HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

’’نسائیات‘‘

[ڈاکٹر محمد شکیل اوج کی کتاب ’’نسائیات‘‘ پر تبصرہ اور تعارف]

گئے وقتوں میں خواتین کے مسائل کو ’’احکام النساء‘‘ کا نام دیا جاتاتھا۔ محترم ڈاکٹر محمد شکیل اوج صاحب نے اس کے لیے نئی خوب صورت اصطلاح ’’نسائیات‘‘ متعارف کرائی ہے۔ نسائیات خواتین کے بارے میں چند فکری و نظری مضامین کا مجموعہ ہے جو سہ ماہی ’’تفسیر ‘‘ کراچی اور ماہنامہ ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر محمد شکیل اوج کا نام علوم تفسیر قرآن میں بہت بڑا نام ہے۔ وہ بات کی تہ میں اتر کر اسے سمجھنے اور اس کا حل تلاش کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی کتاب ’’نسائیات‘‘ میں انھوں نے خواتین کے عصری معاشرتی مسائل پر گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب قرآن حکیم سے براہ راست استدلال کرتے ہیں۔ موضوع کے بارے میں سب آیات مبارکہ کو یکجا کر کے ان کے مفہوم و معانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن کی داخلی شہادت پر انحصار کرنا ہی بہترین منہج ہے۔ جو نقطۂ نظر وہ پیش کرتے ہیں، اس کی تائید میں وہ مفسرین، محدثین، فقہا اور اہل لغت کی آرا کی تائید سے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نتیجۂ فکر میں وہ تنہا نہیں۔ موضوع کے بارے میں لمبی چوڑی تمہید اور فلسفیانہ موشگافیوں کے بجاے براہ راست قرآنی آیات کو پیش کر کے موضوع کو آسان اور قابل فہم بنا دیتے ہیں۔ ذہن میں کوئی الجھن نہیں رہتی اوریہی کلام الٰہی کی خوبی ہے۔ بعض موضوعات ان کی اولیات میں شمار ہوتے ہیں، کیونکہ میرے علم کی حد تک ان پر پہلے بحث نہیں کی گئی ہے۔

کتاب میں شامل کل مقالات کی تعداد بیس ہے۔ ان میں سے میں نے ’’حلالہ مروجہ اور قرآنی حلالہ‘‘، ’’حق حضانت‘‘ (guardianship)، ’’جہیز ایک معاشرتی بوجھ‘‘ اور’’ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات‘‘ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، کیونکہ ان موضوعات کو اصل مفہوم کے مطابق آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اورحضانت کے بارے میں عورت کے حق کو سب عدالتیں تسلیم کرتی ہیں اور اس کے مطابق فیصلے کرتی ہیں، اس لیے یہ موضوعات بحث کے محتاج نہیں رہے۔

سب سے پہلا مضمون ’’نکاح و طلاق میں زوجین کے حقوق کا تعین‘‘ ہے۔طلاق اور نکاح کے بارے میں قرآن حکیم کی سب آیات کو یکجا کر کے ان کا مفہوم بیان کیاگیا ہے۔ مختلف کتب حدیث، طحاوی کی ’’شرح معانی الآثار‘‘ اور عربی لغات کو اپنی رائے کی تائید میں پیش کیا گیا ہے۔ ’عُقْدَۃُ النِّکَاحِ‘ سے مراد مصنف کے نزدیک نکاح کی گرہ باندھنا نہیں، بلکہ کھولنا ہے، کیونکہ نکاح مرد و عورت کے باہمی ایجاب و قبول سے، اور دو طرفہ معاملہ ہے، جبکہ اس گرہ کو کھولنا یک طرفہ معاملہ ہے اور صرف مرد کے اختیار اور مرضی پر اس کا انحصار ہے۔ محترم مصنف نے ’اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ‘ (البقرہ ۲: ۲۳۷) میں لفظ ’عفو‘ پر بہت عمدہ لغوی بحث کی ہے اور اس کے معنی اپناحق چھوڑنا اور زیادہ دینا بیان کیے ہیں ۔ اور جو لوگ اس آیت سے شوہر کے بجاے ولی (سرپرست) لیتے ہیں، ان کی پرزور تردید کی ہے، کیونکہ اس طرح ولی کو مہر کے قبضہ و تصرف کا حق دار بھی مانا جائے گا، جبکہ مہر صرف عورت کا حق ہے ، اورایسا سمجھنا شریعت میں اضافہ کے مترادف ہے۔

محترم ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب کے صفحہ ۳۰ پر فرماتے ہیں:

’’واضح رہے کہ عقد نکاح عام معاہدوں کی طرح کوئی معاہدہ نہیں بلکہ یہ عام معاہدوں سے مختلف معاہدہ ہے جس میں مرد کی حیثیت شریک غالب کی اور عورت کی حیثیت شریک مغلوب کی ہوتی ہے اور اس کی سند ’وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ‘ (البقرۃ:۲۲۸) کے اندر موجود ہے۔‘‘

