بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا: اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَقَالَ الْمَسِیْحُ: یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ، اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ، وَمَاْوٰہُ النَّارُ، وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ{۷۲} لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا: اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ، وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّآ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ، وَاِنْ لَّمْ یَنْتَھُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ{۷۳} اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَی اللّٰہِ وَیَسْتَغْفِرُوْنَہٗ، وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۷۴} مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ، قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ، وَاُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ، کَانَا یَاْکُلٰنِ الطَّعَامَ، اُنْظُرْ کَیْفَ نُبَیِّنُ لَھُمُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ{۷۵} قُلْ: اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا، وَاللّٰہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ{۷۶} قُلْ: یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَھْوَآئَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَآئِ السَّبِیْلِ{۷۷}
لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ، ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ{۷۸} کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ، لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ{۷۹} تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْھُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا، لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَھُمْ اَنْفُسُھُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ، وَفِی الْعَذَابِ ھُمْ خٰلِدُوْنَ{۸۰} وَلَوْ کَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالنَّبِیِّ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَا اتَّخَذُوْھُمْ اَوْلِیَآئَ، وَلٰکِنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ{۸۱}
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا، وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَھُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا: اِنَّا نَصٰرٰی۔ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْھُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُھْبَانًا، وَّاَنَّھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ{۸۲} وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ، یَقُوْلُوْنَ: رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ{۸۳} وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَمَا جَآئَ نَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ اَنْ یُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِیْنَ{۸۴} فَاَثَابَھُمُ اللّٰہُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ، خٰلِدِیْنَ فِیْھَا، وَذٰلِکَ جَزَآئُ الْمُحْسِنِیْنَ{۸۵} وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ{۸۶}
