HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : نعیم بلوچ

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

مغربی ذہن کی فکری تشکیل

مصنف: رچرڈ ٹرناس

مترجم: نعیم احمد بلوچ


’’یہ کالم مشرق و مغرب کے علمی و فکری افکار کے انتخاب پر مشتمل ہے ۔زیر نظر تحریر Richard Tarnasکی شہرہ آفاق کتاب The Passion of the Western Mind کا اردو ترجمہ ہے جو بالاقساط پیش کیا جارہا ہے۔ ادارے کا مصنفین کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔‘‘

اس کتاب میں دنیاے مغرب کے فکری ارتقا کی مختصرتاریخ بیان کی گئی ہے۔ قدیم یونانی دور سے لے کر موجودہ جدید دور کی دہلیز تک کی اس تاریخی داستان کو میرے پیش نظر ایک ہی جلد میں پیش کرنا مقصود تھا۔یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہی ہے کہ یہ ایک مربوط شکل میں اس طرح سے سامنے آئے کہ مغربی ذہن کا پورا ارتقا اور حقائق کے بارے میں ان کے بدلتے ہو ئے تصورات سمیت سب کچھ بیان ہو جائے۔ دور جدید کے فلسفے ،نفسیات ، مذہب اور سائنس نے اس بے مثال ارتقا پر نئے پہلووں سے روشنی ڈالی ہے۔

اس بات کا خوب غلغلہ ہے کہ مغربی اقدار ٹوٹ رہی ہیں ،آزاد نظام تعلیم زوال پذیر ہے اور ہماری تہذہبی جڑیں اس قدر مضبوط نہیں کہ وہ عہد حاضر کے پیچیدہ مسائل کا مسکت جواب دے سکیں۔ ہر آن بدلتی اس دنیا میں متذکرہ مسائل کے ردعمل میں کہیں عدم تحفظ کے احساس نے جنم لیا ہے تو کہیں ماضی کے مزاروں میں پناہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس پس منظر میں پڑھے لکھے اور صحیح سمت میں سوچنے سمجھنے والے خواتین و حضرات میں بجا طور پر اس کتاب کی شدیدضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔

دور جدید کی موجودہ ہیئت کیسے وجود پذیر ہوئی؟ جدید ذہن نے ان اصولوں کو کیسے دریافت کیا جن کی کارفرمائی ہمیں آج ہرجگہ نظر آرہی ہے اور ان کا استعمال آخر کس قاعدے ضابطے پر کیا گیا ہے؟ یہ ہیں وہ اہم سوالات جن کا درست جواب جاننے کے لیے ہمیں لازمی طور پر ان بنیادوں کا مطالعہ کرنا ہو گا جن پر آج کے دور جدید کی شان دار عمارت ایستادہ ہے ۔ اس مطالعہ میں جہاں ہمیں قدیم افکارو اخلاق کا بے لاگ جائزہ لینا ہو گا ،وہیں ہمیں اپنے دور کے ان اثرات کا کھوج لگانا ہوگا جو ماضی کا حصہ رہے ہیں ۔

میرا ایمان ہے کہ اس آگہی کے حصول کے لیے ہمیں اپنی دنیا کا گہرا مطالعہ و مشاہدہ کرنا ہو گا اور اسی سے ہم اپنے آج کے پیچیدہ مسائل سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کی راہ پا سکیں گے۔ مغرب کی تہذیبی اور فکری تاریخ تبھی ان چیلنجوں کا جواب دینے کے قابل ہو سکے گی جن کا آج ہمیں سامنا ہے۔

اس کتاب کے ذریعے سے میں نے اس تاریخ کے ضروری اجزاء کو عام قارئین کی دسترس میں لانے کی کوشش کی ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے یقیناًاس کہانی کے وہی حصے بیان ہوئے ہیں جو میری نظر میں ضروری ہیں۔ مغربی ذہن کی تشکیل کی یہ داستان کسی رزمیہ ڈرامے کی طرح خوب صورت بھی ہی ہے اور تہَ در تہَ بھی۔ اس میں جن ادوار سے بطور خاص تعرض کیا گیا ہے، ان میں قدیم اور کلاسیکی یونانی دور، چوتھی تاپہلی صدی قبل از مسیح کا یونانی عہد، امپیرل روم،یہودی اور مسیحی ادوار، کیتھولک چرچ ، وسطی دور ،نشاۃثانیہ ، دور عرفان وآگہی، آرٹ کا دور ،رومانیت پسندی اور اس کے بعد ہمارا اپنا متاثر کن عہد شامل ہے۔

