ہمارے ہاں اختلاف در اختلاف کی ایک ایسی ریت قائم ہو گئی ہے جو فی الحال ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ کوئی کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے، کوئی کسی کی علمی تحقیق کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ جو بات پہلے سے چلی آ رہی ہے، جس سے لوگوں کے جذبات اور عقیدت وابستہ ہے جو ان کی شناخت بن گئی ہے ۔ اگرچہ ان کے نظریات و افکار کتنے ہی غلط کیوں نہ ہوں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں یہ لوگ اُس پر کوئی تنقید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے کہ جس آدمی نے اپنی علمی تحقیق پر اتنی محنتکی اور اس کے بعد اپنا نقطۂ نظر بیان کیا، ہو سکتا ہے وہ صیحح ہو آپ اس کے ساتھ دلیل سے بات کریں اس کے ساتھ مکالمہ کریں وہ آپ پر آپ کی غلطی واضح کرے گا اور آپ اُس پر اُس کی غلطی واضح کریں گے۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹ ہے جس نے آپ کے نقطۂ نظر کے خلاف بات کر دی تو سمجھیں کہ اُس آدمی کے لیے اس ملک میں رہنا مشکل ہو جائے گا ہر جگہ اس کے خلاف جلسے جلوس نکالے جائیں گے،اس کے قتل کے فتوی ٰجاری کیے جائیں گے۔
اگر اختلاف کرنے والے ذرا سا غور کر لیں تو یہ بات ان کی سمجھ میں آ جائے گی کہ کسی معاملے یا مسئلہ میں اختلاف کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ جب انسان ہونے کے ناطے دو آدمیوں کے چہرے، احساسات، رجحانات و عادات یکساں نہیں تو بھلا دو آدمیوں کی تحقیق اور نقطۂ نظر ایک جیسا کیسے ہو سکتا ہے۔ صحابۂ کرام تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں پروان چڑھے تھے لیکن بہت سارے مسائل میں ان کے درمیان اختلاف رائے موجود تھا۔ ایک طرح سے یہ نظریاتی اختلاف ایک رحمت ہے کیونکہ اس سے علم میں ترقی ہوتی ہے اور انسانی فکر ابتدائی تحقیق سے نکل کر نئی نئی منازل طے کرتی ہے۔ لیکن اس میں اس بات کو مدِ نظر رکھا جائے کہ اختلاف کرنے والوں میں خلوص ہو اور نظریاتی اختلاف ذاتی مخالفت اور عناد کی شکل اختیار نہ کرے۔ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کا احترام کیا جائے اور محض دیانت داری سے اختلاف کیا جائے۔ مفاد پرستی اور ہوائے نفس کو راہ نہ دی جائے۔ اگر ہم کسی کے نقطۂ نظر سے اختلاف رکھتے ہیں تو اس کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنا مؤقف علمی اسلوب میں اپنے جرائد اور گفتگو کے پروگراموں میں بیان کریں تاکہ لوگوں کو ان کے اختلاف کی نوعیت اور ان کے دلائل سمجھنے میں آسانی ہو اور اہلِ مذہب کے بارے میں کسی کو کوئی منفی بات کہنے کا موقع نہ ملے۔ بعض اوقات ہم اپنے رویوں سے اور شاید انجانے میں اپنے مذہب کے لیے جگ ہنسائی کا سبب بن جاتے ہیں۔
________________