HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

اسلامی حدود اور بین الاقوامی قوانین


اسلامی نظریاتی کونسل نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ’’اسلامی فوج داری قوانین جدید گلوبلائزیشن کے تناظر میں‘‘ کے موضوع پر تین روزہ بین الاقوامی ورک شاپ کا اہتمام کیا جس کے اختتام پر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر پروفیسر خالد مسعود نے بتایا کہ اسلامی قوانین کے بارے میں ملکی وبین الاقوامی افہام وتفہیم کے فروغ کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز پر اتفاق رائے سے ’’بین الاقوامی مشاورتی نیٹ ورک‘‘ کا قیام عمل میں آ چکا ہے اور بہت جلد کونسل کے ارکان مختلف اسلامی اور دیگر اہم ممالک کے دورے کر کے اس نیٹ ورک کو مزید مستحکم بنائیں گے۔ ڈاکٹر خالد مسعود نے اس پریس بریفنگ میں کہا کہ پاکستان میں ستائیس برس قبل حدود قوانین نافذ ہوئے تھے، مگر اس دوران میں ان کی حمایت ومخالفت میں مسلسل بات آگے بڑھتی رہی اور اب اس حوالے سے تین مختلف موقف سامنے ہیں۔ ایک موقف لبرل حلقوں اور حقوق نسواں کی تحریکوں کا ہے کہ ان حدود کے نفاذ کی سرے سے کوئی ضرورت نہیں۔ دوسرا موقف علماے کرام کی اکثریت اور معاشرہ کے روایت پسند حلقوں کا ہے کہ حدود قوانین پر بحث ومباحثہ ہی قابل برداشت نہیں ہے، جبکہ تیسرا موقف یہ ہے کہ حدود کا ماخذ قرآن وسنت ہی ہیں، مگر پاکستان میں ان کے نفاذ کے طریق کار اور حدود قوانین کی دفعہ وار جزئیات پر بحث وتمحیص اور رد وبدل کی گنجایش موجود ہے اور اس پر بات چیت ہو سکتی ہے۔ محترم ڈاکٹر خالد مسعود نے اپنا موقف بھی یہی بتایا ہے کہ حدود قوانین اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی نہیں ہیں اور ان میں ترامیم پر غور ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن کریم کی بیان کرد ہ حدود اور پاکستان میں ان کی بنیاد پر نافذ ہونے والے قوانین میں فرق کوملحوظ رکھا جانا چاہیے۔

سب سے پہلے تو ہم اسلامی نظریاتی کونسل کے اس کردار کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ اس نے اسلامی قوانین کے حوالے سے مختلف حلقوں میں پائے جانے والے اختلافات کے ماحول میں باہمی افہام وتفہیم کے لیے بحث ومباحثہ کا سلسلہ شروع کیا اور اس میں عالم اسلام اور بین الاقوامی دنیا کے اجتماعی تناظر کو سامنے رکھنے کی ضرورت بھی محسوس کی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور اسے سیاسی گروہ بندی سے ہٹ کر خالصتاً علمی انداز میں آگے بڑھانا ضروری ہے۔

اس کے بعد ہم حدود آرڈیننس یا اسلام کے فوج داری قوانین کے بارے میں ایک اہم اعتراض کا اصولی طور پر جائزہ لینا چاہتے ہیں جن کی بنیاد پر ان قوانین کی عام طور پر مخالفت ہو رہی ہے اور ان کی منسوخی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ قوانین آج کے مروجہ بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور عالمگیریت کے جدید ماحول میں عالمی قوانین اور نظام سے مطابقت نہیں رکھتے۔