اگران شخصیات کی طرف آئیں جنھوں نے مغربی اذہان وقلوب کو بے حد متاثر کیا، مہتمم بالشان مسائل پر گفتگو کا ڈول ڈالا، حقائق تک رسائی میں مغربی ذہن کی رہنمائی کی کوشش کی تو ان میں تھالس(Thales) اور فیثا غورث سے لے کر افلاطون اور ارسطو تک،کلیمنٹ(Celement) اور بوتئیھس(Boethius) سے اکینس(Aquinas) اور آخم(Ockham ) تک، اوڈکس (Eudoxus)اور طالمی سے کوپرنیکس(Copernicus) اور نیوٹن(Newton) تک، بیکن( Bacon) اور ڈیکارٹ (Descartes)سے کانٹ(Kant) اور ہیگل (Hegal)تک،اور پھر اس کے بعد کی اہم شخصیات بشمول ڈارون، آئن شٹائن(Einstein )،فرائڈ،اور اس کے بعد تک، سبھی کو زیر بحث لایا گیا ہے۔

نظریات وتصورات کی ان طویل اور عظیم معرکہ آرائیوں ہی کو مغربی روایت کہا جاتا ہے اور انھی کے نتائج واثرات ہم پر مرتسم ہو ئے ہیں ۔ علاوہ ازیں ایک شخصی قسم کا یودھ بھی ہمارے پیش نظر رہا ہے ۔ میری مراد سقراط سے ہے اور پھر معرکہ پال وآگسٹائن اور لوتھر بمقابلہ گلیلیو بھی۔ اس کے علاوہ کچھ نام قدرے کم مشہور بھی ہیں لیکن وہ اتنے اہم ہیں کہ انھوں نے مغربی ذہن کے سفر کو ایک نئی سمت دینے کی کوشش کی۔یہ ایک عظیم المیہ داستان ہے اور اس المیے کی تہَ میں کچھ حقائق بھی ہیں۔

آیندہ آنے والے صفحات میں جو داستان رقم کی جارہی ہے ،اس میں ہمارے پیشِ نظر مغربی کلچر کے وہ نمایاں سنگِ میل ہیں جنھوں نے اس ارتقا میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے اور اس سلسلے میں ہماری توجہ کا محور فلسفہ، مذہب اور سائنس ہی رہا ہے ۔

ورجیناولف( Virginia Wolf ) نے عظیم ادبی شہ پاروں کے متعلق جو کہا تھا شاید وہ اس عظیم عالمی جائزے پر بھی صادق آتا ہے:

’’ کسی ادبی شہ پارے کی کامیابی کا راز اس میں مضمر نہیں ہے کہ وہ ہرقسم کے نقص سے پاک ہو۔ درحقیقت بڑے سے بڑے نقص کی موجودگی ہم کسی عظیم ترین شاہکارمیں بھی برداشت کر سکتے ہیں لیکن اصل کمال تو یہ ہے کہ لکھنے والا ہمارے اذہان و قلوب کو اس طرح مسخر کر لے کہ ہمارا تصور اس باب میںآخری حد تک واضح اور غیر مبہم ہو‘‘۔

میرے پیش نظر بھی یہی ہے کہ آیندہ صفحات میں جو کچھ بیان کروں وہ مغربی ذہن کے سفرکی ایسی آواز ہوجیسے ہر منزل اور ہر وادی اپنی داستان خود سنا رہی ہے ۔

حقائق کے بیان میں، میں نے اپنی ذاتی یا موجودہ دورکی کسی رائے کو اس پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔جو بڑی عمیق ،واضح اور دیکھی بھالی ہے۔اس کے بالکل برعکس میں نے پوری کوشش کی ہے کہ حقائق جیسے ہیں،بلا کم و کاست ویسے ہی سامنے آئیں۔میرا معاملہ بالکل ایسا ہی رہا ہے جیسا کسی شاہکار پینٹنگ کو سمجھنے اورمشاہدہ کرنے والے سچے ناظر کا ہوتا ہے کہ وہ اس کے اثرات کو اپنے ذہن پر پوری آزادی سے مرتسم ہونے دے اور پھر اس کے وہی معنی اور وہی اثرات لے جو اس تصویر کا اصل طرۂ امتیازہے۔

