HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

کیا اللہ کے رسول قتل ہو سکتے ہیں؟

مولاناامین احسن اصلاحی نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر تدبر قرآن میں بہت تفصیل کے ساتھ اس بات کو بیان کیا ہے کہ وہ انبیا کرام جنھیں اللہ تعالیٰ تعالی منصب رسالت پر فائز کردیتے ہیں، اپنی قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کی عدالت بن جاتے ہیں۔ وہ اپنی قوم کو دعوت حق پیش کرتے ہیں اور اس دعوت کا فیصلہ اسی دنیا میں نکل آتا ہے۔قوم ان کی دعوت مان لیتی ہے تو عذاب الٰہی سے بچ جاتی ہے وگرنہ دنیا ہی میں ہلاک کردی جاتی ہے۔

یہ نقطۂ نظر محض ایک نظری بات نہیں ہے۔یہ اپنے نتائج کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک رسول تھے اور قرآن آپ کا صحیفہ رسالت ہے، اس لیے یہ سنت الٰہی قرآن کریم پر تدبر کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ جب اس اصول کو مان کر قرآن مجید کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو قرآن کریم کے بہت سے احکام کا صحیح مدعا واضح ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ اس پہلو سے جب قرآن کریم کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو قرآن مجید روز قیامت کی ایک زندہ دلیل بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔

رسولوں کے باب میں اس قانونِ الٰہی کا ایک جزوی اور استنباطی پہلو یہ ہے کہ جن انبیا کرام کو منصب رسالت پر فائز کیا جاتا ہے ان کو قتل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ استنباط (Derivation) قرآنی بیانات اور تاریخی حقائق کی روشنی میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ تاہم قرآن مجید کی بعض آیات بظاہر اس بات کی نفی کرتی محسوس ہوتی ہے۔پیش نظر مضمون میں ہم اس مسئلے پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کریں گے جس میں ان آیات کا صحیح مدعا واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی نیز ضمناً اس قانون کی تفصیلی شرح وضاحت بھی ہوجائے گی۔

یہ کل چار آیات ہیں۔ ان میں سے تین وہ ہیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ بنی اسرائیل نے اپنے رسولوں کو قتل کیا، جبکہ ایک آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے حوالے سے ہے۔ ہم ان دونوں قسم کی آیات پر الگ الگ گفتگوکریں گے۔

انبیائے بنی اسرائیل سے متعلق آیات

ہم پہلے ان تین آیات پر گفتگو کریں گے جو بنی اسرائیل سے متعلق ہیں۔یہ آیات درج ذیل ہیں۔

’’توکیاجب کبھی کوئی رسول تمہارے پاس وہ چیزلے کرآیاجوتمہارے نفس کوپسندنہ آئی توتم نے تکبرکی راہ اختیارکی۔پھربعض کوتم نے جھٹلایااوربعض کوتم قتل کرتے تھے‘‘،(البقرہ2: 87)۔
’’بیشک ہم نے بنی اسرائیل سے عہدلیااوران کے پاس کئی رسول بھیجے۔جب کبھی کوئی رسول ان کے پاس وہ چیزلایاجوان کوپسندنہ آئی توبعض کوجھٹلاتے اوربعض کوقتل کرڈالتے تھے‘‘۔(المائدہ5: 70)
’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں حکم دیاتھاکہ ہم کسی رسول پرایمان نہ لائیں جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ پیش کرے جسے آگ کھاجائے۔آپ کہہ دیجیے کہ مجھ سے پہلے تمہارے پاس کئی رسول آئے،نشانیاں لے کراوراس چیزکے ساتھ جسے تم کہہ رہے ہو،پھرتم نے ان قتل کیوں کیا؟اگرتم سچے ہو‘‘۔ ( آل عمران3: 183 )

ان آیات سے رسولوں کے قتل ہوجانے کی جو بات بظاہر نکلتی محسوس ہوتی ہے وہ اس کی بنیاد یہ غلط فہمی ہے کہ ان آیات میں رسول کا لفظ ٹھیک اس اصطلاحی معنوں میں آیا ہے جس معنی میں ان انبیاکرام کے لیے استعمال ہوتاہے جن کو اللہ تعالیٰ منصب رسالت پر فائز کرتے ہیں۔ مثلاًحضرت نوح، ہود، صالح علیہم السلام وغیرہ ۔ہمارے نزدیک یہ مفروضہ ٹھیک نہیں ہے اور اس کے تفصیلی دلائل بھی ہم آگے دیں گے ، لیکن سر دست یہ بات ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ نبی کے لفظ کے برخلاف جو قرآن میں صرف اپنے اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوا ہے ، رسول کا لفظ ، اپنے اصطلاحی معنوں کے علاوہ، بکثرت اپنے لغوی معنوں یعنی بھیجے ہوئے اور پیغام پہنچانے والے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے۔قرآن نے ان مقامات پر چار طرح کے مدعا کے بیان کے لیے اس لفظ کو استعمال کیا ہے۔

