[ دینِ اسلام پر کیسے عمل ہو؟ یہ شریعت اور قانون کاموضوع ہے ۔یہ دین کیسا ہو ؟ یہ حقیقت صرف قرآنِ مجیدہی سے معلوم ہو سکتی ہے۔کاروانِ زندگی میںیہی حقیقت بیان ہوئی ہے ۔اس کتاب کی ہر صحیح بات استاذِ گرامی اور الامام الاستاذکی علمی مجلسوں اور تصنیفات سے ماخوذ ہے ‘میری حیثیت بس ایک ناقل کی ہے۔]
اللہ تعالیٰ قرآنِ مجیدمیں اپنی بیان کردہ نشانیوں کو سمجھنے ‘ ان سے سبق حاصل کرنے اور فائدہ اٹھانے کے لیے عقل کو لازم قرار دیتے ہیں:(اپنی صفات اور حقوق میں دوسروں کی حصہ داری کے بارے میں اللہ تمھیں متنبہ کرتاہے اور) وہ تمھارے لیے خود تمھارے اندر سے ایک تمثیل بیان کرتاہے کہ کیا ہم نے تم کو جو رزق اورفضل بخشاہے اس میں تمھارے مملوکوں میں سے بھی کچھ شریک ہیں کہ تم اور وہ اس میں برابر کے حقوق رکھنے والے بن گئے ہو‘اور جس طرح تم اپنوں کا لحاظ کرتے ہو اسی طرح تم ان کا بھی لحاظ کرتے ہو؟( یعنی ایسا نہیں ہوتاکہ جو رزق اللہ نے تمھیں دے رکھاہے اس میں تم اپنے غلاموں کے لیے بھی اسی طرح کی حصہ داری تسلیم کر لو ۔۔ تو پھر یہ کیوں کر ہو سکتاہے کہ خدا کے حقوق میں تم اس کی مخلوقات میں سے کسی کو شریک بنا لیتے ہو۔یہ وضاحتِ مقصد کے لیے ایک ایسی دلیل ہے کہ اس کے بعد شرک کی غلاظت سے آلودگی کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ) اسی طرح ہم اپنی آیات کی تفصیل بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کا م لیتے ہیں ( یعنی یہ دلائل انھی کے لیے کارآمد ہو سکتے ہیں جو عقل سے کام لیں ۔وہ لوگ جنھوں نے اپنی عقلوں پر پردے ڈال کر او ر دلوں پر تالے لگاکر انھیں معطل کررکھاہے ان کے لیے یہ دلیلیں کارآمد نہیں ہو سکتیں۔ (۳۰: ۲۸)
اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتابِ ہدایت میں بیان ہونے والے حقائق بالکل واضح ہیں مگر‘کسی بات کو تسلیم کرنے کے لیے اس کا صرف واضح ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے دو باتیں از بس ضروری ہیں ۔ایک یہ کہ مخاطب صاحبِ عقل ہو اور دوسرے یہ کہ وہ حقائق کوسننے ‘ سمجھنے اور ماننے کے لیے اپنی عقل بھی استعمال کرے کیوں کہ:( فطری اور بدیہی حقائق کی)یاددہانی تو اہلِ عقل ہی حاصل کرتے ہیں( لہٰذا علم و عقل سے عاری لوگ واضح سے واضح بات سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرپاتے) (۳۹: ۹) :اللہ کے نزدیک بد ترین جانور یہ گونگے بہرے لوگ ہیں جو عقل سے کا م نہیں لیتے(۸: ۲۲)انسان کا امتیازی وصف سننا اور سمجھنا ہی ہے ۔اس وصف سے محروم ہو جانے کے بعد وہ بس دو ٹانگوں پر چلنے والاایک جانوربن کر رہ جاتا ہے ۔اورجانور بھی بدترین جانور۔۔۔اس لیے کہ جانور خواہ کتنا ہی برا ہووہ اپنی جبلت پر قائم رہتاہے لیکن انسان اپنی خصوصیتِ نوعی سے محروم ہو کر حیوانیت میں چوپایوں کو بھی مات دے دیتاہے۔
واقعہ یہ ہے کہ انسان اگر عقل و بصیرت سے کا م لے تو اس کی عظمت و عروج کی کوئی حد نہیں اور اگر وہ اس خوبی سے محروم ہو جائے تواس کی پستی کی بھی کوئی انتہا نہیں ۔
ہدایت وضلالت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ اس نے ہر انسان کے اندر خیر و شر کو سمجھنے اور اس میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔جو لوگ ا س کو زندہ رکھتے ہیں اور اس سے کام لیتے ہیں ‘انھیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق ملتی ہے ‘درجہ بدرجہ ان کے علم میں ترقی ہوتی ہے اور ان پر ہدایت کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں ۔اور وہ لوگ جو اللہ کی اس نعمت کی قدر نہیں کرتے اور اپنی آنکھیں اور کان بند کرکے(اپنی سننے اورسمجھنے کی صلاحیتوں کو معطل کرکے اور عقل کو خیر باد کہہ کر )خیر و شر میں فرق و امتیاز کے وصف کو ضائع کربیٹھتے ہیں ‘انھیں مزید ہدایت ملنا تو در کنار ‘قانونِ الٰہی یہ ہے کہ جو ہدایت انھیں فطرت سے ملی ہوئی ہوتی ہے وہ بھی سلب ہو جاتی ہے ۔حضرتِ مسیح علیہ السلام نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے کہ جوغلام ایک پیسہ میں چور ثابت ہو اس کا مالک اسے ایک لاکھ روپے کی امانت کیسے سونپے گا!
