اِنَّآ اَوْحَیْْنَآ اِلَیْْکَ کَمَآ اَوْحَیْْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنْ بَعْدِہٖ، وَاَوْحَیْْنَآ اِلآی اِبْرٰہِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ، وَعِیْسٰی وَاَیُّوْبَ وَیُوْنُسَ وَہٰرُوْنَ وَسُلَیْْمٰنَ، وَاٰتَیْْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا، وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنٰہُمْ عَلَیْْکَ مِنْ قَبْلُ، وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْْکَ، وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا، رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ، لِءَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ، وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا.(النساء ۴ :۱۶۳۔۱۶۵)
’’ہم نے (اے پیغمبر)، تمھاری طرف اسی طرح وحی کی ہے، جس طرح نوح اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف کی تھی۔ اور ہم نے ابراہیم، اسمٰعیل، اسحق، یعقوب، اولاد یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف وحی کی ، اور داؤد کو ہم نے زبور عطا فرمائی تھی۔ ہم نے اُن رسولوں کی طرف بھی وحی بھیجی جن کا ذکر ہم تم سے پہلے کر چکے ہیں اور اُن رسولوں کی طرف بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا، اور موسیٰ سے تو اللہ نے کلام کیا تھا، جس طرح کلام کیا جاتا ہے۔ یہ رسول جو بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر بھیجے گئے تاکہ اِن رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہے، اور اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے جن ہستیوں کے ذریعے سے بنی آدم کے لیے اتمام ہدایت کا اہتمام کیا ہے، انھیں نبی کہا جاتا ہے۔ یہ انسان ہی تھے، لیکن اللہ نے اپنے علم و حکمت کی بنیاد پر انھیں اس منصب کے لیے منتخب فرمایا۔ اسے ایک موہبت ربانی سمجھنا چاہیے، تعلیم و تربیت اور اخذ و اکتساب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ۵۵ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نبوت ملنے کا واقعہ قرآن میں بیان ہوا ہے۔ وہ مدین سے واپسی پر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وادی سینا میں پہنچے تو رات کا وقت تھا۔ راستے کا بھی کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا اور سردی بھی ، معلوم ہوتا ہے کہ نہایت سخت تھی۔ اتنے میں ایک طرف شعلہ سا لپکتا ہوا نظر آیا۔ موسیٰ علیہ السلام کے سوا اس کو شاید کسی نے دیکھا بھی نہیں۔ انھوں نے گھر والوں سے کہا کہ تم لوگ یہاں ٹھیرو، مجھے ایک شعلہ سا دکھائی دیا ہے۔ میں وہاں جاتا ہوں، تاپنے کے لیے کچھ آگ لے آؤں گا یا وہاں کچھ لوگ ہوئے تو ان سے آگے کا راستہ معلوم کرلوں گا۔ یہ کہہ کر وہ اس جگہ پہنچے تو آواز آئی کہ موسیٰ، میں تمھارا پروردگار ہوں، اس لیے جوتے اتار دو۔ تم اس وقت طویٰ کی مقدس وادی میں ہو۔ میں نے تمھیں فریضۂ نبوت و رسالت کے لیے منتخب کر لیا ہے، لہٰذا جو وحی تم پر کی جا رہی ہے، اس کو پوری توجہ کے ساتھ سنو۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اس کے بعد انھیں وہی تعلیم دی گئی جو تمام نبیوں کو دی گئی ہے:
اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ، لَآ اِلٰہَ اِلَّآاَنَا، فَاعْبُدْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ، اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ، اَکَادُ اُخْفِیْہَا، لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی، فَلاَ یَصُدَّنَّکَ عَنْہَا مَنْ لاَّ یُؤْمِنُ بِہَا، وَاتَّبَعَ ہَوٰہُ، فَتَرْدٰی.(طہٰ ۲۰ :۱۴۔۱۶)
’’میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اِس لیے میری عبادت کرو اور میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام رکھو۔ قیامت ضرور آنے والی ہے میں اِس کو چھپائے رکھوں گا اِس لیے (آنے والی ہے)کہ ہر متنفس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ پس کوئی ایسا شخص جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہشوں کا پیرو ہے، تمھیں نماز سے غافل نہ کرنے پائے کہ تم ہلاک ہو جاؤ۔‘‘
