کے سوا اور کیا قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیا مولانا محترم یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ قتل کا یہ واقعہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ہوا، اس وجہ سے اسے ’قتل‘ کے بجائے ’قتال‘ قرار دیا جانا چاہیے؟ کیا وہ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی فرد یا گروہ کے خلاف کارروائی کا حکم فرمائیں تو اس سے قطعِ نظر کہ اس حکم پر عمل درآمد کیسے ہوا ہو، اسے ہر حال میں ’جہاد‘ ہی قرار دیا جائے گا؟

اس میں شبہ نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ہدایت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو موصول ہوئی، اس کی تعمیل میں وہ ’قتال‘ کی نوعیت کی کسی کارروائی کا آغاز بھی کر سکتے تھے، مگر اس کے باوجود، حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے عمال نے ’سکون‘ کے علاقے میں باہمی مشورے سے جو لائحۂ عمل طے کیا، وہ اسود عنسی کے خلاف ’قتال‘ کا تھا ہی نہیں۔ اس کے برعکس، یہ لائحۂ عمل اس کے ’قتل‘ کا تھا۔

ہمیں نہیں معلوم کہ مولانا محترم ’قتل‘ اور ’قتال‘ کے درمیان فرق کے قائل نہیں ہیں یا اس فرق کو ماننے کے باوجود فیروز دیلمی اور ان کے ساتھیوں کی کارروائی کو ’قتال‘ قرار دے رہے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ مولانا محترم کعب بن اشرف اور ابو رافع کے خلاف مسلمانوں کی کارروائی کو بھی ’قتال‘ ہی کے زمرے کی کارروائی سمجھتے ہیں یا ان واقعات کے بارے میں ان کی رائے زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ ہم تو مولانا کی تصریحات سے صرف اتنا سمجھ سکے ہیں کہ وہ اسود عنسی کے خلاف ہونے والی کارروائی کو صرف اس وجہ سے ’قتل‘ کے بجائے ’قتال‘ قرار دینے پر مصر ہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جس حکم کی تعمیل میں ’قتل‘ کی یہ کارروائی روبہ عمل ہوئی، اسی حکم کی تعمیل ’قتال‘ کی صورت میں بھی ہوسکتی تھی ۔

مولانا محترم لکھتے ہیں:

’’اور مزید لطف کی بات یہ ہے واقعہ کی یہ ساری تفصیل ترتیب وار خود بیان کرنے کے بعد معز امجد صاحب اس سے نتیجہ یہ اخذ کر رہے ہیں کہ: ’اس کارروائی کا عملی ظہور اسود عنسی کے اپنے گروہ میں پھوٹ پڑنے اور اس کے اپنے ہی عمال کی طرف سے اس کے قتل کو کامیاب بنانے کی صورت میں ہوا۔ اس ’ذہنی گورکھ دھندے‘ پر اس کے سوا اور کیا تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ: ’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔‘‘

