HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

ایف آئی آر

ایف آئی آر لکھوانے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا،مگرمیری خوش قسمتی یہ تھی کہ اس ایف آئی آر کے لیے میں کسی تھانے میں موجود نہ تھا۔ یہ ایف آئی آر ایک قتل کی تھی اور میرا چہرہ آسمان کی طرف تھا۔

میرے کانوں میں ایک غمزدہ ماں اورایک نوجوان بیوہ کے سسکنے کی آواز آرہی تھی۔رات بھر میں ان کے رونے کی سکت بھی ختم ہوچکی تھی۔میں نے نظر دوڑائی تو آصف کی دونوں معصوم بچیاں اپنے ننھے ہاتھوں میں بسکٹ پکڑے باپ کے جنازے کے گرد منڈلارہی تھیں۔ وہ اتنی کم عمر تھیں کہ یہ بھی نہ جان سکیں کہ ان کے ساتھ کیا سانحہ پیش آچکا ہے۔ذرا قریب ہی آصف کی بہنیں شدت غم سے نڈھال اپنے جوان بھائی کی ناگہانی موت پر حسرت ویاس کی تصویر بنی بیٹھی تھیں۔ اس جواں مرگ پرہر آنکھ اشک بار اور ہر چہرہ اداس تھا۔

میں جب جب اس منظر کو دیکھتا میرا کلیجا پھٹنے لگتا۔ آصف اپنے گھر کا واحد کفیل تھا۔بیوہ ماں کا واحد سہارا ، بہنوں کی تمناؤں کا مرکزاور دو معصوم بچیوں کا باپ۔سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آصف کی جوان موت کا غم زیادہ بڑ ا ہے یا پیچھے رہ جانے والوں کے مسائل زیادہ بڑے ہیں۔ میں غموں کے پہاڑ کو تولنے کے لیے کسی ترازو کی تلاش میں تھا کہ کان میں کسی شخص کی آواز آئی۔ یہ آواز آصف کی خوش قسمتی پر داد دے رہی تھی کہ مرنے والوں میں آصف واحد شخص تھا جس کی لاش صحیح سالم برآمد ہوئی تھی۔ کے ایف سی کو لگائی جانے والی آگ اتنی شدید تھی کہ مرنے والے دیگر نوجوانوں کی لاشیں بری طرح جھلس گئی تھیں۔ شاید ان کا جرم ہی اتنا بڑا تھا۔ عالم اسلام کے سب سے بڑے دشمن ملک کی ایک فوڈ چین کے نام سے چلنے والے ریسٹورنٹ میں ملازمت کرتے تھے۔ بھلایہ کوئی معمولی جرم ہے؟

میں نے ایک نظر آصف کے کفنائے ہوئے جسد پر ڈالی۔ وہ بڑی گہری نیند سورہا تھا۔اس نے محنت بھی تو بہت کی تھی۔مہنگائی کے عفریت سے مقابلہ کرنے کے لیے گھر کا یہ تنہا کفیل دو ملازمتیں کرتا تھا۔کے ایف سی اس کی دوسری ملازمت تھی جہاں رات گئے تک وہ ان لوگوں کے لیے لذت کام و دہن کا اہتمام کرتا تھاجو مہنگائی کے مسئلے سے بے نیازہیں۔وہ میری امی سے کہتا تھا کہ میری بڑی خواہش ہے کہ کبھی نیند بھر کر سوجاؤں۔آخر جوانی کی نیند تو جوانی کی ہوتی ہے۔میں نے اسے دیکھا اور کہا :’’آج تمھاری خواہش پوری ہوئی۔ اب سوجاؤ نیند بھرکے۔‘‘

