HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: التوبہ ۹: ۱۱۳- ۱۲۹ (۱۰)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْکَانُوْٓا اُوْلِیْ قُرْبٰی مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ{۱۱۳} وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ{۱۱۴} وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُضِلَّ قَوْمًام بَعْدَ اِذْ ھَدٰھُمْ حَتّٰی یُبَیِّنَ لَھُمْ مَّا یَتَّقُوْنَ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ{۱۱۵} اِنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ{۱۱۶} 
لَقَدْ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْم بَعْدِ مَاکَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْھِمْ اِنَّہٗ بِھِمْ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ{۱۱۷} وَّعَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰٓی اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْھِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْھِمْ اَنْفُسُھُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّآ اِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْھِمْ لِیَتُوْبُوْا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ{۱۱۸}
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ{۱۱۹} مَاکَانَ لِاَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ وَمَنْ حَوْلَھُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ وَلَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِھِمْ عَنْ نَّفْسِہٖ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ لَا یُصِیْبُھُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا یَطَئُوْنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْکُفَّارَ وَلَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْلًا اِلَّا کُتِبَ لَھُمْ بِہٖ عَمَلٌ صَالِحٌ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ{۱۲۰} وَلَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَۃً صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً وَّلَا یَقْطَعُوْنَ وَادِیًا اِلَّا کُتِبَ لَھُمْ لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ{۱۲۱} وَمَاکَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ{۱۲۲}
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ{۱۲۳} وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ فَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّکُمْ زَادَتْہُ ھٰذِہٖٓ اِیْمَانًا فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ{۱۲۴} وَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا اِلٰی رِجْسِھِمْ وَمَاتُوْا وَھُمْ کٰفِرُوْنَ{۱۲۵} اَوَلَا یَرَوْنَ اَنَّھُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَلَا ھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ{۱۲۶} وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ ھَلْ یَرٰکُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا صَرَفَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ{۱۲۷}
لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ{۱۲۸} فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ{۱۲۹}
ـــــــــــــــــــــــــ
نبی۲۸۵؎ اور اُس کے ماننے والوں کے لیے زیبا نہیں کہ (جن) مشرکین (سے اعلان براء ت ہو چکا ہے، اُن) کے لیے مغفرت کی دعا کریں، اگرچہ وہ اُن کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جبکہ اُن پر کھل چکا کہ وہ دوزخ کے لوگ ہیں۲۸۶؎۔ ابراہیم نے تو اپنے باپ کے لیے صرف اُس وعدے کے سبب سے مغفرت مانگی تھی جو اُس نے اپنے باپ سے کر لیا تھا۲۸۷؎۔مگرجب اُس پر واضح ہو گیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو وہ اُس سے بے تعلق ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم بڑا نرم دل اور بردبار تھا۲۸۸؎۔ (تم یاد رکھو کہ)اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد پھر گمراہی میں مبتلا کر دے، جب تک کہ اُنھیں صاف صاف وہ چیزیں نہ بتا دے جن سے اُنھیں بچنا ہے۲۸۹؎۔اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اللہ ہی ہے کہ زمین و آسمان پر جس کی بادشاہی ہے۔ وہی زندگی دیتا اور وہی مارتا ہے اور اللہ کے سوا نہ تمھارا کوئی حامی ہے اور نہ مددگار۔۱۱۳-۱۱۶