۱۔ یہ لفظ عام پیغام پہنچانے والے نامہ بروں اور قاصدوں،جو کہ عام انسان ہوتے ہیں، ان کے لیے استعمال ہوا ہے۔اس کی مثال سورہ یوسف آیت 50میں ملتی ہے جس میں لفظ ’رسول ‘ بادشاہ کے اس قاصد کے لیے استعمال ہوا جو جیل میں حضرت یوسف کے پاس آیا تھا۔ ارشاد ہے۔

وَقَالَ الْمَلِکُ اءْتُونِیْ بِہِ فَلَمَّا جَاء ہُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ اللاَّتِیْ قَطَّعْنَ أَیْْدِیَہُنٌَّ .
’’اور بادشاہ نے کہا کہ اسے(یعنی یوسفؑ کو) میرے پاس لاؤ۔ جب رسول (قاصد)ان کے پاس آیا تو انھوں نے کہا کہ اپنے آقا کے پاس واپس جاؤ اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا حال ہیں جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔‘‘

۲۔ یہ لفظ اللہ کا پیغام لانے والے فرشتوں کے لیے قرآن میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام کے لیے سورہ تکویر 81: 19، الحاقہ40:69اور مریم19: 19میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ سورہ مریم میں حضرت جبریل حضرت مریم سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں۔قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّکِ لِأَہَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِیّاً.

’’انھوں نے کہا کہ میں تمھارے رب کا رسول ہوں (اور اس لیے آیا ہوں )کہ تمھیں ایک پاکیزہ بیٹا دوں۔‘‘(مریم19:19)

دیگر فرشتوں کے لیے رسول کا لفظ سورہ الانعام61:6، یونس21:10، ھود69:11 ، فاطر 1:35 اور دیگر کئی مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ہم اختصار کے لیے صرف ایک حوالہ نقل کررہے ہیں۔

وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَیُرْسِلُ عَلَیْْکُم حَفَظَۃً حَتَّیَ إِذَا جَاء أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لاَ یُفَرِّطُون.
’’ اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے۔ اور تم پر نگہبان مقرر کیے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جن تم میں سے کسی کی موت آجاتی ہے تو ہمارے رسول(فرشتے) اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور کوتاہی نہیں کرتے‘‘،(الانعام61:6 )

۳۔ منصب رسالت پر فائز انبیا علیہم السلام کے لیے جو اپنی قوموں کے لیے اللہ تعالیٰ کی عدالت بن کر آتے ہیں اور ان کی زندگی اور موت کا فیصلہ اسی دنیا میں کردیتے ہیں۔قرآ ن پاک میں یہ لفظ بکثرت اسی مفہوم کے لیے استعمال ہوا ہے۔ہم صرف دو حوالے نقل کررہے ہیں۔

وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّھَا رَسُوْلاً یَّتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِنَا (القصص 59:28)
’’اور تیرا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں بنتا ، جب تک ان کی مرکزی بستی میں کوئی رسول نہ بھیج لے، جو ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے۔‘‘
اَلَمْ یَاْتِھِمْ نَبَاُ الَّذَیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ وَ قَوْمِ اِبْرٰھِیْمَ وَاَصْحٰبِمَدْیَنَ وَالْمُؤْتَفِکٰتِ اَتَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ. (التوبہ 70:9)
’’کیا انھیں ان لوگوں کی سرگزشت نہیں پہنچی جو ان سے پہلے گزرے ۔ قوم نوح، عاد، ثمود، قومِ ابراہیم، اصحاب مدین اور الٹی ہوئی بستیوں کی ۔ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تو اللہ ان کے اوپر ظلم کرنے والا نہیں بنا ، بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنے۔ ‘‘

۴۔ ان انبیائے کرام کے لیے جو منصب رسالت پر مامور نہیں ہوتے لیکن تبعاًاس لفظ کا اطلاق ان پر اس لیے کردیا جاتا ہے کہ وہ بہرحال خدا کے بھیجے ہوئے اور اسی کا پیغام لوگوں تک پہنچانے والے ہوتے ہیں۔اور اس حیثیت میں ان کے لیے رسول کے لفظ کا استعمال بالکل درست ہے۔

