عَنْ جَرِیْرٍ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) أَنَّہُ سَمِعَہُ یَقُوْلُ: أَیُّمَا عَبْدٍ أَبَقَ مِنْ مَوَالِیْہِ فَقَدْ کَفَرَ حَتّٰی یَرْجِعَ إِلَیْہِمْ.
حضرت جریر (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: کوئی غلام جب اپنے آقاؤں سے فرار ہو جاتا ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ ان کے پاس واپس آجائے۔
عَنْ جَرِیْرٍ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَیُّمَا عَبْدٍ أَبَقَ فَقَدْ بَرِءَتْ مِنْہُ الذِّمَّۃُ.
حضرت جریر (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی غلام جب فرار ہو جاتا ہے تو اس سے ذمہ اٹھ جاتا ہے۔
کَانَ جَرِیْرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اِذَا أَبَقَ الْعَبْدُ لَمْ تُقْبَلْ لَہُ صَلَاۃٌ.
حضرت جریر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا: جب غلام فرار ہو جاتا ہے تو اس کی نماز قبول نہیں کی جاتی۔
’أبق‘: قرآن مجید میں حضرت یونس علیہ السلام کے قوم سے نکلنے اور کشتی کی طرف جانے کے لیے یہی فعل استعمال ہوا ہے۔ سورۂ صافات میں ہے: ’اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ‘، ’’جب وہ بھاگا بھری ہوئی کشتی کی طرف‘‘ (۳۷: ۱۴۰)۔ اس محل استعمال سے واضح ہے کہ یہ کسی صورت حال سے بھاگ نکلنے کے معنی رکھتا ہے۔ عام طور پر یہ لفظ کسی غلام کے بھاگنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ غلامی ایک ناگوار صورت حال ہے، اس سے فرار اختیار کرنے کے لیے یہ ایک عمدہ لفظ ہے۔
’موالیہ‘: ’موالی‘ ، ’مولٰی‘ کی جمع ہے۔ ’مولٰی‘ کا لفظ یہاں آقا اور مالک کے معنی میں آیا ہے۔ یہاں یہ جمع آیا ہے اور اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ غلام قانوناً اگرچہ ملکیت کسی ایک فرد کی ہو، لیکن وہ خدمت ایک خاندان کی کرتا تھا۔
’ذمۃ‘: ’ برئت منہ الذمۃ‘ کا محاورہ اس موقع پر بولا جاتا ہے جب کوئی شخص ایسا عمل کردے جس کے نتیجے میں وہ اپنے اخلاقی اور قانونی حقوق سے محروم ہو جائے۔ ذمیوں کو ذمی اس معنی میں کہا جاتا ہے کہ وہ کچھ ٹیکس ادا کرکے مملکت کے نظام حفاظت میں آجاتے ہیں۔ یہاں مراد یہ ہے کہ غلام کو جو ضمان حاصل تھا، وہ ختم ہو جاتا ہے۔
ان روایات میں غلام کے فرار کے نتائج بیان ہوئے ہیں۔ دو روایتیں دینی نتائج سے متعلق ہیں اور ایک روایت میں دنیوی نتیجہ بیان ہوا ہے۔ جہاں تک دنیوی نتیجے کا تعلق ہے، وہ بآسانی سمجھ میں آتا ہے۔ کوئی آدمی جب یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو کسی دائرے سے نکال لیتا ہے تو وہ اس دائرے میں حاصل حقوق سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے جب کوئی غلام فرار ہوتا ہے تو اس کے قول وفعل کے ذمہ دار اس کے مالکان نہیں رہتے۔ اسی طرح اسلامی ریاست میں اپنے مالکان کے خلاف استغاثے کا حق بھی اب اسے حاصل نہیں رہ سکتا۔ کوئی ریاست ہو یا خاندان وہ کسی فرد کے حقوق ادا کرنے کی ذمہ داری اس وقت اٹھانے کا مکلف ہوتا ہے جب وہ فرد اس کے ساتھ متعلق رہتا اور اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہوتا ہے۔ ریاست جب کسی مجرم کو سزا دیتی ہے تو وہ اس کے جان ومال کو حاصل تحفظ کو ختم کر کے دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی فرد کوئی جرم کرتا ہے تو ریاست اور معاشرہ اس جرم کی سزا میں اس جرم کے مطابق اس کے جان ومال کے خلاف اقدام کرتا ہے۔ اس اصول کا اطلاق اسی صورت میں ہو گا جب کوئی شخص اپنی معاشرے کی رکنیت کو ختم نہیں کرتا۔ فرار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص معاشرے کے حقوق کا قلادہ اپنی گردن سے اتار رہا ہے۔ چنانچہ معاشرہ بھی اپنی ذمہ داریوں سے دست بردار ہو جاتا ہے۔