اللہ نے نبی پر اور (نبی کے ساتھی) اُن مہاجرین و انصار پر رحمت کی نظر کی جنھوں نے تنگی کے وقت میں نبی کا ساتھ دیا، اِس کے بعد کہ اُن میں سے بعض کے دل کجی کی طرف مائل ہو چلے تھے۔ پھر اللہ نے اُن پر رحمت کی نظر کی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اُن پر مہربان ہے، بڑا رحم فرمانے والا ہے۲۹۰؎۔ (اِسی طرح) اُن تینوں پر رحمت کی نظر کی جن کا معاملہ اٹھا رکھا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود اُن پر تنگ ہو گئی اور وہ خود اپنی جانوں سے تنگ آگئے اور اُنھوں نے اندازہ کر لیا کہ خدا سے خدا کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے۲۹۱؎، پھر اللہ نے اپنی رحمت سے توجہ فرمائی کہ وہ (اُس کی طرف) پلٹیں۲۹۲؎۔ یقینااللہ ہی ہے جو توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔۱۱۷-۱۱۸
ایمان والو، (اِن غلطیوں سے بچنا چاہتے ہو تو) اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۲۹۳؎۔ (حقیقت یہ ہے کہ ) مدینہ والوں اور اُن کے گردونواح کے بدویوں کے لیے زیبانہ تھا کہ وہ اللہ کے رسول کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھے رہیں اور نہ یہ زیبا تھا کہ اپنی جان کو اُس کی جان سے عزیز رکھیں۔یہ اِس لیے کہ جو پیاس، تکان اور بھوک بھی اُن کو خدا کی راہ میں لاحق ہوتی ہے اور (پیغمبر کے) منکروں کورنج پہنچانے والا جو قدم بھی وہ اٹھاتے ہیں اور (اُس کے) کسی دشمن کو جو چرکا بھی لگاتے ہیں، اُن سب کے بدلے میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ اللہ خوبی اختیار کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۲۹۴؎۔(اِسی طرح) جو چھوٹا یا بڑا انفاق وہ کرتے ہیں اور (راہ حق میں) جو وادی بھی قطع کرتے ہیں، سب اُن کے لیے لکھا جاتا ہے تاکہ اللہ اُن کے عمل کا اچھے سے اچھا بدلہ دے۔ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ مسلمان، سب کے سب نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکلتے تاکہ دین میںبصیرت پیدا کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو (اُن کے اِن رویوں پر) خبردار کرتے، جب اُن کی طرف لوٹتے، اِس لیے کہ وہ بچتے۲۹۵؎۔۱۱۹-۱۲۲
ایمان والو، (اِن تنبیہات کے بعد اب نکلو اور جس طرح کہ پیچھے حکم دیا گیا ہے)، اپنے گردوپیش کے منکروں سے جنگ کرو ۲۹۶؎اورچاہیے کہ وہ تمھارے اندر سختی پائیں،۲۹۷؎تم جان لوکہ اللہ اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرنے والے ہوں۲۹۸؎۔ (اِن پر افسوس، یہ کہاں نکلیں گے؟اِن کا حال تو یہ ہے کہ ) جب کوئی سورت اترتی ہے تو اِن میں سے بعض وہ بھی ہیں جو پوچھتے ہیں کہ اِس نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے۲۹۹؎؟ سو حقیقت یہ ہے کہ جو فی الواقع ایمان لائے ہیں۳۰۰؎، اُن کے ایمان میں تو اُس نے اضافہ کر دیا اور وہ اُس سے بشارت حاصل کر رہے ہیں۔ رہے وہ جن کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے تو اُن کی نجاست پر اُس نے ایک اور نجاست بڑھا دی اور وہ مرنے تک منکر ہی رہے۳۰۱؎۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ سال میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ وہ آزمایش میںڈالے جاتے ہیں۳۰۲؎،پھر بھی نہ توبہ کرتے ہیں، نہ یاددہانی حاصل کرتے ہیں۳۰۳؎ اور (کسی نئی مہم کی تیاری کے لیے)جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے تو ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں کہ کوئی دیکھتا تو نہیں، پھر نکل بھاگتے ہیں۔ اللہ نے اِن کے دل (اپنے قانون کے مطابق) پھیر دیے ہیں، اِس لیے کہ یہ سمجھنے والے لوگ ہی نہیں ہیں۳۰۴؎۔۱۲۳-۱۲۷
(لوگو) ، تمھارے پاس خود تم میں سے ایک رسول آیا ہے۳۰۵؎۔ تمھارا نقصان میں پڑنا اُس پر بہت شاق ہے۔ وہ تمھاری بھلائی کا حریص ہے، ایمان والوں کے لیے سراپا شفقت اور سراسر رحمت ہے۳۰۶؎  ــــ پھر بھی یہ روگردانی کرتے ہیں تو (اے پیغمبر)، کہہ دو کہ میرے لیے اللہ کافی ہے۳۰۷؎۔ اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ میں نے اُس پر بھروسا کیا اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔۱۲۸-۱۲۹

