HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الانعام ۶: ۷- ۳۲ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَلَوْنَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْہُ بِاَیْدِیْھِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ{۷} وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ وَلَوْاَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ{۸} وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا وَّلَلَبَسْنَا عَلَیْھِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ{۹} وَلَقَدِ اسْتُہْزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْھُمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ{۱۰} قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ{۱۱} 
قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ قُلْ لِّلّٰہِ کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فَھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ{۱۲} وَلَہٗ مَا سَکَنَ فِی الَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ{۱۳} 
قُلْ اَغَیْرَ اللّٰہِ اَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَھُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ{۱۴} قُلْ اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ{۱۵} مَنْ یُّصْرَفْ عَنْہُ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَہٗ وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ{۱۶}  
وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ وَاِنْ یَّمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ{۱۷} وَھُوَالْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ وَھُوَالْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ{۱۸} قُلْ اَیُّ شَیْئٍ اَکْبَرُ شَھَادَۃً قُلِ اللّٰہُ شَھِیْدٌ بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ اَئِنَّکُمْ لَتَشْھَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اٰلِھَۃً اُخْرٰی قُلْ لَّآ اَشْھَدُ قُلْ اِنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ{۱۹} 
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَ ھُمْ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فَھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ{۲۰} وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ{۲۱} وَیَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَیْنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ{۲۲} ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُھُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ{۲۳} اُنْظُرْ کَیْفَ کَذَبُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ{۲۴} 
وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَھُوْہُ وَفِیْٓ اٰذَانِھِمْ وَقْرًا وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِھَا حَتّٰٓی اِذَا جَآئُ وْکَ یُجَادِلُوْنَکَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ{۲۵} وَھُمْ یَنْھَوْنَ عَنْہُ وَیَنْئَوْنَ عَنْہُ وَاِنْ یُّھْلِکُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ{۲۶} وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ{۲۷} بَلْ بَدَالَھُمْ مَّا کَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُھُوْا عَنْہُ وَاِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ{۲۸} 
وَقَالُوْٓا اِنْ ھِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ{۲۹} وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلٰی رَبِّھِمْ قَالَ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ قَالُوْا بَلٰی وَرَبِّنَا قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ{۳۰} قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآئِ اللّٰہِ حَتّٰٓی اِذَا جَآئَ تْھُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطْنَا فِیْھَا وَھُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَھُمْ عَلٰی ظُھُوْرِھِمْ اَلَا سَآئَ مَا یَزِرُوْنَ{۳۱} وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ{۳۲} 
تم پر ۸؎ (اے پیغمبر)، اگر ہم کوئی ایسی کتاب اتار دیتے جو کاغذ پر لکھی ہوئی ہوتی اور یہ اُس کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر دیکھ بھی لیتے، تب بھی یہ منکرین یہی کہتے کہ یہ کھلے ہوئے جادو کے سوا کچھ نہیں ہے ۹؎ ۔ کہتے ہیں کہ اِس نبی پر (علانیہ) کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ (یہ احمق نہیں سمجھتے کہ) اگر ہم نے کوئی فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک فیصلہ ہو جاتا، پھر اِن کو کوئی مہلت نہ ملتی۔۱۰؎ اور (نہیں سمجھتے کہ) اگر ہم کوئی فرشتہ بنا کر بھیجتے تو اُسے بھی انسان کی صورت ہی میں بھیجتے۔ ۱۱؎  اور (اِس طرح) اِن کو اُسی شبے میں ڈال دیتے جس میں یہ اب پڑے ہوئے ہیں۔۱۲؎ حقیقت یہ ہے کہ تم سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو اُن کے مخاطبین میں سے مذاق اڑانے والوں کو اُسی چیز نے آ گھیرا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ اِن سے کہو، ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا ہے۔ ۱۳؎  ۷-۱۱