فاضل مصنف کی یہ رائے محل نظر ہے۔ یہ بات تو درست ہے کہ یہ عام معاہدوں سے مختلف ہے، کیونکہ گھریلو نظام کوئی کاروباری یا سرکاری نظام نہیں جن میں غالب و مغلوب اور حاکم و محکوم کا تصور ہوتا ہے اور ڈسپلن قائم کرنے کے لیے ایک داروغہ ڈنڈا لیے کھڑا رہتا ہے۔ قرآن حکیم گھر گرہستی میں محبت، رحمت اور سکون کی فضا قائم کرنا چاہتا ہے جو ’عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا وَتَشَاوُرٍ‘ (البقرہ۲: ۲۳۳)، یعنی دونوں کی باہمی رضامندی اور مشورے سے قائم ہوتی ہے، نہ کہ غالب و مغلوب کی حیثیت سے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لیے قرآن نے بیوی کے لیے ’زوج‘ اور ’صاحبہ‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن کا اطلاق غالب و مغلوب پر کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔

اب آتے ہیں فاضل مصنف کی سند کی طرف جس کا حوالہ انھوں نے متعدد مقامات پر دیا ہے: ’وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ‘ طلاق کے مضمون میں عورتوں کے حقوق کی طرف توجہ دلانا اس غرض سے ہے کہ چونکہ طلاق دینا مرد کا اختیار ہے، اس لیے عورتوں کے کوئی حقوق ہی نہیں، بلکہ جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں، اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں۔ یعنی بہ لحاظ حقوق و فرائض ان میں مکمل مساوات ہے۔ اس بات سے مرد کی مطلق فضیلت کا خود بخودابطال ہو جاتا ہے۔ آیت میں مرد اور عورت کی فضیلت کا موضوع مطلقاً زیربحث نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں پر ’دَرَجَہ‘ کے کیا معنی ہیں؟ امام طبری نے اپنی تفسیر (۲/ ۴۵۴) ’دَرَجَہ‘ کی تفسیر کرتے ہوئے جو بات کہی ہے، وہ قول فیصل کا درجہ رکھتی ہے۔ ’دَرَجَہ‘ کے بارے میں مجاہد، قتادہ، زید بن اسلم اور ابن زید کے اقوال نقل کرنے کے بعد وہ فرماتے ہیں:

’’تمام مذکورہ اقوال میں عکرمہ کی روایت سے نقل کردہ ابن عباس کا قول سب سے زیادہ مناسب اور بہتر ہے۔ وہ قول یہ ہے:
لا احب ان استنظف جمیع حق علیہا لان اللّٰہ تعالٰی ذکرہ یقول للرجال علیھن درجۃ.
’’میں نہیں چاہتا کہ عورت سے اپنا سارا حق لوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مردوں کو ان پر ایک درجہ ہے‘‘۔‘‘

اس سے مراد یہ ہے کہ مرد عورت پر اپنے حق کو یا اس کے کچھ حصے کو معاف کر دے، چشم پوشی سے کام لے اور اس کے تمام حقوق کو پورا کرے، کیونکہ اللہ نے ’وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ‘ کے فوراً بعد فرمایا: ’وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ‘۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مرد نہ تو تین طہر میں رجوع کرنے کے بعد اور نہ ہی دوسرے حقوق میں عورت کو تکلیف اور ضرر پہنچائے اور نہ ہی عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے رحم میں بچے کو چھپا کر اور نہ ہی دوسرے حقوق میں مرد کو تکلیف اور ضرر پہنچائے۔ اس کے بعد مردوں کو اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ اگر عورت سے کسی قسم کی کوتاہی ہو جائے تو وہ وسعت قلب سے کام لے اور یہی مطلب ہے ابن عباس کے مذکورہ قول کا۔

امام قرطبی نے اپنی تفسیر (۳/ ۱۲۵) میں کہا ہے کہ ابن عباس کا قول اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ عورت سے حسن سلوک کرنا چاہیے۔ نیز مال اور اخلاق میں وسعت قلبی سے کام لینا چاہیے۔ ’’البحر المحیط‘‘ (۲/ ۲۰۰) نے بھی یہی بات بیان کی ہے۔

ابن العربی نے ’’احکام القرآن‘‘ (۱/ ۱۸۸) میں ذرا کھول کر بیان کیا ہے کہ ’’’دَرَجَہ‘ کے بارے میں علما کی رائے میں اختلاف ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ اس سے مراد جہاد ہے۔ کسی نے کہا کہ اس سے مراد میراث ہے۔ کسی نے کہا کہ اس سے مراد ڈاڑھی ہے ... لیکن آیۂ مبارکہ میں مطلق درجہ کا کوئی ذکر نہیں جس کی وجہ سے ہم عورتوں پر مردوں کی فضیلتیں گنوانے بیٹھ جائیں۔‘‘