یہ موسیٰ علیہ السلام کا خاص شرف ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے براہ راست ہم کلام ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہلی وحی کا واقعہ قرآن مجید کی سورۂ نجم میں بیان ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو یہ منصب اللہ کے مقرب فرشتے جبریل امین کے ذریعے سے دیا گیا۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اس موقع پر وہ اپنی اصلی صورت میں افق اعلیٰ پر نمودار ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلی آنکھوں سے انھیں دیکھا۔ پھر وہ آپ کو تعلیم دینے کے لیے آپ کے قریب آئے اور جس طرح ایک شفیق استاد اپنے عزیز و محبوب شاگرد پر غایت شفقت سے جھک پڑتا ہے، اسی طرح آپ کے اوپر جھک پڑے اور اتنے قریب ہو گئے کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ اس کے بعد حضور کو وہ وحی انھوں نے کی جو انھیں کرنے کی ہدایت کی گئی تھی:
عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی، ذُوْ مِرَّۃٍ فَاسْتَوٰی، وَہُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی، ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی، فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْْنِ اَوْ اَدْنٰی، فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰی.(النجم۵۳ :۵۔۱۰)
’’اس کو ایک زبردست قوتوں والے، علم و عقل کے توانا نے تعلیم دی ہے۔ وہ سامنے آ کھڑا ہوا اور اس وقت وہ افق اعلیٰ پر تھا۔ پھر قریب ہوا اور جھک پڑا، یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ پھر اللہ نے اپنے بندے کو وحی کی جو اس نے کرنا تھی۔‘‘
یہ نبی ہر قوم کی طرف بھیجے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی ذریت کی رہنمائی کے لیے وہ خود اپنی طرف سے ہدایت نازل کرے گا۔ یہ ہدایت انھی نبیوں کے ذریعے سے بنی آدم کو دی گئی۔ وہ آسمان سے وحی پا کر لوگوں کو حق بتاتے، اس کے ماننے والوں کو اچھے انجام کی خوش خبری دیتے اور نہ ماننے والوں کو برے انجام سے خبردار کرتے تھے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے قرآن نے ایک جگہ فرمایا ہے:
اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا، وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ.(فاطر۳۵ :۲۴)
’’ہم نے تمھیں حق کے ساتھ بھیجا ہے، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر، اور کوئی قوم ایسی نہیں جس میں کوئی خبردار کرنے والا نہ آیا ہو۔‘‘
ان نبیوں سے متعلق جو حقائق قرآن میں بیان ہوئے ہیں، اور ان پر ایمان کے لیے ہر شخص کے پیش نظر رہنے چاہییں، وہ ایک ترتیب کے ساتھ ہم یہاں بیان کریں گے۔
نبوت کیا ہے؟ یہ مخاطبۂ الٰہی کے لیے کسی شخص کا انتخاب ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس منصب کے لیے جب اپنے بندوں میں سے کسی کا انتخاب کر لیتا ہے تو اس سے کلام فرماتا ہے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ انسان کو اس کا شرف ہمیشہ دو ہی طریقوں سے حاصل ہوا ہے:
ایک عام مخاطبت کے ذریعے سے جو پردے کے پیچھے سے ہوتی ہے۔ اس میں بندہ ایک آواز سنتا ہے، مگر بولنے والا اسے نظر نہیں آتا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یہی ہوا۔ طور کے دامن میں ایک درخت سے یکایک انھیں ایک آواز آنی شروع ہوئی، لیکن بولنے والا ان کی نگاہوں کے سامنے نہیں تھا۔ ۵۶
دوسرے وحی کے ذریعے سے۔ یہ لفظ کسی کے دل میں کوئی بات ڈالنے کے لیے آتا ہے۔ اس کی پھر دو صورتیں ہوتی ہیں: اولاً، اللہ تعالیٰ براہ راست نبی کے دل میں اپنی بات ڈال دے۔ ثانیاً، فرشتہ بھیجے اور وہ اس کی طرف سے نبی کے دل میں بات ڈالے۔ یہ معاملہ خواب اور بیداری، دونوں میں ہو سکتا ہے۔ پھرجوبات اس میں کہی جاتی ہے، وہ خواب میں بعض اوقات ممثل بھی ہوجاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کے نزول کی کیفیات روایتوں میں بیان ہوئی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی شدید ترین صورت میں اس سے پہلے گھنٹی کی سی آواز پیدا ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ سخت ترین سردی کے موسم میں بھی آپ پسینے سے تر ہو جاتے تھے۔۵۷ اس سے آگے اس کی حقیقت کیا ہے؟ قرآن کا ارشاد ہے کہ اس کو سمجھنا انسان کے حدود علمی سے باہر ہے۔چنانچہ فرمایا ہے:
وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ، قُلِ الرُّوحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ، وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِیْلاً.(بنی اسرائیل۱۷ :۸۵)
