عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: یَا مَعْشَرَ النِّسَائِ، تَصَدَّقْنَ وَأَکْثِرْنَ الْاِسْتِغْفَارَ۰ فَإِنِّی رَأَیْتُکُنَّ أَکْثَرَ أَہْلِ النَّارَ۰ فَقَالَتْ اِمْرَاَۃٌ مِنْھُنَّ، جَزْلَۃٌ: وَمَا لَنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ، أَکْثَرَ أَہْلِ النَّارِ؟ قَالَ: تُکْثِرْنَ اللَّعْنَ۰ وَتَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ۰ وَمَا رَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَ دِیْنٍ أَغْلَبَ لِذِی لُبٍّ مِنْکُنَّ۰ قَالَتْ: یَارَسُولَ اللّٰہِ، وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّینِ؟ قَالَ: أَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ فَشَہَادَۃُ اِمْرَأَتَیْنِ تَعْدِلُ شَہَادَۃَ رَجُلٍ۰ فَھَذَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ۰ وَتَمْکُثُ اللِّیَالِیَ مَا تُصَلِّی وَتَفْطُرُ فِی رَمَضَانَ۰ فَہَذَا نُقْصَانُ الدِّینِ ۰
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عورتو، تم صدقہ کیا کرو اور بہت زیادہ استغفار کیا کرو۔ مجھے تم عورتوں کی زیادہ تعداد جہنم میں دکھائی گئی ہے۔ ان میں سے ایک سمجھ بوجھ والی عورت نے حضور سے پوچھا۔ ہمارے ساتھ کیا ہے کہ ہم زیادہ جہنمی ہوں گی۔ آپ نے فرمایا: تم لعنت ملامت بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری ہوتی ہو۔ میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی تمھاری طرح عقل ودین میں کم ہونے کے باوجود عقل والے پر غالب آجائے۔ اس نے پوچھا: یارسول اللہ، یہ عقل ودین میں کمی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: عقل کی کمی یہ ہے کہ دوعورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے، یہ عقل کی کمی ہے۔ تم کئی دن نماز نہیں پڑھتی ہو اور رمضان میں روزے نہیں رکھتی ہو یہ دین میں کمی ہے‘‘۔
لغوی مباحث
معشر : ’معشر‘ کا لفظ ہر اس گروہ کے لیے بولا جاتا ہے جو کسی ایک امر میں مشترک ہو۔
رأیتکن: اگرچہ یہاں مخاطب کی ضمیر آئی ہے۔ لیکن یہاں محض مخاطب عورتیں مراد نہیں بلکہ یہاں تمام عورتیں مراد ہیں۔ ہر زبان میں تخاطب کا اسلوب اس موقع پر بھی استعمال کر لیا جاتا ہے جہاں عمومی اصول بیان کرنا پیش نظر ہو۔ ہمارے خیال میں یہاں صرف تم ترجمہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ تم عورتیں ترجمہ کیا جانا چاہیے تاکہ ترجمے ہی سے لفظ کا محل استعمال واضح ہو جائے۔
جزلۃ :’جزالۃ‘ کے معنی عقل کے ہیں یہ اسی سے صفت کا صیغہ ہے۔
عشیر: ’عشیر‘ کا لفظ معاشرت سے ہے۔ یعنی وہ جس کے ساتھ رہن سہن ہو۔ اگرچہ یہ لفظ ہر اس شخص کے لیے بولاجا سکتا ہے جس کے ساتھ گہرا میل جول ہو۔ لیکن اس کا استعمال بالعموم شوہر یا بیوی ہی کے لیے ہوتا ہے۔
معنی
اس روایت میں دو بحثیں ہیں۔ ایک بحث تو یہ ہے کہ ناشکری کیا جرم ہے۔ دوسری یہ کہ عورتیں واقعی مردوں کے مقابلے میں کم صلاحیت رکھتی ہیں۔
اس روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ ناشکری کی وجہ سے جہنم کی سزا دی جائے گی۔ شکر گزار ہونا انسان کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اس سے انحراف فطرت سے انحراف ہے۔ جس طرح شکر گزاری ایک رویہ ہے جو بندگی کے لازمی عناصر میں سے ہے۔ اسی طرح ناشکری بھی ایک رویہ ہے جو تمام زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہوتا ہے۔ جس طرح شکر گزاری بندگی کی منازل طے کرانے میں قرب الٰہی کی ضامن ہے اسی طرح نا شکراپن خدا سے بعد پر دلالت کرتا ہے۔ جو خدا کا شکر گزار ہو وہ بندوں کا ناشکرا نہیں ہوسکتا اور جو بندوں کا شکرگزار نہیں ہے اس کا امکان کم ہے کہ وہ حقیقت میں خدا کا شکر گزار ہو۔ جذبہ شکر تمام دین داری کی اساس ہے جو شخص زندگی کے کسی بھی دائرے میں اس سے محروم ہے وہ اس خطرے سے دو چار ہے کہ وہ بندگی کے دائرے ہی سے نکل جائے۔ اس روایت میں معلوم ہوتا ہے کہ ناشکرے پن کی یہی شناعت واضح کی گئی ہے۔
یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ناشکراپن صرف عورتوں ہی کے ساتھ خاص ہے۔ اس روایت میں عورتوں کا ذکر بطور خاص صرف اس لیے ہوا ہے کہ اس وعظ کی مخاطب صرف وہ تھیں۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ شکر کا مضمون بیان ہوا ہے اور اس میں مرد وعورت دونوں یکساں مخاطب ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ جائز شکایت اور نا شکرا پن دو مختلف چیزیں ہیں۔ یہاں ناشکرے پن کی مزمت ہوئی ہے۔ جائز شکایت اگر شوہر کی حیثیت کو مانتے ہوئے کی جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔
اس روایت سے ایک اور حقیقت بھی سمجھ میں آتی ہے۔ ہم انسانوں کی ضروریات جن افراد سے وابستہ ہو جاتی ہیں اور ہماری توقعات جن افراد سے جڑ جاتی ہیں وہاں سب سے زیادہ شکایتیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہی شکایتیں ہیں جو ان فوائد اور عنایات کو ہماری نگاہوں سے اوجھل کر دیتیں ہیں جو ہمیں فی الواقع حاصل ہیں۔ یہی چیز جب اعتدال سے تجاوز کرتی ہے تو ناشکرے پن میں ڈھل جاتی ہے۔ یہ چیز عورتوں ہی کے ساتھ خاص نہیں مرد بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ کسی ایک رشتے یا تعلق ہی کے ساتھ سامنے نہیں آتی ہر اس جگہ نمایاں ہو جاتی ہے جہاں ہماری کوئی ضرورت یا توقع وابستہ ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس چیز پر متنبہ کیا اور انھیں صدقہ خیرات سے اس کی تلافی کرتے رہنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ یہ ہدایت بڑی حکمت پر مبنی ہے۔ ہم انسان اپنی کمزوریوں کے باعث اس طرح کی کوتاہیوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ توبہ واستغفار اور دوسری نیکیوں کے کرتے رہنے سے توقع ہے کہ ان کی تلافی ہوتی رہے گی اور ہم اللہ سے مغفرت پانے والوں میں شامل ہو جائیں۔
دوسری بحث عورت کی اہلیت سے متعلق ہے۔ اس روایت کے مطابق عورت دین اور عقل دونوں میں مرد سے پیچھے ہے۔ دین میں کمی کی مثال یہ ہے کہ عورت ایام کے دنوں میں نماز اور روزے نہیں رکھتی اس طرح اس کے دینی عمل میں کمی رہ جاتی ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے لیکن اس کا سبب واضح ہے کہ عورت خلقی ساخت ہے۔ یہ اس کی طرف سے کسی کمی یا کمزوری کے اظہار کی وجہ سے نہیں ہے۔ اس طرح کے مسائل میں ہمیں معلوم ہے کہ خدا کی طرف سے اجر میں کمی نہیں کی جائے گی وہ خدا کی نیک بندیاں جو نماز کی پابند ہیں وہ بارگاہ ایزدی میں پابندی سے نماز پڑھنے والی ہی قرار پائیں گی اگرچہ اس سبب سے ان کی نمازوں کی تعداد کم ہو۔
عقل میں کمی کے لیے قرآن مجید کی آیت دین سے استشہاد کیا گیا ہے۔ آیت دین میں گواہی کا مسئلہ ارادے اور فیصلے پر مبنی ہے۔ کسی دستاویز پر شہادت ثبت کرنے والے کا انتخاب ہم خود کرتے ہیں۔ ہماری مراد یہ ہے کہ جرائم کا وقوع ہو یا حاثات ہوں وہاں گواہوں کی موجود محض اتفاق پر منحصر ہوتی ہے۔ وہاں ممکن ہے کوئی دیکھنے والا موجود ہی نہ ہو اور محض قرائن پر معاملہ منحصر ہو کر رہ جائے۔ ممکن ہے صرف ایک عورت ہو، ممکن ہے کوئی بچہ ہو، ممکن کوئی بوڑھا ہو۔ لہذا اس طرح کے معاملات میں انھی گواہیوں پر انحصار کرنا پڑے گا جو وہاں موجود تھیں خواہ ان کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ پھر خود قرآن مجید ہی سے واضح ہے کہ دستاویز پر گواہی میں ایک کے بجائے دوعورتوں کو رکھنے کا کیوں کہا گیا ۔ ارشاد ہے کہ اگر ایک گڑبڑا جائے تو دوسری اسے یاد دلادے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ معاملہ عورتوں سے تعلق نہیں رکھتا اس لیے ممکن ہے گواہی کے موقع پر ایک عورت صحیح گواہی نہ دے سکے تو دوسری اسے یاد دلا کر گواہی کو درست کردے۔