اس بارے میں یہ بات ہر وقت پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ بسا اوقات عقل کو آفات لاحق ہو جاتی ہیں۔غصہ ‘ لالچ، شہوات‘خواہشات اور جذبات اکثر اوقات عقل پر غالب آکراسے معطل اور مفلوج کر دیتے ہیں ۔ان صورتوں میں عقل صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتی اور جذبات و شہوات کی مغلوبیت سے انسان کو انتہائی احمقانہ اور خودغرضانہ فیصلے کرنے کے لیے دلائل دینا شروع کردیتی ہے ۔اور ان صورتوں میں بعض اوقات انتہائی بے عقلی کا کام بھی بہت معقول نظر آنے لگتا ہے۔اوراچھا بھلا صاحبِ عقل انسان وہ کچھ کربیٹھتاہے جس کام کی کسی بے وقوف شخص سے بھی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ایساشخص جب ہوش میں آتاہے اور اس کی عقل ان آفات سے چھٹکارا پا کر صحیح طریقے سے سوچنے کے قابل ہوتی ہے تواسے لازماً اپنے کیے پر حیرانی اور ندامت ہوتی ہے ۔وہ شخص اگر واقعی سلیم الفطرت ہو تواسے اعترافِ حقیقت میں ذرا بھی مشکل پیش نہیںآتی۔اس لیے انسان جب عقل کو ان آلائشوں سے پاک کرکے غور کرتاہے تو بالاخر اسی نتیجے پر پہنچ جاتاہے جہاں قرآن اسے پہنچانا چاہتاہے۔ورنہ یہ ہوتاہے کہ بندہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتاہے کہ وہ خدا کی بندگی کررہاہے دراں حالیکہ وہ اپنے نفس کو الٰہ بنا کر اس کی پرستش کررہا ہوتاہے۔
قرآنِ مجید کی ساری دعوت عقل و فطرت پر مبنی ہے ۔اس سے دور ہونے اور اس کے سمجھ میں نہ آنے کی وجہ ‘جیسا کہ اوپر بیان ہوا ‘عقل کی مغلوبیت ‘اس کا تعطل ‘ نفس کی پرستش اور خواہشات کی پیروی ہے
اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب(یہود و نصاریٰ) کی گمراہیوں کو زیرِ بحث لاتے ہوئے قرآنِ مجیدمیں ارشاد فرمایا ہے کہ:کیا تم نے دیکھا اس کو( جسے اللہ نے اپنی کتاب و شریعت سے نوازالیکن اس نے اس نعمت کی قدر نہ کی اور خواہشاتِ دنیاکے اسیر ہو کر خدا کی ہدایت کو نظر انداز کردیا ۔یہ وہی ہے) جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے او ر اسے اللہ تعالیٰ نے علم کے باوجود گمراہ کردیا!( یعنی ان کا معاملہ یہ نہیں کہ انھیں علم کی روشنی میسر نہیں آئی بلکہ حادثہ یہ ہوا کہ انھوں نے خدا کے مقابلے میں اپنی خواہشوں اور بدعات کی پیروی کی۔ان کے اس جرم کی پاداش میں اللہ نے انھیں نفس کے حوالے کردیا ۔اللہ کی اس عظیم نعمت کی ناقدری کی سزا انھیں یہ ملی کہ یہود و نصاریٰ کایہ طبقہ ہدایت کی روشنی سے محروم ہو گیا) اور( اللہ نے) اس ( اس قبیل کے ہر شخص) کے کان اور اس کے دل پر مہر کردی اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ! بھلا ایسوں کو کون ہدایت دے سکتاہے اس کے بعد کہ اللہ نے ان کو گمراہ کردیا ! کیا تم لوگ دھیان نہیں کرتے (کہ اللہ تعالیٰ انھی لوگوں کو ہدایت کی نعمت سے سرفراز کرتے ہیں جو اس کی قدر کرتے ہیں۔ جولوگ علم ومعرفت کی دشمنی اور خواہشاتِ نفس کی غلامی میں اس ہدایت کی ناقدری کرتے ہیں‘ان کے لیے وہ ہدایت ہی ضلالت کا پھندا بن جاتی ہے اور وہ خدا کے رسول اور اس پر نازل ہونے والی کتاب پر بے سروپا اعتراض کرکے اپنے ضمیر کو سلانے اوردوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں) (۴۵: ۲۳)
وہ شخص جو اپنے نفس کواپنا الٰہ بناتاہے وہ دوکام کرتاہے۔ایک یہ کہ وہ صحیح اور غلط کا فیصلہ اللہ کے بجائے اپنے نفس کو پوچھ کر کرتاہے۔اور دوسرے یہ کہ وہ اپنی ترجیحات بھی اللہ کے مقابلے میں اپنے نفس کی پیروی میں طے کرتاہے۔اس کے پیچھے حبِ دنیا (مال ‘اولاداور شہرت و اقتدار) سب سے بڑا محرک ہوتاہے۔یہ چیزیں جب اللہ اور رسول کی محبت کے مقابلے میں آجائیں تو ترجیح ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کو حاصل ہونی چاہیے۔
