HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

میاں طفیل محمد کی یاد میں

’’مولاناسید ابوعلیٰ صاحب مودودی کے دست راست اورجماعت اسلامی کے دوسرے امیر جناب میاں طفیل محمد صاحب ۳ جولائی۲۰۰۹ کو قضاے الہٰی سے وفات پا گئے۔اناللہ واناالیہ راجعون ۔ زیر نظر تحریر میں جناب خورشید احمد صاحب ندیم نے میاں طفیل محمد صاحب کی شخصیت اور کردار کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے ۔‘‘ (ادارہ)

فکر بالعموم کسی صاحب علم کے نہاں خانۂ دل میں جنم لیتی، اس کی تنہایوں کو آباد کرتی اور مثلِ کتاب کسی علمی قالب میں ڈھل جاتی ہے۔ علم کا سفراکثر اس منزل پر تمام ہو جاتا ہے ۔ تاہم صاحبِ فکر کے ہاں یہ خواہش یقیناً موجود ہوتی ہے کہ اس کی فکر ایک عملی حقیقت کا روپ دھارے، ہر ذہن کے دروازے پر دستک دے ، اس کو دست و بازو میسر آئیں ، ایک زمانہ اس سے فیض اُٹھائے اور زندگی کی تلخیاں اس کے سامنے پانی ہو جائیں ۔ انسانی معاشرے کی گتھیاں اس سے سلجھنے لگیں ، مسائل کی گرہیں اس کے فسوں سے کھلنے لگیں اوراس کی فکر ابن آدم کے لیے ایک نئی دنیا کو جنم دے۔

یہ خواہش عام طور پر خواہش ہی رہتی ہے کہ ایک فکر کو عملی حقیقت میں ڈھلنے کے لیے جن مراحل سے گزرنا ہوتا ہے، ان کے راستے میں خود صاحبِ فکرکی افتادِ طبع حائل ہو جاتی ہے۔ علم مزاجاً خلوت پسند ہے ۔ہجوم سے کتراتا اور جلوت سے گریز کرتا ہے۔ صاحبِ علم کی بزم تک اگر ا س کے خیالات کے علاوہ کسی کی رسائی ہوتی ہے تو وہ چند نفوس سے زیادہ نہیں ہوتے جنھیں وہ ہم مزاج سمجھتااور یہ خیال کرتا ہے کہ ان کی ذہنی سطح ایسی ہے کہ ان سے ہم کلام ہوا جا سکتا ہے۔ اسے کسی ایسے ہم دم کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی فکر کو حرزِجاں بنا لے ۔ اپنے وجود میں اس کی شہادت بن جائے اور پھر جسم و جاں کی ساری توانائیاں اس فکر کو عملی حقیقت میں ڈھالنے کے لیے صرف کر ڈالے۔ وہ اس فکر کے لیے راتوں کو جاگے اور دن میں دیوانہ وار پھرے۔ ہر دروازے پر دستک دے۔ ہر رکاوٹ کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھے ۔ عزیمت اس کا زادِ راہ ہو اور پھر وہ وقت آ جائے کہ دنیا اسے اپنے نام سے نہیں ، فکر اور صاحب فکر کے حوالے سے جاننے لگے۔ یوں کہیے کہ ہر صاحب فکر کو ایک میاں طفیل محمد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی بہت خوش قسمت رہے کہ انھیں میاں طفیل محمد میسر آئے۔

ہماری تاریخ میں کتنے لوگ ہو گزرے جنھوں نے ایک میاں طفیل محمد کی خواہش کی ۔ شبلی، ابوالکلام،یہاں تک کہ اقبال۔سب نے چاہا کہ کوئی ایسا رفیق میسر آئے جوان کے خوابوں کی تعبیر کے لیے خود کو صرف کر ڈالے۔ کوئی فرد،کوئی جماعت، لیکن وہ سیّد مودودی کی طرح خوش بخت ثابت نہ ہو سکے۔ شبلی کے منصوبے کاغذوں تک محدود رہے۔ ابوالکلام نے جماعت تک بنا ڈالی لیکن اگرکوئی ان کی داستانِِ حسرت سننا چاہے تو ان کا وہ نوحہ پڑھ لے جسے جامع مسجد دلی کے میناروں نے سنا اور رو دیے۔ علامہ اقبال تو زندگی کے آخری ایّام میں بھی ایک جماعت کا خواب دیکھتے رہے لیکن اس کی تعبیر کوئی نہ دے سکا۔