سید قطب اپنی تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ (۱/ ۲۴۶) میں فرماتے ہیں کہ میری رائے یہ ہے کہ یہ درجہ مقید ہے ۔ آیت کے سباق کی رو سے اس سے مراد عدت کے دوران رجوع کا حق ہے۔

ان جلیل القدر مفسرین کی رائے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ درجہ مقید ہے مطلق نہیں ۔ یہ درجہ ذمہ داری کا ہے، فضیلت کا نہیں۔ اس لیے یہ قرآن میں بیان کردہ انسانی مساوات کے اصول پر قطعی اثر انداز نہیں ہوتا۔ عورت اور مرد کے حقوق میں مساوات معاشرتی زندگی میں بہت بڑا انقلاب ہے۔

کم سنی کی شادی

دوسرا مقالہ کم سنی کی شادی کے بارے میں ہے۔ مصنف نے بڑے مدلل طریقے سے اپنا نقطۂ نظر بیان کیا ہے۔ نکاح دو ایسے شخصوں کے درمیان معاہدہ ہے جو عاقل و بالغ ہوں اور بہ رضا و رغبت ایک دوسرے کو قبول کریں۔ یہ معاہدہ دو غیر عاقل اور غیر بالغ افراد کے درمیان طے نہیں پا سکتا۔ فاضل مصنف نے قرآن حکیم کی آیات البقرہ ۲: ۳، ۴، ۱۹، ۲۲۲۔۲۲۳، ۲۲۸ سے ثابت کیا ہے کہ قرآن کی رو سے نکاح کا تعلق بلوغ سے ہے۔ ان آیات میں بلوغ کی جگہ لفظ ’نکاح‘ کا استعمال عقل کی پختگی اور لفظ ’نساء‘ (بالغ عورتیں) جبر و اکراہ کی ممانعت (نابالغ لڑکیوں سے نکاح جبر کے مترادف ہے) پر دلالت کرتا ہے۔ مطلقہ عورتوں کے لیے تین حیض کا انتظار، حائضہ سے مجامعت کی ممانعت اور عورت کو کھیتی سے تشبیہ یہ سب کم سنی کی شادی کے خلاف قرآنی شواہد ہیں۔

کم سنی کی شادی کے جواز میں آیت ۶۵:۴ پیش کی جاتی ہے اور ’لَمْ یَحِضْنَ‘ سے استدلال کیا جاتا ہے۔ فاضل مصنف نے واضح کیا ہے کہ اگر ’ماحضن‘ کہا جاتا تو معنی ہوتے: حیض ابھی آیا نہیں، جبکہ نفی جحد بلم سے مخالف کے دعویٰ کی نفی مقصود ہوتی ہے، یعنی حیض تو آیا ہوا ہے، مگر کسی عارضے کی وجہ سے نہیں آیا۔ رہا وہ اعتراض جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عائشہ سے کم سنی کی شادی پر کیا جا سکتا ہے، اس سلسلہ میں فاضل مصنف نے خصوصیت اور احکام کے نزول سے پہلے کے واقعہ کی جو توجیہ پیش کی ہے، اس میں وزن معلوم نہیں ہوتا۔ ہاں جن علما نے بخاری و مسلم کی روایت پر محاکمہ کیا ہے کہ حضرت عائشہ اس وقت بالغ تھیں۔ اس میں کافی وزن لگتا ہے۔ اس سلسلہ میں نیاز احمد کی ’’کشف الغمۃ عن عمر امّ الامۃ‘‘ اور حبیب الرحمن کاندھلوی کی ’’عمر عائشہ صدیقہ‘‘دو تحقیقی کتابیں ہیں جو پڑھنے کے لائق ہیں۔

پسند کی شادی

پسند کی شادی ایک اہم سماجی مسئلہ ہے۔ ہم آئے روز اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ لواحقین نے فریقین کو قتل کر دیا یا عدالت کے باہر ان پر قاتلانہ حملہ کر دیا اور عدالتیں اسلامی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا دفاع کرتی ہیں۔ فاضل مصنف نے پسندکی شادی کے حق میں قرآنی آیت (النساء ۴: ۳) اور (النساء ۴: ۱۹) سے استدلال کیا ہے۔ اسلام کی رو سے شادی کی غرض سے مرد عورت کو دیکھ سکتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ مرد کا دیکھنا یک طرفہ ہو، یہ د یکھنا دو طرفہ ہو گاکہ قرآن کہتا ہے کہ ’’تمھارے لیے جائز نہیں کہ عورتوں پر زبردستی قبضہ کر لو‘‘۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ شادی میں مرد کی پسند کے ساتھ ساتھ عورت کی پسند کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ قرآن نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے اس سے بڑا خوب صورت استدلال کیا ہے کہ لباس جسم کے مطابق ہونا چاہیے جو لباس بدن کے مطابق نہ ہو، اسے پہنا نہیں جاتا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک روایت بیان کی ہے جس کی مدد سے حضرت علی نے اس نکاح کو جائز قرار دیا جو لڑکی کی ماں نے لڑکی کی رضامندی کے ساتھ ولی کی اجازت کے بغیر پڑھوایا۔