اِن سے پوچھو، زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، وہ کس کا ہے؟ کہہ دو، اللہ ہی کا ہے۔۱۴؎  اُس نے اپنے اوپر رحمت لازم کر رکھی ہے۔۱۵؎  وہ تم سب کو جمع کر کے ضرور روز قیامت کی طرف لے جائے گا جس میں کوئی شبہ نہیں۔۱۶؎  اِس کو وہی لوگ نہیں مانتے جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کر لیا ہے۱۷؎  ۔(حقیقت یہ ہے کہ) جو کچھ رات میں ٹھیر جاتا اور دن میں (متحرک ہوتا ہے)،۱۸؎   وہ اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے اور وہ سمیع و علیم ہے۔۱۹؎  ۱۲-۱۳
کہہ دو، اللہ کے سوا کیا میں کسی اور کو اپنا کارساز بنا لوںجو زمین و آسمان کا خالق ہے اور کھاتا نہیں کھلاتا ہے۲۰؎ ؟ کہہ دو، مجھے تو حکم ملا ہے کہ سب سے پہلے میں اُس کے سامنے سراطاعت جھکا دوں اور (تاکید کی گئی ہے کہ) تم ہرگز مشرکوں میں شامل نہ ہو۲۱؎  ۔ کہہ دو کہ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک ہولناک دن کے عذاب سے دوچار ہو جائوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو اُس دن عذاب سے دور رکھا گیا، وہی ہے جس پر خدا نے رحم فرمایا اور یہی کھلی کامیابی ہے۔۲۲؎  ۱۴-۱۶
(یقین رکھو کہ) اگر اللہ تمھیں کسی رنج میں مبتلا کر دے تو اُس کے سوا کوئی نہیں جو اُسے دور کر سکے اور اگر بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے۔۲۳؎  اپنے بندوں پر وہ ہر لحاظ سے حاوی ہے اور حکیم و خبیر ہے۔۲۴؎  اِن سے پوچھو، کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟ کہہ دو، اللہ، وہ میرے اور تمھارے درمیان گواہ ہے اور میری طرف یہ قرآن اِس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اِس کے ذریعے سے تمھیں خبردار کردوں اور اُنھیں بھی جنھیں یہ پہنچے۔۲۵؎  کیا تم اِس بات کے گواہ بنتے ہو کہ خدا کے سوا کچھ دوسرے معبود بھی ہیں؟ کہہ دو، میں اِس کی گواہی نہیں دے سکتا۔ کہہ دو وہ ایک ہی معبود ہے اور میں اُن سے بری ہوں جنھیں تم شریک ٹھیراتے ہو۔ ۱۷-۱۹
جنھیں ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے، وہ اِس (قرآن) کو پہچانتے ہیں، جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ جن لوگوں نے، البتہ اپنے آپ کو خسارے میں ڈال رکھا ہے، وہ اِسے نہیں مانتے۲۶؎ (اور شرک پر اصرار کرتے ہیں، دراں حالیکہ) اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اُس کی آیتوں کو جھٹلا دے؟ یقینا ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ (اِس لیے) اُس دن کو یاد رکھو جس دن ہم اِن سب کو اکٹھا کریں گے،۲۷؎  اِس کے بعد اِن مشرکوں سے پوچھیں گے کہ تمھارے ٹھیرائے ہوئے شریک کہاں ہیںجنھیں تم (خدا کا ساجھی)گمان کرتے تھے؟ پھر اِن کا فریب ختم ہو جائے گا، مگر کہیں گے:۲۸؎ اللہ،ہمارے پروردگار کی قسم ، ہم مشرک نہیں تھے۔۲۹؎ دیکھو، اِن (ظالموں) نے کس طرح خود اپنے اوپر جھوٹ بولا ہے اور جو افترا یہ کرتے رہے، وہ سارا ہوا ہو گیا ہے۔۳۰؎  ۲۰-۲۴
اِن میں ایسے بھی ہیں جو کان لگا کر تمھیں سنتے ہیں، مگر اِن کے دلوں پر ہم نے(اپنے قانون کے مطابق)۳۱؎  پردے ڈال دیے ہیں کہ (جو کچھ سنتے ہیں)، اُسے نہ سمجھیں اور اِن کے کانوں کو بہرا کر دیا ہے (کہ سن کر بھی نہ سنیں)۔یہ اگر ہر قسم کی نشانیاں دیکھ لیں، پھر بھی ایمان نہ لائیں گے۔۳۲؎  یہاں تک کہ تمھارے پاس حجت کرتے ہوئے آئیں گے تو یہ منکرین کہیں گے کہ یہ تو محض اگلوں کے افسانے ہیں۔۳۳؎  یہ اِس سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی گریز کر جاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اپنی ہی تباہی کا سامان کر رہے ہیں، مگر اِس کا احساس نہیں کرتے۔اگر تم اُس وقت کو دیکھ سکتے، جب یہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے، پھر کہیں گے: کاش، ہم واپس بھیج دیے جائیں کہ تصدیق کریں اور اپنے پروردگار کی آیتوں کو نہ جھٹلائیں۳۴؎  اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں۔(ہر گز نہیں)، بلکہ وہ حقیقت اِن کے لیے بے نقاب ہوگئی ہے جو اِس سے پہلے چھپائے ہوئے تھے۔اگر اِنھیں لوٹایا جائے تو وہی کریں گے جس سے روکے گئے تھے۔۳۵؎  یہ بالکل جھوٹے ہیں۔۲۵-۲۸ 
کہتے ہیں۳۶؎  کہ زندگی تو یہی دنیا کی زندگی ہے اور مرنے کے بعد ہم ہرگز نہ اٹھائے جائیں گے۔ اگر تم اُس وقت کو دیکھ سکتے، جب یہ اپنے پروردگار کے حضور میں کھڑے کیے جائیں گے۔ وہ اِن سے پوچھے گا: کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ جواب دیں گے: ہاں، ہمارے پروردگار کی قسم، یہ حقیقت ہے۔ وہ فرمائے گا: تو اپنے انکار کی پاداش میں اب چکھو عذاب کا مزہ۔ یقینا گھاٹے میں رہے وہ لوگ جنھوں نے اللہ سے (اِس) ملاقات کو جھٹلایا۔ یہاں تک کہ جب وہ گھڑی آ پہنچے گی تو کہیں گے: افسوس، ہماری اِس کوتاہی پر جواِس معاملے میں ہم سے ہوئی ہے اور حال یہ ہو گا کہ اپنے بوجھ وہ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل تماشا ہے۔ آخرت کا گھر، البتہ کہیں بہتر ہے اُن کے لیے جو تقویٰ اختیار کریں۔ کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟ ۲۹-۳۲