اُن لوگوں نے بھی یقینا کفر کیا ہے جنھوں نے کہا کہ خدا تو یہی مسیح ابن مریم ہے، ۱۷۳؎ دراں حالیکہ مسیح نے تو کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل، اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی۔(اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) جو اللہ کے شریک ٹھیرائے گا، اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اُس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ایسے ظالموں کا (وہاں) کوئی مددگار نہ ہو گا۔ یہی کفر اُن لوگوں نے کیا ہے جنھوں نے کہا کہ اللہ تین میں سے تیسرا ہے، ۱۷۴؎ دراں حالیکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ یہ اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو اِن میں سے جو (پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے بعد بھی) اپنے کفر پر قائم رہیں گے، اُنھیں ایک دردناک عذاب آپکڑے گا۔ ۱۷۵؎ کیا یہ اللہ کی طرف رجوع نہ کریں گے اور اُس سے معافی نہ مانگیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ مغفرت فرمانے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ مسیح ابن مریم ایک رسول ہی تھے۔ اُن سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرے ہیں اور اُن کی ماں (خدا کی) ایک صداقت شعار بندی تھی، وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ ۱۷۶؎ دیکھو، ہم اپنی آیتیں اِن کے سامنے کس طرح کھول کر بیان کر رہے ہیں۔ پھر دیکھو کہ یہ کس طرح الٹے پھرے جاتے ہیں۔ اِن سے کہو، کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن کی بندگی کرتے ہو جو تمھارے لیے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ دراں حالیکہ اللہ ہی سمیع و علیم ہے۔ ۱۷۷؎ کہہ دو، اے اہل کتاب، اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو ۱۷۸؎ اور اُن لوگوں کے بدعات ۱۷۹؎ کی پیروی نہ کرو جو پہلے ہی گمراہ ہو چکے تھے اور جنھوں نے بہتوں کو گمراہ کیا اور جو سیدھی راہ سے بھٹک گئے۔۱۸۰؎ ۷۲-۷۷
بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے (اِس سے پہلے) کفر کیا، اُن پر داؤد کی زبان سے اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی ، ۱۸۱؎ اِس لیے کہ اُنھوں نے (خدا کی) نافرمانی کی اور (بندوں کے معاملے میں بھی) وہ (خدا کے مقرر کردہ) حدود سے آگے بڑھ جایا کرتے تھے۔ وہ جن برائیوں کا ارتکاب کرتے، اُن سے ایک دوسرے کو نہیں روکتے تھے۔ نہایت بُرا طرز عمل تھا جو اُنھوں نے اختیار کر لیا تھا۔ (اِس وقت بھی) تم اُن میں بکثرت لوگوں کو دیکھتے ہو کہ وہ منکروں ۱۸۲؎ کو اپنا دوست بناتے ہیں۔ نہایت بُرا سامان ہے جو اُنھوںنے آگے کے لیے تیار کر کے بھیجا ہے۔ یہی کہ اُن پر خدا کا غضب ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہنے والے ہیں۔ ۱۸۳؎ اگر یہ فی الواقع اللہ اور اُس کے پیغمبر اور اُس چیز کے ماننے والے ہوتے جو پیغمبر پر نازل ہوئی ۱۸۴؎ تو کبھی اِن (منکروں) کو اپنا دوست نہ بناتے، مگر اِن میں سے زیادہ تر نافرمان ہو چکے ہیں۔ ۷۸-۸۱
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی دشمنی میں تم سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کوپاؤ گے ۱۸۵؎ اور مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب اُن لوگوں کو پاؤ گے جنھوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔۱۸۶؎ یہ اِس لیے کہ اُن کے اندر علما اور راہب ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے اور جب اُس چیز کو سنتے ہیں جو خدا کے رسول پر اتری ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق کو پہچان لینے کے باعث اُن کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلتے ہیں۔