روی۱ عن فرات بن حیان أن رسول اللّٰہ أمر بقتلہ وکان عینا لأبی سفیان وکان حلیفا لرجل من الأنصار۲ فمر بحلقۃ من الأنصار فقال: إنی مسلم. فقال رجل من الأنصار: یا رسول اللّٰہ إنہ یقول إنی مسلم.۳ فترکہ۴ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال: إن منکم رجالا نکلہم إلی إیمانہم منہم فرات بن حیان.
’’فرات بن حیان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کرنے کاحکم دیا، کیونکہ وہ ابو سفیان کے لیے جاسوسی کرتا تھا۔ وہ انصار میں سے ایک شخص کاحلیف بھی تھا، چنانچہ انصار کے ایک گروہ کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے کہا: میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ انصار میں سے ایک شخص نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہا: اے اللہ کے رسول، یہ کہتاہے کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ اس پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا۱ اورفرمایا: تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ جن کے ایمان (کے دعوے) کے آگے ہم ہتھیار ڈالتے ہیں ۲ اور فرات بن حیان انھی لوگوں میں سے ہے۔‘‘
۱۔ کسی آدمی کے اعلان اسلام سے یہ بات واضح ہے کہ اس نے اسلامی ریاست کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیاں بھی ترک کردی ہیں، اس لیے یہ بات عقل عام کے مطابق ہے کہ ایسے آدمی کو معافی کا موقع دیاجائے۔
۲۔ یہ کسی کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے آدمی کے دعویٰ ایمان کی سچائی کو جان سکے، اس لیے ہمیں ہرحال میں دوسروں کی زبان پر اعتماد کرناہوگا، تاہم اگر کسی نے محض دنیا کی سزاسے بچنے کے لیے اپنے ایمان کا اعلان کیا تو ظاہر ہے کہ آخرت میں وہ خدا کو ہرگز دھوکا نہ دے سکے گااور اس کی سزاسے کسی صورت میں بچ بھی نہ سکے گا۔
۱۔ یہ روایت ابوداؤد ، رقم ۲۶۵۲ ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ درج ذیل مقامات پربھی نقل ہوئی ہے:
احمد بن حنبل، رقم ۱۸۹۸۵۔ بیہقی، رقم ۱۶۶۰۸، ۱۶۶۰۹، ۱۸۲۱۸۔ عبدالرزاق، رقم۹۳۹۶۔
۲۔ بیہقی، رقم ۱۸۲۱۸ میں ’وکان حلیفا لرجل من الأنصار‘ (وہ انصار میں سے ایک شخص کاحلیف تھا) کے بجائے ’وحلیفا أظنہ قال لرجل من الأنصار‘ (اور میرے یعنی راوی کے خیال میں وہ انصار میں سے ایک شخص کا حلیف تھا)کے الفاظ، جبکہ احمد بن حنبل، رقم ۱۸۹۸۵ میں صرف ’حلیفا‘ (حلیف)کا لفظ روایت ہوا ہے۔
۳۔ احمد بن حنبل ، رقم ۱۸۹۸۵ میں ’فقال رجل من الأنصار یا رسول اللّٰہ إنہ یقول إنی مسلم‘ (انصار میں سے ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول، یہ کہتاہے کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں) کے بجائے ’قالوا: یا رسول اللّٰہ إنہ یزعم أنہ مسلم‘ (لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول، وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتاہے) کے الفاظ، جبکہ بیہقی، رقم ۱۶۶۰۸ میں ’فمر بمجلس من الأنصار فقال أنی مسلم فبلغ ذلک النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ (وہ انصار کے ایک مجمع کے پاس سے گزرا اور کہا: میں مسلمان ہوگیا ہوں، چنانچہ یہ بات پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
۴۔ ’فترکہ‘ (تو اسے چھوڑ دیا گیا)کے الفاظ عبدالرزاق، رقم ۹۳۹۶ میں روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً بیہقی، رقم ۱۶۶۰۹ کے مطابق فرات بن حیان کا جرم یہ تھا کہ وہ مرتد ہوگیا تھا۔ یہ روایت اس طرح نقل ہوئی ہے:
روی أن فرات بن حیان ارتد علی عہد رسول اللّٰہ فأتی بہ رسول اللّٰہ فأراد قتلہ فشہد شہادۃ الحق فخلی عنہ وحسن إسلامہ.
’’روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں فرات بن حیان مرتد ہوگیا تو اسے رسول اللہ کے پاس لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا فیصلہ کیا، تاہم اس نے اسلام قبول کرنے کی گواہی دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کردیا۔ اس نے (بعد میں) بہترین اسلام کی زندگی بسر کی۔‘‘
تخریج : محمد اسلم نجمی
کوکب شہزاد
ترجمہ و ترتیب : اظہار احمد
_______________