ہم بڑے احترام سے مولانا سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہماری محولہ عبارت میں وہ کون سی بات ہے جو مولانا محترم کے نزدیک خلافِ واقعہ ہے؟ کیا مولانا محترم کو ’البدایہ والنہایہ‘ میں مذکور ابنِ کثیر رحمہ اللہ کے اس بیان سے اختلاف ہے، جس کے مطابق وہ تمام لوگ جن کے ہاتھوں اسود عنسی کا قتل ہوا—- یعنی فیروز دیلمی، دادویہ، قیس بن مکشوح وغیرہ—- وہ سب کے سب اسود عنسی کے قابلِ اعتماد ساتھی اور اس کی فوج میں اہم شعبوں کے ذمہ دار تھے؟ کیا مولانا کے نزدیک اسود عنسی کا قتل فیروز دیلمی، دادویہ اور قیس بن مکشوح کے ہاتھوں ہوا ہی نہیں تھا؟ اگر بات یہ ہے تو ہم مولانا سے اپنی جہالت کی دست بستہ معافی مانگتے اور ان سے گزارش کرتے ہیں کہ اس معاملے میں ہمیں اپنی تحقیقات سے مستفید ہونے کا موقع عنایت فرمائیں۔ تاہم اگر فیروز دیلمی، قیس بن مکشوح اور دادویہ وغیرہ سب، فی الواقع، اسود عنسی کے معتمد اور اس کی فوج کے مختلف شعبوں کے ذمہ دار تھے، جیسا کہ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے اور فی الواقع انھی حضرات نے اسود عنسی کو قتل کیا تھا تو پھر ہمارے ’اخذ کردہ‘ اس نتیجے میں کہ:’اس کارروائی کا عملی ظہور اسود عنسی کے اپنے گروہ میں پھوٹ پڑنے اور اس کے اپنے ہی عمال کی طرف سے اس کے قتل کا کامیاب منصوبہ بنانے کی صورت میں ہوا‘، وہ کون سی بات ہے جس سے مولانا محترم اتنا لطف اندوز ہو رہے ہیں؟

اب اس کے سوا مولانا محترم کی خدمت میں اور کیا عرض کیا جائے کہ منزل پر پہنچنے کے لیے ’ہاتھ باگ پر‘ اور ’پا رکاب میں‘ جما لینا ہے کافی نہیں ہوتا، بلکہ شاید اس سے پہلے منزل کی سمت متعین کرنا اور پھر اس سمت کی طرف اپنی سواری کا رخ موڑنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

اس کے بعد مولانا فرماتے ہیں:

’’چنانچہ ’اصابہ‘ کی جس روایت کا معز امجد نے حوالہ دیا ہے، اس کے مطابق نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فیروز دیلمی اور ان کے رفقا کو اسود عنسی کے خلاف ’محاربہ‘ کا حکم دیا ہے۔ اب ’محاربہ‘ کے معنی ومفہوم کے بارے میں اور کسی کو تردد ہو تو ہو، مگر غامدی صاحب کے شاگردوں سے یہ توقع نہیں ہوسکتی کہ وہ ’محاربہ‘ کے مفہوم سے آگاہ نہیں ہوں گے۔‘‘

اس میں شبہ نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محولہ ہدایت میں اسود عنسی کے خلاف ’محاربہ‘ ہی کا حکم دیا گیا تھا اور یہ بات بھی ہم اوپر واضح کر چکے ہیں کہ اس حکم کی تعمیل میں ’محاربہ‘ کی نوبت فی الواقع اگر آ جاتی تو یہ ’محاربہ‘ ریاستِ مدینہ ہی کے مامورین کی طرف سے ہوتا۔ مگر جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی تعمیل کی نوبت ہی نہیں آئی، بلکہ ’محاربہ‘ کے بغیر ہی اسود عنسی کے فتنے کا قلع قمع کر دیا گیا۔

اوپر دیے گئے حقائق سے یہ بات پوری طرح سے واضح ہو جاتی ہے کہ اپنے ایک صوبے میں بغاوت ہو جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے مسلمانوں کو اس بغاوت کو کچلنے کی غرض سے منظم ہونے کی ہدایت کی۔ ظاہر ہے، جیسا کہ ابنِ کثیر رحمہ اللہ کی تصریحات سے بھی معلوم ہوتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہدایت مسلمانوں کے لیڈر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہی کے لیے تھی اور انھی کو پہنچائی بھی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہدایت ملنے پر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنے سسرالی علاقے ’سکون‘ میں مسلمانوں کا اجتماع منعقد کیا۔ اس اجتماع میں یہ طے پایا کہ اسود عنسی کے فتنے کے خاتمے کے لیے ’جہاد وقتال‘ کے بجائے، اس کے اپنے ہی عمال کے ہاتھوں اسے قتل کرا دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یہ بغاوت باغی لیڈر کو قتل کر کے کچل دی گئی۔