تعدد ازدواج

تعدد ازدواج کو فاضل مصنف نے قرآنی آیات کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ قرآن نے تعدد ازدواج کی ضرورت کے تحت اجازت دی ہے۔ مثلاً بیوی دائم المریض ہو جس میں شفایابی کی امید نہ ہو یا بیوی بانجھ ہو۔ اس میں شرط یہ ہے کہ دونوں کے ساتھ عدل کیا جائے ۔ لیکن فاضل مصنف نے مرد کی جنسی قوت کو بہانہ بنا کر اسے دوسری شادی کے جواز کے لیے پیش کیا ہے جو بالکل بے وزن دلیل ہے۔ اول تو سائنسی طور پر یہ مفروضہ غلط ہے کہ مرد کی جنسی طاقت عورت سے زیادہ ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے عورت بچوں کی پیدایش اور پرورش کی وجہ سے تروتازگی کھو دے، مگر اس کا جنسی طاقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس دلیل کے پس پردہ مرد کو جنسی تسکین اور تفنن کا کھلا لائسنس دے دیا جاتا ہے جو قرآن کے منشا کے خلاف ہے۔ وہ ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری اور تیسری سے چوتھی بیوی تک محض شہوت پرستی اور تفنن طبع کی بنیاد پر منتقل ہوتا رہے گا۔تو نہیں تو اور سہی ۔ کیا اسے ہم شادی کہیں گے یا لذت پرستی، بچوں اور بیوی کی خاطر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا مومنوں کا شیوہ ہے، لذت پرستی کی خاطر جگہ جگہ منہ مارنا حیوانوں کی خصلت ہے۔ جنسی رغبت پر قابو پانے کے لیے روزے کا مشورہ تو شارع علیہ السلام نے دیا ہے۔

مسیار میرج

اس شادی میں مرد بیوی کی معاشی ذمہ داریوں سے دور رہتا ہے۔ اور یہ بات بوقت نکاح مرد کے ساتھ طے کر لی جاتی ہے۔ فاضل مصنف کی رائے میں اگر انعقاد نکاح کی شروط عقل، بلوغ اور باہمی رضامندی مسیار میں پائی جاتی ہوں تو یہ نکاح صحیح قرار پائے گا، کیونکہ عورت کو اختیار ہے کہ وہ ادائیگی سے پہلے حق مہر کو جزوی طو رپر یا کلیتاً معاف کرے۔ اگر کوئی عورت اپنی ملازمت اور مالی حیثیت کی وجہ سے شوہر کو نان و نفقہ سے آزاد کر دے تو اس سے نفس نکاح میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی۔ خاص صورت حال میں ایسے نکاح مفید ہیں اور زنا کو روکنے کا ذریعہ ہیں۔

مسیار کی دوسری صورت یہ ہے کہ ا یک مال دار شخص کسی غریب عورت سے نکاح کرتا ہے۔ مہر میں اسے گراں قدر رقم اور کچھ جائیداد بھی دیتا ہے، پھر کچھ عرصے بعد اسے طلاق دے دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مسیار میں طلاق بطور شرط نہیں ہوتی۔ فاضل مصنف کی رائے میں اگر مسیار میرج میں ثبوت نسب اور ایک دوسرے کی زوجیت میں مرنے کی صورت میں وراثت سے انکار نہ پایا جاتا ہو تو وہ واضح طو رپر جائز ہے۔

زوج اور سوت: دو متقابل اصطلاحیں

فاضل مصنف کو یہ باب تعدد ازدواج میں شامل کرنا چاہیے تھا اور زیادہ بہتر یہ تھا کہ وہ اس موضوع پر بات نہ کرتے۔ فاضل مصنف کاخیال کہ سوت اور سوتاپا کا تصور صرف اردوزبان میں پایا جاتا ہے اور اس کا مقصد تعدد ازدواج کے تصور کو ظالمانہ ثابت کرنا ہے، درست نہیں۔ عربی زبان میں بھی سوت کے لیے ’ضرۃ‘ کا لفظ ہے۔ ’’مقاییس اللغہ‘‘ میں ’تزوّج المرأۃ علی ضرّۃ ای نکحت الفلانۃ علی ضرّۃ ای امراۃ کانت قبلھا کانہا تضرّ الاخری کما تضرھا تلک‘، یعنی فلاں عورت نے پہلے سے موجود بیوی کے ہوتے ہوئے شادی کی، گویا وہ دونوں ایک دوسرے کو ضرر پہنچانے والی ہیں۔ لفظ ’ضریر‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کا اکثر استعمال غیرت کے معنوں میں ہوتا ہے۔ محاورے میں کہا جاتا ہے: ’ما اشد ضریرہ علیھا‘ (وہ اس پر کتنی زیادہ غیرت کھاتی ہے)۔ عربی محاورہ میں کہا جاتا ہے: ’بینھم داء الضرائر‘ (ان کے درمیان سوکنوں کا حسد ہے)۔

