HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

علامہ ابوالخیر اسدی کی رحلت

(ا)

قرآنِ مجید میں ہے:

’’اور کسی شخص کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ایمان لا سکے مگر اللہ کے اذن سے ۔ اور وہ گندگی لاد دیا کرتا ہے ان لوگوں پر جو عقل سے کام نہیں لیتے ۔‘‘ (یونس ۱۰ : ۱۰۰)
’’وہ حکمت عطا کرتا ہے جسے چاہتا ہے او رجس کو حکمت عطا کی گئی، اسے خیرِ کثیرکا خزانہ دے دیا گیا اور یاد دہانی تو بس اہلِ عقل ہی کو حاصل ہے ۔‘‘ (البقرۃ ۲ : ۲۶۹)
’’کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے یا دلوں پر تالے چڑھے ہوئے ہیں !‘‘ (محمد ۴۷ : ۲۴)
’’ ایمان والو، انصاف پر قائم رہنے والے بنو، اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے ، اگرچہ اس کی زد خود تمھاری اپنی ذات ، تمھارے والدین ، اور تمھارے اقربا پر ہی پڑے ۔ کوئی امیر ہو یا غریب ، اللہ ہی دونوں کے لیے احق ہے ۔ اس لیے تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرو کہ حق سے ہٹ جاؤ ۔ اور اگر اسے بگاڑو گے یا اعراض کرو گے ، تو یاد رکھو کہ اللہ تمھارے ہر عمل سے باخبر ہے ۔‘‘ (النسا ۴ : ۱۳۵)

یعنی عالم کا پروردگار مختلف اسالیب میں انسان کو اس بات کی ہدایت کرتا ہے کہ وہ غوروفکر کرے اور عقل سے کام لے ،مگر یہ ایک درد ناک حقیقت ہے کہ عام مسلمان بالعموم اور وہ مسلمان بالخصوص جو مذہب کی طرف دوسروں کی نسبت زیادہ مائل ہیں، اس ہدایت پر عمل کرنا پسند نہیں کرتے ۔ بہت کم لوگ ہیں جو قرآنِ مجید پر براہِ راست غوروفکر کرنے کے قائل ہیں اور اپنے دلوں کے دریچے کھلے رکھنا چاہتے ہیں ۔ اور وہ افراد ان لوگوں سے بھی کم ہیں جو گردوپیش میں پھیلے ہوئے نظریات کا قرآن کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہیں اور اگر انھیں خلافِ قرآن پائیں تو ان پر تنقید کرتے ہیں ۔ اور اس معاملے میں کسی شخص یا گروہ کی ناراضی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ علامہ ابو الخیر اسدی کا شمار ایسے ہی افراد میں ہوتا تھا ۔

آہ ! ۱۶ مارچ ۲۰۰۱ کو ابو الخیر وفات پا گئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ دعا ہے کہ عالم کا پروردگار انھیں جنت کے اعلیٰ مقامات عطا فرمائے۔

وہ بیوہ اور نابینا ماں اور چھوٹے چھوٹے بہن بھائیوں کا واحدسہارا تھے ۔ ۵ سال کی عمر میں قرآنِ مجید پڑھ لیا ۔ پھر اپنے علاقے ہی کے ایک مدرسے سے دینی تعلیم کا آغاز کیا ۔ ۶ سال کی عمر میں اسکول میں داخلہ لیا ۔ مڈل تک اپنے ہی شہر سے تعلیم حاصل کی ۔ پھر ملتان چلے گئے ۔ گورنمنٹ پائلٹ ہائی اسکول نواں شہر ملتان سے فرسٹ ڈویژن میں میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ اس کے بعد اس وقت کے ایمپرس کالج اور آج کے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ سے فرسٹ پوزیشن میں گریجوایشن کیا۔ آپ کو مختلف محکموں سے بڑی بڑی ملازمتوں کی پیش کش ہوئی، مگر ’’ابوالخیر‘‘ نے تو ملک و ملت کو غیر معمولی خیر پہنچانا تھا ، چنانچہ ہر قسم کی پیش کش رد کر دی ۔ اپنا رخ دینی علوم ہی کی طرف رکھا ۔ پاک و ہند کی مختلف لائبریریوں سے استفادہ کیا ۔ ۱۹۵۴ء میں سعودی عرب چلے گئے ۔ حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد مکہ یونیورسٹی اور پھر الازہر کا مطالعاتی دورہ کیا ۔ پھر عراق چلے گئے اور وہاں آلوسی یونیورسٹی آف بغداد سے فلسفۂ الہٰیات میں تخصص (PHD) کیا ۔