ان تمام حقائق کے علی الرغم اب بھی اگر مولانا محترم کے نزدیک اسود عنسی کے خلاف کارروائی بہر حال ’قتال‘ اور وہ بھی کسی خود مختار ریاستی اقتدار کے بغیر، غیر منظم جتھا بندی کے ذریعے سے ہونے والا قتال ہی قرار دی جانی چاہیے تو پھر اس کے سوا ہم مولانا محترم سے اور کیا عرض کر سکتے ہیں کہ وہ ہمارے حق میں یہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح بات کو سمجھنے اور ہر حال میں اسی کو بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اگرچہ یہ بات لوگوں کے لیے کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔

زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکس کا جواز

زکوٰۃ کے بارے میں مولانا محترم نے اپنے پچھلے مضمون میں یہ فرمایا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب روایت میں ’الا بحقہا‘ کے الفاظ نے وہ استثنا پیدا کر دیا ہے جس کے باعث حکومتوں کو اپنے مسلمان شہریوں پر زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکس عائد کرنے کا جواز مل گیا ہے۔ اس کے جواب میں ہم نے مولانا محترم سے یہ گزارش کی تھی:

الا بحقہا‘ کے معنی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ: ’سوائے اس صورت میں کہ (شریعت ہی کے) کسی حق کے تحت وہ ان (یعنی جان و مال) سے محروم کر دیے جائیں۔‘

مولانا محترم اس کے جواب میں فرماتے ہیں:

’الا بحقہا‘ کی استثنا جان اور مال دونوں کے حوالے سے ہے اور دونوں صورتوں میں یہ استثنا موجود ہے کہ کلمۂ طیبہ پڑھنے، نماز ادا کرنے اور زکوٰۃ دینے کے باوجود اگر کسی مسلمان کی جان و مال سے کسی حق کے عوض تعرض ضروری ہوا، تو ’عصموا منی‘ کی ضمانت کے تحت اسے تحفظ حاصل نہیں ہوگا اور اس کی جان اور مال دونوں سے تعرض روا ہو گا۔ مثلاً جان کے حوالے سے یہ کہ کسی مسلمان نے دوسرے مسلمان کو قتل کر دیا ہے تو قصاص میں اس کا قتل جائز ہو گا۔ کوئی شادی شدہ مسلمان زنا کا مرتکب ہوا ہے تو کتاب اللہ کے حکم کے مطابق اسے سنگسار کیا جائے گا اور اگر کوئی مسلمان (نعوذ باللہ) مرتد ہو گیا ہے تو اسے بھی شرعی قانون کے مطابق توبہ نہ کرنے کی صورت میں قتل کر دیا جائے گا۔ اسی طرح اگر اس کے مال میں ریاست یا سوسائٹی کا کوئی حق متعلق ہو گیا ہے تو اس سے ضرورت کے مطابق مال لیا جاسکے گا۔ ‘‘

مولانا محترم نے ’الا بحقہا‘ کے تحت جان کی امان سے جو استثنا بیان فرمائے ہیں، وہ سب کے سب، دراصل، ان کے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق وہ جرائم ہیں جن کے مرتکب کو شریعت ہی نے سزائے موت سنانے کا حکم دیا ہے۔ یہ گویا مولانا محترم نے ہماری اس بات کی مثالوں کے ساتھ وضاحت کر دی ہے جو ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں عرض کی تھی۔ ’شریعت ہی کے کسی حق کے تحت وہ ان سے محروم کر دیے جائیں‘ کے اس کے سوا اور کیا معنی ہو سکتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا اقدام کریں جس کی سزا، کفارے یا جرمانے کے طور پر، ریاست کے لیے ان کی جان یا ان کے مال پر دست درازی کا حق قائم ہو جائے۔ ’الا بحقھا‘ کا استثنا بس اسی حد تک ہے، اور اسی کی مثالیں مولانا محترم نے دی بھی ہیں۔اگرچہ یقین سے تو نہیں کہا جا سکتا، تاہم امید یہی ہے کہ مولانا محترم اس بات کو ناجائز ہی سمجھتے ہوں گے کہ شریعت کی سند کے بغیر کوئی مسلمان ریاست اپنے شہریوں کی جان لینا شروع کر دے۔ ظاہر ہے کہ اسی اصول کا اطلاق مال کی حرمت پر بھی ہو گا۔