جہاں تک حدود قوانین کے آج کے مروجہ بین الاقوامی قانون کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونے کا تعلق ہے، یہ امر واقعہ ہے کہ یہ ہم آہنگی اور مطابقت موجود نہیں ہے اور ہمارے خیال میں اس کی موجودگی نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مروجہ بین الاقوامی قوانین اور اسلامی فوج داری قوانین کے ماخذ اور سرچشمے الگ الگ ہیں۔ اسلامی قوانین کا ماخذ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات ہیں، کیونکہ فوج داری قوانین یا حدود کی جو عملی صورتیں اسلامی شریعت میں بیان کی جاتی ہیں، ان کی بنیاد تورات اور قرآن کریم کی تعلیمات پر ہے، جبکہ مروجہ بین الاقوامی قوانین کی بنیاد سوسائٹی کی اجتماعی عقل اور خواہش پر ہے اور ان کا فکری سرچشمہ وحی الٰہی سے بے زاری یا کم از کم لا تعلقی کا فلسفہ ہے۔ اس لیے ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ یہ ممکن اور قابل عمل بات نہیں ہے اور اسے ضروری قرار دے کر اسلامی حدود وقوانین کو مروجہ بین الاقوامی قانونی نظام کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوئی صورت اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک ہم خود بھی وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات سے خدا نخواستہ دست بردار ہو کر اپنے قانون کے ماخذ کو تبدیل نہیں کرلیتے۔

ہمارے بعض دانش وروں کا یہ خیال ہے کہ اگر قانون کے نفاذ کا طریق کار تبدیل کر لیا جائے اور عدالتی نظام میں مغربی سسٹم کو اپنا کر اسلامی قوانین کی جزئیات میں کچھ رد و بدل کر لیا جائے تو بین الاقوامی قوانین اور اسلامی حدود کے درمیان مفاہمت اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے اور ایک عملی مثال سے ہم اس کو واضح کرنا چاہتے ہیں۔

قرآن کریم میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا بیان کیا گیا ہے جو صریح حکم ہے۔ اس پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح عمل کیا ہے اور اس سختی کے ساتھ عمل کیا ہے کہ ایک موقع پر اعلان فرما دیا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ بھی کاٹ دوں گا۔ یہ سزا قرآن کریم کے علاوہ تورات اور دیگر سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی موجود ہے، اس لیے یہ بات طے شدہ ہے کہ چور کو جرم ثابت ہونے پر اسلام کی رو سے جو سزا ملے گی، وہ ہاتھ کاٹنے کی صورت میں ہی ہوگی، البتہ اس بات پر بحث وتمحیص کی گنجایش موجود ہے کہ چور کا اطلاق کس شخص پر ہوتا ہے اور کم از کم کتنی مالیت کی چوری پر یہ سزا نافذ ہوگی، چوری کے جرم کا ثبوت کیسے ہوگا اور اس کی دیگر تفصیلات کیا ہوں گی۔ ان سب امور پر گفتگو ہو سکتی ہے، فقہا نے ہر دور میں اس پر بات کی ہے اور ایک دوسرے سے اختلاف بھی کیا ہے، لیکن کسی بھی فارمولے کے مطابق چوری ثابت ہو جانے کے بعد اس کی سزا میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ چور کا ہاتھ کٹے گا اور آج کے بین الاقوامی قانون یا مغرب کے فلسفۂ قانون کا اصل اعتراض ہاتھ کٹنے پر ہے، چور کی تعریف یا چوری کے ثبوت کے طریق کار پر نہیں ہے۔ یہ ہماری غلط فہمی ہے کہ چور کی تعریف بدل دینے یا چوری کے ثبوت کا طریق کار تبدیل کر دینے سے مغرب کا اعتراض ختم ہو جائے گا اور ہمارے قوانین بین الاقوامی قانونی نظام سے ہم آہنگ ہو جائیں گے۔ ایک لمحہ کے لیے آپ یہ تصور کر لیں کہ ہم نے عدالتی پروسیجر کو مکمل طور پر مغرب کے نظام قانون سے ہم آہنگ کر لیا ہے، چور کی تعریف بدل دی ہے، شہادت اور ثبوت کے تمام طریقے مغرب کے لے لیے ہیں، لیکن بین الاقوامی قانون کے تحت قرار پانے والے چور کو مغربی نظام اور عدالتوں کے طریق کار کے مطابق جرم ثابت ہونے کے بعد سزا وہی دے رہے ہیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہے، تو اس سے مغرب کا اعتراض ختم نہیں ہو جائے گا، اس لیے کہ اس کا اصل اعتراض چور کی تعریف یا چوری کے ثبوت کے طریق کار پر نہیں، بلکہ چور ثابت ہو جانے والے شخص کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دینے پر ہے اور یہ اعتراض اس وقت تک باقی رہے گا جب تک ہم قرآن کریم کے موجودہ حکم سے دست بردار نہیں ہو جاتے یا اسے وہ معنی نہیں پہنا دیتے جو مغرب کے منشا کے مطابق ہیں، خواہ وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے فیصلوں، خلفاے راشدین کے طرز عمل اور امت کے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل کی نفی کی صورت میں ہی کیوں نہ ہوں۔