۸؎ یہاں سے آگے اُن اعتراضات اور مطالبات کا جواب دیا ہے جو منکرین اپنے اعراض کے لیے بہانے کے طور پر پیش کر رہے تھے۔

۹؎ یعنی اعراض کا سبب چونکہ وہ نہیں جو بیان کر رہے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ اپنی خواہشوں کے خلاف کوئی بات ماننا نہیں چاہتے، اِس لیے اِن کا یہ مطالبہ پورا بھی کر دیا جائے تو اِسی طرح کی باتیں کریں گے۔ یاد رہے کہ یہ اُسی مطالبے کاجواب ہے جو اہل کتاب کی زبان سے سورۂ نساء (۴) کی آیت ۱۵۴ میں نقل ہو چکا ہے۔

۱۰؎ یہ اِس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا علم و عقل اور ارادہ و اختیار کے امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ جب پردے اٹھا دیے جائیں گے اور لوگ حقائق کو بچشم سر دیکھ لیں گے تو کسی کا ایمان اُس کے لیے نافع نہ ہو گا۔ ایمان وہی معتبر ہے جو غیب میں رہتے ہوئے اور عقل و فطرت کے اُن دلائل کی بنیاد پر لایا جائے جس کی دعوت انبیا علیہم السلام نے دی ہے۔

۱۱؎ اِس لیے کہ انسان اُسے انسانوں کی شکل ہی میں دیکھ سکتے اور اُس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔

۱۲؎ شبے میں ڈالنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی ہے۔ یہ اُس ضابطے اور قانون کی نسبت ہے جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت و ضلالت کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔

۱۳؎ یہ صرف اجمالی اشارہ ہے۔ اِ س کی تفصیل آگے سورۂ اعراف (۷) میں آئے گی۔

۱۴؎ سوال کے بعد مخاطب کی طرف سے جواب کا انتظار کیے بغیر خود ہی جواب دینے کا یہ اسلوب اُس وقت اختیار کیا جاتا ہے، جب مخاطب کے لیے انکار کی گنجایش نہیں ہوتی اور سوال سے مقصود بھی اصلاً اُس کے کسی مسلمہ کی طرف توجہ دلانا ہو تا ہے۔

۱۵؎ یعنی صفت رحمت سے کمال درجہ متصف ہے، لہٰذا اپنی اِس صفت کے تقاضے بھی لازماً پورے کرے گا۔

