HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

’’محدث‘‘ کی بارگاہ میں

ماہنامہ ’’اشراق ‘‘کے مئی کے شمارے میں ’’عورت کی امامت ‘‘کے عنوان سے میرا ایک مضمون چھپا ادارے نے اسے ’’نقطۂ نظر ‘‘کے گوشے میں شائع کیا۔ جس کا مطلب واضح تھا کہ یہ صاحب مضمون کا اپنا نقطۂ نظر ہے۔ ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس مضمون کے جواب میں ماہنامہ ’’محدث ‘‘نے جون ۲۰۰۵ کی اشاعت خاص میں سات مضمون شائع کیے ۔ اللہ تعالیٰ اس محنت پر ان کو جزاے خیر عطا فرمائے۔ محمد رضی الاسلام ندوی کے مضمون کو چھوڑ کر باقی چھ مضامین کا انداز علمی اور تحقیقی کی بجائے مناظرانہ اور مجادلانہ ہے اور اس مناظرے میں بھی انھوں نے قرآن حکیم کی ہدایت ’وجادلہم بالتی ھی أحسن‘(۱۶: ۱۲۵) کو پیش نظر نہیں رکھا، بلکہ میرے اور ادارے کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے جو اہل علم کے شایان شان نہیں۔ میری ذات پر دجل و فریب اور ہوس ناکی کی جو صفات چسپاں کی گئی ہیں، ان کے جواب میں میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ’فلا تزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقی‘،اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت، کون زیادہ متقی اور پرہیز گار ہے، یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ بہرکیف مجھے اس بات کا کوئی دکھ نہیں ۔ دکھ اس بات کا ہے کہ میرے اس مضمون کی وجہ سے’’ اشراق‘‘ کے ادارے پر پھبتیاں کسی گئیں۔ ’’فقیہان اشراق‘‘اور ’’اشراقیہ فرقے ‘‘کی طنزیہ ترکیبیں استعمال کی گئیں اور یہ سمجھا گیا کہ ’’اشراق‘‘نے عورت کی امامت کا جواز نکالا ہے۔ یہ سراسر بہتان ہے۔ جو میں نے لکھا، وہ میرااپنا نقطۂ نظر ہے، اس کا کوئی محرک نہیں۔ مدیر ’’اشراق ‘‘جناب جاوید احمد غامدی سے میری جان پہچان کی عمر دو ماہ سے بھی کم ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ حوالوں کی تلاش میں ’’المورد‘‘ کی لائبریری میں، جو میرے گھر سے قریب تر ہے، جاتا تھا تو کبھی کبھار غامدی صاحب سے دعا سلام ہو جاتی تھی اور بس۔ میں ان کو بالکل اسی طرح قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس طرح میں مولانا محمد عطا ء اللہ حنیف بھوجیانی رحمۃ اللہ علیہ جیسے محقق کو دیکھتا تھا۔طالب علمی کے زمانہ میں کسب فیض کے لیے میں ان کے ہاں جایا کرتا تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں میں حدیث کی جس کتاب کو کھولتا تھا ۔ اس پر مولانا کا مختصر سا نوٹ موجود ہوتا تھا۔ محترم غامدی صاحب دور حاضر میں نعرہ بازی اور سیاست کے جھمیلوں سے الگ تھلگ تحقیق میں مصروف ہیں۔ ہر اتوار ان کا درس ہوتا ہے، میں کبھی بھی ان کے درس میں نہیں گیا ۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ میرے مضمون کی وجہ سے بعض مضمون نگاروں نے نازیبا الفاظ استعمال کیے اور اس سے بڑھ کر دکھ اس بات کاہے کہ’’محدث‘‘کے ایک بڑے مضمون نگار نے مولانا امین احسن اصلاحی جیسے صاحب بصیرت اور عربی زبان و ادب کا اعلیٰ ذوق رکھنے والے مفسر کی آرا کو مورد طعن بنایا حالانکہ زیر بحث موضوع میں اس کی قطعاً گنجایش نہ تھی۔ میں ان صاحب کو ذاتی طور پر جانتا ہوں اور ان کے مبلغ علم سے اچھی طرح واقف ہوں کیونکہ میں دھرم پورہ کی مسجد اہل حدیث میں جمعہ پڑھتا رہا ہوں۔ جہاں یہ صاحب امام اور خطیب تھے۔ مولانا اصلاحی پر ان کی تنقید کے جواب میں متنبی کا شعر پیش کر سکتا ہوں:

