HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

بجو کی حلت

ان عبد الرحمٰن بن عبد اللّٰہ بن ابی عمار قال: سالت جابر بن عبد اللّٰہ عن الضبع أصید؟ ہو قال نعم.
قلت: آکلہا؟ قال: نعم.
قلت: أشیء سمعت من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ قال: نعم.۱
’’عبد الرحمن بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے ’ضبع‘ کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ انسانی شکار ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں۔
میں نے کہا: کیا میں اسے کھا سکتا ہوں؟ انھوں نے کہا: ہاں۔
میں نے کہا: کوئی بات (اس سے متعلق) آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟ انھوں نے کہا: ہاں۔‘‘ ۱
ترجمے کے حواشی

۱۔اس روایت میں ’الضبع‘ کا لفظ آیا ہے۔ جس کا اردو میں متبادل عام طور پر اہل لغت نے بجو بتایا ہے۔ لیکن اس سے مراد لگڑ بھگڑ ہے۔ بہرحال بجو ہو یا لگڑ بھگڑ، ہمارے خیال میں دونوں کا حکم ایک ہو گا۔

اس روایت میں ’ضبع‘ کھانے کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔قرآن مجید نے انعام کی قسم کے چوپائے حلال کیے ہیں اور غیر انعام کی قسم کے جانور حلال نہیں کیے۔ جبکہ ’ضبع‘ ایساجانور نہیں ہے، جسے انعام کے تحت رکھ کر حلال قرار دیا جا سکے، اس لیے کہ یہ گوشت خور ہے۔ یہ روایت سنداً صحیح ہے، مگر قرآن مجید کی صریح آیت کے خلاف ہے کہ ’احلت لکم بہیمۃ الأنعام‘ (مائدہ ۵: ۱) ’’تمھارے لیے چوپائے کی قسم کے جانور حلال کیے گئے ہیں‘‘۔ ’ضبع‘ کو ’ضب‘ یعنی گوہ کی طرح قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لیے کہ گوہ کو انعام اور غیر انعام کی قسم میں داخل کرنے میں اختلاف ممکن ہے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاً اس میں خاموشی اختیار کی ہے اور اسے انسانی فطرت پر چھوڑ دیا ہے، جبکہ ’ضبع‘ کا تعین کرنا آسان ہے۔ اس لیے کہ یہ گوشت خور ہے، اور اس کا اصلاً انحصار گوشت پر ہوتا ہے۔ غالباً راویوں کو ’ضب‘ کے سننے میں غلطی لگی ہے اور انھوں نے اسے ’ضبع‘ گمان کرلیا ہے، اور یہ غلطی شایدعربی اور غیرعربی لہجہ میں عدم ممارست کی وجہ سے ہوئی ہوگی۔

دوسرے اس بات کا امکان ہے کہ سیدنا جابر ہی کی محرم کے بارے میں ایک روایت یہ شکل اختیار کر گئی ہو، وہ روایت یہ ہے :

عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: سالت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الضبع فقال ہو صید ویجعل فیہ کبش اذا صادہ المحرم.(سنن ابی داؤد)
’’جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بجو (یا لگڑ بھگڑ) کے بارے میں پوچھا، آپ نے فرمایا: وہ ’صید‘ کے حکم کے تحت آئے گا، اور آپ نے کفارہ میں مینڈھا کو متبادل قرار دیا، جب محرم اسے شکار کرے۔‘‘

اس روایت سے یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ یہ جانورہماری غذا بن سکتا ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ روایت صرف اتنا بتا رہی ہے کہ محرم اگر اس کو مار بیٹھے تو اسے ’فواسق‘ کے بجائے ’صید‘ والے حکم کے تحت لیا جائے گا، مزید یہ کہ آپ نے اس کا متبادل جانور بھی متعین کرنے میں ہماری مدد کی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ کھائے جانے والا جانور نہیں ہے، تو پھر آپ نے اس کا کفارہ کیوں مقرر کیا، کیونکہ موذی جانوروں میں تو کفارہ نہیں ہوتا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’فواسق‘ (موذی جانوروں )کے مارنے کی اجازت محرم کو اس صورت میں دی تھی کہ وہ اس کے لیے اذیت یا نقصان کا سبب بن جائے۔ یہ اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ جس درندے کو دیکھے مار ڈالے۔ اسے مارنے کی اجازت اسی وقت ہے جب وہ اس کے درپے ہو جائے۔ اس لیے اگر محرم اسے حالت امن میں مارے تو اسے کفارہ ادا کرناہو گا۔