آج مغربی ذہن ایک عہدساز تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ یہ تبدیلی اس قدر وسیع اور متنوع ہے کہ اس کا موازنہ کسی بھی دور سے کیا جا سکتا ہے۔ظاہر ہے کہ اس تبدیلی کا ہم اسی قدرشعور و احساس کر سکتے ہیں،جس قدر ہم اس کے بارے میں تاریخی طور پر آگاہ ہو ں گے۔ہر دورکو نئے سرے سے اپنے آپ کو دریافت کرتا ہوتاہے۔ہر نسل کواپنے اس مخصوص نقطہ نظر کا بار بارجائزہ لیتے رہنا چاہیے جس کے ذریعے سے وہ دنیا کوسمجھ رہے ہیں۔ اور اس عمل میں ہمیں بیسویں صدی کے آخری حصے کو بطور خاص اپنے سامنے رکھنا ہو گا جو ہمہ جہتی ہونے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا ۔ یہ کتاب اسی کوشش کے تسلسل کی ایک کڑی ہے۔

باب اول ۔۔۔یو نانی فلسفے کا جائزہ

یونانی فلسفہ ایک پیچیدہ اور مائل بہ تغیرخصوصیات کا حامل ہے۔ اس کے بنیادی امتیازات کو جاننے کے لیے ہم اس کی سب سے اہم خصوصیت کو زیر بحث لائیں گے۔ ہماری مراد ان کے ہاں دنیا کی تشریح مثل اولیٰ(Archetype Ideas) کے اصول پر کرنے کا مستقل اورہمہ جہتی رجحان ہے۔

یونانی کلچر میں اس رجحان کا آغاز ہومر(omer H ) کی رزمیہ شاعری سے ہوتا ہے اور اس کے بعد کے دور یعنی پانچویں صدی قبل از مسیح کے وسط سے لے کر چوتھی صدی کے درمیان تک اس کی چھاپ گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگرچہ اس کا اولین اظہار اس وقت ہوتا ہے جب ایتھنز کے لوگ ایک دوسرے سے علمی مناظرے کرتے نظر آتے ہیں۔ افلاطون کے مکالموں میں سقراط کے حوالے سے تو یہ رجحان کسی حد تک قاعدے کلیے میں ڈھلتا ہوا نظر آتا ہے۔

در اصل یہ کائنات کی تشریح ہے جو قدیم ترین جوہر) Primordial essences)یاماورائے مشاہدہ بنیادی اصولوں (Transcendent principes )کا منظم بیان ہے جو کہیں امثال اوراعیان میں ڈھلا ہے تو کہیں آفاقی اور قائم بالذات تصورات میں اور کبھی یہ لافانی دیوتاؤں کی شکل اختیار کرتا ہے تو کہیں مقدس مبادیات اور مثل او لیٰ کی صورت میں نظر آتا ہے ۔اس منظر نامے میں نمایاں انحرافات بھی ہیں اور بعض جگہوں پر بہت اہم تضادات بھی ۔ یہ رجحان سقراط ، افلاطون اور ارسطو اور ان سے قبل فیثاغورث کے ہاں بھی پایاجاتا ہے اوراس کے بعد میں پلوٹینس کے ہاں بھی۔ لیکن ہومر اور ہیسڈ(Hesiod )،اشائی لس(Aeschylus )اورسوفکلس(Sophocles )،سب کے ہاں جو چیز ایک مشترکہ فکر کے طور پر نظر آتی ہے اور وہ یونانیوں کے اس مخصوص طرز فکر کی عکاسی کرتی ہے جس میں وہ زندگی کی گتھیوں کا ایک آفاقی اور ہمہ گیر حل چاہتے ہیں ۔

اس وسیع تناظر میں جبکہ یہ بات بھی ہمارے ذہن میں ہے کہ یونانیوں کے ہاں قاعدوں کلیوں کو عام بھی قرار نہیں دیا جاسکتا،ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ہاں کائنات ظرف زماں سے بے نیاز متعدد جواہرکے ذریعے منظم ہے جوحقائق تک پہنچنے میں ممدو معاون ہیں اور ان کومتشکل بھی کرتے ہیں اور مفہوم بھی عطا کرتے ہیں۔

