HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: آل عمران ۳: ۸۱-۹۹ (۱۸)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)

  

 وَإِذْ أَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ، لَمَآ اٰتَیْْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ، ثُمَّ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ، لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہُ، قَالَ: أَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ إِصْرِیْ؟ قَالُوْآ: أَقْرَرْنَا، قَالَ: فَاشْہَدُوْا، وَأَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ{۸۱} فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ، فَأُولٰـئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ { ۸۲}
أَفَغَیْْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ، وَلَہٓٗ أَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعاً وَکَرْہاً، وَّإِلَیْْہِ یُرْجَعُوْنَ{۸۳} قُلْ: اٰمَنَّا بِاللّٰہِ، وَمَآ أُنْزِلَ عَلَیْْنَا، وَمَآ أُنْزِلَ عَلٰی إِبْرٰہِیْمَ وَإِسْمٰعِیْلَ وَإِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ، وَمَآ أُوْتِیَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی وَالنَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ، لاَ نُفَرِّقُ بَیْْنَ أَحَدٍ مِّنْہُمْ، وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ{۸۴} وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْْرَ الْاِسْلاَمِ دِیْناً، فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ، وَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ {۸۵} کَیْْفَ یَہْدِی اللّٰہُ قَوْماً کَفَرُوْا بَعْدَ إِیْمَانِہِمْ، وَشَہِدُوْٓا أَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ، وَّجَآئَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ، وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ {۸۶} أُولٰٓـئِکَ جَزَآؤُہُمْ أَنَّ عَلَیْْہِمْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ، وَالْمَلٰٓئِکَۃِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ {۸۷} خٰلِدِیْنَ فِیْہَا، لاَ یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ، وَلاَ ہُمْ یُنظَرُوْنَ{۸۸} إِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ، وَأَصْلَحُوْا، فَإِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۸۹}إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْدَ إِیْمَانِہِمْ، ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْراً، لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُہُمْ، وَأُولٰٓـئِکَ ہُمُ الضَّآلُّوْنَ{۹۰} إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَمَاتُوْا، وَہُمْ کُفَّارٌ، فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْ أَحَدِہِم مِّلْء ُ الأرْضِ ذَہَباً، وَّلَوِ افْتَدٰی بِہٖ، أُولٰٓـئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ، وَّمَا لَہُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ {۹۱}
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ، وَمَا تُنْفِقُوْا مِن شَیْْء ٍ، فَإِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ {۹۲} 
کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِـلاًّ لِّبَنِیْٓ إِسْرَآئِیْلَ، إِلاَّ مَا حَرَّمَ إِسْرَآئِیْلُ عَلٰی نَفْسِہٖ مِنْ قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرٰئۃُ، قُلْ: فَأْتُوْا بِالتَّوْرٰئۃِ فَاتْلُوہَآ، إِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ{۹۳} فَمَنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ، فَأُولٰـئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ{۹۴} قُلْ: صَدَقَ اللّٰہُ، فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ إِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفاً، وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ {۹۵} 
إِنَّ أَوَّلَ بَیْْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ، مُبٰرَکاً، وَہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ{۹۶} فِیْہِ اٰیٰتٌ بَیِّـنٰتٌ، مَّقَامُ إِبْرٰہِیْمَ، وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِناً، وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْْہِ سَبِیْلاً، وَمَن کَفَرَ، فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ {۹۷}
قُلْ: یٰٓاََہْلَ الْکِتٰبِ، لِمَ تَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ شَہِیْدٌ عَلٰی مَا تَعْمَلُوْنَ{۹۸} قُلْ: یٰٓاََہْلَ الْکِتٰبِ، لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ، تَبْغُوْنَہَا عِوَجاً، وَّأَنتُمْ شُہَدَآئُ، وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ{۹۹}
اور اِنھیں یاد دلائو، جب اللہ نے نبیوں کے بارے میں اِن سے عہد لیا تھا کہ میں نے جو شریعت اور حکمت تمھیں عطا فرمائی ہے، پھر تمھار ے پاس کوئی رسول  ۱۵۱  اُس کی تصدیق کرتے ہوئے آئے جو تمھارے پاس موجود ہے تو تم اُس پر ایمان لائو گے اور اُس کی مدد کرو گے۔ (اِس کے بعد ) پوچھا: کیا تم نے اقرار کیا اور اِس پر میرے عہد کی ذمہ داری اٹھا لی ہے ؟ اُنھوں نے جواب دیا کہ ہم نے اقرار کیا تو فرمایا کہ گواہ رہو اور میں بھی تمھار ے ساتھ گواہ ہوں۔ ( فرمایا کہ) پھر اس کے بعد جو ( اِس عہد سے)پھریں گے تو وہی نافرمان ہیں۔  ۱۵۲  ۸۱۔۸۲ 
(یہ پیغمبر اِسی طرح آئے ہیں) تو کیا یہ لوگ ( اب) اللہ کے دین کے سوا کسی اوردین کی تلاش میں ہیں ، دراں حالیکہ زمین و آسمان میں طوعاًوکرہاً، سب اُسی کے فرماں بردارہیں اوراُسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔  ۱۵۳ اِن سے کہہ دو کہ ہم نے اللہ کو مانا ہے اور اُس چیز کو مانا ہے جوہماری طرف نازل کی گئی اورجو ابراہیم، اسمٰعیل، اسحٰق اوریعقوب اوراُن کی اولاد کی طرف نازل کی گئی، اورجوموسیٰ اورعیسٰی اوردوسرے سب نبیوں کواُن کے پروردگار کی طرف سے دی گئی۔ ہم اِن میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ ۱۵۴ (یہ سب اللہ کے پیغمبر ہیں) اورہم اُسی کے فرماں بردار ہیں۔۱۵۵  (یہی اسلام ہے) اورجو اسلام کے سوا کوئی اوردین اختیارکرنا چاہے گا تو اُس سے وہ ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور قیامت میں وہ نامرادوں میںسے ہوگا۔ ( تم اِن کی ہدایت چاہتے ہو)؟ اللہ اُن لوگوں کو ہدایت کس طرح دے گا جو ماننے کے بعد منکر ہوگئے، دراں حالیکہ وہ اِس بات کے گواہ ہیں کہ یہ رسول سچے۱۵۶ ہیںاوراُن کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں آچکی ہیں، اور(حقیقت یہ ہے کہ ) اللہ اِس طرح کے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔اِن کی سزا یہ ہے کہ اِن پر اللہ اور(اُس کے ) فرشتوں اورتمام انسانوں کی لعنت ہے۔ ۱۵۷ یہ اُسی میں ہمیشہ رہیںگے، ۱۵۸ نہ اِن کے عذاب میں کمی ہوگی اور نہ اِنھیں مہلت دی جائے گی۔ (اِن میں سے)، البتہ جو اِس کے بعد توبہ اوراصلاح کرلیں، ( وہ اِس سے محفوظ رہیں گے)، اِس لیے کہ اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ (اِس کے برخلاف ) جو ماننے کے بعد منکر ہوئے، پھر اپنے اس انکارمیںبڑھتے چلے گئے (اوراب موت کو سامنے دیکھ کرتوبہ کرنا چاہتے ہیں )، اُن کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی اور وہی درحقیقت راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔(اِسی طرح) جومنکر ہوئے اور اِسی انکار کی حالت میںد نیا سے رخصت ہوگئے، وہ اگر (اپنے آپ کو سزا سے بچانے کے لیے ) زمین بھر کر سونا بھی فدیے میں دیں تو اُن سے قبول نہ کیا جائے گا۔ ۱۵۹  اُن کے لیے دردناک عذاب ہے اور ( وہاں )وہ اپنا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔  ۱۶۰ ۸۳۔۹۱ 
(اِن کا یہ رویہ محض اس وجہ سے ہے کہ دین داری کی بعض رسمیں پوری کردینے کے باعث یہ اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں ۔ اِن سے کہہ دو)، تم نیکی کی حقیقت ۱۶۱ کوہرگز نہیں پا سکتے، جب تک اُن چیزوں میں سے (اللہ کی راہ میں ) خرچ نہ کرو جوتمھیں محبوب ہیں ،(اِس پر غور کرو) اور( یاد رکھو کہ ) جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے، (اُس کا صلہ تمھیں لازماً ملے گا)، اس لیے کہ اللہ اُسے جانتا ہے۔ ۱۶۲ ۹۲ 
(اِنھیں اعتراض ہے کہ یہ پیغمبر تورات کی تصدیق کرتے ہیں تو اِس میں جو چیزیں حرام ہیں، اُن میںسے بعض کو حلال کیوں سمجھتے ہیں ؟ کہہ دو کہ ) کھانے کی یہ سب چیزیں بنی اسرائیل کے لیے بھی (اِسی طرح) حلال تھیں، سوائے اُن کے جواسرائیل نے تورات کے نازل ہونے سے پہلے خود اپنے لیے ممنوع ٹھیرالی تھیں۔ ۱۶۳  کہہ دو کہ لائو تورات اوراُس کو پڑھو، اگرتم سچے ہو۔۱۶۴ پھر اِس کے بعد بھی جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھیں، وہی ظالم ہیں۔ کہہ دو کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے، اِس لیے ( اپنے اِن تعصبات کو چھوڑ کر) ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو، جو (اسلام کے راستے پر) بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا ۔ ۹۳۔۹۵ 
(اِسی طرح قبلے کے بارے میں بھی اِنھیں اعتراض ہے۔ اِن سے کہہ دو کہ)پہلی عبادت گاہ جو لوگوں کے لیے تعمیر کی گئی، وہ یقینا وہی ہے جو مکہ۱۶۵میں ہے، تمام جہان والوں کے لیے برکت اورہدایت کے مرکز کی حیثیت سے۔ اِس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں: ۱۶۶ ابراہیم کا مسکن ہے، جو اس میں داخل ہوجائے، وہ مامون ہے اور جو لوگ وہا ں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں، اُن پراللہ کے لیے اِس گھر کا حج ہے ۔(یہ اِس کی نشانیاں ہیں)، اور جو اِس کے بعد بھی انکار کریں تو (اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ) اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے ۔ ۹۶ ۔۹۷ 
(اِن سے) پوچھو، اے اہل کتاب، تم اللہ کی اِن آیتوں کا انکار کیوں کرتے ہو، دراں حالیکہ جو کچھ تم کررہے ہو، اللہ اُسے دیکھ رہا ہے؟ (اِن سے )پوچھو، اے اہل کتاب ، تم اُن لوگوں کو اللہ کے راستے سے کیوں روکتے ہوجو ایمان لائے ہیں ؟تم اِس میں عیب ڈھونڈتے ہو، دراں حالیکہ تم اِس کے گواہ بنائے گئے ہو؟(اِس پر غور کرو) اور(یاد رکھوکہ)جوکچھ تم کررہے ہو، اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے۔ ۹۸۔۹۹  