۱۸۷؎ وہ پکار اُٹھتے ہیں کہ پروردگار، ہم نے مان لیا، سو ہمارا نام تو (اِس کی) گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔۱۸۸؎ اور ہم اللہ کو اور اُس حق کو کیوں نہ مانیں جو ہمارے پاس آگیا ہے، جب کہ ہم توقع رکھتے ہیں کہ ہمارا پروردگار ہمیں صالحین میں شامل کرے گا۔ ۱۸۹؎ سو اللہ کا فیصلہ ہے کہ اُن کی اِس بات کے صلے میں اُن کو ایسے باغ عطا فرمائے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اُن لوگوں کی جزا ہے جو خوبی کا رویہ اختیار کرنے والے ہوں۔ رہے وہ جو منکر ہوئے اور جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلا دیا ہے تو وہی دوزخ کے لوگ ہیں۔ ۸۲-۸۶
۱۷۳؎ یعنی مسیح ابن مریم خدا سے الگ کوئی شخصیت نہیں، بلکہ خدا ہی کا جسدی ظہور ہیں۔ صوفیانہ مذاہب میں یہی بات پوری کائنات کے بارے میں کہی جاتی ہے۔ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ یہ صریح کفر ہے۔ اِس کی تعبیر جس طریقے سے بھی کی جائے، اُسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔
۱۷۴؎ یہ ایک دوسری تعبیر ہے جس کے مطابق باپ، بیٹا اور روح القدس، تینوں اقنوم الگ الگ بھی خدا ہیں اور تینوں مل کر بھی خدا ہیں۔ قرآن نے اِس پر تنقید کے لیے یہ اسلوب اِس لیے اختیار کیا ہے کہ اِس کا گھنونا پن پوری طرح واضح ہو جائے۔ مدعا یہ ہے کہ عالم کا پروردگار تو وحدہ لا شریک خدا ہے۔ یہ اِن کی سفاہت ہے کہ اِنھوں نے اُس کی خدائی کو تین میں تقسیم کر کے اُسے تین میں سے تیسرے کا درجہ دے دیا ہے۔
۱۷۵؎ یہ اُس عذاب کی وعید ہے جو رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اُن کے منکرین پر لازماً آجاتا ہے۔
۱۷۶؎ یعنی مسیح علیہ السلام اور اُن کی ماں خدا کس طرح ہو سکتے ہیں، جب کہ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے وہ اُسی طرح کھانے اورپینے کے محتاج تھے، جس طرح ہر انسان اِن کا محتاج ہوتا ہے۔ اہل کتاب کے ہاں یہ ایک مسلم دلیل بشریت ہے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ اُن کے شاگرد جب اُنھیں ایک روح سمجھ کر اُن سے ڈرے تو اُنھوں نے بھنی ہوئی مچھلی کا ایک قتلہ کھا کر اُنھیں اطمینان دلایا کہ وہ روح نہیں، بلکہ آدمی ہیں۔ لوقا میں ہے:
’’وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ یسوع آپ اُن کے بیچ میں آکھڑا ہوا اور اُن سے کہا: تمھاری سلامتی ہو، مگر اُنھوں نے گھبرا کر اور خوف کھا کر یہ سمجھا کہ کسی روح کو دیکھتے ہیں۔ اُس نے اُن سے کہا: تم کیوں گھبراتے ہو اور کس واسطے تمھارے دل میں شک پیدا ہوتے ہیں۔ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں دیکھو کہ میں ہی ہوں۔ مجھے چھو کر دیکھو، کیونکہ روح کے گوشت اور ہڈی نہیں ہوتی، جیسا مجھ میں دیکھتے ہو اور یہ کہہ کر اُس نے اُنھیں اپنے ہاتھ اور پاؤں دکھائے۔ جب مارے خوشی کے اُن کو یقین نہ آیا اور تعجب کرتے تھے تو اُس نے اُن سے کہا: کیا یہاں تمھارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ اُنھوں نے اُسے بھنی ہوئی مچھلی کا قتلہ دیا۔ اُس نے لے کر اُن کے روبرو کھایا۔‘‘ (۲۴: ۳۶-۴۳)
۱۷۷؎ یعنی سمیع و علیم ہے، اِس لیے حقیقی معنوں میں وہی نافع و ضار بھی ہے، لیکن تعجب ہے کہ اُس کو چھوڑ کر تم ایسی ہستیوں کی عبادت کرتے ہو جو نہ سنتی ہیں، نہ جانتی ہیں اور نہ کسی کو کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
۱۷۸؎ اِس میں روے سخن نصاریٰ کی طرف ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
۱۷۹؎ اصل میں لفظ ’اَھْوَآئ‘ آیا ہے۔ اِس کے معنی خواہشات کے ہیں، لیکن اِس سے مراد یہاں اِن کا نتیجہ ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ بدعات تمام تر خواہشات سے پیدا ہوتی ہیں۔ قرآن نے یہ لفظ استعمال کر کے اِن کے اصل ماخذ کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔
۱۸۰؎ یہ پال (Paul) اور اُس کے ساتھیوں کی طرف اشارہ ہے جنھوں نے سیدنا مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کو مسخ کر کے اُن فلسفیانہ ضلالتوں کی ایک شاخ بنا دیا جن میں وہ پہلے سے مبتلا تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔نصرانیت میں داخل ہونے سے قبل وہ جن گمراہیوں میں مبتلا رہے تھے، اُنھی گمراہیوں پر اُنھوں نے نصرانیت کا ملمع چڑھانے کی کوشش کی اور اِس طرح وہ خود بھی شاہراہ حق سے بھٹکے اور دوسروں کو بھی اُنھوں نے گمراہ کیا۔ اِس اسلوب بیان میں درپردہ نصاریٰ کے لیے یہ تلقین ہے کہ آج جس چیز کو تم نصرانیت سمجھ رہے ہو، یہ تمھارے اپنے گھر کی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ تمام تربت پرست قوموں سے برآمد کردہ چیز ہے جو تم پر لاد دی گئی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۵۶۹)
۱۸۱؎ سیدنا داؤد سے بنی اسرائیل کی سیاسی عظمت کی ابتدا ہوئی اور سیدنا مسیح علیہ السلام اُن کے آخری پیغمبر ہیں۔ اِن دونوں کے ذکر سے قرآن نے اشارہ کر دیا ہے کہ ابتدا سے انتہا تک اُن کے تمام پیغمبر اُن کی سرکشی کے باعث اُن پر لعنت کرتے رہے ہیں۔ انبیا علیہم السلام کے جو صحیفے بائیبل کے مجموعے میں شامل ہیں، اُن سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ خاص مسیح و داؤد کی جس لعنت کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے، اُس کے لیے ملاحظہ ہو: زبور باب ۱۲: ۱-۳، باب ۲۸: ۳-۶، باب ۴۰: ۱۰-۱۷، باب ۶۸: ۱-۴، باب ۱۰۹، باب ۱۴۰: ۶-۱۱، باب ۵۹۔ متی باب ۲۳: ۱۴-۳۹۔
۱۸۲؎ یعنی مشرکین مکہ جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود آپ کو ماننے سے انکار کر دیا۔
۱۸۳؎ یہ عمل کے بجاے اُس کا نتیجہ سامنے رکھ دیا ہے کہ وہ اپنے کرتوتوں کا انجام دیکھ لیں۔
۱۸۴؎ یعنی موسیٰ علیہ السلام اور تورات جو اُن پر نازل ہوئی اور جس پر یہود ایمان کا دعویٰ کرتے تھے۔
۱۸۵؎ اوپر فرمایا تھا کہ تم اُن میں بکثرت لوگوں کو دیکھتے ہو کہ وہ منکروں کو اپنا دوست بناتے ہیں۔ یہ اُس کی تصریح مزید ہے کہ مسلمانوں کی دشمنی میں وہ بالکل مشرکین سے ہم آہنگ ہو چکے ہیں اور اِس طرح ایمان و اخلاق کے لحاظ سے اِس پستی میں گر چکے ہیں کہ حامل کتاب ہو کر بت پرستوں سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔
۱۸۶؎ اِس سے واضح ہے کہ اِس سے مراد عام مسیحی نہیں ہیں جنھوں نے پال کی ایجاد کردہ مسیحیت کو اپنے مذہب کے طور پر اختیار کر رکھا ہے، بلکہ مسیح علیہ السلام کے خلیفۂ راشد شمعون صفا کے پیرو ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ بعثت میں بڑی حد تک سیدنا مسیح کی اصل تعلیمات پر قائم تھے۔ قرآن نے اِسی بنا پر اِن کی نسبت فرمایا ہے کہ ’الَّذِیْنَ قَالُوْٓا: اِنَّا نَصٰرٰی‘ (جنھوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں)، جبکہ پال اور اُس کے پیرو نصاریٰ کے لفظ کو حقیر خیال کرتے اور اپنا تعارف مسیحی کے نام سے کرانا پسند کرتے تھے۔
۱۸۷؎ سیدنا مسیح کے اِن سچے پیرووں نے قرآن کا استقبال جس والہانہ انداز سے کیا، یہ اُس کی تصویر ہے۔
۱۸۸؎ یعنی اِس بات کی گواہی کہ یہی وہ کتاب ہے جس کے آنے کی پیشین گوئی ہمارے صحیفوں میں کی گئی تھی۔
۱۸۹؎ یہ قرآن کی تصدیق اور اُس پر ایمان لانے کے لیے اُن کے اقدام کی دلیل ہے۔ اِس کے ساتھ، اگر غور کیجیے تو یہ یہودو نصاریٰ کے اُن لوگوں پر ایک لطیف تعریض بھی ہے جو پیغمبر کی گواہی چھپا کر بیٹھے تھے اور اِس کے باوجود خدا کے حضور میں سرفرازی کی توقع رکھتے تھے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