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کا معاملہ ان سے مختلف رہا۔ ان کی علمی آراء ، نتائج فکر ،حکمتِ عملی، ہر پہلو سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور سچ یہ ہے کہ اﷲ کے آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ کے بعد یہ کس کی حیثیت ہے کہ اس کی شخصیت کا ہر پہلو تنقید اور نقص سے پاک ہو، لیکن اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ سیّد مودودی کے افکار نے ایک زمانے پر اپنا اثر ڈالا۔ ان کی فکر کو کروڑوں لوگوں نے دین کی واحد تعبیر کے طور پرقبول کیا ۔ ایک جماعت وجود میںآئی جس کے نظم کے تحت لاکھوں لوگوں نے اس فکر کے فروغ کو اپنا مقصدِ حیات بنایا۔ سیاست اور سماج کی وادیوں میں اس کی صداے بازگشت سنی گئی۔اس فکر نے ہمارے مذہبی ذہن پر اتنا اثر ڈالا کہ بظاہر اس سے اختلاف رکھنے والے آج ان کی اصطلاحوں میں کلام کرتے اور تفہیمِ مدعا کے لیے خود کو ان کی وضع کردہ تراکیب کا محتاج پاتے ہیں۔ یہ سب محض اتفاق سے نہیں ہوا۔ وہ لوگ تو شاید انگلیوں پر گنے جا سکیں جو مولانا مودودی سے کسی شخصی تعلق کا دعویٰ کر سکتے ہوں ۔ وہ مزاجاً کبھی ’’عوامی‘‘ نہیں بن سکے۔ ان کی تحریر خواص کے لیے تھی اور تقریر بھی۔ عام آدمی کو ان تک رسائی نہیں تھی۔ اگر کوئی خوش قسمتی سے ان کے قریب پہنچ جاتا تو رسمی دعا سلام سے بات آگے بڑھ نہ پاتی۔ وہ کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان لکھتے اور بولتے تھے۔ اس مزاج کا آدمی اگر الطاف گوہر مرحوم کے الفاظ میں ’’ عزیزِ جہاں‘‘ بنا تواس کا سہرایقیناً ان کے سر ہے جنھوں نے ان کے قرب سے فیض اُٹھایا، اسے اپنے وجود میں سمیٹا اور یوں عام آدمی اور مولانا مودودی کے درمیان ایک پل بن گئے ۔ ایسے سب سے بڑے پل کا نام میاں طفیل محمد ہے۔

میاں طفیل محمد نے جب یہ شعوری فیصلہ کیا کہ وہ مولانا مودودی کی تحریک کا حصہ بنیں گے تو اس وقت وہ ایک نوجوان وکیل تھے۔ نوجوانی میں ہر آدمی رومان پسند ہوتا ہے۔ تاہم اس کا انحصار ایک فرد کی بلندئ پرواز پر ہے کہ اس کا رومان ایک نسوانی وجود کے نشیب و فراز میں الجھ کے رہ جاتا ہے یا وہ ایک مقصدکے تحت ایک زمانے کو بدلنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ میاں طفیل محمدکا رومان دوسری طرح کا تھا۔شادی کا رومان ابھی جوان تھا کہ جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع میں جا پہنچے۔ کوٹ پتلون اور نکٹائی کے ساتھ رکنیت کے لیے درخواست گزار ہوئے تو تقویٰ اور للّٰہِیت کوظاہری لبادے میں تلاش کرنے والے مزاحم ہوئے۔یہ حلیہ اور جماعت اسلامی کی رکنیت! قافلے کے حدی خواں نے سفارش کی اور چھ ماہ کے لیے آزمایشی بنیادوں پر درخواست قبول کر لی گئی ۔ آدمی اصلاً اپنے اندر چھپا ہوتا ہے۔ جب وہاں یک سوئی اوراخلاص ہو تو ظاہر کے بدلنے کے لیے چھ ماہ بہت ہوتے ہیں۔ وہ دن اور زندگی کا آخری دن ، معترضین رخصت ہو گئے لیکن طفیل مجسم جماعت اسلامی ہو گئے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس جماعت اسلامی کو آج ہم تناور درخت کی طرح دیکھتے ہیں ، یہ میاں طفیل محمد کے ایثار کا ایک مظہر ہے۔