سوتاپا ایک فطری جذبہ ہے جس کا اظہار اردو کے علاوہ ہر زبان میں ہوتا ہے۔ جس عورت پر سوت کو لایا جائے، وہ بھی انسان ہوتی ہے۔ اس کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے۔ اس کے جذبات و احساسات ہوتے ہیں۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ آہ بھی نہ کرے، اپنے لبوں کو سی لے اور اپنے لہو کے گھونٹ پیتی رہے؟ خاص طو رپر اگر مرد بغیر کسی معقول وجہ کے صرف شہوت پرستی کے لیے شادی کرے تو یہ فطری جذبہ شدید تر ہو جاتا ہے۔ اس جذبہ کو صرف شوہر کا پیار کنٹرول کر سکتا ہے ۔ اس کے لیے اسے پہلے سے بڑھ کر اپنی بیوی کی طرف توجہ دینی ہو گی۔ محترم ڈاکٹر صاحب تعدد ازدواج کے داعی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مرد جو چاہے کرے عورت دم نہ مارے ۔ دوسری بات کہ زوج اور سوت دو متقابل اصطلاحیں ہیں، درست نہیں۔ بیوی کو شوہر کی نسبت سے زوج کہا گیا ہے نہ کہ دوسری بیوی کی نسبت سے۔ دوسری پہلی بیوی کی سوت ہے نہ کہ زوج۔ میرا اپناخیال ہے کہ شوہر پہلی بیوی کو قرآنی اصطلاح میں اگر زوج سمجھتا ہو تو بغیر وجہ کے دوسری بیوی کی طرف رخ بھی نہ کرے۔

ڈاکٹر صاحب نے قرآن کی جس آیت سے استدلال کیا ہے، وہ تو ڈاکٹر صاحب کے تصور کی نفی کرتی ہے۔ آیت یوں ہے: ’اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ‘، ’’اگر تم ایک زوج کو چھوڑ کر دوسری زوج کرو‘‘ (النساء ۴: ۲) آیت میں مخاطب شوہر ہیں اور ان کی نسبت سے دوسری بیوی کو زوج کہا گیا۔ آیت یہ بتاتی ہے کہ دوسری بیوی سے بلاوجہ شادی کے لیے نارمل حالات میں پہلی کو چھوڑنا پڑے گا۔ یہاں پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری بیوی کا ذکر نہیں ہے۔ اسی سوتاپے پر قابو پانے کے لیے قرآن نے عدل کی شرط رکھی ہے اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ’وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْا اَنْ تَعْدِلُوْا‘، ’’اور تم ہرگز عدل نہ کر سکو گے‘‘ (النساء ۴: ۱۲۹)۔ تعدد ازدواج کے داعی یہ کہتے ہیں کہ دل کے معاملات میں عدل نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ ہر آدمی کے بس میں نہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا سوتاپا عورت کے بس میں ہوتا ہے؟

امہات المومنین کے درمیان بھی سوتاپے کا جذبہ موجود تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُم سلمہ کا ہاتھ مانگنے گئے تو انھوں نے دو عذر پیش کیے: ایک تو میرے بچے چھوٹے ہیں۔ دوسرے میں غیرت بہت کھاتی ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو یہودیہ کی بیٹی کیوں کہتی تھیں؟

محصنین اہل کتاب سے مسلم عورتوں کا نکاح

یہ ایک حساس موضوع ہے۔ فضیلۃ الشیخ حسن ترابی نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے نقطۂ نظر کو ٹھوس دلائل سے ثابت کیا ہے، جو مسلمان یورپ یا امریکہ میں بس گئے ہیں، یہ ان کا بڑا مسئلہ ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی روایات تو اس کی اجازت نہیں دیتیں، لیکن فاضل مصنف نے قرآن سے استشہاد کیا ہے۔ ان کی سوچ میں خاصا وزن محسوس ہوتا ہے۔ اپنے نقطۂ نظر کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے قرآن میں موجود چار قرینوں سے دلیل پکڑی ہے:

پہلا قرینہ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۲۱ ہے جس میں مسلم مرد کا مشرک عورت سے اور مسلم عورت کا مشرک مرد سے نکاح ممنوع ہے، جبکہ اللہ نے اہل کتاب کی عورتوں سے مسلمان مردوں کا نکاح جائز قرار دیا تو مسلمان عورتوں کا نکاح اہل کتاب کے مردوں سے ناجائز قرار نہیں دیا ۔اگر مسلمان عورت کا نکاح اہل کتاب سے ناجائز ہوتا تو اس مقام پر اس کی وضاحت کردی جاتی۔