ہمارے نزدیک یہی وہ آخری مدعا ہے جس کے بیان کے لیے اس لفظ کو ان آیا ت میں استعمال کیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کے سوا کوئی دوسرا معنی لینے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ قرآن کریم، احادیث، قدیم صحف میں بیان کردہ تاریخ اور عقل عام سب اس کی شہادت میں کھڑے ہیں۔اب ہم اپنے دلائل کو بتفصیل بیان کردیتے ہیں۔


قرآ ن مجید کے دلائل

سب سے پہلے قرآن مجید کو لیتے ہیں۔قرآن کریم ہمیں یہ بتاتاہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو ان کی قوموں کے مقابلے میں مغلوب نہیں ہونے دیتے۔اس بات کو اللہ تعالیٰ ایک قانون کی شکل میں بیان کرتے ہیں۔مثلاًسورہ صافات میں کئی رسولوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد اوران کی نجات کا ذکر کرنے کے بعد سورہ کے آخر میں ایک ضابطہ بیان کیا گیاہے۔ فرمایا:

وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ. إِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنصُورُونَ. وَإِنَّ جُندَنَا لَہُمُ الْغَالِبُون.
’’اور ہمارے خاص مرسل بندوں کے لیے ہمارا یہ فیصلہ پہلے سے صادر ہوچکا ہے کہ مدد کے حق دار وہی ہوں گے اور ہمارا ہی لشکر غالب رہنے والا بنے گا‘‘،( صافات172-173: 37)

یہی بات کچھ اختصار سے ایک قانون کی شکل میں سورہ مجادلہ میں یوں بیان ہوئی ہے۔

کَتَبَ اللَّہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِیْ إِنَّ اللَّہَ قَوِیٌّ عَزِیْز.
’’اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ بے شک میں غالب رہوں گا اور میرے رسول۔بے شک اللہ بڑا ہی زورآور اور غالب ہے‘‘،(مجادلہ58 :21)

قرآن کے ان بیانات کو غور سے پڑھیے اور بار بار پڑھیے۔ اس کے بعد یہ باور کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ مدد اور غلبہ کا فیصلہ سنانے کے بعد اللہ تعالیٰ ان رسولوں کو قتل ہونے کے لیے ، جو مغلوبیت کی آخری شکل ہے، ان کی اقوام کے حوالے کردیں۔

اس حوالے سے زیادہ صریح بیان سورہ مومن کا ہے جہاں فرمایا۔

کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَالْأَحْزَابُ مِن بَعْدِہِمْ وَہَمَّتْ کُلُّ أُمَّۃٍ بِرَسُولِہِمْ لِیَأْخُذُوہُ وَجَادَلُوا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوا بِہِ الْحَقَّ فَأَخَذْتُہُمْ فَکَیْْفَ کَانَ عِقَاب.
’’ان سے پہلے نوح کی قوم نے تکذیب کی اور ان کے بعد کے گروہوں نے بھی۔ اور ہر امت نے اپنے رسول پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ کیااور باطل کے ذریعے سے کج بحثیاں کیں تاکہ ان سے حق کو پسپا کردیں تو میں نے ان کو پکڑ لیا۔ تو دیکھو میرا عذاب کیسا ہوا‘‘،(مومن 5:40)

پہلی دو آیات سے جو نتیجہ جزوی طور پر نکل رہا ہے یہاں وہ صاف بیان ہوگیا ہے۔یعنی جب کسی قوم نے اپنے رسول پرہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا۔ قرآن کریم ان اجمالی بیانات پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ ایک ایک رسول کی تاریخ سناتا اور بتاتا ہے کہ رسولوں کی کس طرح حفاظت کی گئی اور ان پر ہاتھ ڈالنے والوں کا انجام کیا ہوا۔قرآن بیان کرتاہے کہ حضرت نوح 950برس (عنکبوت14:29)اپنی قوم میں دعوت کا کام کرتے رہے۔انھوں نے اپنی قوم سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اگر میری دعوت تم پر گراں گزر رہی ہے تو تم اور تمھارے شریک سب مل کر جو قدم میرے خلاف اٹھانا چاہیں اٹھالیں اور مجھے مہلت نہ دیں،مگر قوم ان کوکوئی نقصان نہ پہنچاسکی،(یونس 71:10)۔جس روز انھیں اپنی مغلوبیت کا احساس ہوا، انھوں نے رب کو پکارا اور قوم برباد کردی گئی، (قمر10-16: 54)۔ایسی ہی مخالفت کا سامناحضرت ھود کو پیش آیا۔مخالفت کے اس طوفان میں انھوں نے بھی اپنی قوم کو چیلنج دیاکہ تم سب مل کر جو اقدام میرے خلاف کرنا چاہو کردیکھو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو، (ھود55:11)۔مگر اس چیلنج کے باجود آپ کی قوم آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔

حضرت صالح کے خلاف ان کی قوم کے نو سرداروں نے قتل کی سازش تیار کی جو اللہ تعالیٰ نے ناکام بنادی (نمل 49-50: 27)۔ حضرت ابراہیم کی قوم نے انھیں زندہ آگ میں جلانا چاہے مگر ان کے لیے آگ کو سرد کردیا گیا،(انبیا68-70: 21)۔حضرت لوط کی قوم کا ان کے گھر پر حملہ ان کی تباہی کا نقطہ آغاز بن گیا(ھود78-83: 11)۔حضرت موسیٰ فرعون جیسے جابر حکمران کے نزدیک ایک غلام قوم کے ایسے فرد تھے جن پر قتل کا الزام تھا۔آپ نے رسالت ملتے وقت اللہ تعالیٰ سے اس بات کا اظہار بھی کیا تھا(قصص33:28) ۔ اعلان رسالت کے بعد فرعون نے آپ کوقتل کرنے کا ارادہ کیا مگر اس کی دھمکیوں کے جواب میں آپ نے بتادیاکہ آپ مالک دوجہاں کی پناہ میں ہیں،(مومن27:40) اور فرعون ان سے دور رہے، (دخان20-21: 44)۔فرعون کبھی آپ پر ہاتھ نہ ڈال سکا۔جس روز اس نے یہ ارادہ کیا کہ وہ آپ پر اور آپ کی قوم پر ہاتھ ڈالے وہ دریا میں ڈبوکر ہلاک کردیا گیا اور قیامت تک کے لیے اس کو عبرت کا نمونہ بنادیا گیا، (یونس90-92: 10)۔ حضرت شعیب کی قوم ان کو سنگسار کرنا چاہتی تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی خاندانی طاقت کو ان کی قوم کی راہ میں رکاوٹ بنادیا کہ وہ آپ کو قتل کریں (ھود91:11)۔یہی معاملہ حضور کا ہوا جن کاخاندان کفار کی راہ میں رکاوٹ تھا کہ وہ آپ کو کوئی نقصان پہنچائیں۔ البتہ جب ابو لہب نے خاندان کا سربراہ بننے کے بعد آپ کو خاندانی پناہ سے محروم کیا تو کفار آپ کے قتل ، قید یا جلاوطن کرنے کی سازشیں کرنے لگے، مگر اللہ تعالیٰ نے ہر سازش ناکام بنادی، (انفال30:8)۔ آپ نے اللہ کے حکم سے ہجرت کی ، مگر اعلان کردیا گیا کہ کفار آپ کو نکالنے کی سازش کرنے کے جرم کے نتیجے میں اب اس سرزمین عرب میں نہ رہ پائیں گے۔یہ رسولوں کے باب میں اللہ کی وہ سنت ہے جو وہ کبھی نہیں بدلتا،(بنی اسرائیل76-77: 17)۔

قرآن کے ان اصولی بیانات اور رسولوں کے ان واقعات کے بعد یہ ماننا بعد مشکل ہے کہ ان تین آیات میں وہ رسول مراد ہیں جنھیں اپنی اقوام پر غلبہ دیا جاتا ہے اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے یہ اجازت دے دی کہ وہ انھیں قتل کردیں۔خاص کر یہ بات ذہن میں رہے کہ حضرت موسیٰ کے بعدبنی اسرائیل میں سب سے بڑے رسول حضرت عیسیٰ آئے۔ ان سے زیادہ یہودی کسی اور کو قتل کرنے کے خواہش مند نہیں ہوسکتے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ جب رومی گورنر پیلاطس نے حضرت عیسیٰ کی جان بچانے کا ایک موقع انھیں دیا تو انھوں نے ایک ڈاکو برابا کی جان بچانے کو ترجیح دی، (انجیل مرقس 6-15: 15)۔یہ الگ بات ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو قتل کرنے کا موقع انھیں نہیں دیا۔اس کے باجود یہود و نصاریٰ میں مسیح کے مصلوب کیے جانے ہی کی داستان پھیل گئی۔مگر اس کی تردید جس شان سے قرآن نے کی ہے (نساء 157:4)وہ بہت غیر معمولی ہے۔ قرآن نے واضح کردیاکہ مسیح کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنا کر انھیں آسمان پر اٹھالیا گیا،(آل عمران54-55: 3)۔