’’اور وہ تم سے روح، (یعنی وحی) کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ یہ روح میرے پروردگار کے حکم میں سے ہے، اور تم کو علم کا بہت تھوڑا حصہ ہی دیا گیا ہے۔‘‘
انبیاعلیہم السلام پر یہ وحی چونکہ ان کی خواہش اور تمنا کے بغیر اور نفس کی جانب الٰہی سے آتی ہے، اس لیے اس کی صحت کے بارے میں انھیں ہرگز کوئی تردد نہیں ہوتا۔ تاہم ان کے اطمینان قلب کے لیے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ان کو وقتاً فوقتاً بعض غیر معمولی مشاہدات بھی کرا دیتے ہیں۔ بیت الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کی جس رؤیا کا ذکر قرآن میں ہوا ہے،۵۸ وہ اسی کی مثال ہے۔ اس طرح کے مشاہدات کھلی آنکھوں سے بھی ہوتے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک مشاہدہ قرآن میں اس طرح بیان ہوا ہے:
وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی، عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی، عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی، اِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی، مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی، لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی.(النجم۵۳ :۱۳۔۱۸)
’’اور اس نے ایک مرتبہ پھر اسے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اترتے دیکھا، جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے۔ اس وقت سدرہ پر چھائے ہوئی تھی جو چیز چھائے ہوئی تھی۔ نگاہ نہ چوندھیائی نہ حد سے آگے بڑھی۔ (اِس طرح) اس نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیوںکا مشاہدہ کیا ہے۔‘‘
انبیا علیہم السلام کے ساتھ مخاطبۂ الٰہی کے یہ طریقے قرآن نے ایک ہی جگہ بیان کر دیے ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآیئ حِجَابٍ، اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلاً فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآءُ، اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ.(الشوریٰ۴۲ :۵۱)
’’اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے ، مگر وحی کے ذریعے سے یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیجے اور اس کے اذن سے جو وہ چاہے، اس کی طرف وحی کر دے۔ وہ بڑا ہی عالی مقام اور بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
آیت کے الفاظ سے واضح ہے کہ نبی کے دل میں یہ القا محض فکر و خیال کی صورت میں نہیں ہوتا، بلکہ کلام کی صورت میں ہوتا ہے جس کو وہ سنتا، سمجھتا اور محفوظ بھی کر لیتا ہے۔ اس کے الفاظ و اسالیب، البتہ بالعموم وہی منتخب کیے جاتے ہیں جو پیغمبر کے خزانۂ علم میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں تاکہ اس کے لیے وہ کوئی ناقابل فہم اور اجنبی چیزبن کر نہ رہ جائے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ انبیا علیہم السلام کے احوال و وقائع اور ان کی استعداد و صلاحیت کے لحاظ سے ان کی وحی میں بھی لفظ اور معنی، دونوں کے لحاظ سے غیر معمولی فرق واقع ہو جاتا ہے۔
انسان کو جس طرح یہ صلاحیت دی گئی ہے کہ وہ تمثیل و استقرا کے ذریعے سے استنباط کرتا ہے، جزئیات سے کلیات بتاتا ہے، پھر ان سے جزئیات پر حکم لگاتا ہے، بدیہیات سے نظریات تک پہنچتا ہے اور نا محسوس کو محسوس پر قیاس کرتا ہے، اسی طرح یہ صلاحیت بھی اس کو دی گئی ہے کہ وہ خیر و شر میں امتیاز کرتا اور نیکی اور بدی کو الگ الگ پہچانتا ہے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ اپنے پروردگار کی معرفت اور اس کی عدالت کے شعور سے بھی خالی نہیں ہے۔ انسان کے بارے میں یہ حقائق ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں۔ لہٰذا نبی کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ وہ انسان کو ان چیزوں سے واقف کرائے۔ یہ سب چیزیں تو اس کی خلقت کا حصہ اور اس کی تخلیق کے پہلے دن ہی سے اس کی فطرت میں ودیعت ہیں۔ قرآن کی جو آیت سرعنوان ہے، اس سے واضح ہے کہ یہ ضرورت ان چیزوں سے واقف کرانے کے لیے نہیں، بلکہ دو وجوہ سے پیش آئی ہے:
اولاً، اتمام ہدایت کے لیے۔ یعنی انسان کی فطرت میں جو کچھ بالاجمال ودیعت ہے اور جو کچھ وہ ہمیشہ سے جانتا ہے، اس کی یاددہانی کی جائے اور اس کی تمام تفصیلات کے ساتھ اس کے لیے اسے بالکل متعین کر دیا جائے۔ قرآن نے بعض مقامات پر اسے اتمام نعمت سے تعبیر کیا ہے:
