HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

تکمیل ایمان

(مسلم ،رقم ۴۴)

 

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا یُؤْمِنُ عَبْدٌ (وَفِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ الْوَارِثِ: الرَّجُلُ) حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ أَہْلِہِ وَمَالِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بندہ (اور عبدالوارث کی روایت کے مطابق کوئی آدمی) صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے گھر والوں ، اس کے مال اور سب لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔‘‘
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَلَدِہِ وَوَالِدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کی اولاد، اس کے والد اور سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
لغوی مباحث

لا یؤمن‘: وہ مومن نہیں ہے۔ اس جملے میں ایمان کی نفی کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کس ایمان کی نفی ہے۔ کیا جس شخص کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہ درجہ حاصل نہ ہو، وہ قانونی اعتبار سے غیر مسلم ہے۔سب شارحین اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں یہ ایمان زیر بحث نہیں ہے۔ بلکہ یہاں ایمان کی حقیقت زیر بحث ہے۔ یہی بات کرنے کے لیے وہ ’لا یکمل الإیمان‘ یا ’لا یصح الإیمان‘ کی تعبیرات اختیار کرتے ہیں۔ شارحین کی یہ بات درست ہے۔ اصل میں اس طرح کا اسلوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مواقع پر اختیار کیا ہے۔ ایمان کی نفی سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اگر یہ چیز موجود نہیں ہے تو یہ بات واضح ہو جائے کہ ایمان دل میں اترا ہوا نہیں ہے۔

أحب إلیہ‘: ’أحب‘ افعل التفضیل ہے۔ ’افعل‘ فاعلی معنی میں بھی آتا ہے اور مفعولی معنی میں بھی۔ یہاں یہ مفعولی معنی میں ہے۔ ’حب‘ کے لفظ کے وہی معنی ہیں جس کے لیے ہم محبت کا لفظ بولتے ہیں۔ یعنی کسی کے ساتھ گہرا قلبی تعلق۔

من ولدہ والدہ‘:’اولاد اور والد سے‘ ، ’ولد‘ کے لفظ کا ترجمہ ہم نے اولاد کیا ہے۔ عربی میں یہ بیٹے کے معنی میں بھی آتا ہے اور اولاد کے معنی میں بھی۔ روایت کے سیاق وسباق سے واضح ہے کہ یہاں یہ دوسرے معنی ہی میں آیا ہے۔ یہاں دو رشتوں کا ذکر ہے۔ لیکن یہ محض بطور علامت ہے۔ سب سے نمایاں اور گہرے رشتے کے ذکر سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہے کہ تمام انسانی رشتے مراد ہیں۔

معنی

ہم یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ ایمان اپنے ظاہری اور باطنی مظاہر رکھتا ہے۔ یہی مظاہر ہیں جن سے ہم یہ بات معلوم کر سکتے ہیں کہ ایمان ہمارے قلب وذہن میں اترا ہے یا نہیں۔ درحقیقت یہ وہ تبدیلیاں ہیں جو ایمان کا لازمی نتیجہ ہیں۔ بعض روایات میں یہ تبدیلیاں ظاہر کو پیش نظر رکھ کر بیان کی گئی ہیں۔ جیسے وہ روایت جس میں ایمان کے شعبے بیان کیے گئے ہیں۔ اور بعض روایات میں یہ تبدیلیاں باطن کے پیش نظر بیان کی گئی ہیں۔ زیربحث روایت اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے۔ اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قلبی تعلق کی مطلوب نوعیت واضح کی گئی ہے۔