مثلِ اولیٰ کے ان تمثالات میں جو چیزیں شامل ہیں ان میں جیومیٹری اور حساب کی ریاضیاتی صورتیں،کائناتی اضداد جیسے روشی اور تاریکی ،تذکیرو تانیث،محبت اور نفرت، اکائی اور تعدد،انسان اور غیر انسانی مخلوقات،نیکی،جمال ،عدل اور دوسری اخلاقی اور جمالیاتی اقدار قابل ذکر ہیں ۔ قبل از فلسفہ یونانی ذہن میں یہ مثلِ اولیٰ اسطوری تجسیم اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان میں ایرس (Eros )کیاس(Chaos)آسمان اور زمین(Ouranos and Gaia) شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض مکمل دیوی دیوتا کے روپ میں سامنے آتے ہیں جیسے زیوس(Zeus)،پرومیتھس(Prometheus) اور ایفروڈائٹ(Aphrodite)۔اس پس منظر میں کائنات کے ہر گوشے میں انھی مبادیات کا عمل دخل ہے۔

انفس وآفاق میں یہ مظہر یونانیوں کے ہاں یکساں طور جاری وساری نظر آتا ہے لیکن اس کے باوجود ایسے ممتاز قسم کے ناقابل تبدیل جواہر یاوجود ہمیں ملتے ہیں جو اپنی ذات میں ایک علیحدہ حقیقت کے مالک مانے جاتے ہیں۔ اس بظاہر ناقابل تغیر خصوصیت اور آزادی کے بل پر افلاطون نے اپنے مابعدالطبیعیاتی افکار اور نظریہ علم کی بنیادیں استوار کی ہیں ۔

مثلِ اولیٰ کی اس بحث نے ہمیں ایسے مفید سنگم پر پہنچا دیا ہے جہاں پر ہم ایک طرف ایک منزل کے اختتام پراور دوسری طرف یونانی دنیا کے فلسفے کے ایک نئے باب کی دہلیز پر کھڑے ہیں اورہمارے سامنے افلاطون کی حیثیت ایک نمایاں نظریہ ساز اور وکیل کی ہے جس کی فکر نے تنہا مغرب کے فکری ارتقا کی اہم بنیادیں استوار کی ہیں ۔ چنانچہ ہم افلاطون کے اصولِ تصور سازی پر گفتگو کا آغاز کر سکتے ہیں ۔اس کے بعد کے ابواب میں ہم یونانی فکر کی تاریخ ساز ترقی کا مجموعی طور پر جائزہ لیں گے اور افلاطون کے معرکۃآلاراء ہمہ جہتی مکالموں کا مطالعہ کریں گے اور ان نتائج فکر کی طرف بڑھیں گے جو یقیناً ان مکالموں ہی کی طرح ہمہ جہتی ہوں گے۔

افلاطون کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات مدنظر رہے کہ اپنے فلسفے کا اظہار وہ ایسے پیرائے میں کرتا ہے جو خاصا غیرمنظم ، غیر حتمی اور طنزیہ اسلوب لیے ہوتا ہے۔ ہمیں اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا کہ افلاطون نے اپنی بات کے اظہار کے لیے جس ادبی اسلوب کا انتخاب کیا ہے وہ اپنے اندر ناگزیر طور پر صنعتِ ایہام کی خاصیت رکھتا ہے لیکن یہ اپنی جگہ درست بات ہے کہ افلاطون نے جان بوجھ کر بھی اپنے ہاں ایہام پیدا کرنے ہی کو اختیار کیا ہے ۔ ہماری مراد مکالمے کے اسلوب سے ہے جوکہ ڈرامے میں اختیار کیا جاتا ہے۔