۱۶؎ اصل الفاظ ہیں: ’لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ‘۔ اِن میں ’اِلٰی‘ کا صلہ دلیل ہے کہ یہاں کوئی لفظ ہانکنے اور لے جانے کے معنی میں محذوف ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی تفسیر میں لکھا ہے:

’’۔۔۔قیامت کا آنا خدا کی صفت رحمت کا لازمی تقاضا ہے۔ اگر قیامت نہ آئے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ اِس کائنات کا خالق رحمان و رحیم نہیں ہے۔ اُس کے نزدیک، نعوذ باللہ، عدل و ظلم، نیکی اور بدی، خیر اور شر دونوں یکساں ہیں۔ یہ ایک کھلنڈرے کا کھیل اور ایک اندھیر نگری ہے۔ یہ باتیں چونکہ بالبداہت باطل ہیں، رحمان و رحیم خدا کی شان کے بالکل منافی ہے کہ وہ کوئی بے غایت و بے مقصد کام کرے، اِس وجہ سے لازمی ہے کہ ایک ایسا دن وہ لائے جس میں اُس کی رحمت کامل کا ظہور ہو ، اپنے نیک بندوں کو وہ اپنی بے پایاں رحمتوں سے نوازے اور جو بدکار و نابکار ہیں، وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچیں۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۲۷)

۱۷؎ اِس مضمون کی وضاحت آگے آیت ۳۱ میں فرما دی ہے کہ قیامت کے دن یہ خسارے میں مبتلا لوگ کس طرح حسرت سے اپنے سر پیٹیں گے اور گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے کس بے بسی کے ساتھ جہنم کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔

۱۸؎ اصل الفاظ ہیں: ’لَہٗ مَا سَکَنَ فِی الَّیْلِ وَالنَّھَارِ‘۔ ’سَکَنَ‘ کے بالمقامل ’ماتحرک‘ یا اِس کے ہم معنی کوئی لفظ یہاں عربیت کے اسلوب پر حذف کر دیا ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔ 

۱۹؎ مطلب یہ ہے کہ خدا کی قدرت سب کو محیط اور اُس کا علم سب کو حاوی ہے۔ شب و روز میں کوئی چیز اُس کے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتی۔ وہ جب چاہے گا، ہرجگہ سے سب کو بلائے گا اور اپنے حضور میں اکٹھا کر لے گا۔

۲۰؎ یہ اوپر کی بات کا لازمی نتیجہ بھی ہے اور مشرکین پر ایک نہایت لطیف تعریض بھی۔ مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان کے خالق اور پوری کائنات کے رازق کو چھوڑ دوں اور تمھارے اُن بتوں کو معبود بنا لوں جو اپنے وجود کے لیے بھی تمھارے محتاج ہیں اور اُن کے سامنے تم حلوے مانڈے پیش کرتے ہو تو راضی اور آسودہ ہوتے ہیں؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہاں یہ امر پیش نظر رہے کہ مشرکین اپنے بتوں کے آگے جو کچھ پیش کرتے ہیں، اِس تصور کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ یہ اُن کی پسندیدہ اور مرغوب غذائیں ہیں جن کو وہ نوش کرتے اور جن کی خوشبو سے محظوظ ہوتے ہیں۔ برعکس اِس کے ایک خداپرست خدا کے نام پر جو کچھ پیش کرتا ہے، اُس کا کوئی حصہ، جیسا کہ قرآن میں تصریح ہے، خدا کو نہیں پہنچتا، بلکہ سب کا سب خدا کے حق دار بندوں کو پہنچتا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۲۹)

۲۱؎ یعنی تم شرک کرتے ہو تو کرو، اِس کی ذمہ داری تم پر ہے۔ مجھے تو اِسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ خدا کے سامنے سرنگوں رہوں اور کسی کو اُس کا شریک نہ ٹھیراؤں۔ اِس مضمون کے لیے اصل میں ’لَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں تاکید کے ساتھ ایک نوعیت کا زجر بھی ہے، لیکن اِس کا رخ اُنھی لوگوں کی طرف ہے جن کا رویہ زیربحث ہے۔

۲۲؎ اِس میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ جو لوگ اِس کامیابی کو بھولے ہوئے ہیں، اُس دن اُنھیں اندازہ ہو جائے گا کہ کس بدبختی اور محرومی کا سامان کر کے دنیا سے آئے ہیں۔