مولانا محترم کی مذکورہ مثالوں کو اگر سامنے رکھا جائے تو اس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ جان ہی کی طرح مال کی حرمت کا استثنا بھی اسی صورت میں پیدا ہوگا جب کوئی شخص ایسے کسی جرم کا مرتکب ہو جس کی پاداش میں شریعت کے تقاضوں کو پوراکرتے ہوئے، اس کا مال اس سے لیا جا سکتا یا اس پر کوئی جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہو۔ ظاہر ہے کہ جس طرح جان کی حرمت کا استثنا شریعت ہی کے کسی قائم کردہ حق سے پیدا ہوگا، اسی طرح مال کی حرمت کا استثنا بھی شریعت ہی کے کسی قائم کردہ حق سے پیدا ہو گا، جیسے، مثال کے طور پر قتلِ خطا کی صورت میں دیت کی وصولی یا کسی کا مال غصب کرنے کی صورت میں غصب شدہ مال کی وصولی۔ چنانچہ جس طرح کسی خاص صورت میں جان کی حرمت سے استثنا ماننے کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ اس استثنا کے حق میں قرآن و سنت کے واضح نصوص پیش کیے جائیں اور ان نصوص کی غیر موجودگی میں، ہر حال میں جان کی حرمت کو قائم سمجھا جائے، اسی طرح کسی خاص صورت میں مال کی حرمت سے استثنا ماننے کے لیے بھی یہ ضروری ہوگا کہ اس استثنا کے حق میں قرآن و سنت کے واضح نصوص پیش کیے جائیں اور ان نصوص کی غیر موجودگی میں مال کی حرمت کو بہرحال قائم سمجھا جائے۔

ظاہر ہے کہ اس وضاحت کے بعد، اب جو شخص بھی حکومت کے لیے زکوٰۃ کے علاوہ دیگر ٹیکس لگانے کو جائز سمجھتا ہے، یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن وسنت کے واضح نصوص سے اس جواز کے حق میں دلیل پیش کرے۔

اس کے بعد مولانا محترم فرماتے ہیں:

’’سوال یہ ہے کہ اگر جان کی ضمانت سے استثنا کی صورتیں موجود ہیں، تو مال کی حفاظت کی ضمانت سے استثنا کا امکان کیوں تسلیم نہیں کیا جا رہا؟ ‘‘

ہمیں نہیں معلوم کہ مولانا محترم نے ہماری کس بات سے اخذ کیا ہے کہ ہم مال کی حرمت سے استثنا کا امکان تسلیم نہیں کرتے۔ ہم تو شروع سے یہ بات بیان کرتے آ رہے ہیں کہ شریعت ہی کا کوئی حق قائم ہونے کے نتیجے میں ایک شخص کی جان اور اس کے مال کی حرمت، جزوی یا کلی طور پر ختم ہوسکتی ہے۔

اس کے بعد مولانا محترم مزید فرماتے ہیں:

’’اور اگر کسی بھی درجے کی شرعی دلیل سے اس کی ضرورت اور جواز مل جاتا ہے، تو اسے ’عصموا منی‘ کی ضمانت کے منافی قرار دینے کا آخر کیا جواز ہے؟‘‘