سیدنا جابر کی ان روایتوں میں دو سوال کیے گئے ہیں : ایک یہ کہ کیا ہم انھیں کھاسکتے ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ کیا یہ ’صید‘ ہیں؟ یہ سوال بتا رہے ہیں کہ ’صید‘ کے معنی کھانے والے جانور کے نہیں ہیں۔ بلکہ اس سے مراد وہی ہے کہ آیا یہ محرم کے لیے ’صید‘ کے حکم میں ہیں یا ’فواسق‘ کے حکم میں۔ یعنی ان کے مارنے پر محرم کے لیے کفارہ ہے یا نہیں۔ اور غالباً یہی سوال تھا جو بعد میں کھانے کا سوال بن گیا۔ متن کے حواشی میں ہم اس سے متعلق نکات کی طرف اشارہ کریں گے۔ ہماری اس بات کہ عبد الرحمن نے جابر بن عبد اللہ سے صرف ’صید‘ ہی سے متعلق سوال کیا، کی تائید ان روایتوں سے ہوتی ہے، جن میں مینڈھے کو اس کا بدل قرار دیا گیا ہے۔ یہ روایت عبد اللہ بن جابر ہی سے ہے اور اس میں سائل بھی یہی عبدالرحمن ہی ہیں۔

فقہاکے مابین ’ضبع‘ کی حرمت میں اختلاف ہے۔ جنھوں نے قرآن پر اپنی رائے کی بنیاد رکھی، انھوں نے اسے ’سباع‘ یعنی غیر انعام ہونے کی وجہ سے حرام سمجھا اور جنھوں نے روایت پر اپنی رائے کی بنیاد رکھی انھوں نے اسے حلال قرار دیا۔

متن کے حواشی

۱۔یہ روایت اصلاً ابن ماجہ، رقم ۳۲۳۶ سے لی گئی ہے۔ اس کے علاہ کم و بیش انھی الفاظ کے ساتھ یہ درج ذیل کتب میں بھی آئی ہے: السنن الکبریٰ، رقم ۴۸۳۵، ۳۸۱۹؛ صحیح ابن خزیمہ، رقم ۲۶۴۵؛ صحیح ابن حبان، رقم ۹۳۶۵؛ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۲۱۲۷؛ سنن البیہقی، رقم ۹۶۵۳، ۱۹۱۶۷؛ مسند احمد، رقم ۱۴۱۹۸، ۱۴۴۶۵، ۱۴۴۸۹؛ دارمی، رقم ۱۹۴۲؛ ترمذی، رقم ۸۵۱، ۱۷۹۱؛ النسائی، رقم ۲۸۳۶، ۴۳۲۳؛ مصنف عبد الرزاق، رقم ۸۶۸۱، ۸۶۸۲۔

صحیح ابن خزیمہ، رقم ۲۶۴۵میں عبد الرحمن اور جابر بن عبد اللہ کی ملاقات کا ذکر بھی ہے: ’لقیت جابر بن عبد اللّٰہ، فسألتہ عن الضبع أنأکلہا، قال نعم‘ (میں جابر بن عبد اللہ سے ملا، تو میں نے ان سے بجو (یا لگڑبھگڑ) کے بارے میں پوچھا کہ اسے ہم کھا سکتے ہیں؟ انھوں نے کہا: ہاں)۔

السنن الکبریٰ، رقم ۴۸۳۵ میں ’أصید‘ (کیا بجوشکار ہے؟) والے سوال سے پہلے، عبد الرحمن بن ابی عمارکا سوال اور جابر رضی اللہ عنہ کا جواب اس طرح نقل ہوا ہے: ’سألت جابر بن عبد اللّٰہ عن الضبع فأمرنی بأکلہا‘ (میں نے جابر بن عبد اللہ سے گوہ کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے اس کے کھانے کو کہا)۔ مصنف عبدالرزاق، رقم ۸۶۸۱ میں سوال جواب یوں نقل ہوا ہے: ’سألت جابر بن عبد اللّٰہ عن الضبع. فقال: حلال‘ (میں نے جابر بن عبداللہ سے بجو کے بارے میں پوچھا: انھوں نے کہا :حلال ہے)۔