۱۵۱؎  اس میں لفظ اگرچہ عام ہے، لیکن صاف واضح ہے کہ اشارہ خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے جن کی بعثت سے اس دین کی تصدیق ہوئی جو اس سے پہلے یہود و نصاریٰ کو دیا گیا تھا، لیکن استاذ امام کے الفاظ میں یہ ان کی شامت تھی کہ جس نے ان کی تصدیق کی، اس کو انھوں نے جھٹلایا اور جس کی حجت اور شہادت کابارگراں وہ اتنی مدت تک اٹھائے رہے، جب وہ آیا تو انھوں نے اس کی تکذیب کردی۔

۱۵۲؎  اس جملے کا ایک خاص موقع ہے جو نگاہ میں رہے تو اس کا پورا زور سمجھا جا سکتا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر میں اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے:

’’...موسوی شریعت میں یہ قاعدہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس طرح کی ہدایات اترتیں تو حضرت موسیٰ ان کو انفرادی طور پر اپنے صحابہ کو صرف سنا دینے ہی پر اکتفا نہ فرماتے، بلکہ بنی اسرائیل کی پوری جماعت یا کم از کم ان کے تمام سرداروں کو خیمۂ عبادت میں جمع کرتے ، تابوت سامنے ہوتا ، حضرت موسیٰ وعظ و تذکیر کے بعد خداوند خدا کا حکم سناتے، پھر سب سے اس کی اطاعت کا اقرار لیتے۔ سب کے اقرار کے بعد لوگوں کو اس کا گواہ رہنے کی تاکید کرتے ، اور خدا کو اس پر گواہ ٹھہراتے۔ آخر میں اس حکم کی نافرمانی کے دنیوی و اخروی عواقب و نتائج سے بھی آگاہ فرما دیتے۔ اس طرح گویا اللہ تعالیٰ کا ہر امرو نہی اللہ تعالیٰ اور بنی اسرائیل کے درمیان ایک عہدومیثاق کا درجہ حاصل کر لیتا۔ اب یہ کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ جس شریعت کے تحفظ کے لیے یہ جتن کیے گئے، اس کے حاملوں نے اس کے ایک ایک عہد کے پرزے اڑا کے رکھ دیے۔ اس روشنی میں ’ فمن تولیٰ بعد ذلک ‘کے الفاظ پر غور کیجیے تو ’بعد ذلک ‘کا حقیقی وزن محسوس ہو گا کہ اس کے بعد بھی جو لوگ اپنے عہد سے منہ موڑ یں تو ان سے بڑھ کر عہد شکن کون ہوگا؟‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۱۳۵)

۱۵۳؎  یہ باانداز استعجاب سوال کیا ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوقات اپنے دائرۂ تکوینی میں اللہ کے دین ہی کی پیروی کر رہی ہیں ۔ اس سے نہ دنیا میں کسی کے لیے راہ فرار ہے ، نہ مرنے کے بعد ۔ یہ اہل کتاب اس بات سے واقف ہیں۔ پھر اس دین فطرت اور دین کائنات کو چھوڑ کر یہ کہاں بھا گنا چاہتے ہیں؟

۱۵۴؎  یعنی ہم ان کی طرح یہ نہیں کرتے کہ کسی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں۔ اللہ تعالیٰ کی کسی ہدایت کو بھی ہم نہ جھٹلاتے ہیں اور نہ اس کی تردید کرتے ہیں، بلکہ بغیر کسی استثنا کے سب پر ایمان رکھتے ہیں۔

۱۵۵؎  مطلب یہ ہے کہ ہم اس دین پر ایمان لے آئے ہیں جو پوری کائنات اور تمام انبیا علیہم السلام کا دین ہے۔ یہ اہل کتاب اگر اسے چھوڑ کر اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کر دینا چاہتے ہیں تو کریں ۔ ہم تو اپنے آپ کو اللہ ہی کے حوالے کرتے ہیں۔

۱۵۶؎  یعنی ان کے دل گواہی دیتے ہیں کہ یہ اللہ کے برحق رسول ہیں، لیکن زبانیں اس کے باوجود جھٹلا رہی ہیں۔

۱۵۷؎   ’الناس ‘کے ساتھ اصل میں ’اجمعین‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ قیامت کے دن نیک و بد، سب ہی ان پر لعنت کریں گے۔ نیکوں کی لعنت تو واضح ہے۔ رہے بد تو وہ اس وجہ سے لعنت کریں گے کہ انھی کے سبب سے گمراہ ہوئے۔

۱۵۸؎  اصل میں ’خٰلدین منھا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں اشارہ دوزخ کی طرف ہے۔ اگرچہ اس کا ذکر الفاظ میں نہیں ہے، لیکن اس سے پہلے جس لعنت کا ذکر ہے، وہی اس کے لیے قرینہ بن گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں گویا لعنت خود عذاب کی قائم مقام ہو گئی ہے۔

۱۵۹؎  یہ اسلوب بیان محض اس بات کی تعبیر کے لیے اختیار کیا ہے کہ ان کی نجات کسی طرح ممکن نہ ہوگی۔ ورنہ آخرت میں نہ کسی کے پاس دینے کے لیے کچھ ہو گا اور نہ آخرت اس قسم کے لین دین کی کوئی جگہ ہے۔

۱۶۰؎  مطلب یہ ہے کہ ان کے اسلاف اور بزرگوں کی شفاعت بھی ، جس کی یہ توقع رکھتے ہیں، ان کے کام نہ آسکے گی۔ قیامت میں کوئی کسی کا مددگار نہ ہو گا۔