جماعت اسلامی آج ایک منظم جماعت اور ادارہ ہے۔ اس کی اساس ایک فکر پرہے اور یہی جماعت سے وابستگی کے لیے سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ سیّد منور حسن اس جماعت کے چوتھے امیر ہیں ۔ چاروں امراء کے مابین کوئی خونی تعلق ہے نہ علاقائی۔ بانی امیر حیدر آباد دکن کے تھے تو دوسرے پنجاب سے۔ تیسرے پٹھان تھے تو چوتھے ’’مہاجر‘‘۔ ان سب کا انتخاب ہوا۔ جماعت اسلامی کے ارکان نے انھیں اپنے ووٹوں سے چُنا۔ ووٹ دینے والے چاروں صوبوں کے تھے اور ہر رنگ و نسل کے۔ لیکن ان کی تربیت اس نہج پر ہوئی کہ ایسا کوئی تعلق، رشتہ اور وابستگی ان کے نزدیک امارت کا پیمانہ نہیں تھی جنھیں سکہ رائج الوقت کی حیثیت حاصل ہے اور جن کی بنیاد پر ہمارے ہاں کم و پیش ہر سیاسی و مذہبی جماعت میں قیادت کا انتخاب ہوتا ہے۔ ’’انتخاب‘‘ کا لفظ شاید معاملے کی صحیح تعبیر نہ ہو، درحقیقت لوگ رنگ، نسل اور وراثت کے اصول پر اپنی جماعتوں پر مسلط ہوتے اور اسے اپنا استحقاق سمجھتے ہیں ۔ جماعت اسلامی نے اگر اس کے برخلاف، عمومی روش سے ہٹتے ہوئے یہ جزیرہ آباد کیا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ایک ادارے کی صورت اختیار کر چکی ہے اور اس کا سہرا بلا مبالغہ میاں طفیل محمد کے سر ہے جنھوں نے مولانا مودودی کی زندگی میں بطور قیم اور پھر امیر جماعت کی حیثیت سے جماعت کو ادارہ بنانے میں اپنی ساری عمر کھپا دی۔

وہ محض ایک منتظم نہیں تھے، بلاشبہ ایک صاحبِ عز یمت شخصیت بھی تھے۔انھوں نے جماعت اسلامی کو ایک شعوری اور قلبی تعلق کے ساتھ قبول کیا اور اس معاملے میں پوری طرح یکسو ہو گئے کہ رضائے الٰہی کے حصول کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو بس یہی ہے۔ اس شرح صدر کے بعد انھوں نے اس راہ میں پیش آنے والی ہر آزمایش کو ایک نعمت سمجھتے ہوئے ، آگے بڑھ کر گلے لگایا ۔ پھر دارو رسن ان کے لیے شاعرانہ تلمیحات نہیں تھیں ، کتاب زندگی کے اوراق تھے ۔ ایک مرتبہ جیل میں ان کی داڑھی مشقِ ستم بنی تو ایک دنیا کو بے چین کر گئی۔ مولانا امین احسن اصلاحی اس وقت جماعت اسلامی کا حصہ نہیں تھے۔گزرے دنوں کی یاد میں تلخی کا غلبہ تھا لیکن اس خبر نے انھیں مضطرب کر دیا ۔ اپنے ایک پرانے اور مخلص ساتھی کی یہ توہین ان کے لیے ناقابل برداشت ہوگئی ۔ کمرے میں مضطربانہ چکر لگاتے اور کہتے: ’’میں جا کر اس داڑھی کو چومنا چاہتا ہوں جو اﷲ کی راہ میں کھینچی گئی‘‘۔میاں طفیل محمد کے لیے یہ جذبات ایک ایسے آدمی کے تھے جو اس راہ میں ان کا ہم سفر نہیں تھا اور فکر کے حوالے سے بھی شاید بہت فاصلے پر کھڑا تھا لیکن یہ ضرو جانتا تھا کہ وہ جسے حق سمجھ رہے ہیں ، اس کے لیے اتنے یکسو ہیں کہ اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر سکتے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ اﷲ کے حضور میں صحتِ فکر سے زیادہ اہم وابستگی فکر ہے ۔ ہماری بصیرت محدود اور ہماری عقل دھو کا دے سکتی ہے۔ اﷲ کو مطلوب یہ ہے کہ ہم جسے اس کا منشا سمجھتے ہیں ، اس کے لیے کتنے مخلص اور کتنے ایثار کیش ہیں۔ میاں صاحب کی حنفیت ان کی شخصیت کا شاید سب سے دلکش اور قابلِ رشک پہلو ہے۔