وَجَعَلْنٰہُمْ اَءِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا، وَاَوْحَیْْنَآ اِلَیْْہِمْ فِعْلَ الْخَیْْرٰتِ، وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ، وَاِیْتَآءَ الزَّکٰوۃِ، وَکَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ. (الانبیاء۲۱ :۷۳)
’’اور ان (نبیوں) کو ہم نے امام بنایا جو ہماری ہدایت کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے اور انھیں وحی کے ذریعے سے نیک کاموں کی اور نماز کا اہتمام کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اور وہ ہمارے ہی عبادت گزار تھے۔‘‘
ثانیاً، اتمام حجت کے لیے۔ یعنی انسان کو غفلت سے بیدار کیا جائے اور علم و عقل کی شہادت کے بعد ان نبیوں کے ذریعے سے ایک دوسری شہادت بھی پیش کر دی جائے جو حق کو اس درجہ واضح کر دے کہ کسی کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے۔
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ، اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْْکُمْ اٰیٰتِیْ، وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا، قَالُوْا: شَہِدْنَا عَلآی اَنْفُسِنَا، وَغَرَّتْہُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا، وَشَہِدُوْا عَلآی اَنفُسِہِمْ اَنَّہُمْ کَانُوْا کٰفِرِیْنَ.ذٰلِکَ اَنْ لَّمْ یَکُنْ رَّبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ، وَّاَہْلُہَا غٰفِلُوْنَ.(الانعام۶ :۱۳۰۔۱۳۱)
’’اے گروہ جن و انس، کیا تمھارے پاس خود تمھارے ہی اندر سے وہ پیغمبر نہیں آئے تھے جو تمھیں میری آیتیں سناتے اور اِس دن کی ملاقات سے خبردار کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہاں، ہم اپنے خلاف خود گواہی دیتے ہیں اور ان کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈالے رکھا اور اپنے خلاف خود گواہ بنے کہ بے شک، وہ کفر میں پڑے رہے یہ اِس لیے کہ تمھارا پروردگار بستیوں کو اُن کے ظلم کی پاداش میں ہلاک کرنے والا نہیں ہے، جب کہ اُن کے باشندے حقیقت سے بے خبر ہوں۔‘‘
نبی انسان ہی ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ بالکل اسی طرح کھاتے پیتے، چلتے پھرتے، سوتے جاگتے ، شادی بیاہ کرتے، پیدا ہوتے اور موت کا مزہ چکھ کر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، جس طرح تمام انسان ہوتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی خدا، خدا کا اوتار، دیوتا یا فرشتہ نہیں تھا۔ قرآن نے جگہ جگہ صراحت کی ہے کہ خلقت کے لحاظ سے ان میں اور عام انسانوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کا یہ مطالبہ قرآن میں نقل ہوا ہے کہ تم خدا کے پیغمبر ہو تو ہمارے لیے سونے کے گھر بنا دو، نہریں اور چشمے جاری کر دو، ہمارے بیابانوں میں بہار کے قافلے اتار دو، انگوروں اور کھجوروں کے باغ اگا دو، ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرا دو، اللہ اور فرشتوں کورودررو دکھا دو،آسمان پر جاؤ اور وہاں سے کوئی نوشتہ لے کر ہمارے سامنے زمین پر اترو۔ان میں سے کوئی چیز بھی محال نہ تھی، اللہ چاہتا تو اپنے پیغمبر کے لیے یہ سب کرکے دکھا دیتا، لیکن آپ کو ہدایت کی گئی کہ انھیں صاف صاف بتا دیں کہ آپ انسان ہی ہیں، کوئی فوق بشر ہستی نہیں ہیں کہ آپ سے اس طرح کے مطالبات کیے جائیں:
قُلْ: سُبْحَانَ رَبِّیْ، ہَلْ کُنْتُ اِلاَّ بَشَرًا رَّسُوْلًا، وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا، اِذْ جَآءَ ہُمُ الْہُدٰٓی اِلاّآاَنْ قَالُوْٓا: اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوْلاً، قُل: لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلآءِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَءِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْْہِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوْلاً.(بنی اسرائیل۱۷ :۹۳۔۹۵)
’’کہہ دو: پاک ہے میرا پروردگار، کیا میں ایک پیغام سنانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں؟ اور لوگوں کے سامنے جب ہدایت آئی تو اُن کو ایمان لانے سے کسی چیز نے نہیں روکا، مگر اُن کی اس بات نے کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ کہہ دو: اگر زمین پر فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان پر آسمان سے کسی فرشتے ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجتے۔‘‘