ایک روایت میں فرار ہونے والے غلام کے کفر کی خبر دی گئی ہے اور دوسری روایت میں نماز کے قبول نہ ہونے کی وعید سنائی گئی ہے۔ کفر کے حوالے سے کتب شروح میں وہ تمام امکانات بیان ہوئے ہیں جو پچھلی روایتوں میں زیربحث آچکے ہیں۔ ہمارے خیال میں محض فرار ہونے سے تکفیر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس روایت کے دوسرے متون میں دشمنوں سے جا ملنے کی تصریح بھی بیان ہوئی ہے۔ غلام اپنی حقیقت میں جنگی قیدی ہوتے تھے۔ یہ اگر بھاگ کر اپنے وطن واپس چلے جاتے ہیں اور اسلام اور اہل اسلام کی دشمنی پر اتر آتے ہیں تو یہ واضح طور پر ارتداد ہے۔ ہمارے نزدیک تکفیر اسی وجہ سے کی گئی ہے۔ یہ تکفیر حقیقی اور کامل معنوں میں ہے۔ چنانچہ اس کی کوئی اور توجیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری بات کی تائید امام مسلم کے متن میں مذکور ’یہاں تک کہ وہ ان کے پاس واپس آجائے ‘ کی شرط سے بھی ہوتی ہے۔
تیسری روایت میں نماز قبول نہ ہونے کی وعید بیان ہوئی ہے۔ شارحین نے اس روایت کو اس اصول پر حل کیا ہے کہ معصیت کے ساتھ ہونے سے عمل خیر قبول نہیں ہوتا۔ جیسے غصب شدہ زمین پر پڑھی گئی نماز قبول نہیں ہوتی یا چوری شدہ مال کی خیرات قبول نہیں ہوتی۔ ہمارے نزدیک یہ اصول اپنی جگہ پر درست ہے، لیکن اس کا غلام پر اطلاق محل نظر ہے۔
سورۂ توبہ میں ہے:
قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْکَرْھًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْکُمْ اِنَّکُمْ کُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ. وَمَا مَنَعَھُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْھُمْ نَفَقٰتُھُمْ اِلَّآ اَنَّھُمْکَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَلَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَھُمْ کُسَالٰی وَلَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَھُمْ کٰرِھُوْنَ.(۹: ۵۳۔۵۴)
’’ان سے کہہ دو: تم خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشی سے تمھارا کوئی انفاق قبول نہیں ہو گا۔تم بدعہد لوگ ہو۔ یہ اپنے انفاق کی قبولیت سے محض اس وجہ سے محروم ہوئے کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کا کفر کیا اور نماز کے لیے جو آتے ہیں تو مارے باندھے آتے ہیں اور خرچ کرتے ہیں تو بادل نخواستہ۔‘‘
اس آیت سے واضح ہے کہ ایمان اگر حقیقی نہ ہو تو نماز وخیرات کوئی چیز قبول نہیں ہوتی۔ کیا غلام کا فرار ہونا اس کے ایمان کو بھی غیر حقیقی بنا دیتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دیا جا سکتا۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ نماز قبول نہ ہونے والی بات کچھ شرائط سے مشروط ہے۔ممکن ہے اس روایت میں وہ غلام زیر بحث ہو جس نے فرار ہونے کے باوجود ایمان محض کچھ سہولتیں حاصل کرنے کے لیے قبول کیا ہوا ہو.