اسلام کا خلاصہ ‘دین کی حقیقت اور اﷲ تعالیٰ کا پہلا اور آخری مطالبہ عبادت ہے۔ عالم کے پروردگار کا فرمان ہے کہ:میں نے جنوں اور انسانوں کو( اپنی کسی احتیاج اور ضرورت کے لیے پیدانہیں کیابلکہ) صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت (بندگی) کریں(یہی چیز ان کی خلقت کی غائت اور ان کی زندگی کا نصب العین ہے۔اس کا پورا ہونا ہر حال میں مطلوب ہے۔اس کی خاطر تو وہ ہر چیزکو قربان کر سکتے ہیں لیکن اسے کسی چیزپر بھی قربان نہیں کرسکتے۔اسی لیے) نہ میں ان سے یہ چاہتاہوں کہ وہ رزق کا سامان کریں ( اس لیے کہ انسان خود اپنے یا اپنی آل اولاد کی خاطر رزق حاصل کرنے کے لیے جو جدو جہد کرتا ہے وہ اس عالمِ اسباب میں اللہ کی ہدایت کا تقاضا ہے ۔اس جدو جہد میں اس کی حیثیت ایک آلہ اور ذریعہ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔اس کی کوششوں کو بارآور کرنے والا میں ہی ہوں۔اگر میرا فضل شاملِ حال نہ ہو تو اس کی تمام تر صلاحیتوں اور کوششوں کے باوجود ساری محنت اکارت ہو کر رہ جائے ) اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں( بلکہ اس کے برعکس وہ اگر خدائے واحد کی بندگی پر ڈٹے رہیں تو جان لیں کہ رازقِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے ‘سو وہ غیب سے رزق کی راہیں کھولے گا ۔وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے حوالے سے کسی بھی پہلو سے محتاج یا عاجز نہیں ہے)بلاشبہ اللہ ہی روزی رساں‘ زور آور اورقوت والا ہے(۵۱: ۵۶۔۵۸)
عبادت اصل میں عاجزی اور پستی ہے(اصل العبویۃ الخضوع والتذلل) انسان اگر اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان رکھتاہے اور وہ اس کی ساری صفات کے صحیح شعور کے ساتھ اسے مانتا ہے توخدائے واحد کی بندگی کے نتیجے میں اس کے اندر انتہائی محبت اور انتہائی خوف کے جذبات پیداہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے محبت کی بنیاد اس کی بے پناہ اور بے پایاں نعمتوں کا احساس ہے جو اسے بے مانگے اور بغیر استحقاق کے ملی ہیں اور خوف کی بنیاد کسی ڈراؤنی ہستی کا خوف نہیں بلکہ اس کا سبب یہ احساس ہے کہ کہیں اس کی بے پروائی ‘ غفلت ‘سرکشی اور ناشکری کے نتیجے میں اس سے یہ نعمتیں چھن نہ جائیں ۔گویا اللہ تعالیٰ کی بندگی کا صحیح شعور بندے کو بے پروائی اور غفلت سے بچاتا ‘سرکشی سے باز رکھتا اورشکر گذاری کو اس کا شب و روز کا وظیفہ بناتاہے۔پھر بندے کو اللہ پرور دگارِ عالم کی یادہی سے سکون حاصل ہوتاہے ۔وہ اس کی ناراضی سے ڈرتا اور ہر نفس اسی کا ہو کررہنے کو زندگی سمجھتاہے۔وہ پھر اپنے ہر معاملے کواسی کے سپرد کرتا اور اس کے ہر فیصلے کے سامنے دل کی پوری رضامندی کے ساتھ سر جھکا دیتا ہے۔یہ وہ تبدیلیاں ہیں جو واقعی خدا کی بندگی اختیار کرنے کے نتیجے میں اس کے باطن میں رونماہوتی ہیں ۔گویا یہ باطن کی عبادت ہے ۔اسی سے خدا کی مطلوب سچی بندگی کا آغاز ہوتاہے۔یہ بندگی بندے کے اندرسے باہر کی طرف سفر کرتی ہے۔ اور جیسے اس کا باطن اللہ تعالیٰ کے حضور پوری آمادگی کے ساتھ جھکا ہوا ہوتاہے اسی طرح اس کا ظاہر بھی اللہ پرور دگارِ عالم کے سامنے جھکنے کے لیے بے قرار ہو جاتاہے۔اور پھر شریعت اسے بتاتی ہے کہ خدا کی بندگی کا صحیح اورپسندیدہ طریقہ کیا ہے۔
خدا کی بندگی کی بنیادتقویٰ ‘مطلوب رویہ احسان اور آخری نتیجہ تزکیہ نفس ہے۔
