بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَآئَ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ{۵۷} وَاِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْھَا ھُزُوًا وَّلَعِبًا۔ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ{۵۸} قُلْ: یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ ھَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَاَنَّ اَکْثَرَکُمْ فٰسِقُوْنَ{۵۹} قُلْ: ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِکَ مَثُوْبَۃً عِنْدَ اللّٰہِ، مَنْ لَّعَنَہُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ وَجَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ۔ اُولٰٓئِکَ شَرٌّ مَّکَانًا وَّاَضَلُّ عَنْ سَوَآئِ السَّبِیْلِ{۶۰}
وَاِذَا جَآئُ وْکُمْ قَالُوْٓا: اٰمَنَّا، وَقَدْ دَّخَلُوْا بِالْکُفْرِ وَھُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِہٖ، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا کَانُوْا یَکْتُمُوْنَ{۶۱} وَتَرٰی کَثِیْرًا مِّنْھُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاَکْلِھِمُ السُّحْتَ، لَبِئْسَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ{۶۲} لَوْلَا یَنْھٰھُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِھِمُ السُّحْتَ، لَبِئْسَ مَاکَانُوْا یَصْنَعُوْنَ{۶۳}
وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ: یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ، غُلَّتْ اَیْدِیْھِمْ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا، بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ، یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآئُ، وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا، وَاَلْقَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ، کُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَھَا اللّٰہُ، وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا، وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ{۶۴}
وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَلَاَدْخَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ{۶۵} وَلَوْاَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ، مِنْھُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآئَ مَا یَعْمَلُوْنَ{۶۶}
ایمان والو، تم سے پہلے جنھیں کتاب دی گئی، اُن میں سے جن لوگوں نے تمھارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا لیا ہے، اُنھیں اور دوسرے منکروں کو اپنا دوست نہ بنائو اور اللہ سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔ ۱۴۳؎ (تم دیکھتے نہیں ہو کہ) جب تم نماز کے لیے پکارتے ہو تو وہ اُس کا مذاق اڑاتے اور اُسے کھیل بنا لیتے ہیں۔ ۱۴۴؎ اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے۔ ۱۴۵؎ اِن سے کہو، اے اہل کتاب، کیا اِسی بات کا غصہ ہم پر نکال رہے ہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور اُس چیز پر ایمان لائے ہیں جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور اُس پر بھی جو اِس سے پہلے اتاری گئی، اور اِس کا کہ تم میں اکثر نافرمان ہیں۔۱۴۶؎ اِن سے کہو، میں تمھیں اُن لوگوں کا پتا دوں جن کا انجام خدا کے ہاں اُس سے بھی بُرا ہے (جو تم ہمارے لیے سوچتے ہو)؟ ۱۴۷؎ یہ وہ ہیں کہ جن پر خدا نے لعنت کی، جن پر اُس کا غضب ہوا، جن کے اندر سے اُس نے بندر اور سؤر بنائے ۱۴۸؎ اور جنھوں نے شیطان کی پرستش کی ہے۔ یہ درجے میں بدتر اور صحیح راستے سے بہت زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ ۱۴۹؎ ۵۷-۶۰