سماجی تعلق میں بھی میاں طفیل محمد منفرد تھے۔ وہ جسے عزیز رکھتے دل سے عزیز رکھتے۔ کسی کے ساتھ فکری اختلاف کو وہ اس کے دائرے سے بڑ ھنے نہ دیتے۔ اس کے لیے دل میں روگ پالتے نہ اسے قطعِ رحمی کا سبب بناتے ۔ ایک واقعے سے ان کی شخصیت کے اس پہلو کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے ۔ استادِ محترم جاوید احمد صاحب غامدی نے جب ازدواجی سفر کا آغاز کیا تو وہ جماعت اسلامی کے رکن نہیں تھے۔ جماعت سے ان کی رکنیت کوئی وجہ بتائے بغیر ختم کی جا چکی تھی۔ ہماری سماجی روایت ہے کہ نو بیاہتا جوڑے کو قریبی اعزہ و اقربا اپنے ہاں کھانے پر مدعو کرتے ہیں۔ شادی کے بعد محترم جاوید صاحب جس پہلی دعوت میں شریک ہوئے ، اس کے میزبان میاں طفیل محمد تھے۔

میاں طفیل محمد مرحوم نے فکرِ مو دودی کو عام کر نے کے لیے جو کردار ادا کیا ،اسے ایک اور زاویے سے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انسان اس دنیا میں محدود صلاحیتوں کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ اس کے لیے آزمایش کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے وجود کے اندر جھانکے اور دیکھے کہ اﷲ نے اسے کیا صلاحیت ودیعت کی ہے۔ خود شناسی کے اس مرحلے سے گزرنے کے بعد اگر انسان اپنے کردار کا تعین کرے تو وہ سماج کی ترقی میں ایک مثبت اور قابلِ ذکرکردار ادا کر سکتا ہے۔ اسی طرح کسی فرد کے بارے میں کوئی راے دیتے وقت دوسروں کو بھی یہی دیکھنا چاہیے کہ وہ اصلاً کس میدان کا آدمی تھا۔ میاں طفیل محمد مرحوم کی عظمت کو بھی ہم تب ہی جان پائیں گے جب ہم اس کردار کو صحیح تنا ظرمیں دیکھیں گے جو انھوں نے جماعت اسلامی کی تاریخ میں ادا کیا ۔ اگر ہم ان میں مولانا مودودی کاعلمی جانشین تلاش کرنا چاہیں تو یہ نہ میاں صاحب کے ساتھ انصاف ہو گا نہ اپنے ساتھ۔ مولانا داؤدغزنوی ایک مرتبہ مولانا مودودی سے ملنے تشریف لائے تو کہا کہ مولانا آپ بھی کوئی ابن قیم پیدا کرتے۔ مولانا مسکرائے اور دوسرے کمرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’ ابھی تو قیم پیدا کر رہا ہوں‘‘ اس کمرے میں قیمِ جماعت، میاں طفیل محمد موجود تھے۔ جو بات مولانا نے ازراہِ تفنن کہی، اس میں ایک سنجیدہ پیغام ہے۔ میاں طفیل محمد ابن قیم نہیں، قیمِ جماعت اسلامی تھے۔ اگر ہم اس فرق کو سمجھ لیں تومیاں صاحب کے تاریخی کردار کا بہتر تعین کر سکیں گے۔