’کسی بھی درجے کی شرعی دلیل‘ سے مولانا کی کیا مراد ہے، یہ ہم سمجھ نہیں سکے۔ اس میں، البتہ، کوئی شبہ نہیں ہے کہ اگر قرآن وسنت کے واضح نصوص کی روشنی میں اضافی ٹیکس عائد کرنے کا جواز ثابت کر دیا جائے، اور سورۂ توبہ کی متعلقہ آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب محولہ روایات کا اس پیش کردہ جواز کے ساتھ توافق ثابت کر دیا جائے تو پھر زکوٰۃ کے علاوہ اضافی ٹیکس کے ناجائز ہونے کے بارے میں استاذِ محترم کی رائے آپ سے آپ غلط ثابت ہو جائے گی۔ اس صورت میں، یقینا،یہ اضافی ٹیکس ’عصموا منی‘ کی ضمانت کے منافی قرار نہیں دیا جا سکے گا۔

مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ قرآن وسنت کی ایسی کوئی نص اگر ان کے سامنے موجود ہے تو پھر مہربانی فرما کر ہم جیسے طالبِ علموں کو بھی اس پر مطلع فرمائیں۔ ہم ان کے بے حد شکرگزار ہوں گے۔

اس کے بعد مولانا محترم فرماتے ہیں:

’’اگر معز امجد صاحب کو یاد ہو تو ہمارا پہلا اور اصولی سوال یہ تھا کہ اگر زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور ٹیکس کی ممانعت کی کوئی صریح دلیل موجود ہے تو ہماری رہنمائی کی جائے۔ مگر ان کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس کوئی واضح اور صریح دلیل موجود نہیں ہے اور وہ بھی اپنا موقف استدلال و استنباط کے ذریعے ہی واضح کرنا چاہے تو ہمیں اس تکلیف میں پڑنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے کہ امت کے اجتماعی تعامل اور فقہاے امت کے استدلال کو محض اس شوق میں دریا برد کر دیں کہ ہمارے ایک محترم دوست جاوید احمد غامدی صاحب نے نئے سرے سے قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح اور اجتہاد واستنباط کا پرچم بلند کر دیا ہے۔‘‘

مولانا محترم بالکل بجا فرما رہے ہیں کہ انھوں نے اپنے پہلے ہی مقالے میں یہ تقاضا کیا تھا کہ زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکس کی ممانعت کی اگر کوئی ’صریح دلیل‘ ہے تو وہ پیش کی جائے۔ یقینا، یہ ہماری ہی سادہ لوحی ہے کہ اس کے جواب میں ہم نے قرآنِ مجید کی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایسے ارشادات پیش کرنے کی جسارت کی جن کو مان لینے کا لازمی تقاضا یہ تھا کہ زکوٰۃ کے علاوہ مسلمانوں سے کوئی اور ٹیکس وصول کرنا ناجائز قرار پاتا۔ آخر قرآن کی آیات اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کب سے ’واضح اور صریح دلیل‘ قرار پانے لگے؟ ہم اس جسارت کے لیے مولانا محترم سے دست بستہ معافی مانگتے ہیں۔ تاہم، اپنے عذر کے طور پر، ہم مولانا سے صرف اتنی گزارش کرنا چاہیں گے کہ یہ جسارت ہم سے محض اس غلط فہمی کے باعث ہوئی کہ ہم نے قرآنِ مجید کی آیاتِ بینات اور ان کے واضح تقاضوں کو بیان کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ارشادات کو ’صریح دلیل‘ سمجھا۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ’صریح دلیل‘ تو محض اگلوں کے فہم کو کہا جاسکتا ہے، خواہ یہ فہم اپنے اندر الفاظ ومعنی کا کوئی تعلق رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ’واضح بات‘ وہ نہیں جو قرآن و سنت سے سمجھی جا رہی ہو، بلکہ ’واضح بات‘ کہلانے کی مستحق تو صرف وہ بات ہے، جو اگلوں کے استدلال واستنباط میں بیان ہوئی ہو، خواہ اسے قرآن کی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ارشادات قبول کر رہے ہوں یا نہ کر رہے ہوں۔ پھر ہماری سادگی کی انتہا دیکھیے کہ ہم یہی سمجھتے رہے کہ قرآن وسنت سے ہم نے اگر کوئی غلط استدلال کیا تو مولانا محترم جیسے شفیق بزرگ علمی طریقے پر ہماری غلطی پر ہمیں متنبہ فرمائیں گے۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ علم کی دنیا اب اتنی بنجر ہو چکی ہے کہ اپنی قائم کردہ آرا سے ہٹ کر کسی نئی بات پر غور و تدبر کرنا، خواہ وہ بات قرآن وسنت ہی کی بنیاد پر کیوں نہ پیش کی جا رہی ہو، اس کے لیے ’باعثِ تکلیف‘ ہو چکا ہے۔