مجھ سے ضبط نہ ہوسکا۔ میں آصف کے پاس سے ہٹا اور اس کے پاس چلا آیا جو ایک روز تمام سوتے ہووں کو جگانے والا ہے۔ میں نے اسے دیکھا اور کہا کہ مجھے ایک ایف آئی آر لکھوانی ہے۔میں آصف کے قتل اور اس کے خاندان کی بربادی کے مقدمے کو تیری بارگاہ میں درج کرانا چاہتا ہوں۔ پوچھا گیا،’’ کس کے خلاف مقدمہ کرنا چاہتے ہو؟‘‘

میں نے کہا:’’آگ لگانے والوں کے خلاف اور آگ لگانے والوں میں نفرت اور انتقام کے شعلے بھڑکانے والوں کے خلاف۔ ان لوگوں کے خلاف جن کی تحریریں ذہنوں میں نفرت کا زہر گھولتی اور جن کی زبانیں دلوں میںآتش غضب بھڑکاتی ہیں۔جو فرقہ بندی کے اسیر ہیں اور اسی کی زنجیروں میں پورے معاشرے کو جکڑنا چاہتے ہیں۔ جو کسی قوم اور گروہ کی دشمنی پر اترتے ہیں تو عدل کے ہر پیمانے کو بھول جاتے ہیں۔ جو قانون شکنی ،لوٹ مار، جلاؤ گھیراؤ اور جان ،مال ،آبروکی بربادی کوجہاد کا نام دیتے ہیں۔جو تعمیر کے بجائے تخریب سے خوش ہوتے ہیں۔ جوایک قوم اور گروہ کو کافر اور دشمن قرار دیتے ہیں تو اس کے ہر مرد و عورت،بچے بوڑھے، مقاتل وغیر مقاتل کی جان کو مباح قرار دیتے ہیں۔جو خود کش حملوں کی تربیت دیتے اور ان کی تائید کرتے ہیں۔ جو بے گناہ لوگوں کو اپنے خود ساختہ اصولوں کی بنیاد پر مجرم قرار دے کر انھیں عذاب میں مبتلا کرتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو خود نفرت کے اندھیروں کے مسافرہیں اور اس کے علاج کے لیے نفرت کے مزید اندھیرے تجویز کرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو خود رب العالمین کے غضب کا شکار ہیں اور اس کے حضور توبہ کرنے کے بجائے مزید لوگوں کو خدا کے غضب میں مبتلا کرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو انسانوں پر حق کی شہادت دینے کے بجائے ان سے اپنے حقوق کی جنگ لڑتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے غیر مسلموں کو اسلام کے مدعوبنانے کے بجائے انھیں اسلام کا عدو بنادیا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کاکل سرمایہ وہ نظریۂ سازش ہے جس کی عینک لگانے کے بعد ہر شخص اپنا دشمن نظر آتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ضد اورہٹ دھرمی پر جب اترتے ہیں تو قرآن کا ہر حکم ، رسول کا ہر فرمان اورعقل کی ہر بات ان کے سامنے بے وقعت ہوجاتی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اختلاف کرتے ہیں تو اسے عناد تک پہنچادیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب خدا کے بندے انھیں صحیح بات کی طرف بلاتے ہیں توبنی اسرائیل کی طرح ان کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں۔‘‘

جنازہ ظہر کے بعد پڑھا جانا تھا۔جماعت سے پہلے نفل میں جب میں سجدہ میں گیا تو دیر تک سر نہ اٹھاسکا...یہاں تک کہ فیصلہ ہوگیا۔ آگ لگانے والوں کے لیے آگ ہے اور آ گ پھیلانے والوں کے لیے محرومی۔پہلوں کے لیے خداوند کی رحمت سے دوری لکھ دی گئی اور دوسروں کے لیے امت کی امامت سے معزولی۔رہا آصف تو اس کا استقبال کیا جاچکا۔

موذن کی صدا آئی اور خدا وندتمام جہانوں کے خدا کی بڑائی زمین پر بھی اسی طرح بیان ہوناشروع ہوگئی جس طرح آسمانوں پر ہوتی ہے۔

_________________

B