آخر میں ہم یقیناً اس امر کا بھی جائزہ لیں گے کہ اس کے فکر کا دائرہ کار کیا ہے ، اس میں تغیر پذیری کی صلاحیت کتنی ہے اور پچاس برسوں پر محیط عرصے میں اس کے ہاں کس قدر فکری بلوغت ہوئی ہے۔اس تمام استعداد کو بہم پہنچانے ہی کے بعد ہم یہ مشروط قسم کی کوشش کر سکتے ہیں کہ بعض اہم تصورات اور اصولوں کو افلاطون کے حوالے سے بیان کر سکیں۔ افلاطون کے فکر کی ترجمانی کی اس کوشش میں ہمارااصل ماخذ خود افلاطونی روایت ہو گی۔ یہ روایت ایک مخصوص فلسفیانہ پس منظر میں وجود پذیر ہوئی ہے اور یہ خود افلاطون ہی کی ذات سے پھوٹی ہے۔ یونانی ذہن کے ان اہم ترین امتیازات کو متعین کر لینے کے بعد ہم افلاطون سے قبل سقراطی روایت اور اس کے بعد ارسطو کے دور کا جائزہ لے سکتے ہیں ۔

مثلِ اولیٰ کی تمثیلات

عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ فلاطونیت ایک بنیادی اصول کے گرد گھومتی ہے اور وہ ہے مثل اولیٰ کی صورت گری پر اصرار۔ عام طور پر حقیقت تک رسائی کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اس سے یہ اصرارتھوڑے مگردقیق قسم کے گریز کا تقاضا کرتا ہے۔ اس گریز کا مفہوم جاننے کے لیے ہمیں پہلے اس سوال کا جواب چاہیے : افلاطونی مثلِ اولیٰ کی امثال یاصور کا ہماری روزانہ کی زندگی کے حقائق کے ساتھ آخرکیا تعلق ہے؟اسی سوال کے جواب میں زیر بحث تصور کا ٹھیک فہم پوشید ہ ہے۔افلاطون نےideaاور eidosکے الفاظ مترادفات کے طور پر استعمال کیے ہیں۔ Idea کا لفظ انگریزی اور لاطینی سے لیا گیا ہے جبکہeidosکا لاطینی ترجمہformaہے اور انگریزی میں اسے formکہیں گے۔

افلاطون کے فلسفے میں ان امثال کو قدیم ماننا ناگزیر ہے جبکہ ٹھوس اشیاء ان کی براہ راست مشتقات سمجھی جاتی ہیں۔ ان امثال کے بارے میں یہ خیال کرنا ہر گز درست نہیں ہو گا کہ یہ انسانی ذہن کے محض وہ غیر مادی تصورات ہیں جو کسی خاص چیز کی تعمیم کے بعد ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے بجائے ان میں کسی بھی وجود کی ساری خصوصیات ہیں ۔ایک خاص معیار کی حقیقت پائی جاتی ہے جو اس مادی دنیا سے بہتر ہے ۔یہ افلاطونی امثال اس دنیا کی تشکیل بھی کرتی ہیں اور اس دنیا سے ماورا بھی ہیں۔ ان کا ظہور ظرف زماں کے اندر بھی ہے اور یہ وقت کے تنگنائے سے باہر بھی ہیں۔ یہ اشیاء کے جواہر کی پردہ داری کرتی ہیں۔

افلاطون اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ جب ہم اس دنیا کی کسی خاص چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں تواس کا ایک ٹھوس حقیقت کے طور پر بہتر فہم اسی وقت حاصل کر سکتے ہیں جب ہم اسے انتہائی ابتدائی شکل میں دیکھتے ہیں اور یہ مثلِ اولیٰ ہے جو ہمیں اس کی مخصوص ساخت اورکیفیت سے آگاہ کرتا ہے۔’’خاص چیز‘‘ سے مراد اس کا وہ جوہر خاص ہے جس کی خبر دینااصل میں مقصود ہوتا ہے۔ کوئی چیز اس وقت ’’خوبصورت‘‘قرار پائے گی جب اس میں حسن کا مثلِ اولیٰ پایا جائے گا۔ جب کوئی محبت میں گرفتار ہوتا ہے تو وہ دراصل محبوب میں حسن (یا ایفروڈائٹ )دریافت کرتا ہے جس کا وہ شکارہو جاتا ہے گویا محبوب حسن کا آلہ یا اس کا ظرف بن جاتا ہے۔ اس واقعے میں اصل چیز مثلِ اولیٰ ہے (یعنی حسن ہے۔مترجم)جس نے ہم پر زیر بحث واقعے کا فہم پوری گہرائی کے ساتھ واضح کیا۔

یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ محبت کا تجربہ تو کسی کو اس طرح سے نہیں ہوتا ۔جب کسی کو کسی میں کشش محسوس ہوتی ہے تو وہ مثلِ اولیٰ میں نہیں بلکہ ایک خاص شخصیت میں ہوتی ہے،آرٹ کا کوئی نادر نمونہ یا خوب صورت منظر ہوتا ہے جو باعثِ کشش ہوتا ہے۔ حسن تواس چیزکی صرف ایک صفت ہے ،اس کا جوہر تو نہیں ہے۔ افلاطونی اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں :یہ صورت حال کا ادھورا مشاہدہ ہے۔ یہ درست ہے کہ عام آدمی کو مثلِ اولیٰ کا کوئی تصور نہیں ہوتالیکن حقیقت یہی ہے۔ ایک فلسفی جو حقائق سے پوری طرح آگاہ ہے ،جب بہت ساری خوب صورت چیزیں دیکھتا ہے تو اس پر حسن مطلق کا راز ایک نظارے ہی میں کھل جاتا ہے کہ حسن اپنی ذات میں افضل ترین ہے،خالص ہے،ابدی ہے ،یہ کسی خاص چیز یا شخص کی اضافی خصوصیت نہیں ہے۔اسی وجہ سے ایک فلسفی یہ سمجھتا ہے کہ یہ وہ خاص شکل یا صورت(مثلِ اولیٰ) ہی ہے جوحسن کے تمام نظاروں میں روبہ عمل ہے ۔وہ ظاہر کے پیچھے حسن کی اصل حقیقت کو آشکارکرتا ہے۔ اگر کوئی چیز خوبصورت ہے تو اسی لیے ہے کہ یہ حسن کی مطلق صورت کا حصہ ہے۔

افلاطون کا مرشد سقراط نیک افعال کی مشترک اساس کا متلاشی تھا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ زندگی میں ایک انسان اپنے رویے کی جانچ پرکھ کیسے کرسکتا ہے۔اس کی دلیل یہ تھی جب تک کسی شخص کو کسی خاص صورت حال سے مجرد ہوکر یہ معلوم نہیں ہوگا کہ نیکی کیا ہے ،اس وقت تک وہ نیک افعال کو کیوں کر اختیار کرسکے گا۔یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ایک چیزدوسر ی سے بہتر ہے ،ناگزیر ہے ایک مطلق خیر کا وجود ماناجائے اور پھر ان دو کا اس سے موازنہ کیا جائے، ورنہ لفظ’’اچھائی‘‘محض ایک لفظ ہے جس کی حقیقت میں کوئی ٹھوس اسا س نہیں اور اس کے نتیجے میں انسانی اخلاقیات اپنی بنیاد ہی کھو دے گی۔ اسی طرح جب تک ہمارے پاس وہ ٹھوس اور فیصلہ کن معیار نہیں ہو گا جس کی بنیاد پر د وامور میں سے ایک کو مبنی برعدل یا مبنی بر ظلم کا فیصلہ کیاجاسکے توپھر ہر عمل انصاف کا حامل قرار پائے گا اور نیکی کا وجود اضافی اور غیر یقینی ہوجائے گا۔

