بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآئَ کَرْہًا، وَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَیْْتُمُوْہُنَّ، اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ، وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، فَاِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْْئًا، وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْْرًا کَثِیْرًا{۱۹}
وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ، وَّاٰتَیْْتُمْ اِحْدٰہُنَّ قِنْطَارًا، فَلاَ تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَیْْئًا، اَتَاْخُذُوْنَہٗ بُہْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا{۲۰} وَکَیْْفَ تَاْخُذُوْنَہٗ، وَقَدْ اَفْضٰی بَعْضُکُمْ اِلٰی بَعْضٍ، وَّاَخَذْنَ مِنْکُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا{۲۱}
وَلاَ تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ، اِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ، اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّمَقْتًا وَسَآئَ سَبِیْلاً{۲۲}
ایمان والو، تمھارے لیے جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۴۲اور نہ یہ جائز ہے کہ (نکاح کر لینے کے بعد) جو کچھ اُنھیں دیا ہے، اُس کا کچھ حصہ واپس لینے کے لیے اُنھیں تنگ کرو۔ ہاں، اِس صورت میں کہ وہ کسی کھلی ہوئی بدکاری کا ارتکاب کریں ۴۳۔ اور اُن سے اچھا برتاؤ کرو ۴۴، اِس لیے کہ اگر تم اُنھیں ناپسند کرتے ہو تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو اور اللہ اُسی میں تمھارے لیے بہت کچھ بہتری پیدا کر دے ۴۵۔ ۱۹
اور اگر ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ کر لو اور تم نے اُن میں سے کسی کو ڈھیروں مال بھی دے رکھا ہو تو اُس میں سے کچھ واپس نہ لو۴۶۔ کیا تم بہتان لگا کر او رکھلی ہوئی حق تلفی کر کے اسے لو گے؟ ۴۷ اور کس طرح لو گے، جب کہ تم ایک دوسرے کے آگے بے حجاب ہو چکے ہو ۴۸ اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں ۴۹۔ ۲۰- ۲۱
اور جن عورتوں سے تمھارے باپ نکاح کر چکے ہوں، اُن سے ہرگز نکاح نہ کرو، مگر جو پہلے ہو چکا، سو ہو چکا ۵۰۔ بے شک، یہ کھلی ہوئی بے حیائی ہے، سخت قابل نفرت بات ہے اور نہایت برا طریقہ ہے۔ ۵۱ ۲۲
۴۲؎ اصل میں ’ان ترثوا النساء کرھًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’کرھًا‘ ’و ہن کارھات اومکرھات‘ کے مفہوم میں ہے۔ یہ مفہوم، اگر غور کیجیے تو اس سے مانع ہے کہ وارث بننے کو اس جملے میں ان کے مال کا وارث بننے کے معنی میں لیا جائے۔ اس لیے کہ آدمی کسی کے مال کا وارث اس کے مرنے کے بعد ہی بنتا ہے اورزبردستی کی جس حالت کا یہاں ذکر ہے، وہ اس کے وارثوں پر تو ہو سکتی ہے، اس کے مر جانے کے بعد خود اس پر نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ وارث بننے سے مراد یہاں عورتوں کو میراث سمجھ کر ان کا مالک بن جانا ہی ہے۔ اس مفہوم کی تائید ان روایتوں سے بھی ہوتی ہے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ عرب جاہلیت کے بعض طبقوں میں یہ رواج تھا کہ مرنے والے کی جائداد اور اس کے مال مواشی کی طرح اس کی بیویاں بھی وارثوں کی طرف منتقل ہو جاتی تھیں۔ قرآن نے اس آیت میں واضح کر دیا ہے کہ عورتیں جانور نہیں ہیں کہ جس کو میراث میں ملیں، وہ ان کو لے جا کر اپنے باڑے میں باندھ لے۔ ان کی حیثیت ایک آزاد ہستی کی ہے۔ وہ اپنی مرضی کی مالک ہیں اور حدود الٰہی کے اندر اپنے فیصلے کرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر کوئی چیز ان پر مسلط نہیں کی جا سکتی۔