عربی ، فارسی اوراردو کے علاوہ کسی قدر ہندی ، فرنچ ، سریانی ، عبرانی اور جرمن سیکھی ۔ فلاسفۂ یونان ، ہندوازم ، یہودیت اور عیسائیت کا گہرا مطالعہ کیا ۔ ۱۹۵۶ء میں وطن واپس آئے ۔ ۱۹۵۷ء میں تحریری کام شروع کیا ۔ ابتدا میں اصلاحی رسائل لکھے ۔

آپ رزقِ حلال کے معاملے میں غیر معمولی حساس تھے ۔ اگر سو روپیہ بھی آتا تو سب سے پہلے اس کی زکوٰۃ نکالتے ، پھر اسے خرچ کرتے ۔ ان کے پاس سے کوئی سوالی خالی ہاتھ واپس نہ جاتا ۔

نہایت سادہ مزاج تھے۔ کبھی کلف لگی پوشاک نہ پہنی ۔ کبھی پرتکلف خوراک کی خواہش نہ کی۔ کم کھاتے۔ کم سوتے۔ سردی ہو یا گرمی، لباس ایک سا ہی رہتا؛

علامہ اقبال کہتے ہیں:

شیر مردوں سے ہوا پیشۂ تحقیقتہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی

۱۹۸۰ ء میں ابو الخیر ’’شیر مرد‘‘ بنے ۔ تحقیق کے میدان میں اترے ۔ جیسے ہی ان کی تحقیقات سامنے آنا شروع ہوئیں تو ’’صوفی و ملا‘‘ بھی اپنے مخصوص میدان میں اتر آئے۔ ابو الخیر کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا ۔ معاشرتی بائیکاٹ ہوا ۔ شہر بدر کرنے کے منصبوے بنے حتیٰ کہ قاتلانہ حملے بھی ہوئے ،مگر آپ نے اپنا کام جاری رکھا اور آخری سانس تک جاری رکھا ۔

ذیل میں ان کی کتب سے چند اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں ۔ ان سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کا تحقیقی کام کس پایہ کا تھا ۔ وحدت الوجود کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’کائنات کی کثرت و تنوع کے بارے میں فلسفہ اور الہٰیات کا اہم سوال یہ ہے کہ یہ کائنات معرضِ وجود میں کس طرح آئی ہے؟ مذہب کا آسان جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے محض اپنی قدرت سے کتم عدم سے نکالا اور خلعتِ وجود بخشا ہے۔ یہ تصور تخلیق کے نظریے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خالق اور کائنات کے مابین اچھا خاصا فاصلہ اور بعد پایا جاتا ہے۔ اس میں تعلق کی وہی نوعیت کارفرما ہے جو صانع اور مصنوع کے درمیان پائی جاتی ہے۔
دوسرا تصور یہ ہے کہ خالق و مخلوق میں جو فاصلہ ہے وہ تخلیق و ایجاد کا نہیں ، بلکہ ظہور و تمثل کا ہے۔ یعنی خود اللہ تعالیٰ نے جو ذات بحت ہے موجودات کی مختلف شکلوں میں اس نے ظہور فرمایا ہے۔دونوں کا وجود ایک ہے فرق صرف تعیین اور نمود و اظہار کا ہے اس نتیجہ تک صوفیہ اور حکما فلاسفۂ منطق اور استدلال کے راستے سے نہیں پہنچے، بلکہ اس سلسلے میں ان کی رہنمائی ایک نوع کے روحانی تجربہ یا ان کے وجدان نے کی ہے بعض نے اس حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
’’شیخ ابوالحسن نوری ۲۹۵ہجری فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے جب اپنی ذات کی تلطیف کی تو اس کا نام حق رکھا اور جب اس کی تکثیف کی تو اسے مخلوق کے نام سے موسوم کیا۔‘‘ (عقلیاتِ ابنِ تیمیہ، ص ۳۰۹)
گویا خالق اور مخلوق میں فرق ذات و جوہر کا نہیں لطافت اور کثافت کا ہے۔
پس وحدت الوجود کا سارا فلسفہ اسی تلطیف و تکثیف کے اصول پر تعمیر کیا گیا ہے۔ ‘‘(فلسفۂ توحید کی عجمی تشکیل، ص ۲۸۔ ۲۹)