سقراط کے مکالموں میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب اس کے مخاطبین عدل اور ظلم یا نیکی اور بدی کے مقبول تصورات پیش کرتے ہیں تو وہ انھیں متنبہ کرتے ہوئے محتاط تجزیے کا مشور ہ دیتا ہے اوربتاتا ہے کہ یہ نتائج فکر ناقص دلائل پر مبنی ہیں جو آخری درجے میں باہم متناقص و متضاد ہیں اور ان کی بنیاد کسی محکم چیز پر نہیں ہے۔ دراصل سقراط اور افلاطون کے مطابق نیکی کی زندگی بسر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے یہ علم ہو کہ نیکی کیا ہے۔ اور نیکی کی زندگی بسر کرنے کا مقصد درحقیقت انصاف اور سچائی کا آفاقی تصور اور اخلاقیات کا بنیادی جوہر ہے۔یہ ضروری ہے کہ نیکی کے معنی ہر قسم کے حالات میں مستقل رہیں اور اس پر خارجی اور داخلی ،سیاسی اور سماجی تغیرات کسی بھی طرح اثرانداز نہ ہو سکیں، ورنہ نیکی کا وجود ہ خطرے میں رہے گا اور اس کی حیثیت محض اضافی ہو گی۔سقراط کے حوالے سے اخلاقی اصطلاحات اور ان کی مستقل نوعیت کی تعریف بیان کر نے سے پہلے افلاطون نے نظریہ حقیقت کو بڑے واضح طریقے سے بیان کیا ہے۔اس کے مطابق اگر انسان اخلاقیات پر ایمان رکھتا ہے تو عدل اور اچھائی کے تصورات اس کے لیے لازمی ہیں تاکہ ان کی روشنی میں وہ زندگی بسر کر سکے۔ اسی طرح سا ئنسی نقطہ نظر کے قائل انسان کے لیے لازمی ہے کہ وہ دیگرٹھوس تصورات سے واقف ہو تاکہ ان کی روشنی میں عالم کی تشریح کر سکے،دوسری عالمگیر حقیقتوں کا اسے علم ہو جن کی بنیاد پر وہ کیاس chaos (کائنات کی تشکیل سے پہلے مادے کا ہیولہ،جمود) اور تغیر میں تمیز کر سکے اور اشیاء کا باہمی ربط تلاش کرکے انھیں ایک وحدت دے کران کا ایک عاقلانہ شعور حاصل کر سکے۔ ایک فلسفی کا کام یہ ہے کہ وہ اخلاقی اور سائنسی ، دونوں پہلووں کا احاطہ کرے اور یہ تصورات ہی ہیں جو ان دو نقطہ نظر رکھنے والوں کو کسی نتیجے تک پہنچنے کی بنیاد فراہم کرتے ہیں ۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ بات افلاطون کے ہاں ایک طے شدہ امر ہے کہ جب متعدد چیزوں میں ایک مشترک خاصیت پائی جائے مثلاً تمام انسانوں میں ’’انسانیت‘‘ اور سفید پتھروں کی’’ سفیدی ‘‘ایک مشترک خصوصیت ہے، اس صورت میں اسے زمان ومکان سے ماورا کرکے کسی خاص شے تک محدود نہیں مانا جائے گا۔ یہ ایک غیر مادی،کئی پہلووں سے تجریدی اور زمان ومکان کی بندشوں سے پاک قرار پائے گی۔ یہ ہوسکتا ہے کہ جن چیزوں میں یہ خوبی پائی جائے وہ شے ختم ہو جائے لیکن اس سے اس کی وہ خصوصیت ختم نہیں ہو گی جو اس کی پہچان تھی۔ آفاقیت، عمومیت سے علیحدہ خاصیت رکھتی ہے کیونکہ یہ تغیر سے ناآشنا اور لازوال ہے،اسی لیے یہ کسی بھی حقیقت سے بڑھ کر حقیقی ہے۔

ایک دفعہ افلاطون کے ایک ناقد نے کہا :’’میں گھوڑے سے تو واقف ہوں ،لیکن کیا گھوڑا پن بھی کوئی چیز ہے ؟‘‘ افلاطون نے جواب دیا : ’’وجہ صرف یہ ہے کہ تمھارے پاس بینائی تو ہے لیکن بصیرت نہیں ۔‘‘

گھوڑے کا مثلِ اولیٰ ہی وہ بنیادی وصف ہے جو تمام گھوڑوں کی وجہ شناخت ہے اور افلاطون کے نزدیک یہ کسی بھی گھوڑے سے زیادہ مبنی بر حقیقت ہے کیونکہ گھوڑے کا مادی وجود تو محض ایک سانچہ ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو مثلِ اولیٰ کا تصور محض مادی خصائص تک محدود نہیں بلکہ اس مثال سے تو یہ روح کے اندر اترتی بصیرت معلوم ہوتی ہے جو فہم و شعور کے اندورنی دریچے وا کرتی نظر آتی ہے۔ اس مقام کر پہنچ کر ہم یہ ماننے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ مثلِ اولیٰ ظاہری نہیں باطنی حقیقت کو واضح کرتی ہے۔