۴۳؎ یعنی جس طرح زبردستی کسی عورت کا مالک بن بیٹھنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی جائز نہیں ہے کہ بیوی اگر ناپسندہے تو اس سے اپنا دیا دلایا واپس لینے کے لیے اس کو ضیق میں ڈالنے اور تنگ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح کا رویہ صرف اس صورت میں گوارا کیا جا سکتا ہے، جب وہ کھلی ہوئی بد کاری کرنے لگے۔ اس قسم کی کوئی چیز اگر اس سے صادر نہیں ہوئی ہے، وہ اپنی وفاداری پر قائم ہے اور پاک دامنی کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے تو محض اس بنیاد پر کہ بیوی پسند نہیں ہے، اس کو تنگ کرنا عدل و انصاف اورفتوت و شرافت کے بالکل منافی ہے۔ اخلاقی فساد، بے شک قابل نفرت چیز ہے، لیکن محض صورت کے نا پسند ہونے یا کسی ذوقی عدم مناسبت کی بنا پر اسے شریفانہ معاشرت کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
۴۴؎ یعنی نا پسندیدگی کے باوجود ان کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرو جو شریفوں کے شایان شان ہو، عقل و فطرت کے مطابق ہو، رحم و مروت پر مبنی ہو، اس میں عدل و انصاف کے تقاضے ملحوظ رہے ہوں۔ اس کے لیے آیت میں ’وعاشروھن بالمعروف ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’معروف‘ کا لفظ قرآن مجید میں خیر و صلاح کے رویوں اور شرفا کی روایات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہ اسی مفہوم میں ہے۔ مدعا یہ ہے کہ بیوی پسند ہو یا ناپسند، بندئہ مومن سے اس کے پروردگار کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہرحال میں نیکی اور خیر کا رویہ اختیار کرے اور فتوت و شرافت کی جو روایت انسانی معاشروں میں ہمیشہ سے قائم رہی ہے، اس سے سر مو انحراف نہ کرے۔
۴۵؎ یہ ترغیب دی ہے کہ نا پسند یدگی کے باوجود اچھا برتاؤ کرتے ہو تو ہو سکتا ہے کہ دنیا اور آخرت کی برکتوں کے بہت سے دروازے اسی کے ذریعے سے تم پر کھول دیے جائیں۔ اس مفہوم کے لیے جو الفاظ آیت میں آئے ہیں، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے ان کی وضاحت میں لکھاہے:
’’یہاں لفظ اگرچہ ’عسیٰ‘ استعمال ہوا ہے جو عربی میں صرف اظہار امید اور اظہار توقع کے لیے آتا ہے، لیکن عربیت کے اداشناس جانتے ہیں کہ اس طرح کے مواقع میں، جیسا کہ یہاں ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قسم کا وعدہ مضمر ہوتا ہے۔ اس اشارے کے پیچھے جو حقیقت جھلک رہی ہے، وہ یہی ہے کہ جولوگ ظاہری شکل و صورت کے مقابل میں اعلیٰ اخلاقی و انسانی اقدار کو اہمیت اور ان کی خاطر اپنے جذبات کی قربانی دیں گے، ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کثیر کا وعدہ ہے۔ جن لوگوں نے اس وعدے کے لیے بازیاں کھیلی ہیں، وہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ بات سو فی صد حق ہے اور خداکی بات سے زیادہ سچی بات کس کی ہو سکتی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۲۷۰)
۴۶؎ مطلب یہ ہے کہ اگر اس فیصلے پر پہنچ ہی گئے ہو کہ بیوی کو چھوڑ دینا ضروری ہے تو اس صورت میں بھی جو کچھ اسے دے چکے ہو، اس کا واپس لینا تمھارے لیے جائز نہیں ہے۔ یہی بات سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۲۹ میں بھی اسی تاکید کے ساتھ فرمائی ہے۔ اس سے صاف واضح ہے کہ بیوی کو کوئی مال، جائداد، زیورات اور ملبوسات، خواہ کتنی ہی مالیت کے ہوں، اگر تحفے کے طور پر دیے گئے ہیں تو قرآن کا حکم یہی ہے کہ اس سے علیحدگی کے وقت وہ ہرگز واپس نہ لیے جائیں۔