۱۶۱؎  نیکی کی حقیقت ایفاے عہد اور اداے حقوق و فرائض ہے۔ چنانچہ اصل میں لفظ ’البر ‘استعمال ہواہے جس کی روح یہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نیکی کی حقیقت پانا چاہتے ہو تو ان چیزوں کا اہتما م کرو۔یہ محض دین داری کی چند رسمیں پوری کر دینے اور چند ظواہر کو اختیار کر لینے سے نہیں ملتی۔

۱۶۲؎  اس سے مقصود اس کا لازم ہے۔ یعنی جب اللہ جانتا ہے تو مطمئن رہو کہ اس کا اجر بھی وہ دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک دے گا۔ تمھارے انفاق کا ایک حبہ بھی اس کے حضور میں ضائع نہ ہوگا۔

۱۶۳؎  اشارہ ہے ان چیزوں کی طرف جو سیدنا یعقوب علیہ السلام محض طبعی اور ذوقی عدم مناسبت یا کسی احتیاط کے باعث نہیں کھاتے تھے اور یہود نے انھیں اللہ کی حرام کردہ چیزیں قرار دے کر تورات کی محرمات کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔

۱۶۴؎  یعنی تورات میں دیکھ لو کہ اونٹ یا بعض دوسری چیزیں جنھیں تم حرام سمجھتے ہو، ان کی حرمت کا کوئی ذکر عہدابراہیمی میں نہیں ہے۔

۱۶۵؎  اس کے لیے اصل میں لفظ ’بکۃ‘ آیا ہے۔ اس کے لغوی معنی شہر کے ہیں جیسا کہ لفظ ’بعلبک‘ سے اس کی شہادت ملتی ہے۔ یہاں یہ لفظ جس وجہ سے آیا ہے، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے:

’’...یہود نے آخری بعثت کے نشانات گم کرنے کے لیے قرأت کے توڑ مروڑ یا بالفاظ قرآن ’لیّ لسان‘کے ذریعے سے جو تحریفیں کی ہیں، ان کی ایک مثال یہ لفظ بھی ہے۔ اس کو یہود نے بگاڑ کر ’بکہ‘ کے بجائے بکاء بنا دیا اور اس کو مصدر قرار دے کر ترجمہ اس کا رونا کر دیااور اس طرح ’وادی بکہ‘کو رونے کی وادی میں تبدیل کر کے اس سب سے بڑے نشان کو گم کر دیا ، جس سے خلق کو آخری نبی کے بارے میں رہنمائی مل سکتی تھی۔ اس آیت میں قرآن نے مکہ کو بکہ کے نام سے ذکر کر کے مکہ کے اس قدیم نام کی یاد دہانی کی ہے جو تورات کے صحیفوں میں تھا، بلکہ بعض صحیفوں میں اب بھی ہے، مثلاً زبور میں۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۱۴۵)

۱۶۶؎  یعنی اس بات کی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا بنایا ہوا گھر یہی ہے، اس لیے قبلہ بھی اسی کو ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ان نشانیوں میں سے تین چیزوں کی طرف خاص اشارہ فرمایا ہے: ایک یہ کہ یہ مقام ابراہیم ہے، دوسری یہ کہ جو اس حرم میں داخل ہو جائے، مامون ہو جاتا ہے، تیسری یہ کہ اس کا حج ہمیشہ سے ایک دینی فریضہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ تینوں چیزیں عرب میں سیدنا ابراہیم کی قائم کردہ روایت کی حیثیت سے لوگوں کے اجماع اور تواتر سے ثابت تھیں اور کوئی صاحب انصاف ان کا انکار نہیں کر سکتا تھا۔ تو رات میں بھی ان کے لیے ناقابل تردید شواہد موجود تھے اور اس کے پڑھنے والے اس حقیقت کی تردید نہیں کر سکتے تھے کہ سیدنا ابراہیم کے ہاتھوں جس بیت ایل کی تعمیر کا ذکر اس میں ہواہے، اس کا مصداق اگر کوئی ہو سکتا ہے تو بیت المقدس نہیں ، بلکہ یہی مکہ کا بیت الحرام ہو سکتاہے۔

[باقی]

 ـــــــــــــــــــ

B