۲۳؎ یہ اوپر والی بات کی توضیح مزید ہے کہ جب نفع و ضرر سب خدا کے اختیار میں ہے تو کسی دوسرے کو مولیٰ و مرجع کیوں بنایا جائے؟ اور اُس کے حضور میں دعا و مناجات کے لیے ہاتھ کیوں اٹھائے جائیں؟

۲۴؎ لہٰذا یہ نہیں ہو سکتا کہ دنیا کو کسی انجام اور غایت تک پہنچائے بغیر چھوڑ دے۔ اُس کے علم و حکمت کا تقاضا ہے کہ ایک روز جزا برپا ہو جس میں حق و باطل کے فیصلے کیے جائیں۔

۲۵؎ یہ وہی بات ہے جو سورۂ فرقان (۲۵) آیت ۱ میں ’لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا‘ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ قرآن روز قیامت تک ذریعۂ انذار ہے۔ علما جب اِس کی دعوت لے کر اُٹھیں تو اُنھیں اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجاے اِسی کو ذریعۂ انذار بنانا چاہیے۔ خدا کی معرفت اور عقبہ شناسی کے لیے اِس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے جو لوگوں کو پیدا کر سکے۔

۲۶؎ اوپر قرآن کا ذکر جس مقصد سے ہوا ہے، اُس کی توثیق مزید کے لیے یہ صالحین اہل کتاب کی گواہی پیش کی ہے۔ فرمایا ہے کہ قرآن کے انذار پر ایمان لانے سے وہی محروم ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال رکھا ہے، ورنہ صالحین اہل کتاب تو اُس کو اور اُس کے پیش کردہ حقائق کو اپنے صحیفوں کی روشنی میں اُسی طرح جانتے، پہچانتے اور اُن کا خیر مقدم کرتے ہیں، جس طرح ایک مہجور باپ اپنے یوسف گم گشتہ کو پہچانتا ہے اور اُس کے پیرہن کی خوشبو دور ہی سے محسوس کر لیتا ہے ۔

۲۷؎ اصل الفاظ ہیں: ’یَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا‘۔ اوپر جن گروہوں کا ذکر ہوا ہے، لفظ ’جَمِیْعًا‘ کی تاکید نے اُن سب کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے، خواہ وہ خدا کے شریک ٹھیرانے والے ہوں، قیامت کا انکار کرنے والے ہوں یا آیات الٰہی کی تکذیب کرنے والے۔ یہ سب اگرچہ مشرکین تھے، مگر قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ وجوہ تکذیب میں کسی حد تک الگ الگ بھی تھے۔

۲۸؎ اصل میں لفظ ’فِتْنَۃ‘ آیا ہے۔ اِس کی اِضافت فاعل کی طرف ہے، جملے میں استثنا منقطع ہے اور انداز کلام طنزیہ ہے۔ یعنی جس طرح کے فریب دنیامیں دیتے رہے، اُس کی گنجایش ختم ہو جائے گی۔ ہاں، کچھ کر سکیں گے تو یہی کہ اپنے جرم کا انکار کر کے اُس کی پاداش سے بچنے کی کوشش کریں۔

۲۹؎ قرآن کے دوسرے مقامات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مشرکین اُس روز اپنے شرک کا اقرار کر لیں گے۔ یہاں انکار کا ذکر ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ پریشان ہو کر کسی مرحلے میں انکار کریں گے اور کسی میں بالآخر ماننے پر مجبور ہو جائیں گے، بلکہ اپنے شرکا کو پکاریں گے بھی کہ جو صورت حال درپیش ہو گئی ہے، شاید اُس سے نکلنے کی کوئی راہ پیدا ہو سکے۔

۳۰؎ اِس میں یہ لطیف تعریض بھی ہے کہ دنیامیں خدا کے بارے میں جھوٹی گواہی دیتے رہے اور یہاں اپنے اوپر جھوٹ گھڑ رہے ہیں۔

۳۱؎ یعنی اپنے اُس قانون کے مطابق جو قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوا ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ جب کوئی شخص حق کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرتا اور جانتے بوجھتے اُسے ماننے سے انکار کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے مہلت ملتی ہے۔ پھر اِس مہلت سے وہ اگر فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو اُس کے دل و دماغ کو دعوت حق کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔ یہ خدا کا عذاب ہے جس سے وہ اپنی شامت اعمال کے نتیجے میں مرنے سے پہلے ہی دوچار ہو جاتا ہے۔ اِس قانون کی وضاحت کے لیے دیکھیے: سورۂ نساء (۴) آیت ۱۵۵، اعراف (۷) آیات ۱۰۰- ۱۰۲، نحل (۱۶) آیات ۱۰۶- ۱۰۸ اور صف (۶۱) آیت۵۔