واذا اتتک مذمتی من ناقص
فھی الشہادۃ لی بانی کامل
’’جب آپ کے سامنے کوئی ناقص آدمی میری مذمت کرے تو یہ میرے کامل ہونے کی عین گواہی ہے۔ کیونکہ ناقص ہمیشہ کامل کو ناپسند کرتا ہے۔ ‘‘

میں یہ بتاتا چلوں کہ میں کسی حلقۂ ارادت سے مربوط نہیں، کیونکہ میں جماعتی بندھن کو علم و تحقیق کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہوں۔ ہاں، خاندانی لحاظ سے میں اہل حدیث سے مربوط ہوں، کیونکہ میرے والد مرحوم مولانا نور عالم امرتسری امام عبدالجبار کے شاگردوں میں سے تھے۔ حدیث کے بارے میں مجھے جو تھوڑی بہت سدھ بدھ ہے، اس کا سرچشمہ بھی وہی ہیں۔ لیکن میں ہرمکتب فکرکے صاحبان علم و تحقیق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔زیر نظر مضمون میں نے لکھ کر قرآن کالج کے اسٹاف کے سامنے پڑھا ۔ یہ کالج بانیِ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد کی زیر نگرانی چل رہا ہے اور یہاں میں نے کم و بیش دس برس تک عربی زبان و ادب کی تدریس کے فرائض سر انجام دیے ہیں۔ پیرانہ سالی کی وجہ سے میں ۶ مئی ۲۰۰۵ کو اس کالج سے فارغ ہواہوں۔ زیر بحث مضمون کا ارباب ’’اشراق‘‘ سے دور کا بھی واسطہ نہیں، گالیاں اگر دینی ہیں تو مجھے دی جائیں، نہ کہ ادارۂ ’’اشراق‘‘ کو ۔ مجھے امید ہے کہ میری اس وضاحت سے’’ اشراق ‘‘کے خلاف بغض اور کینے سے ’’محدثین ‘‘کا سینہ صاف ہو جائے گا۔

اب آتے ہیں نفس مضمون کی طرف طعنوں اور کوسنوں کے انبار میں میں کام کی بات ڈھونڈتا رہا جو میرے علم میں اضافہ کرے اور میں اس کاعلمی جواب دے سکوں، مجھے اس جستجو میں سخت مایوسی ہوئی ، کیونکہ تمام مقالہ نگاروں کا فکری انتشار واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ ام ورقہ کی روایت سب کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ کچھ لوگوں نے امام دار قطنی کی ایک روایت کے حوالہ سے اسے عورتوں کی امامت کے ساتھ مخصوص کرنے کی کاوش کی ،(صفحہ ۲۴، ۳۸، ۴۸)کچھ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا(صفحہ ۵۰) اور جن صاحبان نے (بشمول ناصرالدین البانی )اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے، ان پر تنقید کی ہے۔ حالانکہ خود صلاح الدین یوسف اور حافظ زبیر علی زئی نے اس حدیث کو کم از کم حسن قرار دیا ہے۔ ایک اور صاحب پردے کے احکام کے بعداسے منسوخ تصور کرتے ہیں (صفحہ۷۳) ان صاحب نے سنن ابی داؤد کی روایات کو دیکھا تک نہیں وگرنہ وہ یہ نہ کہتے کہ پروفیسر خورشید عالم کے نزدیک پہلی روایت کا مل تر ہے۔ حالانکہ یہ قول راوی کا ہے نہ کہ میرا ۔میں بڑی آسانی سے کہہ سکتا ہوں کہ پہلے آپ اس حدیث کے بارے میں ایک رائے پر متفق ہو جائیں پھر میں جواب دوں گا، لیکن میں اس کے باوجود چند اعتراضات کے جواب اور چند شبہات کا ازالہ مناسب سمجھتا ہوں۔

زیر نظر مضمون میں میں نے عورت کی امامت کے بارے میں تمام نقطہ ہاے نظر کو انتہائی دیانت داری سے بیان کر کے موافق و مخالف دلائل کا فنی تجزیہ کیا ہے۔ کسی فریق کے حق میں یا اس کے خلاف اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا، بلکہ یہ کام قاری کے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔ ہاں میں نے یہ بات ضرور کہی ہے کہ جو علما عورت کی مطلق امامت کے قائل ہیں، ان کی دلیل مضبوط ہے کیونکہ ان کا ماخذ صحاح ستہ کی مستند حدیث ہے۔ اب یہ کہنا کہ عورت کی مطلق امامت کا کوئی بھی قائل نہیں اور ’’بدایۃ المجتہد‘‘ اور’’ المغنی ‘‘کے حوالے بے سند ہیں، لہٰذاغیر معتبر ہیں (ص ۴۹)، حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے جس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ اس اختلاف کا ذکر فقہ کی کم و بیش ہر کتاب میں ہے۔