پھر وحد ت الوجود پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ابنِ عربی کے فلسفے میں جس بات کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے ،وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کائنات میں دوسرا کوئی وجود نہیں ہے ۔ اس لیے اس نظریے کو وحدت الوجود کہتے ہیں ۔ یہ ایسا نظریہ ہے کہ اس کے باوجود خود ابنِ عربی اپنی ایک تحریر سے اس کی تغلیط کر رہے ہیں ۔
ابنِ عربی لکھتے ہیں کہ ایک مکاشفے میں میری روح حضرت ہارون کے ساتھ جمع ہو گئی ۔ میں نے عرض کی یا نبی اللہ ، آپ نے یہ کیسے کیا ۔ فلا تشمت بی الاعدا۔ (مجھے دشمنوں کی شماتت سے محفوظ رکھیے۔)
یہاں ’’اعدا‘‘ کون ہیں جن کا آپ مشاہدہ فرما رہے ہیں ۔ حالانکہ ہم لوگ تو ایسے مقام پر پہنچے ہوئے ہیں کہ ہم اس کائنات میں اللہ کے سوا دوسرے کسی کو بھی موجود نہیں مانتے ۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے فرمایا تم اپنے مشاہدے کے مطابق صحیح بات کہہ رہے ہو ۔
لیکن جب تم اپنے مشاہدے میں اللہ کے سوا دوسرے کسی کو موجود نہیں سمجھ رہے تھے، کیا اس وقت یہ کائنات حقیقت میں زائل ہو گئی تھی یا یہ کائنات اپنے مقام پر جوں کی توں موجود تھی۔ حالانکہ یہ قلبی تجلی تھی جو تمھیں اس کے شہود سے محجوب کر رہی تھی ؟ میں نے کہا :واقعی یہ کائنات اسی طرح اپنے مقام پر قائم اور دائم تھی، لیکن ہم اس کے مشاہدے سے اس وقت محجوب تھے۔ اس کے بعد حضرت ہارون نے فرمایا:
شہود کے اس مقام میں تمھارا علم اللہ کے ساتھ ایسا ہی ناقص تھا جس طرح کائنات کے مشاہدے میں تمھارا کشفی علم ناقص تھا ۔ حالانکہ اس کائنات کے حسی وجود کے ذریعے سے تو اللہ کے موجود ہونے کی دلیل ثابت ہو رہی ہے ۔ اس کے بعد ابنِ عربی کہتے ہیں :
حضرت ہارون نے مجھے ایک ایسی حقیقت سے متعارف فرمایا جس کا مجھے پہلے علم ہی نہ تھا۔‘‘(فلسفۂ توحید کی عجمی تشکیل، ص ۵۳۔۵۴)

’’مقامِ نبوت کی عجمی تعبیر‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’نظریۂ اصالت کا آسان مفہوم یہ ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ساری کائنات کی اصل ہے ۔ اور کائنات کے اندر جو کچھ بھی موجود ہے وہ آپ ہی کی فرع ہے ۔ اب جس قسم کا کمال کسی فرع میں ہو گا، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کمال اصل میں ضرور موجود ہے ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جو کمال فرع میں ہو، وہ اس فرع کی اصل میں موجود نہ ہو ۔ اصالت کا یہ نظریہ حقیقتِ محمدیہ سے ماخوذ ہے جو فلسفۂ وحدت الوجود میں تعینِ اول کے نام سے مشہور ہے ۔ ‘‘ (ص ۴)

پھر اس عقیدے پر نقد کرتے ہیں :