دوسرا قرینہ طعام و نکاح کی حلت سے قبل قرآن حکیم نے ایک اصول بیان کر دیا ہے، یعنی ’اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتِ‘، ’’آج کے دن ہر قسم کے طیبات کو تمھارے لیے حلال کیا جاتا ہے‘‘ (المائدہ ۵: ۵) ۔ اس اصولی موقف کے بعد اہل کتاب کے طعام و نکاح کو حلال کیا گیا ہے۔ طعام کی حلت دو طرفہ اور نکاح کی حلت یک طرفہ ہے، مگر یک طرفہ نوعیت کی حلت بھی دو طرفہ ہے۔ اہل کتاب کی محصنات اپنے حصن کی وجہ سے طیبات میں شمار ہوتی ہیں۔ اگر یہی خصوصیت اہل کتاب کے محصنین میں پائی جائے تو انھیں طیبین کے زمرے سے کیسے نکالا جا سکتا ہے؟

طیبات کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے فاضل مصنف نے سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۲۶ کا حوالہ دیا ہے کہ ناپارسا عورتیں ناپارساؤں کے لیے ہیں اور ناپارسا مرد ناپارسا عورتوں کے لیے ہیں۔

تیسراقرینہ یہ ہے کہ ’وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ‘ سے پہلے ’وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ‘ آیا ہے۔ آیت میں مومنات کے نکاح کا بیان ہے، مومنین سے نکاح کا بیان نہیں۔مگر یہ صورت دو طرفہ نکاح کی متقاضی ہے، بالکل اسی طرح صرف اہل کتاب کی محصنات کابیان ہے اور یہ صورت بھی دو طرفہ نکاح کی متقاضی ہے۔

چوتھا قرینہ یہ ہے کہ قرآن حکیم میں کہیں بھی غیر شادی شدہ مسلمان عورتوں کو مردوں سے نکاح کا حکم نہیں دیا گیا۔ جب ان کو ہم مذہب مردوں سے نکاح کا حکم نہیں دیا تو انھیں اہل کتاب مردوں سے نکاح کرنے کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے؟

بچہ کا باپ سے اثر پذیر ہونے کا جواب فاضل مصنف نے یہ دیا ہے کہ اہل کتاب باپ بچے کے لیے اپنے اثر و نفوذ میں مسلمان ماں سے بڑھ کر کردار ادا نہیں کر سکتا، کیونکہ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ اس طرح فاضل مصنف نے پہلے باب کے صفحہ ۳۰ پر اپنے بیان کی نفی کر دی ہے کہ عقد نکاح کے معاہدے میں مرد کی حیثیت غالب کی اور عورت کی حیثیت مغلوب کی ہوتی ہے۔

تفویض طلاق

میری رائے میں مصنف نے خواہ مخواہ اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے ’’اور اسے خدا کی شریعت میں تبدیلی کا جرم قرار دیا ہے‘‘ ۔ حق تفویض ایک مسلمہ امر ہے ۔ عصر حاضر میں بھی گورنمنٹ کے مالی اداروں اور بینکوں میں اس حق کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ قانونی معاملات میں power of attorny کوتسلیم کیا جاتاہے۔ اگر مالک اپنا اختیار کسی دوسرے کے سپرد کرتا ہے تو اسے جائز سمجھا جاتاہے۔ اس بنا پر فقہ کی تمام کتابوں میں تفویض طلاق کے عنوان سے یہ حق بیویوں کے بارے میں تسلیم کیاگیا ہے اور موجودہ نکاح کے فارم میں اس کا باقاعدہ اندراج ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر شوہر اپنا حق بیوی کو دے دیتا ہے تو میں اور آپ روکنے والے کون ہوتے ہیں؟

سورۂ احزاب (۳۳) کی آیت ۲۸ میں بیویوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ شوہر کے ساتھ رہنے یا اس سے جدا ہونے کے درمیان کسی ایک چیز کا خود فیصلہ کر لیں۔ مولانا مودودی نے بجا کہا ہے کہ اسلامی فقہ میں تخییر دراصل تفویض کی حیثیت رکھتی ہے۔ فاضل مصنف نے اس آیت کی جو تاویل کی ہے، وہ بے وزن ہے۔ فاضل مصنف یہ چاہتے ہیں کہ مرد جو چاہے کرتا رہے اور بے چاری عورت صبر سے اس کے غلبے کو تسلیم کر لے۔