یہ جب تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو ایمان لائے ہوئے ہیں، دراں حالیکہ کفر لیے ہوئے آتے اور اُسی کے ساتھ واپس چلے جاتے ہیں اور (نہیں سمجھتے کہ) اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں۔ ۱۵۰؎ تم دیکھتے ہو کہ اِن میں سے اکثر حق تلفی، ظلم و زیادتی اور حرام خوری کے لیے سرگرم عمل ہیں۔۱۵۱؎ کیا ہی بُرا ہے جو کچھ یہ کر رہے ہیں۔ اِن کے علما اور فقہا اِنھیں گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے کیوں نہیں روکتے؟ کیا ہی بُرا ہے جو کچھ یہ کر رہے ہیں۔ ۱۵۲؎ ۶۱-۶۳
یہودی کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۱۵۳؎ ــــــــ اِنھی کے ہاتھ بندھیں اور اِن کی اِس بات کی وجہ سے اِن پر لعنت ہو۱۵۴؎ ــــــــ (ہرگز نہیں)، بلکہ اُس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے، عطا فرماتا ہے۔ ۱۵۵؎ حقیقت یہ ہے کہ اِن میں سے بہتوں کی سرکشی اور اِن کے کفر کو وہ چیز بڑھا رہی ہے جو تم پر تمھارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ ۱۵۶؎ (اِن کا یہی رویہ ہے جس کے باعث) ہم نے قیامت تک کے لیے اِن کے درمیان دشمنی اور عداوت ڈال دی ہے۔۱۵۷؎ یہ جب کبھی جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں، اللہ اُسے بجھا دیتا ہے، (ورنہ یہ تو اِسی طرح بغاوت پھیلاتے) اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اللہ اِن فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ ۶۴
(اِس کے برخلاف) اگر یہ اہل کتاب (ہمارے پیغمبر پر) ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو (اِس کے صلے میں) ہم اِن کی برائیاں اِن سے دور کر دیتے اور اِن کو نعمت کے باغوں میں پہنچاتے۔ اور اگر (اپنی اجتماعی حیثیت میں) تورات و انجیل پر اور اُس چیز پر قائم ہو جاتے جو اِن کے پروردگار کی طرف سے اِن پر اتاری گئی ہے ۱۵۸؎ تو اپنے اوپر سے اور پائوں کے نیچے سے رزق پاتے۔ ۱۵۹؎ (اِس میں شبہ نہیں کہ) اِن میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو راستی پر قائم ہے، لیکن زیادہ وہی ہیں جن کے اعمال بہت بُرے ہیں۔ ۶۵-۶۶
۱۴۳؎ یہ دین کے لیے مسلمانوں کی حمیت کو ابھارا ہے کہ جو لوگ تمھارے دین کا مذاق اڑاتے اور تمھارے دینی شعائر کو کھیل تماشا بناتے ہیں، وہ تمھارے دوست کس طرح ہو سکتے ہیں؟ انسان کی فطرت تو یہ ہے کہ وہ اپنی کسی چیز کی توہین برداشت نہیں کرتا۔ تم پر حیف ہے کہ اِسے برداشت کرتے ہو، بلکہ توہین کرنے والوں کو دوست بھی بناتے ہو۔
۱۴۴؎ یہ اُس چیز کا بیان ہے جسے وہ مذاق کا نشانہ بناتے تھے، یعنی اذان جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی منادی کے لیے ایک سنت کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ یہود کے اشرار بھونڈے طریقے سے اِس کی نقلیں اتارتے اور اِس پر ہنستے ہنساتے تھے۔
۱۴۵؎ اِس لیے کہ کوئی معقول شخص یہ پسند نہیں کر سکتا کہ کوئی گروہ خدا کی عبادت کے لیے بلائے اور وہ اُس کا مذاق اڑائے یا نیکی اور بھلائی کی کسی دعوت کے بارے میں ہنسی، ٹھٹھے اور مسخرے پن کا رویہ اختیار کرے۔