۲۸۵؎ یہ چھٹا اور آخری شذرہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر تبوک سے واپسی کے بعد مدینۂ طیبہ میں کسی وقت نازل ہوا ہے۔

۲۸۶؎ یہ اُس مرحلے کا حکم ہے، جب پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت اور اعلان براء ت کے بعد بھی لوگ ایمان لانے سے انکار کردیں۔ پیغمبر اور اُس کے ساتھیوں کی دعائیں قوم کے لیے خدا کی امان ہوتی ہیں۔ جزا و سزا کے اِس مرحلے میں ضروری تھا کہ اُنھیں اِس امان سے محروم کر دیا جائے اور جو عذاب اُن کے لیے مقدر ہو چکا ہے، وہ اُس کو بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ پھر یہ دعائیں حمیت حق کے بھی منافی تھیں، اِس لیے کہ اِس وضاحت کے بعد کہ وہ جہنم کے مستحق ہو چکے ہیں، اگر کسی رشتہ و تعلق کی بنا پر مغفرت کی دعا کی جائے تو اِس کے صاف معنی یہی ہوں گے کہ قرابت کی حمیت حمیت حق پر غالب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد، البتہ اِس طرح کے اتمام حجت اور اعلان براء ت کا موقع باقی نہیں رہا۔ چنانچہ کوئی حرج نہیں کہ کفر و شرک کے کسی مرتکب کے لیے بھی اُن الفاظ میں دعا کر دی جائے جو سیدنا مسیح علیہ السلام نے اختیار فرمائے ہیں کہ ’اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ، وَاِنْ تَغْفِرْلَھُمْ، فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ*‘،(آ پ اُنھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ زبردست ہیں، بڑی حکمت والے ہیں)۔

۲۸۷؎ اِس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وعدے کی اہمیت کس قدر غیر معمولی ہے۔

۲۸۸؎ یہ باپ کے معاملے میں ابراہیم علیہ السلام کی دردمندی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پسندیدگی کا اظہار ہے۔ تاہم جب واضح ہو گیا کہ باپ فی الواقع خدا کا دشمن ہے تو اُنھوں نے سختی کے ساتھ اعلان براء ت بھی کر دیا ۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔چونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ بندہ اُس کی محبت میں موم بھی بنے اور پتھر بھی ،اِس وجہ سے حضرت ابراہیم نے اپنے دل کے یہ دونوں پہلو نمایاں کیے اور یہی صحیح نمونہ ہے دین کے خدمت گزاروں کے لیے۔ جب تک اُن کے سینے میں درد مند دل نہ ہو، خلق کی ہدایت کے لیے اُن کا اٹھنا بے سود اور جب تک عزم میں لوہے کی صلابت اور پہاڑ کی استقامت نہ ہو، دین کے لیے اُن کا وجود بالکل ناکارہ!‘‘(تدبرقرآن۳/ ۶۵۵)

۲۸۹؎ یہ مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ خدا نے تمھیں راہ ہدایت دکھانے کے بعد اُن خطرات سے بھی آگاہ کر دیا ہے جو اِس راہ کے مسافر کو پیش آ سکتے ہیں۔ رشتہ و قرابت کی بنا پر اُن لوگوں کے لیے دعائیں جن کے بارے میں خدا نے اعلان کر دیا ہو کہ وہ اُس کے دشمن ہیں، تمھارے ایمان کے لیے فتنہ بن سکتی تھیں۔ چنانچہ صاف صاف بتا دیا ہے کہ یہ تمھارے لیے زیبا نہیں ہے۔ آگے صفات الٰہی کے حوالے سے یاددہانی ہے۔ یہ اِسی تنبیہ کا جزو ہے۔ مطلب یہ ہے کہ غایت درجہ احتیاط کرو۔ تمھارا معاملہ اُس ہستی کے ساتھ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے، موت و حیات کا مالک ہے، ظاہر و باطن ، ہر چیز کا جاننے والا ہے، اُس سے متعلق کسی نفاق کا شائبہ بھی دل و دماغ میں رہنے دو گے تو اندیشہ ہے کہ کسی بڑے خطرے سے دوچار ہو جائو گے۔ پھر اُس کے سوا کوئی حامی اور مددگار نہ پا سکو گے۔