تقویٰ حدود شناسی کا نام ہے ۔اسے خدا سے ڈرنے کے معنوں میں استعمال کیا جاتاہے ۔یہ بات یہاں پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اللہ سے ڈرنے اور بندوں سے ڈرنے میں بڑا فرق ہے ۔اس سلسلے میں پہلی بات یہ پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ بندے پر خدا کے جتنے (اورجیسے ) حقوق ہیں وہ کسی اور کے نہیں ہو سکتے ۔دوسری یہ کہ خدا نے اپنی حدوں کو پامال کرنے اور انھیں توڑنے کی جو سزا مقرر کی ہے وہ تمام تر بندوں کے دنیوی فائدے اور اخروی فلاح و نجات کے لیے ہے۔ان حدود کی پابندی سے اللہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ اس کا سارا فائدہ بندوں ہی کو ہوتاہے۔ اور تیسری یہ کہ کبھی بھی کوئی اللہ تعالیٰ کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا:اور تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو ‘وہ تمھارے ساتھ ہوتاہے اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو وہ سب کو (اور سب کچھ )دیکھتاہے( کسی بھی حال میں تمھارا خیر و شر اس کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتا) (۵۷: ۴) اور چوتھی بات یہ کہ خدا کی پکڑ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔وہ دنیا اور آخرت دونوں میں جب چاہے اور جتنی چاہے سزا دے سکتاہے۔ان باتوں کو سامنے رکھیے اور اللہ تعالیٰ کی اہلِ ایمان کو دی گئی اس ہدایت کو سمجھیے کہ:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور نہ مرو تم مگر اس حال میں کہ تم اسلام پر ہو(۳: ۱۰۲)اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی خشیت کا حق ادا کرنا بندوں کے بس ہی میں نہیں ہے ‘اسی لیے دوسری جگہ پر یہ وضاحت فرما دی کہ:جہاں تک ہوسکے تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو(۶۴: ۱۶) بندگی کے تقاضے پورے کرنے کی جو ذمہ داری انسان پر ڈالی گئی ہے ‘بے شک وہ ایک بھاری ذمہ داری ہے مگر‘اس کے بھاری ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عنایت کا یہ پہلوبھی یاد رکھنا چاہیے کہ :اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا(۲: ۲۸۶)جو چیزاس کے حدود و اختیار او رامکان سے باہر ہے اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔اسی طرح دین وشریعت میں مجبوریوں کی صورت میں رخصتیں بھی اسی لیے دی گئی ہیں کہ بندوں پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈالا جائے جسے وہ اٹھانہ سکتے ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس محبت اور انکسار کو صرف اور صرف اﷲ(اوراس کے رسول ) ہی کے لیے خاص کردینا اور اس میں کسی بھی درجے میں دوسروں کو شریک نہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے (اور یہ انتہا نہ مطلوب ہے اور نہ بندگی کا لازمی تقاضا ہے)والدین ‘ بہن بھائیوں ‘ بیوی بچوں اعزا واقارب اور دنیاو ی ما ل و منال سے محبت اور ان کے لیے ایثار و انکسار اور میلان ایک ایسا معاملہ ہے جس میں ہر شخص اپنے آپ کو مجبور پاتاہے ۔اس باب میں بندہ مومن سے بس اتنا تقاضا ہے کہ جب کبھی ان کی محبت اﷲ اور اس کے رسول کی محبت کے مقابل میں آجائیں تو ترجیح ہر حال میں اﷲ اور اس کے رسول کو حاصل ہوگی ۔اگر ایسا ہو توپھر اﷲ او ر رسول کی محبت کے ساتھ ان محبتوں کا جمع ہونا بندگی کے تقاضوں کے خلاف نہیں ہے ‘بلکہ یہ عین دین کا تقاضا قرار پاتی ہیں اور خدا کی بندگی میں معاون ثابت ہوتی ہیں ۔بس یہ خیال رہے کہ یہ اور اس طرح کی ساری محبتیں ہر حال اور ہر صورت میں اﷲ او راس کے رسول کی محبت کے تابع رہیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ اس کی پہلی ترجیح قرارپائے ۔