یا مثلاً زنا کے جرم پر سزا کا مسئلہ دیکھ لیجیے۔ ہمارے ہاں اسلامی قوانین کو آج کے ماحول میں قابل قبول صورت میں پیش کرنے کے لیے اس مسئلہ پر بحث ہوتی ہے کہ رجم شرعی حد ہے یا نہیں، شہادت میں عورت کا درجہ کیا ہے اور جرم کے ثبوت کا طریق کار کیا ہونا چاہیے۔ ہمارے بعض دانش وروں کا خیال ہے کہ رجم کو شرعی حد کے زمرہ سے خارج کر دیں گے یا عورت کی گواہی کو آج کے مروجہ عالمی معیار پر لے آئیں گے یا جرم کے ثبوت کے لیے مغرب کے عدالتی سسٹم کو اپنا لیں گے تو زنا کی قرآنی سزا پر مغرب کا اعتراض ختم ہو جائے گا۔ یہ خوش فہمی کی بات ہے، اس لیے کہ مغرب کا اصل اعتراض ان باتوں پر نہیں،بلکہ سرے سے زنا کے جرم قرار دیے جانے پر ہے، اس لیے کہ رضامندی کا زنا مغرب کے نزدیک سرے سے جرم ہی نہیں ہے۔ مغرب کے ہاں زنا میں صرف جبر کا پہلو جرم کے ذیل میں آتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جرم کا تعلق زنا سے نہیں، صرف جبر سے ہے۔ اب اگر آپ ایک لمحہ کے لیے رجم کو حدود کی فہرست سے نکال دیتے ہیں اور جرم کے ثبوت کے لیے تمام طریق کار تبدیل کر لیتے ہیں، لیکن رضامندی کے ساتھ باہمی جنسی تعلق قائم کرنے والے غیر شادی شدہ جوڑے کو قرآن کریم کے حکم کے مطابق سو کوڑے مارتے ہیں تو مغرب کا اعتراض پھر بھی باقی رہے گا اور بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ نہ ہونے کا سوال پھر بھی قائم رہے گا۔

ہمیں حدود آرڈیننس کی موجودہ ہیئت پر اصرار نہیں ہے۔ ہم قرآن کریم کی بیان کردہ حدود اور ان پر عمل درآمد کے لیے بنائے جانے والے قوانین کے درمیان فرق کو بخوبی سمجھتے ہیں اور انسانی ذہنوں کے بنائے ہوئے قواعد وضوابط میں غلطی کے امکان اور رد وبدل کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں، مگر یہ بات بھی ہمارے پیش نظر ہے کہ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا اور یہ ساری ورزش کرنے کے بعد بھی مغرب کے اعتراضات اور بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ نہ ہونے کا مسئلہ جوں کا توں موجود رہے گا، اس لیے اس حوالے سے اصل ضرورت بنیادی سوچ میں تبدیلی لانے کی ہے۔ بین الاقوامی قوانین اور مغرب کے ساتھ افہام وتفہیم کی ضرورت سے انکار نہیں، لیکن اس کے لیے اسلامی قوانین میں رد وبدل کر کے اسے مغرب کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی نہیں، بلکہ مغرب کو اس کے قانونی نظام کی خامیوں سے آگاہ کرنے اور بین الاقوامی قوانین کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی طرف واپس لانے کی محنت کی ضرورت ہے۔ اور ہمارے خیال میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے تحت قائم ہونے والی ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کا اصل آئینی کردار یہی بنتا ہے۔

____________

B