تاہم اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اپنے علم و عمل، دل و دماغ اور اخلاق و روحانیت کے لحاظ سے بھی وہ عام انسانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ہرگز نہیں، ان کے حالات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان اوصاف و خصائص میں وہ نوع انسانی کے گل سرسبد، نخل فطرت کے بہترین ثمر اور کمال انسانیت کے مظہر اتم ہوتے ہیں۔ قرآن نے بتایا ہے کہ ان کا پروردگار اگر چاہتا ہے تو اس کے لیے انھیں خاص اپنے علم و حکم سے بھی نوازتا ہے۔
سیدنایحییٰ کے لیے ارشاد ہوا ہے:
یٰیَحْیٰی، خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ، وَاٰتَیْْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا، وَّحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَزَکٰوۃً، وَکَانَ تَقِیًّا، وَّبَرًّا بِوَالِدَیْْہِ وَلَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا.(مریم ۱۹ :۱۲۔۱۴)
’’اے یحییٰ، کتاب الٰہی کو مضبوطی سے تھام لو، اور ہم نے اسے بچپن ہی میں قوت فیصلہ عطا فرمائی اور اپنی طرف سے اس کو سوزوگداز اور پاکیزگی عنایت کی، اور وہ بڑا پرہیزگار اور اپنے والدین کا حق شناس تھا۔ وہ سرکش اور نافرمان نہ تھا۔‘‘
موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے:
وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَاسْتَوٰٓی، اٰتَیْْنٰہُ حُکْمًا وَعِلْمًا، وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ.(القصص۲۸ :۱۴)
’’اور جب وہ جوانی کو پہنچا اور اس کا نشوونما مکمل ہو گیا تو ہم نے اُس کو حکم اور علم عطا فرمایا، (یہ اس کی خوبیوں کا صلہ تھا) اورخوبی سے جینے والوں کو ہم اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔‘‘
پھر یہی نہیں، اللہ تعالیٰ نے جو روشنی اور بصیرت انسان کی فطرت میں ودیعت کی ہے، وہ بھی انھیں بدرجۂ اتم حاصل ہوتی ہے۔ وہ اس کی لو تیز رکھتے اور نفس انسانی میں اٹھنے والے ہر طوفان سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ چنانچہ وحی کی نعمت سے بہرہ یاب ہونے سے پہلے ہی ان کا دل و دماغ انتہائی پاکیزہ اور حق ان کے لیے بڑی حد تک مبرہن ہوتا ہے۔ قرآن میں اسے ’بینۃ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انبیا علیہم السلام کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی الٰہی کو وہ اپنے باطن کی اس روشنی اور بصیرت کے لیے گواہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
نوح علیہ السلام کے بارے میں ہے:
قَالَ: یٰقَوْمِ، اَرَءَ یْْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ، وَاٰتٰنِیْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِہٖ، فَعُمِّیَتْ عَلَیْْکُمْ، اَنُلْزِمُکُمُوہَا، وَاَنْتُمْ لَہَا کٰرِہُوْنَ.(ہود۱۱ :۲۸)
’’اُس نے کہا: میری قوم کے لوگو، (مجھے بتاؤ کہ) اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر ہوں اور پھر اُس نے مجھے خاص اپنی رحمت سے بھی نوازا اور وہ تم کو نظر نہیں آئی تو کیا ہم زبردستی اس کو تم پر چپکا دیں، جب کہ تم اس سے بیزار بھی ہو۔‘‘
سیدنا صالح کے متعلق فرمایا ہے:
قَالَ: یٰقَوْمِ، اَرَءَ یْْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ، وَاٰتٰنِیْ مِنْہُ رَحْمَۃً، فَمَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰہِ، اِنْ عَصَیْْتُہٗ.(ہود۱۱ :۶۳)
’’اُس نے کہا: میری قوم کے لوگو، تم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہوں اور پھر اُس نے مجھے اپنی رحمت سے بھی نوازدیا تو اس کے بعد مجھے اللہ کی پکڑ سے کون بچائے گا، اگر میں اس کی نافرمانی کروں؟‘‘
شعیب علیہ السلام کے ذکر میں ہے:
قَالَ: یٰقَوْمِ، اَرَءَ یْْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ، وَرَزَقَنِیْ مِنْہُ رِزْقًا حَسَنًا، وَمَآ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَکُمْ اِلٰی مَآ اَنْہٰکُمْ عَنْہُ.(ہود۱۱ :۸۸)
’’اُس نے کہا: میری قوم کے لوگو، (مجھے بتاؤ کہ) اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہوں اور پھر اس نے مجھے وحی کا رزق حسن بھی عطا فرمایا ہے (تو اس کے سوا میں تمھیں کس چیز کی دعوت دوں) ؟ اور میں نہیں چاہتا کہ تمھاری مخالفت کرکے وہی کروں جس سے تمھیں روک رہا ہوں۔‘‘