جون کے’’ بینات کراچی ‘‘میں عورت کی امامت پر لندن سے مولانا عمر فاروق کا مضمون چھپا ہے جس میں انھوں نے ابن رسلان اور صاحب المنہل کے حوالہ سے ابو ثور، مزنی، طبری کے ساتھ امام داؤد ظاہری کا نام بھی شامل کیا ہے۔ اس کے علاوہ ’’محدث ‘‘کے صاحب مضمون شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی صفحہ ۶۳ پر فرماتے ہیں: ’’ابن جریر شیعہ ہے ،کیونکہ عورت کی امامت شیعہ کے ہاں جائز ہے۔‘‘مجھے اس بارے میں قطعی کوئی علم نہیں، بہر کیف اگر شیخ الحدیث فرماتے ہیں تو درست ہو گا (دروغ بر گردن راوی) ۔

ام ورقہ کی روایت کے بارے میں ’’محدث ‘‘کے محدثین کا سارا زور اس بات پر صرف ہوا ہے کہ سنن دار قطنی کی روایت میں ہے کہ ام ورقہ کو اللہ کے رسول نے اجازت دی تھی کہ ان کے لیے اذان اور اقامت کہی جائے اور وہ اپنی عورتوں کی امامت کرائیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ سنن دار قطنی میں یہ حدیث دو مرتبہ روایت کی گئی ہے۔ ایک دفعہ’ کتاب الصلاۃ باب فی ذکر الجماعۃ واھلہا وصفۃ الامام‘ میں اس حدیث کا متن وہی ہے جو اوپر بیان ہو چکا ہے۔ دوسری دفعہ باب ’صلٰوۃ النساء جماعۃ و موقف امامہن‘ میں ،اس حدیث کا متن ہو بہو وہی ہے جو ابو داؤد کی روایت کا ہے۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ وہ اپنے اہل محلہ یا اہل خاندان کی امامت کرائیں۔ عنوان ہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام دار قطنی کا رجحان کس طرف ہے۔ اس حدیث میں بھی ’عن أم ورقہ ‘کے بعد سنن دار قطنی میں ایک جملے کا اضافہ ہے جو حدیث کی کسی کتاب میں مروی نہیں۔ وہ جملہ ہے ’کانت تؤم‘اس جملے کی وجہ سے میں نے پہلے روایت میں یہ ترجمہ کیا کہ وہ عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور اس جملے کو دار قطنی کی طرف منسوب کیا۔ بہر کیف اگر محدثین اس حسن توجیہہ کو نہیں مانتے تو مجھے اس پر اصرار نہیں۔پہلی روایت ولید بن جمیع نے اپنی ماں سے روایت کی ہے اور اس میں’ عنعنہ‘ ہے۔ دوسری روایت ولید بن جمیع نے اپنی دادی سے روایت کی ہے اور اس میں ’حدثنا ‘کے لفظ سے روایت کی گئی ہے ۔ماں مجہول الحال ہے جبکہ دادی ثقہ ہے۔ مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ’’محدث ‘‘کے محدثین نے دوسری روایت جو متفقہ روایت ہے، کا ذکر دیدہ ودانستہ گول کردیاہے، حالانکہ سنن دار قطنی نے عورتوں کی جماعت کا جو مخصوص باب باندھا ہے، اس میں دوسری روایت بیان ہوئی ہے جس میں ’اھل دارھا‘کی جماعت کا ذکر ہے نہ کہ ’نساۂا‘(اپنی عورتوں)کا۔ یہ بات علمی دیانت کے منافی ہے۔