شارحین نے اس روایت سے یہ مسئلہ بھی اخذ کیا ہے کہ غلام کا فرار ہونا جائز نہیں ہے۔ یہ بات ظاہر ہے مسلمان غلام سے متعلق ہے۔ غلامی کا ایک پہلو تو جنگی قانون سے متعلق ہے۔ اس پہلو سے فرار ایک قانونی جرم ہے۔ دوسرا پہلو عہد اور معاہدے کا ہے یہ پہلو اپنے اندر دینی مضمرات بھی رکھتا ہے۔ غالباً شارحین اسی پہلو کو بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام نے غلامی سے نجات کے لیے دو قانونی شکلیں پیدا کر دی تھیں: ایک یہ کہ آقا نیکی اور خیر کے جذبے کے تحت غلام کو آزادی دے دے اور دوسری یہ کہ غلام کچھ دے کر آزادی حاصل کر لے۔ ظاہر ہے جب کسی کام کو ختم کرنے کے قانونی راستے موجود ہوں تو غیر قانونی راستے اختیار کرنے کا جواز باقی نہیں رہتا۔
امام مسلم نے اس روایت کے تین متون نقل کیے ہیں۔ پہلے متن میں غلام کے بھاگنے کا نتیجہ کفر بیان ہوا ہے۔ مسلم کے متن میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ کفر کی حالت اس وقت تک کے لیے ہے جب تک وہ واپس نہ آجائے، جبکہ بعض متون میں یہ بات بیان نہیں ہوئی۔ اسی طرح ایک روایت میں ارض شرک کی طرف فرار کی صورت میں جواز قتل کی بات بھی بیان ہوئی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس روایت کا تعلق ارتداد کے مسئلے سے ہے۔
دوسری روایت میں ذمہ داری کے اٹھ جانے کا نتیجہ بیان ہوا ہے۔ اس روایت کے تمام متون انھی الفاظ پر مشتمل ہیں جو صحیح مسلم میں منقول ہیں۔ البتہ ابن ابی شیبہ نے ’ الی ارض العدو‘ کا اضافہ نقل کیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ اضافہ اہم ہے، اس لیے کہ اس سے ان روایات کے ہمارے متعین کردہ مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔
تیسری روایت میں نماز کے قبول نہ ہونے کی خبر منقول ہے۔اس روایت کے متون میں ایک ہی جملہ سب کتب حدیث میں رقم ہوا ہے۔کتب حدیث میں ایک اور روایت بھی ملتی ہے جس میں یہ بات ایک اور انداز میں کہی گئی ہے۔ مسند احمد میں ہے:
ثلاثۃ لا تسئل عنہم: رجل فارق الجماعۃ و عصی أمامہ ومات عاصیًا، وأمۃ أو عبد أبق فمات، وامرأۃ غاب عنہا زوجہا قد کفاہا مؤنۃ الدنیا فتبرجت بعدہ فلا تسئل عنہم. وثلاثۃ لا تسئل عنہم رجل نازع اﷲ عزوجل رداء ہ فان رداء ہ الکبریاء وإزارہ العزۃ، ورجل شک فی أمر اﷲ والقنوط من رحمۃ اللّٰہ.(رقم۲۳۹۸۸)
’’تین لوگ ہیں جن کے بارے میں پوچھا بھی نہیں جائے گا: ایک وہ جو اسلامی ریاست سے الگ ہوا اور اس نے حکمران کی نافرمانی کی اور گناہ کرتا ہوا مر گیا۔ دوسرے وہ غلام یا لونڈی جو بھاگ گیا اور مر گیا۔ تیسرے وہ عورت جس کا شوہر غائب ہو گیا اور اس نے اس کی ضروریات میں کفالت کی تھی اور اس نے اس کے بعد بے حیائی کی۔ یہ ہیں جن کے بارے میں پوچھا بھی نہیں جائے گا۔ اسی طرح تین لوگ ہیں جن کے بارے میں پوچھا بھی نہیں جائے گا: ایک وہ جس نے اللہ کی چادر کھینچی، اللہ کی چادر اس کی کبریائی ہے اور اس کا ازار اس کی عزت ہے۔ دوسرے وہ جس نے اللہ کے معاملے میں شک کیا، اور تیسرے اللہ کی رحمت سے مایوسی۔‘‘
مسلم، رقم۶۸۔ ۷۰؛ ابن حبان، رقم۱۴۶۵؛ ابوداؤد، رقم۴۳۶۰؛ نسائی، رقم۴۰۵۴، ۴۰۵۶؛ سنن کبریٰ، رقم ۳۵۱۹؛ سنن بیہقی، رقم۱۶۶۵۲؛ مسند احمد بن حنبل، رقم۱۹۱۷۸، ۱۹۲۶۲، ۱۹۲۶۳، ۲۳۹۸۸؛ المعجم الکبیر، رقم۷۸۸، ۲۳۳۲، ۲۴۸۱، ۹۰۸۶؛ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۲۸۶۱۔
_______________