نبی کی فطرت ایک انسان کامل کی فطرت ہوتی ہے۔ الہامی صحائف میں انبیا علیہم السلام کی سیرت و سوانح سے متعلق اشارات سے صاف واضح ہوتا ہے کہ ان میں رحمت بھی ہوتی ہے اور غضب بھی۔ وہ رنج و الم اورقلق و اضطراب بھی محسوس کرتے ہیں اور حسرت و افسوس بھی۔ وہ دل گرفتہ بھی ہوتے ہیں اور اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس پر انھیں ندامت بھی محسوس ہوتی ہے۔ خدا کے عاجز بندوں کی طرح وہ اس کے حضور میں توبہ و استغفار بھی کرتے ہیں اور مجادلہ و اصرار کا طریقہ بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ان کے اور ان کے مخاطبین کے درمیان، جن پر اتمام حجت کے لیے وہ مبعوث ہوئے ہیں، موافقت ہو اور وہ ان سے اثر قبول کریں۔ فرشتوں کی طرح وہ اگر اس طرح کے جذبات سے خالی ہوتے تو ان کی بات کسی پر اثر انداز نہ ہوتی۔
پھر یہی نہیں، انسانیت کا مظہر اتم ہونے کے ساتھ وہ اپنی قوم کے بھی کامل ترین فرد ہوتے ہیں۔ ان کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کا عطر اور خلاصہ، اس کی تہذیبی روایت کا امین اور اس کے محاسن اخلاق کا جامع ہوتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ وہ ان کی تمام برائیوں سے پاک ہوتا ہے، لیکن عادات و شمائل میں ان سے اس قدر مشابہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اور اس کی قوم مثل دو آئینہ نظر آتے ہیں جن میں سے ایک کو دوسرے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ قرآن نے اسی بنا پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر فرشتوں کو رسول بنا کر بھیجتا تو جامۂ بشریت ہی میں بھیجتا، اس لیے کہ اس کے بغیر ان کے اور ان کے مخاطبین کے درمیان ابلاغ کا کوئی موثر رشتہ قائم نہیں ہو سکتا تھا:
وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا، لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلاً، وَّلَلَبَسْنَا عَلَیْْہِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ.(الانعام۶ :۹)
’’اور اگرہم پیغمبر کو فرشتہ بناتے، جب بھی انسان ہی کی صورت میں بناتے اور اس طرح اُن کو اسی شبے میں ڈال دیتے جس میں وہ اب پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
ان پیغمبروں کا معاملہ، البتہ کسی حد تک مختلف ہے جو محض اتمام حجت کے لیے آئے۔ اس کی ایک مثال سیدنا یحییٰ اور سیدنا مسیح ہیں۔ اپنی فطرت کے لحاظ سے وہ فرشتوں کے زیادہ قریب محسوس ہوتے ہیں۔ لہٰذا لوگو ں نے ان سے فائدہ بھی کم ہی اٹھایا ہے۔
نبی کی حیثیت سے وہی لوگ منتخب کیے جاتے ہیں جو نفس اور شیطان کی ترغیبات سے اپنے آپ کو بچاتے، گناہوں سے محفوظ رہتے اور ہر لحاظ سے اپنی قوم کے صالحین و اخیار ہوتے ہیں۔ سورۂ انعام میں بہت سے پیغمبروں کے نام گنا کر فرمایا ہے ’کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ‘ ۵۹ (یہ سب صالحین میں سے تھے)۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے:
وَاذْکُرْ عِبٰدَنَآ اِبْرٰہِیْمَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ، اُولِی الْاَیْْدِیْ وَالْاَبْصَارِ. اِنَّآ اَخْلَصْنٰہُمْ بِخَالِصَۃٍ ذِکْرَی الدَّارِ، وَاِنَّہُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْْنَ الْاَخْیَارِ. وَاذْکُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَذَا الْکِفْلِ، وَکُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ.(ص۳۸ : ۴۵۔۴۸)
’’اور ہمارے بندوں، ابراہیم، اسحق اور یعقوب کو یاد کرو جو بڑی قوت اور بصیرت رکھنے والے تھے۔ ہم نے ان کو ایک خاص مشن آخرت کی یاد دہانی پر مامورکیا تھااور ہمارے ہاں ان کا شمار ہمارے برگزیدہ اور بہترین انسانوں میں ہے اور اسمٰعیل، یسعیا اور ذوالکفل کو یاد کرو۔(ہم نے اُن کو منتخب کیا) اور یہ سب بہترین انسان تھے۔‘‘
پھر اس تقویٰ اور احتیاط کے صلے میں اللہ ان کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کو جو معاملہ زنان مصر سے پیش آیا، اس سے صاف واضح ہے کہ نبوت سے پہلے بھی اگر کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو جائے جس میں اپنے آپ کو محفوظ رکھنا آسان نہ ہو تو اللہ تعالیٰ خاص اپنی برہان سے ان کی رہنمائی فرماتا ہے۔ یہ برہان وہی نوریزدانی ہے جو خدا بخشتا تو ہر ایک کوہے، لیکن سنت الٰہی یہ ہے کہ جو لوگ اس کی قدر کرتے اور زندگی کے نشیب و فراز میں اس کی رہنمائی کو آگے بڑھ کر قبول کرتے ہیں، ان کے اندر یہ اس قدر قوی ہو جاتا ہے کہ اس طرح کے نازک موقعوں پر ان کے باطن میں مہ و آفتاب کی طرح چمکتا اور ظلمتوں کے تمام پردے آنکھوں کے سامنے سے ہٹا کر انھیں راہ ہدایت پر پابرجا کر دیتا ہے:
وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ، وَہَمَّ بِہَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْہَانَ رَبِّہٖ، کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓءَ وَالْفَحْشَآءَ، اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ. (یوسف ۱۲ :۲۴)
’’اور وہ عورت تو اس کی طرف بڑھ ہی چکی تھی، یوسف بھی بڑھ جاتا اگر اپنے پروردگار کی برہان نہ دیکھ لیتا۔ ہم نے ایسا ہی کیا تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو دور رکھیں۔ بے شک، وہ ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھا۔‘‘
سیدنا آدم علیہ السلام کی جس لغزش کا ذکر قرآن میں ہوا ہے، اس سے کسی شخص کو اس باب میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ اس میں شبہ نہیں کہ قرآن نے اس کے لیے عصیان کا لفظ استعمال کیا ہے، لیکن قرآن ہی میں اللہ تعالیٰ نے صراحت فرما دی ہے کہ اس کا سبب ان کا نسیان تھا۔ اس سے واضح ہے کہ یہ نافرمانی جانب نفس میں نہیں ہوئی اور نہ اس کا ارتکاب انھوں نے بالارادہ کیا ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے جب بار بار قسم کھا کر انھیں یقین دلایا کہ وہ ان کا خیرخواہ ہے اور باور کرادیا کہ ابدیت کی بادشاہی اسی درخت کا پھل کھانے سے حاصل ہوگی جس سے انھیں روکا گیا ہے تو وہ اس کے بہکاوے میں آگئے اور جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے پروردگار کی نافرمانی کر بیٹھے۔ پھر اپنی اس لغزش پر وہ قائم بھی نہیں رہے، بلکہ سخت نادم ہوئے، توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے کمال عنایت سے ان کی توبہ قبول کر کے انھیں نبوت کا منصب عطا کر دیا:
وَلَقَدْ عَہِدْنَآ اِلآی اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ، وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا، وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَآٰءِکَۃِ: اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ، فَسَجَدُوْٓا اِلَّاآ اِبْلِیْسَ، اَبٰی، فَقُلْنَا: یٰٓاٰدَمُ اِنَّ ہٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَلِزَوْجِکَ، فَلَا یُخْرِجَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ فَتَشْقٰی، اِنَّ لَکَ اَلَّا تَجُوْعَ فِیْہَا، وَلَا تَعْرٰی، وَاَنَّکَ لَا تَظْمَؤُا فِیْہَا، وَلَا تَضْحٰی، فَوَسْوَسَ اِلَیْْہِ الشَّیْْطٰنُ، قَالَ: یٰٓاٰدَمُ، ہَلْ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلٰی، فَاَکَلَا مِنْہَا فَبَدَتْ لَہُمَا سَوْاٰتُہُمَا، وَطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْْہِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ، وَعَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی، ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَبُّہٗ، فَتَابَ عَلَیْْہِ وَہَدٰی. (طہٰ۲۰ :۱۱۵۔۱۲۲)
’’اور ہم نے اس سے پہلے آدم کو اپنے ایک حکم کا پابند کیا تھا، مگر وہ بھول گیا اور ہم نے اُس میں عزم نہیں پایا۔ اور یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو وہ سجدہ ریز ہو گئے، مگر ایک ابلیس تھا کہ نہیں مانا۔ اس پر ہم نے آدم سے کہا: یہ تمھارا اور تمھاری بیوی کا دشمن ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تمھیں اس باغ سے نکلوا دے اور تم محرومی سے دوچار ہو جاؤ۔ یہاں تو یہ سہولت تمھیں حاصل ہے کہ نہ بھوکے رہو گے، نہ ننگے اور نہ پیاس ستائے گی نہ دھوپ لگے گی۔ لیکن شیطان نے اسے ورغلایا۔ اُس نے کہا: آدم، میں تمھیں حیات ابدی کے درخت اور ایک لازوال سلطنت کا پتا نہ دوں؟ آخر کاراُن دونوں نے اُس درخت کا پھل کھا لیا تو اُن کی شرم گاہیں ان کے لیے ظاہر ہو گئیں اور وہ اپنے آپ کو اُس باغ کے پتوں سے ڈھانکنے لگے(جس میں وہ رہتے تھے)۔ اور آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی تو بھٹک گیا۔ پھر اس کے پروردگار نے اُسے برگزیدہ کیا، اس کی توبہ قبول کی او ر اسے ہدایت بخشی۔‘‘