ہر اجتماعیت اسی وقت نتیجہ خیز ہو سکتی ہے جب اس کا ہر حصہ اپنے کردار کا پوری طرح ادراک رکھتا ہو۔ ہم میں کوئی پیغمبر نہیں، اس لیے پیغمبرانہ جامعیت کی تلاش ایک لا حاصل سفر ہے۔ ہمارے سامنے واحد راستہ یہ ہے کہ ہم کسی فردِ واحد میں یہ خوبیاں تلاش کرنے کے بجاے اجتماعی بصیرت کو بروئے کار لائیں اور یوں افراد مل کر ایک دوسرے کی کمزوریوں کا تدارک کریں تاکہ ان کی اجتماعی خوبیاں وہ نتائج مر تب کر سکیں جو کسی ہمہ جہتی تبدیلی کے لیے ضروری ہیں۔ جماعت اسلامی کی تاریخ اور میاں طفیل محمد کی زندگی اس بات کی تفہیم کے لیے ایک اچھی مثال ہو سکتی ہے۔ جماعتِ اسلامی پر بالعموم جو تنقید کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جماعت میں مولانا مودودی کا کوئی جانشین پیدا نہ ہو سکا۔ بطور امر واقعہ اس میں کو ئی کلام نہیں لیکن اگر اس معاملے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں تو اس میں ہمارے لیے ایک سبق ہے۔ مولانا مودودی اگر ایک عالمِ دین تھے اور بلا شبہ تھے تو پھر ہمیں ان کا جانشین موچی دروازے یا لیاقت باغ کے جلوت کدے میں نہیں ، ۵۔اے ذیلدار پارک کی کسی خلوت گاہ میں ملے گا۔ ہم اگر علم کی تنہایاں آباد کرنے کے بجاے عامۃالناس کے جلسہ ہاے عام برپا کریں اور پھر یہ چاہیں کہ یہاں سے کوئی مولانا مودودی برآمد ہو تو پھر ناکامی پرہمیں ’’جلسہ عام‘‘ کو مطعون کر نے کے بجاے اپنی بصیرت کو الزام دینا چاہیے۔ اس سے یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہم کوئی ذوالفقار علی بھٹو دریافت کر پائیں، لیکن مولانا مودودی نہ اس طرح بنتے ہیں نہ ملتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ نے اہلِ علم کی ایک مجلس بنائی جہاں صبح و شام علمی مسائل کی گتھیاں سلجھائی جاتی تھیں۔ اس عمل کے نتیجے میں قاضی ابو یوسف ،امام زفراور امام محمد جیسے لوگ ہی پیدا ہو سکتے ہیں ۔ یہ سوال اُٹھانا بے معنی ہو گا کہ مجلسِ ابو حنیفہ سے کوئی صلاح الدین ایوبی کیوں نہیں اُٹھا؟

ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اگر ہمارے نزدیک اصل کام دین کی فکری تجدید اور احیا ہے تو یہ کام ایک خاص طرح کی حکمت عملی کا متقاضی ہے۔اگر ہم نیا سیاسی منظر ترتیب دینا چاہتے ہیں تو اس کی حکمتِ عملی بالکل دوسری ہو گی۔ اگر تزکیہ نفوس کرنا چاہتے ہیں توپھر ہمیں کوئی خانقاہ آباد کرنا ہو گی۔ اگر ہم یہ سب کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ہر طرح کے لوگ چاہییں جو فطری طریقے سے نمایاں ہوں اور فطری اسلوب ہی میں اپنا کام کریں۔ہم عالم کو سیاست دان بنا نے کی کوشش کریں نہ سیاست دان کو مدرس اور مربی۔ایسی کوشش ولایتِ فقیہ کے تحت ایران میں کی گئی۔تیس سال کے تجر بے نے ثابت کر دیا کہ ایسی ہر کوشش کا انجام صرف پا پائیت ہے اور یہ ایک سیاسی نظام کی ناکامی ہے۔ انسان کا تہذیبی ارتقا یہ بتاتا ہے کہ کسی ہمہ جہتی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کی اجتماعی بصیرت بروئے کار آئے۔ انسانی اجتماعیت کو صرف مولانا مودودی ہی نہیں،میاں طفیل محمد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی اگر آج اپنا وجود رکھتی اور ایک ادارے میں ڈھل چکی ہے تو اس کا ادراک میاں طفیل محمد کے کردار کو صحیح تناظر میں جا نے بغیر نہیں ہو سکتا۔ شبلی کا ’’ ابن قیم‘‘ بھون کی خانقاہ میں کھو گیا، ’’قیم‘‘ انھیں میسر نہ آ سکا۔ اقبال اس کی آرزو کرتے رہے۔ جس حد تک واعظین کی ضرورت ہے، معاشرے میں اقبال دکھائی دیتے رہے۔ کسی نے ان کے فکر کے فروغ کو زندگی کا کام نہیں بنایا اور اب وہ لائبریریوں کی زینت ہے یا عجائب خانہ اقبال کی۔ سید مودودی خوش قسمت رہے کہ نھیں میاں طفیل محمد میسر آئے۔ اﷲ تعالیٰ انھیں اپنی مغفرت سے نوازے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔

 ________________

B