حقیقت میں یہ وہی فرق ہے جو شاعر اور پہلوان کا ہے۔ شاعر اور پہلوان بحیثیت شہری، بحیثیت مسلمان، بحیثیت شہری، بحیثیت انسان دونوں برابر ہیں۔ لیکن ان سے ہماری توقعات اور ان کا رول مختلف ہے۔ یہی معاملہ عورتوں کا ہے۔ فرق رول اور توقعات کا ہے۔ اگر فرق ہوتا تو جرم کی سزا میں فرق رکھا جاتا، عبادات میں فرق ہوتا، آخرت کی جوابدہی میں فرق ہوتا۔ روایت کا اصل مقصود عورت اور مرد کی افضلیت کا مسئلہ نہیں۔ رویے کی خرابی کی نشاندہی ہے۔ ہر انسان مزاج ، صلاحیت، حالات میں دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ اس فرق کا اگر وہ شعور نہ رکھے اور دوسروں کے لیے مصیبت بنا رہے تو یہ چیز شکر کے رویے کے منافی ہے۔ چونکہ عورتیں ہی مخاطب ہیں اس لیے بات انھی کی مناسبت سے ہوئی ہے۔ لیکن اس سے جو اصولی بات واضح ہوتی ہے اس کے مخاطب مرد بھی ہیں۔
باقی رہا بیویوں کے شوہروں پر غلبے کا بیان تو یہاں اس کی شناعت ناشکری کے ضمن ہی میں ہے۔ تمام سماجی اور خاندانی رشتے جس میں ہم ایک دوسرے کا لحاظ کرتے وہاں کبھی ایک فریق کو فائدہ پہنچتا ہے اور کبھی دوسرے کو۔ کبھی ایک کو مفاہمت کرنی پڑتی ہے کبھی دوسرے کو۔ کبھی کسی کو اپنی جائز بات چھوڑنا پڑتی ہے کبھی کسی کو۔ ایک اعتبار سے دیکھیں تو یہی معاشرت کا حسن ہے اور یہی عمدہ اخلاقی تربیت کا ظہور ہے۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی فریق اس طرح فائدہ اٹھاتا ہے کہ دوسرے کو وہ اس کا جائز حق بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور جانتے بوجھتے حق تلفی کرتا رہتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات نمایاں کرکے اسی خرابی پر متنبہ کیا ہے۔
اس روایت سے متعلق ایک ضمنی بحث یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ مشاہدہ کب ہوا۔ ایک رائے یہ ہے کہ مشاہدہ ان مشاہدات میں سے ایک ہے جو آپ کو معراج کے موقع پر ہوئے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ حضور کو یہ مشاہدہ کسوف کی نماز پڑھتے ہوئے کرایا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے پیغمبر تھے۔ ان پر وحی والہام اور مشاہدہ ملکوت کا سلسلہ جاری تھا۔ لہذا دونوں امکانات برابر ہیں۔ کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے۔ بہرحال شارحین بالعموم اسے معراج ہی سے متعلق مانتے ہیں۔
اس روایت سے متعلق دوسری ضمنی بحث یہ ہے کہ کیا جہنم میں زیادہ عورتیں ہوں گی۔ جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے اس میں اس طرح کی کوئی بات یا اشارہ موجود نہیں ہے۔ بلکہ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جہنم میں وہی لوگ جائیں گے جن کے اعمال میں برے اعمال کا غلبہ ہو گا اور یہ وعید ہر مسلمان کے لیے ہے اس میں عورتوں کے زیادہ ہونے یا کم ہونے کا کوئی سبب بھی نہیں ہے۔ اس روایت کی قابل قبول توجیہ یہ کی گئی ہے کہ جہنم کا جو حصہ آپ کو دکھایا گیا اس میں زیادہ تعداد عورتوں کی تھی۔ اس معنی کو لینے کا ایک قرینہ روایت میں بھی موجود ہے۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’دکھائی گئی‘‘ کا اسلوب اختیار کیا ہے۔ یہ اسلوب بھی بتاتا ہے کہ اس کلام میں عورتوں کے زیادہ جہنمی ہونے کی خبر نہیں ہے۔ حضور کو جہنم کے جس حصے کا مشاہدہ کرایا گیا اس میں زیادہ عورتیں تھیں۔