اردو ہی کی طرح عربی زبان میں بھی محبت کا لفظ محبت کے متعدد تعلقات کے لیے بولا جاتا ہے۔ میرا والدین، اولاد، بیوی، بہن، بھائی، دوست، اعزہ اور مال ومتاع سے تعلق محبت ہی کا تعلق ہے۔ اگرچہ ہر تعلق قدرے مختلف ہے، لیکن محبت کا لفظ ان میں سے ہر تعلق کے لیے بولا جاتا ہے۔ شارحین نے ان روایات کی شرح کرتے ہوئے یہ بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں محبت کے ان تمام تعلقات کو جمع کر دیا ہے۔ ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی بچوں، مال اور لوگوں کا ذکر کیا اور دوسری کے مطابق والدین ، اولاد اور لوگوں کا ذکر فرمایا۔ والدین سے محبت میں تعظیم کا پہلو شامل ہوتا ہے، اولاد سے محبت میں شفقت کا پہلو کار فرما ہوتا ہے اور لوگوں سے تعلق میں برابری، ہم رنگی اور احسان کا پہلوموجود ہوتا ہے۔ ان روایات سے واضح کیا گیا ہے کہ یہ تمام تعلق اپنی جگہ، لیکن ان سب پر جس تعلق کو فائق ہونا چاہیے، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی جن کمالات کی حامل ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنا نمائندہ بنا کر جو مقام عطا کیا ہے اور ان کی تعظیم اور احترام کا جو تقاضابیان کیا، یہ سب اس بات کے متقاضی ہیں کہ آپ کا مرتبہ ان میں سے ہر تعلق کے اوپر رہے۔مزید یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو تعلیمات لے کر آئے ہیں،ان کی تعمیل کا حقیقی تقاضا پورا کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ آپ کی محبت سب سے قوی ہو۔ اس لیے کہ یہ دوسری محبتیں ہیں جو بالعموم دین کے تقاضے پورے کرنے میں حارج ہوتی ہیں۔

قرآن مجید میں جہاں اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا ذکر آیا ہے، وہاں دین کی نصرت کے ایک تقاضے جہاد کا معاملہ زیر بحث ہے۔ وہاں گھر بار اور مال ومتاع کے ساتھ تعلق کاحوالہ دے کر یہ کہا گیا ہے کہ اگر تمھیں اللہ، اس کے رسول اور جہاد سے زیادہ یہ چیزیں عزیز ہیں تو اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو۔ سورۂ توبہ کی اس آیت میں بھی محبت کا لفظ ہی آیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں جو بات بیان کی گئی تھی، اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ قرآن مجید میں جو بات جہاد کے حوالے سے بیان ہوئی ہے، وہ دین کے ہر تقاضے کے ضمن میں مطلوب ہے۔ جہاں اور جب بھی دین کے احکام اور تقاضے دنیا کے ان تعلقات کے بالمقابل آئیں گے، ہمیں دین کے احکام اور تقاضوں کے آگے سر جھکانا ہے۔

ہم نے اوپر جو تفصیل کی ہے، اس سے یہ تاثر ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایک عقلی چیز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہادی اور رہنما ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ہمارا مطاع قرار دیا ہے۔ اس اعتبار سے ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق عقلی ہے۔ لیکن اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق محض دماغی وظیفہ بن کر رہ جائے تو یہ نامکمل بات ہے۔ اس کے لیے محبت کا لفظ بھی موزوں نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی اطاعت کے ساتھ غایت درجہ عقیدت اور قلبی لگاؤ کے جذبات شامل ہوں۔

متون

عام طور پر کتب حدیث میں یہ روایت قسم کے جملے ’فوالذی نفسی بیدہ‘ کے بغیر روایت ہوئی ہے۔ لیکن بخاری اور بعض دوسری کتب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد قسم کے ساتھ نقل ہوا ہے۔ جملے کا پہلا حصہ ’لایؤمن أحدکم‘ میں ’أحدکم‘ کی جگہ ’عبد‘ اور ’الرجل‘ بھی روایت ہوا ہے۔جملے کا آخری حصہ مختلف طریقوں سے روایت ہوا ہے۔ دو اختلاف تو امام مسلم رحمہ اللہ ہی نے نقل کر دیے ہیں۔ ان کے علاوہ بعض روایات میں ہر جز کو الگ الگ تقابل کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے: ’حتی أکون أحب إلیہ من نفسہ، وأہلی أحب إلیہ من أہلہ وذاتی أحب إلیہ من ذاتہ‘ اسی نوع کے ایک متن میں ’عترتی أحب إلیہ من عترتہ‘ کا اضافہ بھی منقول ہے۔ ہمارے خیال میں امام مسلم کا منتخب کردہ متن ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی اسلوب کے مطابق ہے۔

کتابیات

بخاری، رقم۱۴،۱۵۔ مسلم، رقم ۴۴۔ نسائی، رقم۵۰۱۳، ۵۰۱۴، ۵۰۱۵۔ ابن ماجہ، رقم۶۷۔ احمد، رقم۱۲۸۳۷، ۱۳۹۳۹، ۱۳۱۷۴، ۱۳۹۹۱۔ ابن حبان، رقم۱۷۹۔ دارمی، رقم۲۷۴۱۔ ابویعلیٰ، رقم۳۲۵۸، ۳۸۹۵۔ سنن کبریٰ، رقم۱۱۷۴۴، ۱۱۷۴۵، ۱۱۷۴۶۔

_________________

B