۲۹۰؎ آیت میں فعل ’تَابَ‘ کا صلہ ’عَلٰی‘ کے ساتھ آیا ہے اور اُس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ یہ اِس طرح آئے تو رحمت و عنایت کے مضمون پر متضمن ہوجاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اُس طرح کی کوئی غلطی صادر نہیں ہوئی تھی، جس طرح کی غلطیوں پر پیچھے لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے۔ آپ کا معاملہ صرف یہ تھا کہ اپنی کریم النفسی کے باعث آپ نے بعض موقعوں پر منافقین سے چشم پوشی فرمائی تھی، دراں حالیکہ اُس وقت یہ چشم پوشی تطہیر کی اُس مہم کے خلاف تھی جو عذاب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھی۔ اِس کا ذکر پیچھے ہو چکا ہے۔ اِسی طرح مہاجرین و انصار کا سواد اعظم اگرچہ ہر قسم کے شدائد و مصائب کے باوجود ثابت قدمی کے ساتھ راہ حق پر قائم رہا، مگر ایک چھوٹے سے گروہ سے تبوک کے موقع پر کچھ کمزوری صادر ہوئی۔ یہ اُسی کا حوالہ ہے کہ اُن میں سے بعض کے دل کجی کی طرف مائل ہو چلے تھے۔ تاہم یہ لوگ بھی جلد بیدار ہو گئے اور توبہ و استغفار سے اپنے دلوں کو راہ حق پر استوار کر لیا۔ اِس آیت نے سب کو بشارت دے دی کہ اللہ کی رحمت اُن کی طرف متوجہ ہے۔ وہ تبوک کے موقع پر اور اِس سے پہلے بھی تنگی کے ہر وقت میں پیغمبر کے ساتھ رہے ہیں۔ اللہ نے اِسی بنا پر اُن کی ہر کوتاہی معاف کر دی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ اِن الفاظ کا حوالہ ایک تو اِس حقیقت کو واضح کر رہا ہے کہ اصل ایمان اُن کا ایمان ہے جو مصائب و شدائد کی کسوٹیوں پر جانچے اور پرکھے جا چکے ہوں۔ دوسری بات اِس سے یہ نکلی کہ دراصل مہاجرین و انصار کے ایمان کی یہی خصوصیت ہے جو اُن کے لیے سفارش بنی کہ اللہ تعالیٰ اُن پر اپنی رحمت کی نظر اور اُن کی توبہ قبول فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے وفادار و جاںنثار بندوں کو توفیق خیر سے محروم نہیں فرماتا۔ جب اُن سے کوئی کمزوری صادر ہوجاتی ہے، اُن کے دل میں وہ توبہ کی بے قراری پیدا کرتا ہے، پھر وہ توبہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نظرانداز صرف اُن کو کرتا ہے جو صرف زبان سے عشق کا دعویٰ کرتے ہیں، اِس راہ میں چوٹ کھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۶۵۷)

۲۹۱؎ اِن کا ذکر پیچھے آیت ۱۰۶ میں ہو چکا ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں پورے پچاس دن زیر عتاب رہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر مسلمانوں کی پوری جماعت نے اِن کا مقاطعہ کر دیا۔ اللہ کے پیغمبر نے بھی رخ پھیر لیا۔ اعزہ و اقربا ، دوست احباب، یہاں تک کہ بیوی بچے بھی بالکل غیر بن کر رہ گئے**۔ اِسی کو بیان کیا ہے کہ زمین اپنی وسعت کے باوجوداُن پر تنگ ہو گئی۔ اِس کا اثر اِن کے باطن پر یہ پڑا کہ خدا و رسول کی ناراضی کے احساس نے اِنھیں خود اپنے وجود سے بے زار کر دیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ نہ باہر سکون کی کوئی جگہ نظر آتی تھی اور نہ اپنے دل کے اندر سکون و اطمینان کا کوئی گوشہ تلاش کر سکتے تھے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اِن کے دل پگھل اٹھے اور یہ توبہ و انابت کے اُس معیار تک پہنچ گئے جو اِس مرتبے کے لوگوں سے مطلوب تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔جتنی ہی شدت کے ساتھ اِن لوگوں پر عتاب ہوا، اتنی ہی بے قراری کے ساتھ اِن لوگوں نے اپنے آپ کو خدا کے آگے ڈال دیا کہ جب گرفت خدا کی طرف سے ہے تو اِس سے پناہ صرف وہی دے سکتا ہے۔ چنانچہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تین میں سے دو صاحبوں نے تو بالکل ہی خانہ نشینی اختیار کر لی، رات دن گریہ و زاری اور توبہ و استغفار کے سوا اِن کا کوئی کام ہی نہیں رہ گیا۔ تیسرے صاحب اگرچہ کسی کسی وقت باہر نکلتے، لیکن صرف اِس امید میں کہ شاید کسی گوشے سے خدا اور رسول کی رضا کی کوئی مہک آجائے***۔ اگر اِن کے اندر نفاق کا کوئی جرثومہ ہوتا تو جب یہ خدااور رسول کی طرف سے پھینکے گئے تھے، کسی اور کی پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے۔ لیکن یہ راسخ الایمان لوگ تھے، اِس وجہ سے ٹھیک اُس بچے کی طرح جو ماں کی جھڑکی سے سہم کر خود ماں ہی سے چمٹتا ہے، یہ خدا کے عذاب سے بچنے کے لیے خدا ہی کی طرف بھاگے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۶۵۹)