یہ ہے بنی اسرائیل میں آنے والے آخری رسول کا معاملہ ۔لیکن اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی جاسکتی کہ کیوں حضرت عیسیٰ کو بچاکر آسمانوں میں اٹھالیا جائے اور ان کے ہم عصر حضرت یحیےٰ ؑ کو بادشاہ کے ہاتھوں قتل ہونے دیا جائے۔سوائے اس کے کہ ان واقعات کو رسولوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے قانون کی روشنی میں سمجھا جائے۔یعنی حضرت عیسیٰ رسول اللہ تھے ، اسی لیے یہود ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اورحضرت یحییٰ صرف ایک نبی تھے جن کو وہ تحفظ حاصل نہ تھا جو رسولوں کو حاصل ہوتا ہے۔

اس ساری تفصیل اور پس منظر سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ان آیات میں رسولوں سے مراد یحیےٰ علیہ السلام جیسے انبیا ہیں نہ کہ عیسیٰ علیہ السلام جیسے رسول۔

دیگر دلائل

قرآن کریم میں بنی اسرائیل کے حوالے سے دیگر بیانات ،حدیث، صحف سماوی اور عقل عام بھی اس بات کی تائید میں کھڑے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہونے والے لوگ رسول نہیں بلکہ نبی تھے۔ قرآن پاک میں کئی مقامات مثلاََسورہ بقرہ آیت 91، سورہ اٰل عمران آیت نمبر112 اور 181سورہ نسا آیت نمبر155وغیرہ میں یہ وضاحت موجود ہے کہ جنلوگوں کو بنی اسرائیل قتل کرتے تھے وہ انبیا کرام ہی تھے۔ ہم طوالت سے بچنے کے لیے صرف سورہ بقرہ کے الفاظ نقل کررہے ہیں۔

قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِیَاءَ اللّہِ مِن قَبْلُ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن.
’’ان سے پوچھو کہ اگر تم ایمان والے ہو تے تو پہلے ہی کیوں اللہ کے نبیوں کو قتل کیا کرتے۔‘‘

حدیث میں جب بنی اسرائیل کے نظام کا ذکر کیا گیا ہے تو وہاں یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی خلافت و سیادت انبیا کے ہاتھ میں تھی۔ بخاری کی روایت ہے۔

عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:کَانَتْ بَنُوْ إِسْرَاءِیْلَ تَسُوْسُہُمْ الْأَنْبِیَاءُ ،کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ نَبِیٌّ، وَإِنَّہُ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ ۔
’’ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل کی سیادت و قیادت انبیا کے ہاتھ میں تھی۔جب کبھی کسی نبی کی وفات ہوتی تو اس کے بعد ایک نبی ہی اس کی جگہ سنبھالتا۔اور میرے بعد کوئی نبی نہیں،‘‘رقم3268۔

ظاہر ہے کہ جب ہر دور میں موجود ہی انبیا تھے تو قتل بھی وہی ہوئے ہوں گے۔قدیم صحف سماوی میں جن لوگوں کے قتل کا ذکر ہے ان میں سے دو افرانمایاں ہے۔ ایک یحیےٰ اور دوسرے زکریا(خیال رہے یہ وہ زکریا نہیں جوحضرت یحیےٰ کے والدتھے)۔ یہ دونوں ہی نبی تھے رسول نہیں تھے۔

ان سب کے بعد عقل عام بھی یہ بتاتی ہے کہ رسولوں کو اپنی اقوام کے ہاتھوں قتل نہیں ہونا چاہیے۔ رسول اپنی قوم میں اس چیلنج کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں کہ ان کی بات اگر نہیں مانی گئی تواس قوم پر ہلاکت کا عذاب آجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ قوم کے پاس رسول کے اس انتہائی سخت چیلنج کا سب سے آخری جواب کیا ہوسکتا تھا۔ یہی کہ خود رسول کوہلاک کردیا جائے۔اگر اللہ تعالیٰ رسولوں کی حفاظت نہ کرتے تو ان کی اقوام کا یہ قدم بالکل غیر متوقع نہیں تھا۔اس لیے عقل بھی یہ کہتی ہے کہ جس شخص کو قوم کی ہلاکت کی دھمکی کے ساتھ بھیجا جارہا ہے اسے خود تحفظ فراہم کیا جائے۔ اور جیسا کہ ہم نے اوپر قرآن اور تاریخ کے حوالے سے بیان کیا ، ایسا ہی ہوا ہے۔