۳۲؎ یہ محض مبالغے کا ایک اسلوب نہیں، بلکہ بیان حقیقت ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔مطلب یہ ہے کہ اِن کے ایمان نہ لانے کا سبب یہ نہیں ہے کہ اِن کے سامنے عجائب اور کرشمے ظاہر نہیں ہوئے۔ آخر یہ ساری کائنات، آسمان و زمین، سورج، چاند، دریا، پہاڑ، ابر، ہوا، رات، دن کیا ہیں؟ کیا یہ کرشمے اور عجائب نہیں ہیں؟ ساری کائنات کرشموں اور عجائب سے بھری پڑی ہے، لیکن جن کے پاس دیکھنے والی آنکھیں ہی نہ ہوں، اُن کا کیا علاج؟ جس طرح اِن سارے عجائب اور کرشموں سے اِن کی آنکھیں بند ہیں، اگر اور کرشمے بھی اِن کو دکھا دیے جائیں، جب بھی یہ کوئی نہ کوئی بات بنا ہی لیں گے اور اپنی ہٹ پر جمے ہی رہیں گے۔‘‘  (تدبرقرآن ۳/ ۳۴)

۳۳؎ یعنی قرآن جب عاد و ثمود، مدین، سبا، قوم لوط اور قوم فرعون کی تباہی کے واقعات سنا کر اِنھیں خبردار کرتا ہے تو اُس سے عبرت حاصل کرنے کے بجاے بوکھلا کر کہتے ہیں کہ کچھ نہیں، یہ تو پچھلی قوموں کے بے سروپا افسانے ہیں جو معاذ اللہ، ایک سرپھرا سناتا پھر رہا ہے۔

۳۴؎ اصل الفاظ ہیں: ’وَلَا نُکَذِّبَ‘۔ یہ مضارع خفیف ہے، لیکن تمنی کا جواب نہیں ہے۔ اِس کا نصب دلیل ہے کہ تمنی کا جواب یہاں اِس کا معطوف علیہ ہے جو حذف کر دیا گیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔تمنا کے جواب میں ’فنصدق‘ یا اِس کے ہم معنی کسی لفظ کا آنا بالکل واضح تھا، اِس وجہ سے اُس کو حذف کر دیا اور ’وَلَا نُکَذِّبَ‘ میں جو حرف عطف ہے، اُس کے ذریعے سے محذوف کا پتا دے دیا۔ ’وَلَا نُکَذِّبَ‘ کے اظہار میں جو بلاغت ہے، وہ یہ ہے کہ اِس سے اُن کی حسرت کا بھی اظہار ہورہا ہے اور اعتراف جرم کا بھی۔ یعنی آج تو یہ اکڑ رہے ہیں اور قرآن کو ایک داستان پارینہ قرار دے رہے ہیں، لیکن کل حسرت کریں گے کہ کاش، ہم پھر دنیامیں جائیں کہ اپنے ر ب کی آیات کی تصدیق کریں اور اُن کی تکذیب نہ کریں۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۳۶)

۳۵؎ اِس لیے کہ اِن کے جھٹلانے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ بات اِن پر واضح نہیں ہوئی۔ یہ جان گئے تھے کہ خدا کے پیغمبر جو کچھ پیش کر رہے ہیں، وہ سراسر حق ہے۔ اِن کی آنکھوں پر اُس وقت بھی دنیا کی محبت اور غرور و حسد کے جذبات میں پردے ڈال دیے تھے اور اب بھی لوٹا دیے جائیں تو یہی چیزیں حجاب بن کر قبول حق سے اِنھیں روک دیں گی۔

۳۶؎ قرآن مجید کے مکذبین کے بعد اب آگے مکذبین قیامت کا انجام بیان کیا جا رہا ہے جو مرنے کے بعد اٹھائے جانے کو یا تو مانتے ہی نہیں تھے یا بعید از امکان کہہ کر گریز و فرار کے راستے نکال لیتے تھے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B