HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : نعیم بلوچ

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

شام کی صبح، لبنان کی شام

نام کتاب :شام کی صبح ، لبنان کی شام

مصنف:ڈاکٹر زاہد منیر عامر

صفحات :160 صفحات

ناشر :تناظرمطبوعات،۵۹۶ نیلم بلاک، علا مہ اقبال ٹاؤن لاہور

قیمت: ۲۰۰ روپے۔

سفرنامے کو ایک محدود خودنوشت کہنا بے جا نہ ہو گا۔ اگر کسی عارف کی اس صائب بات کو سامنے رکھا جائے کہ کسی انسان کے اخلاق وکردار کا علم تب ہوتا ہے جب اس کے ساتھ سفر کیا جائے تو سفرنامے کہ اہمیت دو چند ہو جاتی ہے ۔ مصنف چاہے لاکھ اپنے آپ کو چھپائے ،اس کی افتادطبع اس کی شخصیت کو آشکار کرکے رہتی ہے۔ اس لحاظ سے سفر کا حال تحریر کرنا بلاشبہ ایک مہم کا درجہ رکھتا ہے۔ پھر ایک کامیاب سفرنامے کی اولین خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ قاری کے دل میں کم ازکم یہ خواہش ضرور پیدا ہو کہ وہ خود ان بلاد کی سیر کا لطف اٹھائے جس کا احوال اس نے سفر نامے میں پڑھا ہے ۔ اگر ایسی بات نہیں ہے تو جان لیجیے کہ مصنف نے یا تو کسی غیر اہم جگہ کے سفر کی صعوبتیں برداشت کی ہیں یا اس کی قوت مشاہدہ اور قوت بیان میں کمی ہے۔ لیکن زیر تبصرہ سفرنامے کاحال یہ ہے کہ صرف یہی نہیں کہ شام اور لبنان دیکھنے کی تمنابے تاب ہوجاتی ہے بلکہ یہ خواہش بھی ہر منظر پڑھ کر توانا تر ہو جاتی ہے کہ کاش یہ سفر اسی مصنف کے ساتھ ہو پائے!

اس سفرنامہ میں مصنف نے یہ تکنیک استعمال کی ہے کہ انھوں نے اپنا احوال خطوط کے ذریعے سے بیان کیا ہے۔ کتاب کے آٹھ ابواب اصل میں آٹھ نامے ہیں جو انھوں نے اپنے دوست پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی کو لکھے ہیں۔مصنف نے یہ سفردمشق یو نیورسٹی میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے کیا تھا جہاں انھوں نے پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے اپنا مقالہ پڑھنا تھا۔ان کے مقالے کا عنوان تھا : ’’ مذہبی رواداری اور فکرِ اقبال ‘‘۔ یہ مقالہ انگریزی زبان میں پڑھا گیا اور اسے کتاب کا باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا ہے جس سے کتاب کی معنویت دو چند ہو گئی ہے۔

لبنان اور شام کی اس حیثیت نے مصنف کو بجا طور پر بہت متاثر کیا ہے کہ وہاں انبیاء اور صحابہ اکرام سمیت بیسیوں عظیم المرتبت شخصیتوں کے مزار ہیں ۔ اپنی علمی اور ادبی سرگرمیوں کے علاوہ مصنف نے سب سے زیادہ وقت انھی کی سیاحت میں صرف کیا ہے ۔ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا مزار بطور خاص دیکھا ۔ا نھیں معلوم ہوا کہ یہ مزار ایک مسقف بازار میں واقع ہے ۔ وہ پوچھتے پچھاتے وہاں پہنچے ۔ اس زیارت کا احوال انھوں نے اس طرح بیان کیا ہے:

’’ ان سے پوچھا کہ یہ تو بتائیں کہ حضرت ابوہریرہؓ کا مزار کہاں ہے ؟ انھوں اپنی دکان کے ساتھ ہی ایک جانب اشارہ کر دیا ، گویا میں غیر شعوری طور پر حضرت ابوہریرہؓ کے قدموں میں پہنچ چکا تھا۔ اسی دکان کے ساتھ ایک دروازہ تھا۔ کھچا کھچ بھرا بازار ، چھوٹی سی مسجد جس میں شاید پچاس نمازی بھی نہ سما پائیں ۔ نماز عشا کا وقت ، جماعت ہورہی تھی ، میں نے نماز کا فریضہ ادا کیا اور اپنے بائیں جانب مزار دیکھ لیا۔ لیکن پوری طرح دیکھنے سے پہلے چاہتا تھا کہ تحیۃالمسجد اور کچھ نفل بطور تحفے نذر کروں۔ اس کے بعد سر بالیں حاضر ہوا۔ دعاپڑھی ۔۔۔۔اصحاب صفہ میں شامل درویش طبع حضرت ابوہریرہؓ کی درویشانہ وضع آج بھی برقرار ہے ۔ ۔۔۔۔ زندگی میں بازاروں اور کھیتوں سے دور رہنے والا یہ درویش بازار میں پڑا ہے اور آج بھی بازار سے بے نیاز ہے ۔ میں نے یہاں کافی وقت گزارا ۔ اتنا کہ میں بالکل اکیلا رہ گیا اور مسجد کا خادم میرے جانے کا بے تابی سے انتظار کرنے لگا ۔‘‘ ( صفحہ ۶۳۔۶۴)

اسی طرح مصنف کو امام ابن تیمیہ کا مرقد تلاش کرنے میں بھی خاصی مہم درپیش رہی۔ یہ مرقد اس قدر خستہ حالت میں تھا کہ مصنف لکھتے ہیں:

مصنف نے ان شخصیات کے مزاروں کا جہاں حال بیان کیا ہے وہاں ان کی تاریخی حیثیت اور تعارف بھی بھی بڑے دل نشین انداز میں بیان کیا ہے ۔ان کی منظر نگاری اتنی حقیقی اور بے ساختہ ہے قاری کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ مصنف کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہے اور مصنف سیر دیکھتے ہوئے ان پر تبصرہ بھی کر رہا ہے۔

اپنی اس کتاب کو مصنف نے فوٹو گرافی سے بھی مزین کیا ہے۔ یہ تصویریں ان تمام اہم مقامات کی ہیں جن کی انھوں نے سیر کی ۔ جن احباب اور اہم شخصیات سے انھوں نے ملاقاتیں کی، ان کے ساتھ بنائے گئے گروپ فوٹو بھی کتاب کا حصہ ہیں۔اس سے کتاب ایک دستاویز کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔

کتاب کا مطالعہ بڑی شدت سے دل میں اس احساس کو اجاگر کرتا ہے کہ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے تاریخی مقامات کو ختم کرکے کس قدر تنگ نظری اور سنگ دلی کا مظاہرہ کیا گیا ۔ اگر ان کو باقی رکھا جاتا اور وہاں آداب کی بھی پاس داری کرائی جاتی تو ان مقامات کی زیا رت کرتے ہوئے اللہ کے آخری پیغمبر اور ان کے صحابہ کی جدوجہد کے مناظر ان کی عظیم اور روشن تاریخ کو ممثل کرنے میں کس قدر معاون ہوتے ۔ لیکن برا ہو مذہبی انتہا پسندی کا جس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا!

یہ کتاب بلا شبہ سفرناموں میں ایک منفرد اضافہ ہے۔ اس کا مطالعہ صاحب ذوق قارئین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔

___________________

B