لونڈیوں سے تمتع یا نکاح

یہ مقالہ محترم ڈاکٹر صاحب نے انتہائی خوب صورت اور مدلل الفاظ میں لکھا ہے۔ اور میں زیرنظر کتاب میں اسے ان کا شاہ کار تصور کرتا ہوں۔ سب سے پہلے قرآن کے ان مقامات کا تعین کیا گیا ہے جن میں ’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘ کی ترکیب وارد ہوئی۔پھر بتایاگیا ہے کہ جنگی قیدیوں کو غلام، جانور اور لونڈی بنانا قرآن حکیم کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن حکیم میں سورۂ محمد (۴۷) کی آیت ۴ میں ارشاد ہے : ’فَاِمَّا مَنَّا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآءً‘ (پھر انھیں احسان کر کے چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دو)۔صرف یہ دو آپشن ہیں، کوئی تیسرا آپشن نہیں۔ تو پھر جنگ میں ہاتھ لگی قیدی عورتیں اس حکم سے کیسے مستثنیٰ ہو سکتی ہیں؟

دوسری دلیل یہ ہے کہ ’اَوْ مَا مَلَکَتْ‘ میں ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور ترجمہ کرنے والے اس کا ترجمہ مضارع میں کرتے ہیں تاکہ لونڈیوں کا سلسلہ جاری رہے۔ فاضل مصنف نے آٹھ آیات سے استدلال کیا ہے کہ لونڈیوں سے نکاح کرنا چاہیے، نہ کہ تمتع۔ ان آیات کی تشریح میں فاضل مصنف نے تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔

ملک یمین‘ سے مرادوہ عورتیں ہیں جنھیں قبل از اسلام غلامی وراثت میں ملی تھی،اسی لیے قرآن نے ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ قرآن نے ’مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ‘ کے اسلوب سے موروثی غلاموں کو ختم کیا ہے، نہ کہ اسے جاری رکھنے کا اعلان کیاہے ۔ فاضل مصنف نے بالکل درست کہا ہے کہ زن و شو کا تعلق ملکیت کی بنیاد پر درست نہیں ۔ پھر یہ مسئلہ باندی کے لیے کیسے خاص ہوگیا۔ اس اصول کے تحت مالکہ کا اپنے غلام سے ہم بستر ہونا ناجائز کیوں؟ مباشرت کی علت محض ملکیت نہیں ہو سکتی، کیونکہ مالکہ کے لیے یہ حق تسلیم نہیں کیا گیا۔

فاضل مصنف نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ آپ نے ماریہ قبطیہ سے تمتع کیا۔ ماریہ اسلام قبول کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں ۔جب آپ نے ریحانہ، بریرہ اور صفیہ کو آزاد کر کے نکاح کیا تو آپ ماریہ سے تمتع کیسے کرتے؟ یہ آپ کی ذات بابرکات پر ایک اتہام ہے۔ فاضل مصنف نے دوسری دلیل کے تحت قرآن کی سورۂ نساء (۴) کی آیت ۲۴ کی بڑی خوب صورت تفسیر کی ہے: ’وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘ (اور شادی شدہ عورتیں تم پر حرام ہیں، سوائے اس صورت کے کہ وہ تمھاری ملک میں آ جائیں)۔ یہاں ’ملک یمین‘ سے مراد ملک نکاح ہے، نہ کہ وہ عورتیں جو جنگ میں قید ہو کر ’ملک یمین‘ ہو جائیں، یعنی پہلے خاوند سے جدائی کے بعد دل کی رضامندی سے اور گواہوں کی موجودگی میں نکاح کر کے وہ تمھارے قبضے میں آجائیں۔ اس سلسلہ میں مصنف نے ملک کے بارے میں اردو کے غلط ترجموں کی نشاندہی کی ہے اور مولانا آزاد کے ترجمہ کو سراہا ہے۔

نصاب میں شہادت اور عورتوں کی گواہی

فاضل مصنف کا قول ہے کہ پورے قرآن میں صرف سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۸۲میں دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کے برابر مانا گیا ہے۔ باقی مقامات میں اس طرح کی کسی قید اور شرط کے بغیر گواہوں کاتذکرہ ملتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر تسلیم کرنے والے چار عورتوں کی گواہی کو دو مردوں کے برابر تسلیم نہیں کرتے۔ فاضل مصنف نے مولانا وحید الدین خان کے حوالے سے جس تحقیق کا ذکر کیا ہے کہ مردوں کے اندر ریاضیات کی معلومات کو یادرکھنے کی زیادہ صلاحیت ہے۔ یہ علمی طو رپر درست نہیں۔ اللہ نے جب انسانی ڈھانچہ بنایا تو مرد کی طرح عورت کے ڈھانچے میں بھی اپنی روح پھونکی۔ دونوں کی فطری صلاحیتیں برابر ہیں۔ یہ فرق مردانگی پرستوں کے ذہن کی ایجاد ہے یا ماحول کے اثرات کا نتیجہ۔ میری دو پوتیوں نے پاکستان اور لندن کے اداروں سے اکاؤنٹینسی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اور اب وہ لاہور کے معروف ادارے میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اس ادارے میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے بڑھ کر ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جس معاشرے میں قرآن کا نزول ہوا، اس میں خواتین کے لیے تجارتی اور لین دین کے معاملات میں ماحول سازگار نہ تھا۔ تجربے کی اس کمی کی بنیاد پر دو عورتوں کی گواہی کو ضروری سمجھا گیا۔پھر جہاں تک شہادت کا معاملہ ہے تو پاکستان میں اس دور میں بھی ایک عورت کا کورٹ کچہری میں جا کر گواہی دینا مشکل کام ہے، اس لیے اس کے ساتھ دوسری عورت کو ضروری سمجھا گیا۔ گواہی تو ایک عورت دے گی، دوسری عورت صرف گھبراہٹ اور بھول چوک کی صورت میں اس کی مدد کرے گی۔