میں امام دار قطنی پر حنفی فقیہ محمود بن احمد عینی (متوفی۵۸۸ھ) کی جرح کا ذکر نہیں کروں گا، مگر یہ ضرور کہوں گا کہ پہلی روایت کو علامہ ابن جوزی اور علامہ ذہبی نے غیر صحیح قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ روایت شاذ ہے جس کا ذکر حدیث کے کسی اور مجموعے میں نہیں ملتا۔بلکہ حاکم نے جن کا زمانہ دارقطنی کے بعد کا ہے، کہا ہے کہ’’ اس باب میں مجھے اس حدیث (سنن ابی داؤد )کے علاوہ اور کسی مسند حدیث کا علم نہیں۔‘‘ نہ جانے کیوں ’’محدث ‘‘کے مقالہ نگار متفقہ روایت کو چھوڑ کر شاذ روایت کی طرف رجوع کرتے ہیں محض اس لیے کہ اپنے ذہنی تحفظات کی روشنی میں اس حدیث سے استفادہ کر سکیں۔ وہ دار قطنی نے اس حدیث پر جو باب باندھا ہے اس کا حوالہ تو دیتے ہیں ،مگر جو باب امام ابو داؤد نے باندھا ہے یعنی ’امامۃ النساء‘ یا مستدرک کے عنوان ’امامۃ المراۃ اھل دارھا فی الفرائض‘ یا بیہقی نے جو باب باندھا ہے ’ باب الاذان والاقامۃ فی البیوت وغیرھا‘ان پر ان کی نظر نہیں پڑتی۔ اس سلسلہ میں ’’محدث ‘‘کے حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے ایک بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے ۔ انھوں نے ’الموسوعۃ الفقہیۃ‘کے حوالہ سے ذکر کیا ہے کہ سنن ابی داؤد کے اس نسخے میں جو عزت عبید و عاس کی تحقیق سے شائع ہوا ہے، ’أن تؤم نساء اھل دارھا‘ (کہ وہ اپنے خاندان کی عورتوں کی امامت کرے) کے الفاظ درج ہیں۔ میں نے عزت عبید و عاس اورعادل السید کے نسخے کو پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں دیکھا تو ان الفاظ کا نام و نشان نہ تھا،بلکہ ہوبہو وہی الفاظ تھے جو دوسرے نسخوں میں ہیں۔ یہ بہت بڑی جسارت ہے ۔ حافظ صاحب کو احتیاط کرنی چاہیے۔

’’محدث ‘‘کے بعض مقالہ نگاروں نے لفظ’ اھل‘ کو عورتوں کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوشش کی ہے اور ’اھل دارھا‘کا ترجمہ گھر والیاں کیا ہے جو سراسر غلط ہے۔ امام راغب کا قول ہے اصل میں’ اھل‘تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں۔ القاموس المحیط اور لسان العرب میں ہے کہ لفظ آل کا اصل بھی اہل ہے... ’آل الرجل‘ آدمی کے گھر والوں کو اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ انجام کار انھی کی طرف لوٹ کر آتا ہے ۔ یہ سب ہتھکنڈے اس لیے استعمال ہوئے ہیں کہ وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ عورت مرد کی امامت کرا سکتی ہے، خواہ اس کی تائید صحاح ستہ کی حدیث ہی کیوں نہ کرتی ہو؟

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس حدیث کو ہم تسلیم کرتے ہیں، مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ام ورقہ مردوں کی امامت کراتی تھیں۔ روایت کے اندر ایسے ثبوت ہیں کہ جن کی تردید ممکن نہیں۔ ہم’ دار‘ کے وسیع معنی کو سر دست نظر انداز کرتے ہیں اور اس کے معنی گھر ہی لیتے ہیں۔ اس گھر کے افراد کون تھے؟ ایک غلام ، ایک لونڈی اور ایک بوڑھا موذن۔ کہا گیا ہے کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ غلام اور موذن ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ موذن اذان دینے کے بعد مسجد نبوی میں جا کر نماز پڑھتے ہوں کیونکہ وہاں نماز پڑھنے سے زیادہ ثواب ملتا ہے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے۔ روایت میں ہے کہ ام ورقہ کو اجازت دی گئی کہ ان کے لیے اذان دی جائے اور اقامت کہی جائے یعنی موذن اذان دینے اور اقامت کہنے کے بعد صف سے کھسک کر مسجد نبوی میں پہنچ جاتا تھا۔ یہ بات حافظ صلاح الدین یوسف صاحب ہی کہہ سکتے ہیں۔ سنن بیہقی نے جس باب میں ام ورقہ کی حدیث دی ہے، اس کا عنوان ہے ’ باب الأذان والاقامۃ فی البیوت وغیرہا‘ ۔ اس سلسلہ میں درج ذیل حقائق کو ذہن میں رکھنا چاہیے:

۱۔ حضرت ام ورقہ حافظ قرآن اور قاری تھیں۔ اس سلسلے میں انھیں دوسرے افراد خاندان پر فضیلت حاصل تھی ، اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں امامت کرنے کا حکم دیا۔ امامت کی اہلیت میں نسلی یا جنسی شناخت لائق اعتنا نہیں۔