کیا اﷲ واقعی بندہ مومن کی پہلی ترجیح بن گیا ہے ؟ اس سوال کا جواب( اور اس کی پہچان) یہ ہے کہ بندہ مومن کے دل میں اﷲ (پر سچا ایمان )اور خوفِ دنیا اور بے یقینی اکھٹے نہیں ہو سکتے ۔اگر اﷲ پر سچا ایمان موجود ہے تو پھر Fear & Frustration کے اس کے ساتھ باہم یک جا ہو نے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔پھراسے وہ اطمینانِ قلب حاصل ہوتاہے جوخد کی یاد کالازمی تقاضا ہے:سن لوکہ اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کوطمانیت حاصل ہوتی ہے(۱۳: ۲۸) اگردلوں کا اطمینان ‘ایمان کی روشنی اور شرحِ صدر کی نعمتیں مطلوب ہیں تو ان کا واحد ذریعہ اللہ تعالیٰ سے لازوال اور بے عیب محبت اور اور اس کے حضور بے ریا عجز و انکسار ہے۔
اﷲتعا لیٰ اگر بندہ مومن کی پہلی ترجیح بن جائیں توپھر خد ا کا بندے سے سچا تعلق قائم رہتا ہے ‘ اسے کبھی مایوسی کا سامنا نہیں کرناپڑتا اور خدا کے ہاں اس کی بڑی قدر ہوتی ہے۔
ہمار ا عام طور پر(الا ما شاء اللہ) حال یہ ہو تاہے ۔ہم اپنی حاجات و ضروریات کے لیے اﷲ کے سوا ہر در پر دستک دیتے ہیں اور ہر ایک کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے ہیں ۔یہا ں تک کہ دنیوی مقاصد کے حصول کے لیے ہم دین اور اخرت کے تقاضوں کوبھی پسٍ پشت ڈالنے سے گریز نہیں کرتے۔ اور جب چاروں طرف سے ناکام اور کسی حد تک مایوس ہو جاتے ہیں توبا دلِ نخواستہ آخری چارہ کار کے طور پر اﷲ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں ۔ معمولی غور و فکر ہی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس صورت میں ہماری پہلی ترجیح اﷲ تعالیٰ نہیں تھابلکہ ہم اپنی ضروریات کی تکمیل اور خواہشات کی تسکین کے لیے زمینی سہاروں سے کسی حد تک مطمین اور ان کے بارے میں پر امید تھے مگر‘ ان سہاروں نے جب مایوس کیا اور ہمارے کسی کام نہ آئے توپھر ہمیں خدا یا د آیا۔ہماری پہلی ترجیح اگر اﷲتعالیٰ ہوتے تو ہم اپنی ہر ضرورت اور ہر خواہش کی تکمیل کے لیے ادھرادھردیکھنے کے بجائے دنیوی ذرائع و اسباب کو ظاہری سہارا تصور کرتے اصلاً ہمارا پہلا اور آخری سہارا اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ہی ہوتی۔
دین میں جو ایمان مطلوب ہے وہ واقعی اور حقیقی ایمان ہے ۔اسی لیے قرآنِ مجیدمیں اسلام قبول کرنے والوں سے کلام کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ اسلوب اختیار کیا کہ انھیں پہلے:اے ایمان والو(کے لقب سے مخاطب کیا اور پھر اس کے بعد فرمایا کہ)ایمان لاؤ اللہ پر ‘اس کے رسول پر اوراس کی کتاب پر جواس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس نے پہلے اتاری ۔اور جواللہ ‘اس کے فرشتوں‘ اس کی کتابوں‘ اس کے رسولوں اورروزِ آخرت کا انکار کرے وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا(۴: ۱۳۶)
اس کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اقرار (کہ میں مسلمان ہوں) محض ایک رسمی ا ور ابتدائی(لیکن نہایت ضروری)کارروائی ہے ۔اس اقرار کے بعد ایمان کے مدعی سے لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ دین وشریعت کی ہدایت کے مطابق اچھے اعمال سر انجام دے او ر اپنے ماحول اور دائرہ کار میں دوسروں کوحق اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کرتا رہے ۔اگر ایمان لانے کے بعدوہ عملِ صالح نہیں کرتا تواسے نہایت سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے کہ اس کے ایمان لانے کے عمل میں کہیں کمی موجود ہے ۔ ایمان لانے کے بعد بے عملی دراصل بے پروائی ‘ سرکشی اور زبانی اقرار کا عملی انکار ہے ۔یہ رویہ ایمان اور اسلام کے منافی ہے۔ اور اگر وہ دوسروں کو حق اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت نہیں کرتا تواس کامطلب یہ ہے کہ وہ جوعملِ صالح کررہا ہے وہ دین کے مطلوب معیار پر پورا نہیں اترتا اور اس میں کو ئی ظاہری یا مخفی نقص موجود ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا عمل دین کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