۲۹۲؎ اصل الفاظ ہیں:’ثُمَّ تَابَ عَلَیْھِمْ لِیَتُوْبُوْا‘۔’لِیَتُوْبُوْا‘ میں فعل کامل اور حقیقی معنی میں ہے۔ اپنے گناہ کا اعتراف تو یہ پہلے ہی کر چکے تھے، لیکن آزمایش کے اِن سخت مراحل سے گزرنے کے بعد اِن کے دل اچھی طرح گداز ہو گئے تو اللہ نے رحمت کی نظر فرمائی اور اِنھیں اُس توبہ کی توفیق بخشی جس نے دل و دماغ کو ہر آلودگی سے پاک کر دیا۔قرآن کے اِن الفاظ سے ایک اور حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ توبہ کی ابتدا اصلاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ وہی پہلے بندے کے دل میں رجوع الی اللہ کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ پھر جب بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوبارہ اُس پر رحمت کی نظر فرماتااور اُس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ اگر اُس کے اندر ایمان ہو تو ہر گناہ پر اُس کا دل کڑھتا اور آزردہ ہو تا ہے اور ایک احساس ندامت کے ساتھ اُس کے اندر اپنے رب کی طرف رجوع ہونے کا جذبہ ابھرتا ہے۔ اگر آدمی اپنے اِس جذبے کے مطابق عمل کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے دل اور زبان پر وہ الفاظ اور کلمات بھی جاری فرما دیتاہے جو اُس کو پسند ہیں اور جن کو وہ شرف قبولیت بخشتا ہے۔ اِس سے محروم صرف وہ بدقسمت لوگ رہتے ہیں جن کا ضمیر کند اور جن کا ایمان مردہ ہو جایا کرتا ہے۔ایسے لوگ خدا سے بے پروا ہو جایا کرتے ہیں جس کی سزا اُن کو یہ ملتی ہے کہ خدا بھی اُن سے بے پروا ہو جاتا ہے۔ آدم و ابلیس کی سرگذشت، جو سورۂ بقرہ میں بیان ہوئی ہے، وہ اِس کی نہایت حقیقت افروز مثال ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۶۶۰)

۲۹۳؎ اصل میں لفظ ’صٰدِقِیْنَ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ منافقین کا ضد ہے، یعنی وہ لوگ جن کے قول و فعل میں پوری مطابقت ہو۔ پیچھے جن کوتاہیوں پر گرفت ہوئی ہے، اُن سے بچنے کے لیے یہاں خدا سے ڈرنے اور سچے لوگوں کی معیت اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ پہلی چیز اندر سے انسان کی حفاظت کرتی ہے اور دوسری باہر سے اُس کو شیطان کے مقابل میں مددپہنچاتی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ اگر آدمی کا رہنا سہنا، اٹھنا بیٹھنا کافروں، منافقوں اور جاہلوں کے ساتھ ہو تو کمزور تو درکنار بسااوقات مضبوط آدمی بھی کچھ نہ کچھ اُن کا اثر قبول کر ہی لیتا ہے۔ اِسی طرح راسخ الایمان اور راسخ العمل لوگوں کے فیض صحبت سے کمزور آدمی کے اندر بھی اپنی کمزوریوں پر غالب آنے کا حوصلہ پیدا ہو جایا کرتا ہے اور وہ بالتدریج اُن کے زمرے کا آدمی بن جاتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۶۶۰)