متون
اس روایت کے تین حصے ہیں۔ ایک حصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بات کہنے کے محل کے بیان کرنے سے متعلق ہے۔ دوسرا حصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خیرات کی نصیحت کرنے کا بیان ہے اور تیسرے حصے میں عورتوں کی اہلیت پر تبصرہ کیا گیا ہے۔
امام مسلم کی زیر بحث روایت میں وہ حصہ نہیں ہے جس میں اس گفتگو کا موقع بیان ہوا ہے۔ اس روایت کے دوسری کتب میں منقول متون سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ گفتگو کسی عید کے موقع پر کی تھی۔ بعض متون میں یہ وضاحت بھی نقل ہوئی ہے کہ حضور مردوں سے خطاب کے بعد عورتوں کی طرف آئے تھے اور وہاں آپ نے عورتوں کو الگ سے نصیحت کی تھی۔ بظاہر قرائن یہی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور باتیں بھی اس موقع پر فرمائی ہوں گی لیکن کتب روایت میں روایت نہیں ہو سکیں۔
دوسرا حصہ تقریبا تمام کتب روایت میں یکساں ہے۔ بعض روایات میں البتہ عورتوں کا فرمان نبی سن کر اپنے کانٹے اتار کر دینے کا ذکر بھی ہوا ہے۔ اس کے علاوہ فرق محض لفظی ہیں۔
تیسرا حصہ عورتوں کی اہلیت پر تبصرے پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں بعض مرویات میں صرف ناقصات والی بات بیان ہوئی ہے اور بعض میں نہیں۔ مراد یہ کہ اس میں صرف ناشکری والی بات بیان ہوئی ہے کہ تم شوہروں کی ناشکری بہت کرتی ہو۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس روایت کے بعض متون میں ناقصات والی بات کو صریح طور پر صحابی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ یہ تصریح اس بیان کی اہمیت کو کم کر دیتی ہے لیکن بخاری اور مسلم جیسی کتابوں میں یہ بیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہے۔ لہذا اس کی توجیہ کرنا ناگزیر ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ اس بیان کو صحابی کی طرف منسوب کرنے والی روایتیں بخاری اور مسلم سے پہلے کی تصنیفات میں ہیں۔ مثلا اس طرح کا ایک متن المسند میں ہے اور دوسرا دارمی میں ہے۔ جن کے مصنفین کے سال وفات بالترتیب ۲۱۹ اور ۲۵۵ ہے۔ بعد میں تصنیف کی گئی کتاب ابو یعلی میں ایک متن میں اس بیان کی نسبت صحابی کی طرف کی گئی ہے۔ یہ تینوں روایتیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں جبکہ وہ روایتیں جن میں اس بیان کی نسبت حضور کی طرف ہے وہ عبد اللہ بن عمر ، ابوسعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی نسبت سے روایت ہوئی ہیں۔
روایت کے متون میں لفظی فرق بھی ہیں۔ لیکن روایت کے سمجھنے میں جو باتیں اہم تھیں وہ ہم نے اوپر بیان کردی ہیں۔
کتابیات
المسند، رقم۹۲۔ مسند احمد بن حنبل، رقم۲۱۶۹، ۲۵۳۳، ۳۱۰۵، ۳۵۶۹، ۴۰۱۹، ۴۰۳۷، ۴۱۲۲، ۴۱۵۱، ۴۱۵۲، ۵۳۴۳، ۸۸۴۹، ۱۱۳۳۳، ۱۱۳۹۹، ۱۴۱۹۶، ۱۶۱۲۶، ۱۶۱۲۷، ۲۷۰۵۸، ۲۷۰۹۳۔ سنن دارمی، رقم۱۰۰۷، ۱۶۵۴۔ صحیح بخاری، رقم۲۹۸، ۱۳۹۳، ۴۹۵۱۔ صحیح مسلم، رقم۷۹، ۸۰۔ سنن ابن ماجہ، رقم۱۸۳۵، ۴۰۰۳۔ سنن ترمذی، رقم۲۶۱۳۔ سنن کبری، رقم۹۲۰۰، ۹۲۵۷۔ سنن نسائی، رقم۱۵۷۹، ۲۵۸۳۔ مسند ابو یعلی، رقم۵۱۱۲، ۵۱۴۴، ۶۵۸۵۔ صحیح ابن خزیمہ، رقم۱۰۰۰، ۱۴۳۰، ۲۰۴۵، ۲۴۶۱۔ شرح معانی الآثار، رقم۲۷۹۶۔ صحیح ابن حبان، رقم۳۳۲۳، ۴۲۴۸، ۵۷۴۴، ۷۴۷۸۔ معجم کبیر، رقم۴۲۶، ۱۲۲۹۴۔ مستدرک، رقم۲۷۷۲، ۸۷۸۳۔ سنن بیہقی، رقم۱۳۷۰، ۷۹۰۰، ۲۰۳۱۶۔
_________________