ایمان لانے کا عمل کوئی سادہ واقعہ نہیں ہے ۔ یہ فکر و عمل کی وہ قلبِ ماہیت ہے جس کے کچھ نتائج لازماً نکلتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں جو ایمان لانے کا ذکر ہوا ہے وہاں ایمان سے مراد حقیقی ایمان ہے نہ یہ کہ چند رسومات کی ادائیگی کے ساتھ محض زبانی اقرارپر اکتفا کرلیا جائے ۔
یہ بات بہت اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ ایمان اور کفر ایک جگہ اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔:اور جو ایمان کے ساتھ کفر کرے گا ( اور خدا اور رسول کے صریح احکام کے خلاف محض اپنی خواہشات کی اتباع میں قانون و شریعت ایجاد کرکے اس پر عمل پیر ا ہوگا‘تو ایسا ایمان اللہ کی بارگاہ میں ناقابلِ قبول ہے اور) اس کا عمل ڈھے جائے گا اور وہ آخرت میں نامرادوں میں سے ہوگا(۵: ۵)لہٰذا:جن لوگوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا اور اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے ‘ ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں ہوگی ۔یہی لوگ اصلی گمراہ ہیں(۳: ۹۰)
یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ کفر یہی نہیں ہے کہ بندہ کسی چیز کا زبانی انکار کردے۔کفریہ بھی ہے بندہ مان لینے کے بعدایمان کے تقاضوں کے برخلاف رویہ اختیار کرے۔اور کفر یہ بھی ہے کہ بندہ دین و آخرت کے بارے میں بے پروا ہو جائے اورکفر یہ بھی ہے کہ بندہ خدا کے احکام کے مقابلے میں غفلت ‘ بے پروائی اور سرکشی کا رویہ اختیار کرے۔اورکفر یہ بھی ہے کہ کتابِ الہٰی کی جو بات اپنی خواہشات کے مطابق ہو وہ تو مانی جائے اور جو بات خواہشات کے خلاف ہو اسے پسِ پشت ڈال کر بے عملی کا مظاہرہ کیا جائے ۔اور بے پروائی اورسرکشی کی روش کواپنا وطیرہ بنا لیاجائے۔
خواہشاتِ نفس کی پیروی میں اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات کو نظر انداز کرکے اس طرح کا من مانا ایمان اللہ تعالیٰ کے ہاں قابلِ قبول نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں آخرت میں وہی ایمان قابلِ قبول ہوگا جو اس کی شرائط کے مطابق ہوگا۔
ایمان کا لفظ عربی زبان میں صدق واعتماد کے معنی میں استعمال ہوتاہے ۔ایمان اپنی حقیقت کے اعتبار سے تمام لوازم و شرائط اور پورے یقین ‘اعتماداور اعتقاد کے ساتھ اللہ کو ماننے کا نام ہے۔اس طرح کے ایمان کی پہچان یہ ہے کہ دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کے بعد اس کا قول او رعمل اس کے گواہ بن جاتے ہیں ۔ قول و عمل کی گواہی بندے کے ایمان کی قبولیت کے لیے ایک لازمی شرط ہے۔ایسا بھی ہوتاہے کہ بسا اوقات قول اس کے دل کی تصدیق اور ایمان کے تقاضوں کے خلاف ہوتاہے ۔قول کو صداقت کے محل پر قائم رکھنے والی قوت صرف اور صرف عمل ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایمان ہر حال میں عمل کے ساتھ جڑا رہے۔یہی وہ چیزہے جوہمیں من مانا ایمان اختیار کرنے سے بچا سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجیدمیں اکثر مقامات پر جب ایمان کا ذکر ہوا ساتھ ہی عمل (صالح) کی شر ط بھی عائد کردی گئی۔