۲۹۴؎ اصل میں لفظ ’مُحْسِنِیْنَ‘ آیا ہے۔ یہ اُس شرط کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو اللہ کے ہاں اعمال کی مقبولیت کے لیے ضروری ہے۔ یعنی جب کوئی عمل کیا جائے تو اُس کی روح اور قالب، دونوں پورے توازن کے ساتھ پیش نظر ہوں، اُس کا ہر جزو بہ تمام و کمال ملحوظ رہے اور اُس کے دوران میں آدمی اپنے آپ کو خدا کے حضور میں سمجھے۔ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کا معاملہ اپنی راہ میں دکھ اٹھانے اور مصیبتیں جھیلنے والوں سے یہ ہے تو اُن کے لیے بھی زیبا نہیں کہ وہ اپنے جان و مال کو پیغمبر کے مقابل میں ترجیح دیں۔

۲۹۵؎ یہ وہ اہتمام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کے لیے تجویز فرمایا ہے جو دور دراز کے علاقوں میں رہنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات بھی آپ سے براہ راست استفادہ نہیں کر سکتے تھے۔ بالبداہت واضح ہے کہ یہی اہتمام آپ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی ہونا چاہیے۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ سب مسلمانوں کے لیے تو یہ ممکن نہیں ہے، لیکن اُن کی ہر جماعت میں سے کچھ لوگوں کو لازماً اِس مقصد کے لیے نکلنا چاہیے کہ وہ دین کا علم حاصل کریں اور اپنی قوم کے لیے نذیر بن کر اُسے آخرت کے عذاب اور خدا کی گرفت سے بچانے کی کوشش کریں۔ یہ اگر غور کیجیے تو بعینہٖ وہی کام ہے جو اللہ کے نبی اور رسول اپنی قوم میں کرتے ہیں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعوت و انذار کا کام آپ کے بعد اِس امت کے علما کو منتقل ہوا ہے اور ختم نبوت کے بعد یہ ذمہ داری اب قیامت تک اُنھیں ہی ادا کرنی ہے۔

۲۹۶؎ آیت میں خطاب اگرچہ عام ہے، لیکن روے سخن اُنھی منافقین کی طرف ہے جو اپنی دوستیوں، رشتہ داریوں اور کاروباری تعلقات کے پیش نظر اُن لوگوں کے خلاف کسی اقدام کے لیے تیار نہیں تھے جن کے ساتھ اِس سورہ میں جنگ کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر شخص کو اُنھی سے لڑنا ہے جو اُس کے گردوپیش میں رہتے ہیں اور کسی نہ کسی لحاظ سے اُس کے اپنے ہیں۔ ایمان و اخلاص کا اصلی امتحان اِسی سے ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ گو سالہ پرستی کے جرم کی پاداش میں جب بنی اسرائیل کے قتل عام کا حکم دیا گیا تھا تو اُس میں بھی یہی تقاضا کیا گیا تھا۔ آیت میں ’یَلُوْنَکُمْ‘ کی قید اِسی پہلو کو نمایاں کررہی ہے۔

۲۹۷؎ یعنی محسوس کر لیں کہ تمھارے اندر اب اُن کے لیے دوستی، موالات اور محبت کی کوئی جگہ باقی نہیں رہ گئی ہے۔ جزا و سزا کے مرحلے میں یہی تقاضا ہے جس کے پیش نظر ترک موالات کا حکم دیا جاتا ہے۔ اِس کا اُن لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جو ابھی مرحلۂ دعوت کے مخاطبین ہوں۔

۲۹۸؎ یہ فتح و نصرت کی بشارت ہے اور ہمیشہ اِسی شرط کے ساتھ ہوتی ہے کہ لوگ تقویٰ پر قائم رہیں اور جنگ و جدال کے موقع پر بھی خدا کے مقرر کردہ حدود سے کوئی تجاوز نہ کریں۔

۲۹۹؎ یہ تعریض کا جملہ ہے۔ اِس سے اُن کا مقصود خدا کے احکام کی تحقیر اور اُن لوگوں کی حوصلہ شکنی تھا جو پورے اخلاص کے ساتھ اُن احکام کو سننے اور اُس پر عمل کے لیے آمادہ رہتے تھے۔

۳۰۰؎ اصل الفاظ ہیں:’فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘۔ اِن میں فعل اپنے کامل اور حقیقی معنی میں ہے۔ ہم نے ترجمہ اُسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