۱۴۶؎ یعنی اِس بات کا غصہ کہ تم میں سے اکثر نافرمان ہیں اور نہیں چاہتے کہ کوئی دوسرا فرماں برداری کا رویہ اختیار کرے اور اِس کے نتیجے میں خدا کی خوشنودی حاصل کرلے۔
۱۴۷؎ یہ قرآن نے نہایت لطیف طریقے سے مذاق اڑانے والوں کے اپنے جرائم اُن کے سامنے رکھ دیے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے لیے بُرا انجام سوچ رہے ہیں، مگر اپنے کرتوتوں سے صرف نظر کیے ہوئے ہیں۔ اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے نزدیک سب سے بُرا انجام اُن لوگوں کا ہے جو اِس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، نہ کہ اُن لوگوں کا جو اللہ کے تمام رسولوں اور اُس کی تمام کتابوں پر ایمان رکھتے اور اُن کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۱۴۸؎ اشارہ ہے اُس واقعے کی طرف جس میں یہود کی ایک بستی کے لوگوں نے سبت کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں پہلے اُن کی سیرت مسخ ہوئی، پھر اُن میں اور جانوروں میں ایک ظاہری فرق جو تھوڑا سا رہ گیا تھا، وہ بھی مٹ گیا۔ یہاں تک کہ خدا کی لعنت نے اُن کے ظاہر و باطن ہر چیز کا احاطہ کر لیا۔
۱۴۹؎ یہ دوسری بات پہلی بات کے لیے دلیل ہے۔ یعنی راستے سے بہت زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں، اِس لیے آخرت میں اپنے انجام کے لحاظ سے بھی لازماً بدتر ٹھیریں گے۔
۱۵۰؎ یہ بھی یہود ہی کا ذکر ہے، لیکن یہ اُن کے وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرتے تھے، مگر اپنے دل میں یہی سمجھتے تھے کہ وہ اگر آپ کو مان رہے ہیں تو امیوں کے لیے اللہ کا رسول مان رہے ہیں۔ رہے وہ تو اُن کے لیے اُن کے اپنے نبی اور اپنے صحیفے ہی کافی ہیں۔ وہ اِس دائرے سے باہر کی کسی ہدایت کو ماننے کے مکلف نہیں ہیں۔ قرآن نے صاف واضح کر دیا کہ یہ صریح کفر ہے۔ اِس طرح کا ایمان کسی درجے میں بھی قابل قبول نہیں ہے۔
۱۵۱؎ یہ قرآن نے اِن کے دعویٰ ایمان کی قلعی کھول دی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ایمان کے ساتھ کسی ظلم و زیادتی کا صادر ہوجانا یا کسی حرام سے آلودہ ہو جانا تو بعید نہیں ہے، لیکن حرام خوری ہی کسی کا اوڑھنا بچھونا بن جائے اور اُس کی ہر وقت کی تگ و دو ظلم و زیادتی ہی کی راہ میں ہو تو بہت ہی برا عمل ہے یہ جو ایمان کے دعوے کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اِس بات کو دوسرے مقام میں یوں بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر اِن کا ایمان اِنھی باتوں کا حکم دے رہا ہے تو بہت ہی بری باتوں کا حکم دے رہا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۵۵۳)
۱۵۲؎ یعنی عام لوگ تو ایک طرف، اِن کے علما اور فقہا بھی ایمان و اخلاق کے لحاظ سے ایسے مردہ ہو چکے ہیں کہ اِن کو اِن جرائم سے نہیں روکتے۔ اِس کی وجہ اِس کے سوا کیا ہے کہ وہ خود بھی یہی کر رہے ہیں۔
۱۵۳؎ یعنی اِس بات کے لیے بندھے ہوئے ہیں کہ وہ ہمارے سوا کسی اور پر اپنا کلام نازل کرے اور اُسے نبوت اور کتاب عطا فرمائے۔
۱۵۴؎ یہ جملۂ معترضہ کے طور پر فوراً اُن پر لعنت کی ہے، اِس لیے کہ یہود کی یہ بات صرف احمقانہ نہیں، اِس کے ساتھ آخری درجے کی گستاخی بھی ہے۔ ایمان کا دعویٰ رکھنے والا کوئی شخص اِس طرح کی بات اپنے پروردگار کے بارے میں کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔
۱۵۵؎ یعنی اِن کا پابند نہیں ہے کہ فلاں کو نبوت دے اور فلاں کو نہ دے۔ وہ اپنے قانون اور اپنی حکمت کے مطابق جس پر چاہتا ہے، یہ عنایت فرماتا ہے۔
۱۵۶؎ اِس سے واضح ہے کہ ’یُنْفِقُ مَا یَشَآئُ‘ میں جس انفاق کا ذکر ہے، وہ یہی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ یہ اِس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اللہ اِن کے علاوہ بھی کسی کو اپنی کتاب اور نبوت کے لیے خاص کر سکتا ہے۔ چنانچہ اُس نے یہ نعمت بنی اسمٰعیل کو دینے کا فیصلہ کیا ہے تو یہی چیز اِن کے کفر اور طغیان کو بڑھانے کا باعث بن گئی ہے۔
۱۵۷؎ اِس سورہ کی آیت ۱۴ میں نصاریٰ سے متعلق بھی یہی فرمایا ہے۔ فرقہ بندی کا جنگ و جدال اِسی سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ صورت حال حق کے مقابلے میں سرکشی کا قدرتی نتیجہ ہے اور اِس جرم کی سزا بھی۔ اللہ تعالیٰ نے اِسی بنا پر اِس کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔
۱۵۸؎ یعنی قرآن مجید۔ اِس سے واضح ہے کہ اِن کتابوں میں اِس سے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ بعد میں آنے والی کتاب قانون سے متعلق بعض چیزوں میں ترمیم و اضافہ کر دیتی ہے۔ اپنی اصل کے لحاظ سے دین ایمان و اخلاق کی دعوت ہے۔ تورات و انجیل اور قرآن میں اصلاً یہی دعوت بیان ہوئی ہے اور مسلمان ہونے کے معنی ہی یہ ہیں کہ آدمی نے اللہ کی سب کتابوں اور سب پیغمبروں کو ماننے اور اُن کی تعلیمات پر قائم ہو جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اہل کتاب کو یہ دعوت اِسی لحاظ سے دی گئی ہے۔
۱۵۹؎ بنی اسرائیل سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اگر حق پر قائم ہوں تو اللہ تعالیٰ اِسی دنیا میں اپنی برکتوں کے دروازے اُن کے لیے کھول دے گا۔ یہ اِسی وعدے کا ذکر ہے۔ استثنا میں یہ وعدہ اِس طرح بیان ہوا ہے:
’’اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات کو جان فشانی سے مان کر اُس کے اِن سب حکموں پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں، احتیاط سے عمل کرے تو خداوند تیرا خدا دنیا کی سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کرے گا۔ اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو ملیں گی۔ شہر میں بھی تو مبارک ہو گا اور کھیت میں بھی مبارک ہو گا۔۔۔ خداوند تیرے دشمنوں کو جو تجھ پر حملہ کریں، تیرے روبرو شکست دلائے گا۔ وہ تیرے مقابلے کو تو ایک ہی راستے سے آئیں گے، پر سات سات راستوں سے ہو کر ترے آگے سے بھاگیں گے۔۔۔ اور دنیا کی سب قومیں یہ دیکھ کر کہ تو خداوند کے نام سے کہلاتا ہے، تجھ سے ڈر جائیں گی۔۔۔ اور خداوند تجھ کو دُم نہیں، بلکہ سر ٹھیرائے گا اور تو پست نہیں، بلکہ سرفراز ہی رہے گا۔۔۔ لیکن اگر تو ایسا نہ کرے کہ خداوند اپنے خدا کی بات سن کر اُس کے سب احکام اور آئین پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں، احتیاط سے عمل کرے تو یہ سب لعنتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو لگیں گی۔ شہر میں بھی تو لعنتی ہو گا اور کھیت میں بھی لعنتی ہو گا۔۔۔ خداوند تجھ کو تیرے دشمنوں کے آگے شکست دلائے گا۔ تو اُن کے مقابلے کے لیے تو ایک ہی راستے سے جائے گا اور اُن کے سامنے سے سات سات راستوں سے ہو کر بھاگے گا اور دنیا کی تمام سلطنتوں میں تو مارا مارا پھرے گا۔‘‘ (۲۸: ۱-۲۵)
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