۴۷؎ اس سے پہلے آیت ۱۹ میں چونکہ اجازت دی ہے کہ بیوی اگر بدکاری کی مرتکب ہو تو شوہر اس سے اپنا دیا ہوا مال واپس لے سکتا ہے، اس لیے یہ آخر میں تنبیہ فرما دی ہے کہ کوئی شخص بیوی پر بہتان لگا کر اس کا جواز پیدا کرنے کی جسارت نہ کرے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ یہ مرد کی فتوت کے بالکل منافی ہے کہ جس عورت کے ساتھ اس نے زندگی بھر کا پیمان وفا باندھا، جو ایک نہایت مضبوط میثاق کے تحت اس کے حبالۂ عقد میں آئی، جس نے اپنا سب ظاہر و باطن اس کے لیے بے نقاب کر دیا اور دونوں نے ایک مدت تک یک جان ودو قالب ہو کر زندگی گزاری، اس سے جب جدائی کی نوبت آئے تو اپنا کھلایا پہنایا اس سے اگلوانے کی کوشش کی جائے، یہاں تک کہ اس ذلیل غرض کے لیے اس کو بہتانوں اور تہمتوں کا ہدف بھی بنایا جائے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۲۷۱)
۴۸؎ اصل میں ’قد افضٰی بعضکم الی بعض‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے ان کی وضاحت میں لکھا ہے:
’’۔۔۔ ’افضٰی فلان الی فلان‘ کے معنی ہیں ’وصل الیہ ودخل فی حیزہ‘۔ اسی طرح ’افضٰی الی فلان بسرہ‘ کے معنی ہیں:’ اس نے فلاں کے آگے اپنے سارے بھیدبے نقاب کر دیے۔‘ یہ میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات کی نہایت جامع اور نہایت شایستہ تعبیر ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے اس طرح بے نقاب ہو جاتے ہیں کہ ان کے ظاہر و باطن اور احساسات و جذبات کا کوئی گوشہ اور کوئی پہلو ایک دوسرے سے مخفی نہیں رہ جاتا۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۲۷۰)
۴۹؎ عقد نکاح کو اس آیت میں پختہ عہد یا قرآن کے الفاظ میں ’میثاقا غلیظًا‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ عقد نکاح کی اصل عرفی اور شرعی حقیقت یہی ہے کہ وہ میاں اور بیوی کے درمیان حقوق اور ذمہ داریوں کا ایک مضبوط معاہدہ ہوتا ہے جس کے ذریعے سے دونوں زندگی بھر کے سنجوگ کے عزم کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں اور دونوں یکساں طور پر حقوق بھی حاصل کرتے ہیں اور یکساں طور پر ایک دوسرے کے لیے ذمہ داریاں بھی اٹھاتے ہیں۔ بظاہر تو اس میثاق کے الفاظ نہایت سادہ اور مختصر ہوتے ہیں، لیکن اس کے مضمرات و تضمنات بہت ہیں اور یہ مضمرات و تضمنات ہر مہذب سوسائٹی اور ہر شریعت میں معلوم و معروف ہیں۔ یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ میثاق بندھتا تو ہے میاں اور بیوی کے درمیان، لیکن اس میں گرہ خدا کے حکم سے لگتی ہے اور جس طرح خلق اس کی گواہ ہوتی ہے، اسی طرح خالق بھی اس کا گواہ ہوتا ہے۔ پھر اس کے’’میثاق غلیظ‘‘ ہونے میں کیا شبہ رہا؟ یہاں اس رشتے کو اس لفظ سے تعبیر فرما کر قرآن نے اس کی اصلی عظمت واضح فرمائی ہے کہ مرد کو کسی حال میں بھی یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ بیوی کے ساتھ اس کا تعلق کچے دھاگے سے نہیں بندھا ہے، بلکہ یہ رشتہ نہایت محکم رشتہ ہے اور اس کے تحت جس طرح مرد کے حقوق ہیں، اسی طرح بیوی کے بھی حقوق ہیں جن سے مرد کے لیے فرارکی گنجایش نہیں ہے۔ اگر وہ ان سے بھاگنے کی کوشش کرے گا تو اپنی فتوت کو بھی رسوا کرے گا اور اپنے خدا کو بھی ناراض کرے گا۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۲۷۱)
۵۰؎ مطلب یہ ہے کہ اس قانون کا اطلاق ماضی پر نہ ہو گا کہ اس کو بنیاد بنا کر تمام پچھلے تعلقات کی تحقیق کی جائے اور اس کی روشنی میں جائز او رناجائز کے احکام صادر کیے جائیں۔
۵۱؎ اس برائی کا رواج عرب جاہلی کے بعض طبقوں ہی میں تھا۔ اس لیے کہ جو الفاظ اس کے لیے استعمال ہوئے ہیں، ان سے واضح ہے کہ اس کا کھلی ہوئی بے حیائی اور قابل نفرت ہونا عرب کے شرفا کو بھی معلوم تھا۔
[ باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