یہاں ہم قارئین کو یاد دلاتے چلیں کہ مولانا محترم کے ’واضح اور صریح دلیل‘ کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ہم نے سب سے پہلے سورۂ توبہ کی آیت کا حوالہ دے کر یہ گزارش کی تھی کہ اس کے الفاظ ’واضح اور صریح‘ طور پر ایک اسلامی ریاست کو اس بات کاحکم دیتے ہیں کہ وہ اپنے مسلمان شہریوں کے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد، ’ان کی راہ چھوڑ دے‘۔ ہم نے وہاں یہ بیان کیا تھا کہ ہمارے نزدیک سورۂ توبہ کی آیت کے یہ الفاظ اسلامی ریاست سے یہ ’واضح اور صریح‘ تقاضا کرتے ہیں کہ وہ نماز کے قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی کو چھوڑ کر، اپنے مسلمان شہریوں سے قانون کے زور سے کوئی ایجابی مطالبہ نہیں کر سکتی۔ بلا شبہ، وہ ان سے مختلف معاملات میں تعاون کی اپیل کر سکتی اور اس پر انھیں ابھار سکتی ہے، مگر اپنی قانونی مشینری کے زور سے وہ ان پر کوئی اضافی ایجابی ذمہ داری نافذ نہیں کر سکتی۔ اس کے بعد ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا حوالہ دیا تھا جس میں آپ نے سورۂ توبہ کی آیت کے اس ’واضح اور صریح‘ حکم کے تحت اسلام قبول کر لینے، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کر دینے کے بعد لوگوں کے جان ومال میں ہر قسم کے حکومتی تصرف سے امان دی اور یہ اعلان فرما دیا کہ اس سے استثنا کی صورت صرف یہی ہے کہ شریعت ہی کے کسی حکم کے تحت، ان کے جان و مال پر کوئی حق قائم ہو جائے، جیسے قتل کی صورت میں قصاص یا دیت کا حق قائم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہم نے اسی کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ’واضح اور صریح‘ ارشاد کا حوالہ بھی دیا تھا، جس کے تحت آپ نے لوگوں کی جان ومال کی حرمت کے پامال کرنے کو حرمِ کعبہ کی حرمت پامال کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ یہ سب کچھ صاف بتا رہا ہے کہ کسی مسلمان ریاست کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ قانون کے زور سے اپنے مسلمان شہریوں کے مال میں سے زکوٰۃ کے علاوہ ایک پیسا بھی لے۔ یہ بتا رہا ہے کہ ایسا کرنے والی ریاست نے مسلمان کے مال کی اس حرمت کو پامال کیا جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اعلان میں قائم کر دی تھی۔ یہ بتا رہا ہے کہ مسلمانوں کے مال کی حرمت پامال کرنے والی اسلامی ریاست کا جرم حرمِ کعبہ کی حرمت کو پامال کرنے کے برابر ہے۔ چنانچہ جرم کی اسی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ’واضح اور صریح‘ ارشاد بھی نقل کیا تھا کہ:’’کوئی ٹیکس وصول کرنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا۔‘‘

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ صحیح باتوں کے لیے دلوں میں جگہ پیدا کرے اور غلط باتوں کے شر سے ہم سب کو محفوظ و مامون رکھے۔

____________

B