۳۰۱؎ یہ محض استعارہ نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ قرآن کا ہر حکم اہل ایمان کے لیے ایک میدان مسابقت کھولتا ہے اور جب وہ اِس میدان کی بازی جیت لیتے ہیں تو اُن کی قوت ایمانی میں مزید دوسرے میدان جیتنے کے لیے عزم و حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ درجہ بدرجہ وہ سعادت کی آخری منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔ برعکس اِس کے اہل نفاق ایک محرومی کے بعد دوسری محرومی اور ایک پسپائی کے بعد دوسری پسپائی کی ذلتیں سہتے سہتے عزم و ایمان کی آخری رمق سے بھی بالکل خالی ہو جاتے ہیں اور اُن کے دلوں پر نفاق پر نفاق کی اتنی موٹی تہیں جم جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل کے اندر جتنی صلاحیتیں ودیعت فرمائی ہیں، سب اُن کے نیچے دب دبا کر مردہ ہو جاتی ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۶۶۵)

۳۰۲؎ یہ معاملہ ابتلا کے اُسی قانون کا حصہ ہے جو رسولوں کے براہ راست مخاطبین سے متعلق قرآن میں بیان ہوا ہے۔ اِس طرح کی آزمایشیں عام لوگوں کی زندگی میں بھی اُن کی تذکیر و تنبیہ کے لیے وقتاً فوقتاً پیش آتی رہتی ہیں، تاہم ضروری نہیں ہے کہ وہ ہر شخص کو اور ہر سال پیش آئیں۔

۳۰۳؎ یعنی نہ عقل بیدار ہوتی ہے کہ تذکر حاصل کریں اور نہ دل پگھلتے ہیں کہ خدا کی طرف متوجہ ہو جائیں۔

۳۰۴؎ یعنی اپنے اُس قانون کے مطابق جو اُس نے لوگوں کی ہدایت و ضلالت کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔

۳۰۵؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اللہ تعالیٰ نے تمام خلق پر عموماً اور اہل عرب پر خصوصاً جو احسان عظیم فرمایا، یہ اُس کی طرف توجہ دلائی ہے۔ روے سخن اُنھی شامت زدہ لوگوں کی طرف ہے جو اِس نعمت عظمیٰ کی قدر کرنے کے بجاے اِسے اپنے لیے ایک مصیبت سمجھ رہے تھے۔

۳۰۶؎ یہ تمام صفات حرف عطف کے بغیر آئی ہیں۔ اِس سے مقصود یہ ہے کہ اِن میں کامل اتصال کا اظہار ہو۔ مطلب یہ ہے کہ جس ہستی کی ناقدری کر رہے ہو، اُس کا حال تو یہ ہے کہ جس طرح ایک باپ اپنی اولاد کو ہر تکلیف، ہر پریشانی ، ہر دکھ اور ہر کرب سے محفوظ رکھنے کے لیے بے تاب ہوتا ہے، وہ تمھارے لیے اُسی طرح بے تاب ہے، تمھیں دنیا کی ہر سعادت سے بہرہ مند دیکھنا چاہتا ہے اور ایمان پر قائم ہو جائو تو تمھارے لیے سراپا رأفت و رحمت ہے۔ اِن آخری دو صفات کے بارے میں استاذ امام امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:

’’۔۔۔ایک کے اندر دفع شر کا پہلو نمایاں ہے، دوسرے کے اندر عطاے خیر اور پائداری رحمت کا۔ یہ دونوں صفتیں اللہ تعالیٰ کی صفات حسنیٰ میں سے ہیں جو بعینہٖ یہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال ہوئی ہیں، جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ خلق کے ساتھ رأفت و رحمت کے معاملے میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم بالکل صفات الٰہی کے مظہر تھے۔ ‘‘(تدبرقرآن ۳/ ۶۶۷)

۳۰۷؎ یعنی تمھاری یہ بات اگر اِن کی سمجھ میں نہیں آ رہی کہ خدا کی راہ میں اوراُس کے حکم پر جس جہاد و قتال کے لیے تم اِنھیں بلا رہے ہو، اُس میں خود اِن کے لیے دنیا اور آخرت کی کیا کیا سعادتیں پوشیدہ ہیں تو پروانہ کرو اور اِنھیں صاف صاف بتا دو کہ یہ میری کوئی ضرورت نہیں ہے، میرے لیے میرا پروردگار ہی کافی ہے۔

کوالالمپور

۲۳/ جولائی۲۰۱۱ء

________

* المائدہ۵: ۱۱۸۔

** تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر۲/ ۵۱۹۔

*** تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر۲/ ۵۲۰۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B