باقی مقامات پر شہادت کے لیے چونکہ مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اس لیے اسلوب تغلیب کو نظرانداز کر کے سمجھ لیا گیا ہے کہ اس میں خواتین شامل نہیں ہیں، حالاں کہ قرآن حکیم میں جہاں بھی شہادت اور گواہیوں کا ذکر ملتا ہے، وہ بغیر کسی صنفی اختلاف کے مرد اور عورت ہر دو کے بیان پر مشتمل ہے۔ یہ بات محترم ڈاکٹر صاحب نے بالکل درست کہی ہے۔

کھلے چہرے کے ساتھ عورتوں کا گھر سے باہر کا پردہ

فاضل مصنف نے سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۳۰ اور ۳۱ سے استدلال کیا ہے: ’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ‘ (مومن مردوں سے کہہ دیں کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کرو)۔ یہ حکم اس وقت تک قابل فہم ہو سکتا ہے جب عورتوں کے چہرے کھلے ہوں۔ اور دوسرے ’وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّ‘ (اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں میں ڈال لیں)۔ یہاں ’علی وجوھھن‘ اپنے چہروں پر ڈال لیں نہیں کہا گیا۔ اس کے علاوہ فاضل مصنف نے چہروں کے ذریعے سے تعارف ہونے کے قرآنی دلائل پیش کیے ہیں۔ اس کے لیے البقرہ (۲) کی آیت ۲۷۳، المطففین (۸۳) کی آیت ۲۴، الحج (۲۲) کی آیت ۷۲، الفتح (۴۸) کی آیت ۲۹ اور الرحمن (۵۵) کی آیت ۴۱ سے استدلال کیا ہے ۔ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ چہرہ انسان کی شناخت اور معرفت کا ذریعہ ہے۔

اس کے علاوہ فاضل مصنف نے حضرت سارہ، حضرت موسیٰ کی بہن اور شیخ مدین کی دو لڑکیوں اور حضرت مریم کا حوالہ دے کر ثابت کیا ہے کہ پچھلی شریعتوں اور قوموں میں بھی چہرہ کھلا رکھا جاتا تھا۔ مقالہ کے آخر میں فاضل مصنف نے کہا ہے کہ گھروں میں رہنے اور باہر نہ نکلنے کے حکم کا تعلق دراصل ان کے اعمال اور کردار سے جڑا ہوا ہے، کیونکہ قرآن نے فاحشہ عورتوں کوگھروں میں مقید رکھنے کا حکم دیا ہے (النساء ۴: ۱۵)۔

نیل پالش کے ساتھ وضو

میرے خیال میں یہ کوئی اتنا اہم مسئلہ نہیں جس کے بارے میں علمی بحث کی جائے۔ یہ اسی نوعیت کا مسئلہ ہے، جیسے لاؤڈ سپیکر ۔ ہمارے مذہبی رہنما پہلے اس کے حرام ہونے کا مشورہ دیتے تھے، اب اس کی جان نہیں چھوڑتے۔

فاضل مصنف نے پہلے تو احادیث سے استدلال کر کے بناوٹی ناک اور سونے کے دانت یا دانت باندھنے والی سونے کی تار پر قیاس کر کے اس کے جواز کو ثابت کیا ہے اور اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان پیش کیا ہے کہ عورتوں کو اپنے ناخن رنگنے چاہییں۔ اس زمانہ میں ناخنوں کو مہندی سے رنگا جاتا تھا، آج کل نیل پالش سے رنگا جاتا ہے۔ یہ حدیث سنن ابی داؤد میں مروی ہے۔

اس کے علاوہ فاضل مصنف نے قرآن کا اصول رفع حرج پیش کیا ہے کہ کیا خاتون بالخصوص دلہن محض نیل پالش کے عذر کی وجہ سے نماز سے محروم سمجھی جائے گی؟ روٹی پکانے والی کے ناخنوں میں آٹا، کاتبوں کے ناخنوں پر سیاہی، رنگریز کے ناخنوں پر رنگ اور اس طرح اگر دوسرے کام کرنے والے کے ناخن پر اگر کوئی جسم دار چیز ہو اور اس کے چھڑانے میں دقّت ہو تو نہ چھڑانے سے بھی وضو ہو جائے گا اور غسل بھی۔

اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ہونا چاہیے تاکہ دیار غیر میں بسنے والے مسلمان اس سے استفادہ کر سکیں۔

____________

B