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ انھوں نے جان بوجھ کر کسی کوقتل نہیں کیا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ ایک مظلوم کی مدد کے نتیجے میں ظالم قبطی اپنی رعونت کے باعث ان سے الجھ پڑا۔ انھوں نے اپنی مدافعت میں اس کو گھونسا مارا۔ بدقسمتی سے وہ ایسا بے ڈھب پڑا کہ وہ اسی جگہ ڈھیر ہو گیا:
وَدَخَلَ الْمَدِیْنَۃَ عَلٰی حِیْنِ غَفْلَۃٍ مِّنْ اَہْلِہَا، فَوَجَدَ فِیْہَا رَجُلَیْْنِ یَقْتَتِلٰنِ، ہٰذَا مِنْ شِیْعَتِہٖ، وَہٰذَا مِنْ عَدُوِّہٖ، فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِہٖ عَلَی الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّہٖ، فَوَکَزَہٗ مُوْسٰی، فَقَضٰی عَلَیْْہِ، قَالَ: ہٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْْطٰنِ، اِنَّہٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ. قَالَ: رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ، فَاغْفِرْ لِیْ، فَغَفَرَ لَہٗ، اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ.(القصص۲۸ :۱۵۔۱۶)
’’اور (ایک دن) لوگوں کی بے خبری کے وقت وہ شہر میں داخل ہوا تو اُس نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں۔ ایک اس کی اپنی قوم کا تھا اور دوسرا اس کی دشمن قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ پھر اس کی قوم کے آدمی نے اُس شخص کے خلاف اس سے مدد چاہی جو اس کے دشمنوں میں سے تھاتوموسیٰ نے اس کو ایک گھونسا مارا اور اس کا کام تمام کر دیا۔ (یہ دیکھتے ہی) اُس نے کہا:یہ تو شیطان کی کارفرمائی ہے۔ بے شک، وہ ایک کھلا ہوا گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔ (پھر) اُس نے دعا کی: پروردگار، میں نے اپنے نفس پر ظلم کر ڈالا ہے۔ تو مجھے بخش دے۔ چنانچہ اللہ نے اُسے بخش دیا۔ بے شک، وہ بڑا ہی بخشنے والاہے، اس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘
استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...حضرت موسیٰ نہ تو قبطی کے قتل کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے تھے اور نہ ان کو اس صورت حال کے پیش آنے کا کوئی گمان تھا۔ بالکل بے ارادہ جب یہ حادثہ پیش آگیا تو انھیں فوراً اپنی غلطی پر سخت پشیمانی ہوئی اور انھوں نے اپنے رب سے معافی مانگی کہ اے رب، میں نے اپنی جان پر سخت ظلم ڈھایا تو مجھے معاف فرما دے۔ چونکہ یہ غلطی ان سے بالکل بے ارادہ ہوئی تھی، پھر انھوں نے معافی بھی بلا تاخیر مانگی، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو فوراً ہی معاف فرما دیا اور اس معافی کی غیبی طور پر ان کو بشارت بھی مل گئی۔ اللہ تعالیٰ غفورو رحیم ہے۔‘‘(تدبر قرآن۵/ ۶۶۳)
یہ دونوں واقعات نبوت سے پہلے کے ہیں۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اس منصب پر فائز ہو جانے کے بعد انبیا علیہم السلام ہمہ وقت فرشتوں کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔ ان کے آگے اور پیچھے اللہ تعالیٰ اپنے محافظ مقرر کر دیتا ہے۔ ان کی ایک ایک چیز گنے ہوئے ہوتی ہے، اور وہ دیکھتا رہتا ہے کہ اس کے پیغامات انھوں نے بے کم و کاست پہنچا دیے ہیں یا نہیں؟ اس کے بعد، ظاہر ہے کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی لغزش پر بھی ان کے قائم رہ جانے کی کوئی گنجایش نہیں رہتی:
اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ، فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْ بَیْْنِ یَدَیْْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا، لِّیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ، وَاَحَاطَ بِمَا لَدَیْْہِمْ، وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْْءٍ عَدَدًا.(الجن۷۲ :۲۷۔۲۸)
’’رہے وہ جن کو وہ رسول کی حیثیت سے منتخب کر لیتا ہے ،(تو وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے)،اس لیے کہ اُن کے آگے اور پیچھے وہ پہرا لگا دیتا ہے تاکہ معلوم رہے کہ انھوں نے اپنے رب کے پیغام پہنچا دیے ہیں، اور وہ اُن کے ماحول کو گھیرے میں اور اُن کی ہر چیز کو گنتی میں رکھتا ہے۔‘‘
[باقی]
—————
۵۵ الانعام۶: ۱۲۵۔
۵۶ القصص ۲۸: ۲۹۔۳۰۔
۵۷ بخاری،۲۔
۵۸ بنی اسرائیل ۱۷: ۱۔
۵۹ ۶: ۸۵۔
———————————————