ان وجوہات کی بنا ہم سمجھتے ہیں کہ نبی اسرائیل کے حوالے سے بیان کردہ ان آیات میں لفظ رسول انبیاہی کے لیے استعمال ہوا ہے اور بنی اسرائیل نے جن لوگوں کوقتل کیا تھا وہ عام انبیا تھے جو منصب رسالت پر فائز نہ تھے۔ ہاں یہ بات کوئی شخص دریافت کرسکتاہے کہ ان کو رسول کیوں کہا گیا۔ اس کا ایک جواب تویہی ہے کہ نبی بھی بہرحال اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوتے ہیں اور اسی کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ اس لیے ان پر اس لفظ کا لغوی استعمال قطعاً غلط نہیں جیسے فرشتوں پر اس کا استعمال غلط نہیں۔ تاہم ہمارے نزدیک بنی اسرائیل کے معاملے میں رسول کا لفظ دراصل ان کے اس فعل کی شناعت کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔اس لیے کے بنی اسرائیل ایک مسلمان گروہ تھا جس میں خدا کے پیغمبروں کا تصور بالکل واضح تھا۔ان پر یہ بات بالکل واضح تھی کہ یہ انبیا درحقیقت اللہ ہی کا پیغام پہنچارہے ہیں۔ یہ اُسی کے بھیجے ہوئے ہیں، لیکن اس علم کے باجود انہوں نے اللہ کا پیغام لانے والے ان انبیا کو قتل کردیا۔ان کا یہ فعل ایک ایسی ہستی کا قتل تھا جس کااللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ہونا یعنی رسول ہونا انہیں اچھی طرح معلوم تھا۔اللہ کی نسبت واضح ہوجانے کے بعد کسی کا قتل کردینا بہت بڑی بات ہے۔اس شناعت کے اظہار کے لیے قرآن کریم نے جگہ جگہ ایک دوسرا اسلوب بھی اختیار کیا ہے۔یعنی یہ نبیوں کو بغیر کسی حق کے قتل کرتے تھے۔مثلاََ سورہ آل عمران181 میں فرمایا:

وَقَتْلَہُمُ الأَنبِیَاءَ بِغَیْْرِ حَقٍّ .
’’اور ان کا نبیوں کو ناحق قتل کرنا (بھی ہم نے لکھ لیا ہے)۔‘‘

اسی بات کو سورہ بقرہ 61:2،آل عمران 31:3 اور112نیزالنساء155:4 میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہوسکتی کہ نبیوں کو حق کے ساتھ قتل کرنے کا کوئی امکان ہوسکتا ہے بلکہ یہ اظہار شناعت کا ایک اسلوب ہے۔ہمارے نزدیک ان آیات میں جس شناعت کو ’بغیر حق‘ کی قید سے واضح کیا گیا ہے ، اسے زیر بحث تین آیات میں رسول کا لفظ لاکر بیان کیا گیا ہے۔

ایک فیصلہ کن دلیل

جو تین آیات اس ضمن میں پیش کی جاتی ہے، انہی آیات میں سے ایک میں یہ بات پوری صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ بنی اسرائیل کے جن رسولوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے، ان سے مرادہی انبیائے بنی اسرائیل ہیں۔یہ سورہ بقرہ کی آیت 87ہے ۔ اوپر یہ آیت آدھی نقل ہوئی ہے۔ پوری آیت س طرح ہے۔

وَلَقَدْ آتَیْْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَقَفَّیْْنَا مِن بَعْدِہِ بِالرُّسُلِ وَآتَیْْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَأَیَّدْنَاہُ بِرُوحِ الْقُدُسِ أَفَکُلَّمَا جَاء کُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَہْوَی أَنفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیْقاً کَذَّبْتُمْ وَفَرِیْقاً تَقْتُلُون.
’’اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اورعیسیٰ بن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے اس کی تائید کی ۔توکیاجب کبھی کوئی رسول تمہارے پاس وہ چیزلے کرآیاجوتمہارے نفس کوپسندنہ آئی توتم نے تکبرکی راہ اختیارکی۔پھربعض کوتم جھٹلایااوربعض کوتم قتل کرتے تھے‘‘،(البقرہ2: 87)