قرآنِ مجیدسے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم سے پہلی امت یہود کا جب تورات پر ایمان بس زبانی اقرار تک محدود ہو کر رہ گیا اور عملاً انھوں نے اس کی تکذیب کردی توقرآن کہتاہے کہ: ان لوگوں کی تمثیل جن پر تورات لاددی گئی پھر انھوں نے اس کو نہ اٹھایا‘اس گدھے کی ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو (کہ جیسے گدھے کو اپنے اوپر لدی کتابوں کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں کیا ہے ‘ اسی طرح یہود بھی حاملِ تورات ہونے کے باوجود اس میں درج اللہ کے احکام کی پروا نہیں کرتے اور زبان سے اقرار کے باوجود ان کے خلاف عمل کرتے ہیں ) کیا ہی بری تمثیل ہے اس قوم کی جس نے ( زبانی اقرار کے بعد) اللہ کی آیات کی( ان کے خلاف عمل کرکے) تکذیب کی !اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا( اس طرح کے لوگ ہمیشہ ٹھوکریں کھانے کے لیے ہوائے نفس حوالے کردیے جاتے ہیں) (۶۲: ۵)
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیاکہ تم:اپنوں کا خون نہ بہاؤ گے اور اپنوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالو گے۔پھر تم نے ان باتوں کا اقرار کیا اور تم اس کے گواہ بنے ۔پھر (اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کومخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ یہ) تم ہی لوگ ہو کہ اپنوں کو قتل کرتے ہواور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کی بستیوں سے نکالتے ہو۔پہلے ان کے خلاف حق تلفی اور زیادتی کرکے ان کے دشمنوں کی مدد کرتے ہو۔پھر اگر وہ تمھارے پاس قیدی بن کرآتے ہیں توفدیہ دے کر انھیں چھڑاتے ہوحالانکہ سرے سے ان کا نکالنا ہی تمھارے لیے حرام تھا ۔کیا تم کتابِ الہی کے ایک حصے پر ایمان رکھتے ہو اور دوسرے حصے کا انکار کرتے ہو ؟جو لوگ تم میں سے ایسا کرتے ہیں ‘ ان کی سزا دنیا کی زندگی میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں اور آخرت میں یہ شدید ترین عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے ۔یہی وہ لوگ ہیں کہ جنھوں نے دنیاکی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دی اس لیے نہ تو ان کا عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو کوئی مدد ہی پہنچے گی۔ (۲: ۸۴۔۸۶)
بنی اسرائیل کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ انھوں نے کبھی تورا ت کی کسی ایک آیت کا بھی زبانی انکار نہیں کیا ۔وہ بس تورات کے احکام کے بارے میں غفلت ‘بے پروائی اور سرکشی کا رویہ اختیارکرتے تھے‘ان کالحاظ نہیں رکھتے تھے اور عمل کے مواقع پر انھیں نظر اندازکرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے اسی رویے یعنی بے پروائی اور بے عملی کو کفر قرار دیاہے ۔
تورات میں بنی اسرائیل کے لیے جس طرح فدیہ دے کرقیدی چھڑانے کا حکم ہے اسی طرح یہ ممانعت بھی موجودہے کہ وہ اپنے بھائیوں کا نہ خون بہائیں گے اور نہ انھیں ان کی بستیوں سے نکالیں گے۔ انھوں نے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف دشمنوں کی مدد کرکے انھیں گھروں سے نکالااور انھیں قتل کیااور تو رات کے اعمال کو سربازار پامال کیا‘اور جب اپنے ہی بھائی دشمنوں کے ہاتھوں قیدی بن گئے توانھیں فدیہ دے کر چھڑا لیا اور تاویل یہ اختیارکی کہ یہ تورات کا حکم ہے ۔اللہ کی کتاب کے بعض احکام کو ماننے اور بعض کی خلاف ورزی کرنے کو اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں کفر قرار دیا ہے۔