چنانچہ افلاطونی نقطہ نظر ایک فلسفی سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ عمومیت سے آفاقیت کی طرف جائے، چیزوں کے سطحی مطالعے سے اوپر اٹھ کر ان کے اندر اترے اور اس کے جوہر سے آگاہی حاصل کرے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ لیاقت مستحسن ہی نہیں، بلکہ حقیقت تک رسائی کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ افلاطون فلسفی کی توجہ ظاہریت سے ہٹا کر اشیاء کے باطن کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہے تاکہ حقائق سطحیت کے نقص سے پاک ہوں اور انسان کے اندر گیرائی اور گہرائی میں جاکر قوت مشاہدہ کی حس بیدار ہو۔ اسے اصرار ہے کسی چیز کا اگرچہ محض ایک پہلو سامنے ہوتا ہے، لیکن اصل میں اس کے اندر تمام اساسی جواہر کی آمیزش ہو تی ہے اور اس کی طرف رسائی صرف اسی وقت ممکن ہے جب ایک فعال ذہن کے ساتھ ساتھ اپنے وجدان کو بھی بیدار رکھا جائے۔

افلاطون کو ایسے علم پر کوئی اعتبار نہیں جو محض حواس کے ذریعے سے حاصل کیا گیا ہو کیونکہ ایسا علم ہمیشہ مائل بہ تغیر ، اضافی اورذاتی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہوا کا ایک جھونکا کسی شخص کے لیے خوش گوار ہو سکتا ہے اور کسی دوسرے کے لیے نا خوش گوار۔ ایک مشروب ایک پینے والے کے لیے خوش ذائقہ ہو سکتا ہے اور وہی اسے بدمزہ قرار دیتا ہے جبکہ وہ بیمار ہو۔ چنانچہ حواس کے ذریعے سے حاصل ہونے والا علم مشاہدہ کرنے والے کی قوت ا ور صحتِ مشاہدہ پر منحصر ہو تا ہے ، اس کی کوئی مستقل بنیاد نہیں ہوتی۔موازنے کے ذریعے سے سچا علم تبھی حاصل ہوتا ہے جب تجریدی تصورات کو براہ راست سمجھا جائے کیونکہ یہ ابہام سے پاک اور ظاہریت کے سطحی پن سے ماورا ہوتے ہیں جبکہ حواس کے ذریعے سے حاصل کیا گیا علم محض ایک رائے ، غلطی کا امکان لیے ہوئے اور مطلوبہ معیار سے عاری ہے ۔ وہی علم غلطی سے پاک ہو سکتا اور علم کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے جو ان تصورات کے ذریعے سے براہ راست حاصل کیا گیا ہو۔

مثال کے طور پر حواس سے سچائی نہیں دیکھی جاسکتی اور نہ ہی مطلق مساوات کا علم ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا میں ایسی دوچیزیں پائی ہی نہیں جاتیں جو ہر ہر پہلو سے بالکل ایک سی ہوں۔اب کامل مساوات اور برابری صرف تجریدی طور ہی پر اپنا وجود رکھتی اور صرف عقلی طور پر اس کا شعور حاصل کیاجا سکتا ہے۔ اسی لیے مادی سطح پر جزوی طور پر ہم مساوات اور برابری کا کسی کو مصداق ٹھیرا سکتے ہیں ۔ اسی طرح ، افلاطون کے مطابق ، دنیا میں کوئی چیزکامل دائرے کی شکل میں موجود نہیں ،اسی لیے ہمیں دائرے کا کامل اور حقیقی تصور اس کے مثلِ اولیٰ’’دائرہ پن ‘‘ ہی سے اخذ کرنا پڑتا ہے۔یہی معاملہ کامل نیکی اور کامل انصاف کا ہے۔اسی لیے جب کوئی، کسی چیز کو کسی دوسری چیز سے زیادہ خوب صورت اور زیادہ اچھا قرار دیتا ہے تو وہ زیرِ مشاہدہ چیزوں کا موازنہ اس ذہنی خوبصورتی اور ذہنی اچھائی سے کر رہا ہوتا ہے جو کامل اور مطلق ہوتی اور محض تصور میں موجود ہوتی ہے ۔اس دنیا کی کوئی بھی چیز کامل نہیں ،وہ اضافی اور مستقل طور پرمائل بہ تغیر ہے جبکہ انسان کامل اورمطلق کی تلاش میں ہے اور اسے بجا طور پر اس کی ضرورت بھی ہے اور یہ لابدی چیز اسے صرف اور صرف تصور اور امثال ہی کی شکل میں مل سکتی ہے۔

(باقی)

_______________

B