’’حضرت تھانوی ان اکابر علما میں سے ہیں جو دیو بندی مسلک میں امام کی حیثیت رکھتے ہیں اور فنِ تصوف میں مجتہد کا مقام رکھتے ہیں ، انھوں نے صاف لکھ دیا ہے کہ حقیقتِ محمدیہ خدا کے مرتبۂ وحدت کا نام ہے ، اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مراد نہیں ہو سکتے کیونکہ آپ مخلوق ہیں نہ کہ صفاتِ الہٰیہ میں سے کوئی صفت ہیں ۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ حقیقتِ محمدیہ کو جب مرتبۂ وحدت کی اصطلاح کے لیے مخصوص کیا گیا ہے تو اسے ذاتِ نبویہ پر کیوں محمول کیا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے آپ کی ذات پر صفتِ الہٰیہ کا شبہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ اب ہم یہاں جناب عبد الباری صاحب ندوی کی عبارت کو ذرا سہل کر کے بیان کرتے ہیں:
۱۔ حقیقتِ محمدیہ جیسی اصطلاحات فلسفہ و اشراقیت وغیرہ کے عجمی نظریات سے ماخوذ ہیں ۔ یہ ایسے نظریات ہیں جن کے ذریعے سے مقدس ہستیوں میں خدا کا حلول اور اتحاد آسانی کے ساتھ ثابت ہو سکتا ہے ۔
۲۔ مشائخِ صوفیہ کے بعض شطحیات میں جہاں حلول و اتحاد کا اشتباہ پیدا ہوتا ہے اس کی وجہ یا تو سکر کا غلبہ ہے یا ایسے اقوال کو ایسی عبارت یا عنوان کے ساتھ ظاہر کیا گیا ہے جو ظاہری حدود سے تجاوز کر گئے ہیں، (اس میں آپ صوفیہ کی حلولی شطحیات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک شریعت کی عظمت ان کے تحفظ سے بہتر ہے۔ دوسرے غلبۂ سکر کے بعد جب عالمِ صحو میں داخل ہوتے تھے تو توبہ کے ساتھ ایسے اقوال کا ازالہ کر لیتے)۔
۳۔ اسلم طریقہ یہ ہے کہ جب ایسی اصطلاحات سے شرک کا ایہام پیدا ہوتا ہے تو سرے سے ایسی اصطلاحات کو استعمال ہی نہ کیا جائے ۔ جب معارفِ الٰہیہ بیان کرنے کے لیے قرآن و سنت میں مسنون عنوان موجود ہیں تو پھر ایسے نازک مسائل میں موہوم عنوان استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے اور وہ کون سی مجبوریاں لاحق ہیں جن کی وجہ سے ان سے گریز نہیں کیا جا سکتا ۔
۴۔ وحدت الوجود کے نظریے میں کائنات کی تخلیق ثابت نہیں ہوتی، بلکہ کائنات کا خدا سے ظہور ثابت ہوتا ہے ۔ اس پر جناب عبد الباری صاحب فرما رہے ہیں کہ تخلیق کی بجائے ظہور کی اصطلاح کیوں استعمال کی جاتی ہے؟ جو طرح طرح کے ایہامات سے خالی نہیں ۔ درحقیقت یہ چیزیں فلسفہ پسند اور نظریات ساز دماغوں کی راہ سے داخل ہو گئی ہیں جو وحی و نبوت فطری مذاقِ سلیم پر قانع نہیں رہ سکتے تھے۔
جو علماحضرت تھانوی رحمہ اللہ جیسے اکابرین کے مسلک کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں ، مولانا عبد الباری صاحب ندوی کا یہ تبصرہ ان کے لیے حجت ہے ۔ واقعی نظریۂ وحدت الوجود اور حقیقتِ محمدیہ جیسی اصطلاحیں فلسفہ پسند اور نظریات ساز دماغوں کی راہ سے اسلام میں داخل ہو گئی ہیں جو وحی و نبوت کے فطری مذاقِ سلیم پر قانع نہیں رہ سکتے تھے ۔ ‘‘(مقامِ نبوت کی عجمی تعبیر، ص ۱۵۔۱۷)

(جاری )

____________

B