بنی اسرئیل کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہودیہ اور اسرائیل کی سلطنتیں الگ الگ قائم ہو جانے کے بعد ان میں حریفانہ کشمش پیدا ہو گئی تھی۔دونوں ا طراف کے یہودی مخالف طاقتوں کو ابھار کر اپنے ہی بھائیوں پر چڑھائی کرادیتے تھے۔اور جب وہ دشمنوں کے ہاتھوں قتل ہو تے اور قیدی بن جاتے توفدیہ دے کر انھیں چھڑا لیتے کہ تورات کا یہی حکم ہے ۔
اللہ کے کچھ دینی احکام کی پاس داری اور کچھ کی مخالفت صریح منافقت ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس روش کو الہامی کتاب کے بعض حصوں پر ایمان لانے اور بعض کا کفر کرنے سے تعبیر کیا ہے ۔
سچا صاحبِ ایمان بندہ اپنے دل و دماغ کو اپنے پرور دگار کے حوالے کردیتاہے اور وہ اپنا سب کچھ اللہ ہی کو سونپ کر اس کے ہر فیصلے کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیتاہے۔
جو لوگ شریعتِ الہٰی کے معاملے میں محض زبانی اقرار پر اکتفا کرتے ہوئے بے عملی کا مظاہرہ کرتے ہیں ‘وہ حالتِ کفر میں زندگی گذارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:کیا تم کتابِ الٰہی کے ایک حصے پرایمان رکھتے ہواور اس کے دوسرے حصے کا انکار کرتے ہو؟ جو لوگ تم میں سے ایسا کرتے ہیں ‘ان کی سزا اس دنیا میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں اور آخرت میں یہ شدیدترین عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے۔اور اللہ اس چیزسے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو(۲: ۸۵)
سچااور حقیقی ایمان کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ وہ کم یا زیادہ ہوتارہتاہے اور:(اپنے ایمان کے دعوے میں سچے ) ایمان والے تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل لرز جائیں ( کیوں کہ انھیں اپنے رب کی جلالتِ شان اور کبریائی کا شعور ہوتاہے۔اس لیے جب بھی کوئی بات ان کے سامنے اللہ کی بات کی حیثیت سے پیش کی جائے تو وہ اسے خوف و خشیت کے گہرے احساس اور اس پر فوری عمل پیرا ہونے کی نیت سے سنتے ہیں) اورجب اس کی آئتیں انھیں پڑھ کر سنائی جائیں توان کا ایمان بڑھ جائے ( اس لیے کہ ان کی سب سے مرغوب اورمطلوب چیز خدا کی پسند و ناپسند ‘اس کی مرضیات او راس کے احکام و قوانین ہی کا علم ہوتاہے) اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھیں ( ایمان کے مطالبے خواہ سخت ہوں یانرم‘ ان سے ان کے دنیوی مفادات کو نقصان پہنچے یا انھیں فائدہ ہو ‘ ا ن کی خاطر تعلقات ٹوٹیں یا جڑیں ‘وہ ہر حال میں دین و دنیا کی فلاح اپنے رب کے احکام کی تعمیل ہی میں سمجھتے ہیں ) (۸: ۲)
اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ جہالت اور بے علمی کی بنیاد پر کیے گئے جرائم کے لیے یہ عذر قیامت میں قابلِ قبول نہ ہوگا کہ فلاں چیز کو ماننے یا کسی عمل کے کرنے کے بارے میں ہمیں معلوم نہ تھا ۔ ایسی صورتِ حال میں یہ پوچھا جا سکتاہے کہ تم نے حقیقت کو جاننے کی کتنی کوشش کی؟ یہ تو ہو سکتاہے کہ جاننے اور معلوم کرنے کی پوری کوشش کے باوجودہم حقیقت کو پانے میں ناکام رہے ہوں اور اس کے نتیجے میں ایمان وعمل میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو ایسی صورت میں امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ عذر قبول کرلیں۔لیکن ایسی کمی کا باعث اگربے پروائی ‘غفلت اور سرکشی ہوئی تو خدشہ ہے کہ قیامت کے روز یہ قابلِ سزا جرم تصور ہوگا ۔
یہ دراصل بندے کا ارادے کی آزادی اوراختیار سے کیاہوا عمل ہے جو انھیں آخرت میں جواب دہی کا سزا وار ٹھہرا تاہے ۔
(باقی)
_________________