۲۔ حضرت ام ورقہ اور ان کے قبیلے کے مکان آبادی سے ہٹ کر تھے اور قریب میں کوئی مسجد نہ تھی جہاں حضرت ام ورقہ اور ان کے خاندان یا قبیلے والے باجماعت نماز پڑھ سکتے۔ اگر مسجد نبوی اتنی قریب ہوتی کہ موذن اذان اور اقامت کے بعد وہاں جا کر نماز پڑھ لے تو پھر ام ورقہ اور ان کے خاندان والوں کے لیے مسجد نبوی میں نماز پڑھنے میں کون سی رکاوٹ تھی؟

ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ۵ ہجری میں پردے کے احکام کے بعد یہ اجازت منسوخ ہو گئی۔ ان صاحب کو ’’طبقات‘‘ ابن سعد اور ’’الاستیعاب ‘‘کی طرف رجوع کرنا چاہیے، جس میں لکھا ہے کہ ام ورقہ اپنے اس خاندان کی اس وقت تک امامت کرتی رہیں جب تک ان کے غلام اور لونڈی نے ان کا سانس نہ بند کر دیا۔ یہ واقعہ حضرت عمر کے زمانے میں پیش آیا ۔ حوالہ میرے مضمون میں موجود ہے۔

البتہ اس قول میں وزن ہے کہ یہ استثنائی واقعہ ہے۔اور آج کل بھی اگر اس قسم کے حالات ہوں تو اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ امام احمد بن حنبل کا ایک قول ، صاحب عون المعبود اور صاحب المغنی اور ڈاکٹر حمید اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ’’ محدث ‘‘کے محدث مولانا ارشاد الحق اثری صاحب المغنی کی اس عبارت کو گول کر گئے ہیں: ’ولو قدر ثبوت ذلک لام ورقۃ لکان خالصا لہا‘ (۲: ۱۹۹)’’اگر اس کا ثبوت (مردوں کی امامت کا) ام ورقہ کے لیے دے بھی دیا جائے تب بھی یہ واقعہ ام ورقہ کے ساتھ خاص ہو گا‘‘ میں پھر بھی ان کی شان میں دجل اور ہوس ناکی جیسے گھٹیا الفاظ استعمال نہیں کروں گا۔ ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مردوں کے لیے عورتوں کی امامت کے خلاف فقہ کی کتابوں میں جن دو معروف حدیثوں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ میں نے ان حدیثوں پر اپنے مضمون میں فنی تجزیہ کیا ہے۔ ’’محدث ‘‘کے کسی مضمون نگار نے ان کا ذکر تک نہیں کیا۔

مضمون میں میں نے ثابت کیا ہے کہ حدیث صحیح ہے، اس سلسلہ میں کسی شک و شبہ کی گنجایش نہیں۔ کسی نے اس حدیث کو ضعیف نہیں کہا، ہاں دو راویوں کے بارے میں کلام کیا ہے جس کی تردید حفاظ حدیث نے کردی ہے۔ اس حدیث کی بنا پر جن فقہا اور ائمہ نے عورت کی امامت مطلق کا نظریہ پیش کیا ہے، ان کا ذکر مستند حوالوں میں موجود ہے۔ اگر حوالوں ہی کو نہ مانا جائے تو اس کا علاج میرے پاس نہیں۔ ان صاحبان علم کی رائے سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کی مردوں کے لیے امامت کے عدم جواز پر اجماع نہیں۔ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو محض ایک فتنہ اور قرب قیامت کی علامت بنانے کی بجائے اس پر تحقیقی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ اس واقعہ کو غارت گر ایمان سمجھتے ہیں، وہ کتاب و سنت پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ یہ بات اصولی طور پر درست نہیں کہ مستقبل کے دین کو اور اس دین کو جو آخری لمحے تک ہماری رہنمائی کا دعوے دار ہے، اسے ایک خاص تعبیر کے تابع کرکے اختلاف رائے کو برداشت نہ کیا جائے۔ ایسا کرنا وحی کو اس کے فریضے سے معطل کرنا ہے۔ ایک مسئلے کی نظیر موجود ہے اور جمہور سے اختلاف کرنے والے اہل علم صحاح ستہ کی صحیح حدیث کی سند بھی پیش کرتے ہیں تو کیوں نہ ان کی رائے پر غور و فکر کیا جائے؟

____________

B