اس آیت کا پہلا جملہ غور سے ملاحظہ فرمائیے ۔ اللہ تعالیٰ یہ بیان کررہے ہیں کہ ہم نے موسیٰ کے بعد پے در پے رسول بھیجے۔پھر آگے بیان ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض کو بنی اسرائیل نے قتل کیا اور بعض کی تکذیب کی۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے بعد پے در پے انبیا ئے کرام آئے تھے نہ کہ اصطلاحی معنوں مراد لیے جانے والے رسول ۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان آیات میں رسول کو اصطلاحی معنوں میں مراد لینے کے بجائے لغوی معنوں میں مراد لیا جائے ۔تبھی یہ آیت اپنے مفہوم کو درست طور پر بیان کرپائے گی ۔

یہ آیت ہمارے نقطہ نظر کی سچائی کا ایک ناقابل تردید ثبوت ہے۔تاہم جو لوگ ہم سے اب بھی اختلاف کرتے ہیں ہم ان سے یہ مودبانہ درخواست کریں گے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے بعد مسلسل رسول آتے رہے۔ظاہر ہے کہ ہم سے اختلاف کرنے والے رسول کی اس تعریف سے مطمئن نہیں ہوں گے جو ہم نے مضمون کے آغاز میں بیان کی ہے۔ اس لیے دیگر اہل علم نے رسول کی جو بھی تعریفیں بیان کی ہیں، ان میں سے وہ جس کو چاہیں درست مان لیں اور پھر ثابت کریں کہ موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل میں پے در پے وہ انبیا کرام تشریف لائے جنھیں اصطلاحی معنوں میں رسول کہا جاتا ہے۔

اہل علم پر تو ہمارامدعا واضح ہوچکا ہوگا لیکن عام قارئین کی سہولت کے لیے ہم تھوڑی سی وضاحت کرنا چاہیں گے۔ نبی و رسول الگ الگ منصب ہوتے ہیں یہ بات قرآن پاک سے ثابت ہے،(حج52:22)۔تمام اہل علم اس کو سمجھتے ہیں اور اپنی طرف سے نبی و رسول کا فرق متعین کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ رسولوں کے حوالے سے اصلاحی صاحب کے تحقیقی کام سے قبل سب سے زیادہ مروج اور مقبول عام تعریف یہ سمجھی جاتی تھی کہ رسول وہ ہستی ہے جو شریعت جدیدہ لے کر آئے۔ چاہے وہ شریعت پہلی دفعہ نازل ہوئی ہو یا اس قوم کے لیے نئی ہوجس کی طرف رسول کی بعثت ہوئی ہو۔

اب اس تعریف کو لیجیے اور دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ حضرت موسیٰ کے بعد سے لے کر نبی کریم تک کوئی نئی شریعت نہیں آئی۔ حضور سے پہلے آنے والا ہر بنی اور ہر رسول حضرت موسیٰ کی شریعت کی پیروی کرتا تھا۔اس تعریف کے مطابق حضرت موسیٰ کے بعد ان کی قوم بنی اسرائیل کی طرف کوئی اصطلاحی رسول آہی نہیں سکتا۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس آیت میں جن رسولوں کے پے در پے بھیجنے کا ذکر ہے وہ اصل میں انبیائے کرام ہی تھے جن کے لیے باوجوہ رسول کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

یہاں برسبسیل تذکرہ ہم یہ بھی واضح کردیں کہ اس مقبول عام تعریف کی رو سے خود حضرت عیسیٰ بھی منصب رسالت سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ نہ آپ شریعت موسوی سے ہٹ کر کوئی نئی شریعت لائے تھے اور نہ آپ کی بعثت بنی اسرائیل سے باہر کسی اور قوم کے لیے ہوئی تھی۔آپ انجیل کے ساتھ تورات کی تعلیم دینے والے اوربنی سرائیل کی طرف بھیجے گئے رسول تھے۔حضرت مریم کو حضرت عیسیٰ کی بشارت ، ان کے منصب کے ساتھ ،ان الفاظ میں دی گئی تھی۔

وَیُعَلِّمُہُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرَاۃَ وَالإِنجِیْلَ.وَرَسُولاً إِلَی بَنِیْ إِسْرَاءِیْل.
’’اور اللہ تعالیٰ انہیں کتاب و حکمت یعنی وتورات و انجیل کی تعلیم دے گا اور بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گا۔‘‘،(آل عمران48-49: 3)