قلت: آکلہا ؟‘ (میں نے کہا: کیا میں اسے کھالوں؟) کی جگہ صحیح ابن خزیمہ، رقم ۲۶۴۵ میں ’آنأکلہا‘ (کیا ہم اسے کھا لیں؟) کے الفاظ ہیں۔ صحیح ابن حبان، رقم ۳۹۶۵ میں الفاظ یوں ہیں: ’سألت عن الضبع أ آکلہ قال: نعم‘ (میں نے بجو کے بارے میں پوچھا: کیا میں اسے کھالوں بولے، ہاں)۔ مسند ابی یعلیٰ رقم ۲۱۲۷ میں سوال یوں ہے: ’سألت جابر بن عبد اللّٰہ أیؤکل الضبع قال نعم قلت أصید ہو، قال نعم‘ (میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا بجو کھایا جاتا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، میں نے کہا: کیا یہ ہمارا شکار ہے، انھوں نے کہا: ہاں)۔ سنن البیہقی الکبریٰ، رقم ۱۹۱۶۷میں الفاظ یوں ہیں: ’أآکل الضبع؟ قال: نعم قلت: أصید ہی؟ قال: نعم‘ (میں نے کہا: میں بجو کھالوں؟ انھوں نے کہا: ہاں، میں نے کہا کیا یہ شکار ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں) ترمذی، رقم ۸۵۱، ۱۷۹۱ میں یہ سوال یوں ہے: ’قلت لجابر الضبع أصید ہی؟ قال نعم، قلت آکلہا؟ قال: نعم‘ (میں نے جابر سے کہا: بجو، کیا یہ شکار ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، میں نے کہا :میں اسے کھالوں؟ انھوں نے کہا :ہاں)۔

کچھ روایتوں مثلاً صحیح ابن خزیمہ، رقم ۲۶۴۵؛ صحیح ابن حبان، رقم ۳۹۶۵؛ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۲۱۲۷ وغیرہ میں کھانے سے متعلق سوال پہلے اور ’صید‘ ہونے کا سوال بعد میں ہے۔ ابن حبان کے الفاظ یوں ہیں: ’سالت عن الضبع أآکلہ قال نعم یعنی فقلت أصید ہو قال نعم فقلت عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال نعم‘ (میں نے بجو کے بارے میں پوچھا: کیا میں اسے کھا سکتا ہوں؟ انھوں نے کہا، ہاں۔ یعنی میں نے پوچھا تھا کہ آیا یہ شکار ہے؟ انھوں نے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا: یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے بولے: ہاں)۔ اس روایت کے الفا ظ یعنی ’فقلت‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ سوال صرف ’صید‘ ہونے یا نہ ہونے ہی کا کیا گیا، مگر اس سے کھانے کا مفہوم مراد لیا گیا ہے۔ یہ بات بھی علم میں رہے کہ محرم کے بجو مارنے سے متعلق یہ روایت سیدنا جابر ہی سے ہے اور اس میں سائل بھی یہی عبد الرحمن بن عبداللہ بن ابی عمار ہی ہیں۔

أشیء سمعت من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ قال: نعم‘ ( کوئی بات آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟ انھوں نے کہا: ہاں۔) کی جگہ صحیح ابن حبان، رقم ۳۹۶۵ اور مسند احمد، رقم ۱۴۱۹۸ میں محض اتنے الفاظ ہیں: ’فقلت عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال نعم‘ (میں نے پوچھا: یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے؟ بولے: ہاں)۔ سنن الکبریٰ، رقم ۴۸۳۵، ۳۸۱۹؛ النسائی، رقم ۲۸۳۶، ۴۳۲۳ میں الفاظ یوں ہیں: ’أسمعتہ من رسول اللّٰہ‘ (کیا ایسا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا)۔ مسند ابی یعلیٰ میں الفاظ یوں ہیں: ’قلت: سمعت ذلک من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ (میں نے کہا: یہ بات آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟)۔ سنن بیہقی، رقم ۱۹۱۶۷ میں ’سمعت‘ سے پہلے حرف استفہام بھی ہے یعنی ’قلت: أسمعت ذلک من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ (میں نے کہا: کیایہ بات آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟)۔ مسند احمد، رقم ۱۴۴۶۵، ۱۴۴۸۹ کے الفاظ یوں ہیں: ’قلت: أسمعت ذاک من نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ (میں نے کہا: کیایہ بات آپ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟)۔ ترمذی، رقم ۸۵۱، ۱۷۹۱ میں الفاظ یوں ہیں: ’قلت: أقالہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ (میں نے کہا: کیا یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی تھی)۔

_______________

B