انجیل میں بھی حضرت عیسی نے صاف صاف کہا ہے کہ میں تورات کو منسوخ کرنے نہیں پورا کرنے آیا ہوں(متی (17:5۔اگر رسول تعریف اگر یہی ہے کہ وہ نئی شریعت لاتا ہے تو دیکھ لیجیے مسیح نہ کوئی نئی شریعت لائے تھے اور نہ کسی نئی قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ مذکورہبالا تعریف کی رو سے وہ رسول نہ ہوئے ، مگر قرآن انہیں بڑے اصرار سے رسول کہتا ہے اور مذکورہ بالا آیت میں بھی رسول ہی کہا ہے۔

یہی وہ مسائل ہیں جن کی بنا پر اصلاحی صاحب نے قدیم نقطہ نظر سے ہٹ کر قرآنی دلائل سے یہ واضح کیا کہ رسالت کا قرآنی تصور کیا ہے۔الحمد للہ اب یہ نقطہ نظر اپنی قوت اور مضبوطی کی بنا پر عوام و خواص میں تیزی سے اپنی جگہ بنارہا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق آیت

اب اس آیت کو لیتے ہیں جو نبی کریم سے متعلق ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ محمدصلی اللہ علیہ وسلم توبس ایک رسول ہیں، ان سے پہلے اوربھی رسول گذرچکے ہیں۔پس اگریہ وفات پاجائیں یاقتل ہوجائیں توکیاتم الٹے پاؤں واپس چلے جاؤگے اور جوکوئی بھی الٹے پاؤں واپس چلاجائے گاوہ اللہ کاکچھ بھی نقصان نہ کرے گا۔‘‘،(سورہ آل عمران144:3)۔

بظاہراس آیت سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اس آیت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل ہوجانے کو بطور ایک امکان کے بیان کیا گیا ہے ۔تاہم زبان و بیان کا مسلمہ اصول یہ ہے کہ بعض اوقات محال چیزوں کے امکانات بطور ایک مفروضے کے بیان کردیے جاتے ہیں۔ لیکن ایسے بیانات سے قائل کا منشا ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ چیزوں کے واقع ہوجانے کا بھی قائل ہے۔

کسی اور کلام کو چھوڑیے خود قرآن مجید میں اس کئی مثالیں موجود ہیں جن میں ایسی چیزیں بیان ہوئی ہیں جن کا وقوع ممکن نہیں۔ ہم حضور ہی کے حوالے سے صرف دو مقامات نقل کررہے ہیں۔

وَلَقَدْ أُوحِیَ إِلَیْْکَ وَإِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِک لَءِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّعَمَلُکَوَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْن
’’ اور(اے محمد) تمھاری طرف اور (ان پیغمبروں) کی طرف جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں کہ یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمھارے عمل برباد ہوجائیں گے اور تم زیاں کاروں میں ہوجاؤ گے۔‘‘،(زمر65:39)
وَلَءِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاء ہُم مِّن بَعْدِ مَا جَاء کَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّکَ إِذَاً لَّمِنَ الظَّالِمِیْنَ
’’ اور اگر تم اس علم کے بعد، جو تمھارے پاس آچکا ہے،ان(اہل کتاب) کی خواہشوں کی پیروی کروگے تو بلاشبہ تم ظالموں میں سے ہوجاؤگے۔‘‘،( البقرہ 145:2)

یہ دونوں آیات حضور کے حوالے سے مفروضہ کے اسلوب میں جو کچھ بیان کررہی ہیں کیا ان کو دیکھ کر کوئی شخص معاذ اللہ حضور کے لیے شرک یااہل کتاب کی خواہشات کی پیروی کاکوئی امکان ثابت کرنا چاہے گا؟ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں نہ ایسی کسی آیت کو اس مقصد کے لیے پیش کیا جاسکتا ہے۔ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس طرح کے اسلوب سے کسی چیز کے امکانات ڈھونڈنا درست نہیں۔اس پس منظر میں کم از کم اسورہ آل عمران کی مذکورہ بالا آیت کو اس بات کے ثبوت میں پیش کرنا کسی طور بھی درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کا قتل قرآن پاک سے ثابت ہے۔

بہرحال تمام آیات کا مدعا اور موقع محل ہم نے واضح کردیا ہے۔اب بھی اگر کوئی ان آیات سے رسول کے قتل کا ثبوت فراہم کرتا ہے تو اس کی مرضی ۔ ہم طالبِ علم تو اس طرح کی سخن فہمی کی بس داد ہی دے سکتے ہیں۔

 ____________________

B