HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے

سانحوں کے شہر کراچی میں۳۰ مئی ، ۲۰۰۵ کا سورج غروب ہوا۔حسب معمول شہر کی ہر مسجد سے رب کی بڑائی کی صدائیں آنا شروع ہوگئیں۔مسجد کے میناروں سے بلند ہوتا یہ نغمۂ توحید دیگر لوگوں کی طرح ان تین افراد نے بھی سنا جو امام بارگاہ مدینۃ العلم کو خاک و خون میں نہلانے کے ارادے سے روانہ ہوئے۔’’شوق شہادت ‘‘سے سرشار یہ تین خود کش حملہ آور مسجد تک پہنچے ۔ نماز شروع ہوچکی تھی۔انھوں نے بھی اپنی کارروائی شروع کی۔تاہم ڈیوٹی پر موجود پولیس اہل کاروں نے خلاف روایت ان حملہ آوروں کی کوشش بڑی حد تک ناکام بنادی۔ ایک پولیس اہلکار نے اپنی جان کی قیمت پر یہ حملہ ناکام بنادیا۔ دو حملہ آور مارے گئے۔ ایک زخمی ہوکر گرفتار ہوا۔ حملہ آوروں کی فائرنگ سے کچھ نمازی بھی زخمی ہوئے۔مگر مجموعی طور پر اس طرح کا جانی نقصان نہیں ہوا جو اس سے قبل ایسے حملوں میں معمول بن چکا ہے۔آسمان نے سمجھا کہ ایک بڑاسانحہ رونما ہوتے ہوتے رہ گیا،مگر اس کی غلط فہمی جلد ہی دور ہوگئی۔ سانحہ تو اب شروع ہواتھا۔

مشتعل افراد امام بارگاہ کے گرد جمع ہوئے۔ان کے غضب کی آگ نے ان لوگوں کو جلانا شروع کردیا جن کا اس حملے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ سب سے پہلے امام بارگاہ کے قریب واقع ایک ریسٹورنٹ کو آگ لگائی گئی۔ راستے سے گزرنے والی گاڑیوں کو جلانے کا عمل شروع ہوا۔پھر پٹرول پمپ اور دکانوں کی شامت آئی اور انھیں بھی نذرآتش کردیا گیا۔ ’’مجاہدین ‘‘نے ان دکانوں کا سامان مال غنیمت سمجھ کر لوٹا۔ پولیس اور فائر بریگیڈ اس عرصے میں کھڑی تماشا دیکھتی رہی۔

یہ ’’جہاد اکبر ‘‘ جب ختم ہوا تو امام بارگاہ پر حملہ کرنے والوں کا کچھ بگڑا ،نہ انھیں حملے پر آمادہ کرنے والوں کا ،مگر بے قصور لوگوں کا بہت کچھ بردباد ہوگیا۔ ان میں وہ چھ خاندان بھی شامل تھے جن کے سرپرست اور کفیل رزق حلال کے حصول کے لیے ریسٹورنٹ میں ملازمت کرتے تھے۔ یہ لوگ آخری وقت تک ریسٹورنٹ میں رکے تاکہ وہاں آنے والوں کو بحفاظت نکال دیں۔ اس کی سزا یہ ملی کہ انھیں زندہ جلادیا گیا۔

انسانیت درندگی میں کیسے بدلتی ہے ،اس روز چشم فلک نے یہ نظارہ خوب دیکھا۔اہل زمین نے بھی میڈیا پر اس واقعے کی تفصیلات کو سنا اور شرم سے سرجھکادیا۔اداریے لکھے گئے۔ رپورٹیں نشر ہوئیں۔مذمت کی ایک لہر اٹھی۔ہمدردی اور تاسف کی ایک فضا قائم ہوئی۔ روایتی اعلانات ہوئے۔ خفیہ ہاتھ دریافت کیے گئے۔ پھر رات گئی بات گئی۔ خاموشی اور بے حسی کی فضا میں ہر شخص بھول گیا کہ کیا ہوا تھااور کیوں ہواتھا۔ اب دوبارہ جب کوئی نیا سانحہ ہوگا، جو جلد یا بدیر بہرحال ہونا ہی ہے، تو پھر یہی کہانی نئے مقام اور کرداروں کے ساتھ دہرادی جائے گی۔

اس واقعے کے بہت سے پہلو ہیں جن پر گفتگو کی جانی چاہیے ،مگر ایک پہلو ایسا ہے جو ہمارے نزدیک بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ ہے نفرت،احتجاج اورجلاؤ گھیراؤ کا ہمارا وہ رویہ جو ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ہم نے ہزار سال تک دنیا پر اس طرح حکو مت کی ہے کہ ہمارے مقابلے میں جو اٹھتا ہم اسے عراق اور افغانستان میں بدل دیتے تھے۔کتنے ہی’’صدام حسین اوراسامہ بن لادن ‘‘ہم سے ٹکرانے آئے ،مگر ہمارے اقتدار کی ایک اینٹ بھی نہ ہلاسکے۔ ہماری طاقت کے مراکز مدینہ سے دمشق،دمشق سے بغداد اور بغداد سے قسطنطنیہ تک تو یقیناََ منتقل ہوئے ،مگر ہم رہے وہی سول سپریم پاور۔پھر عروج و زوال کا ابدی قانون حرکت میں آیا اور ہمارے اقتدار کے سورج کو گہن لگ گیا۔ مسلمان غالب سے مغلوب ہوئے۔ خلافت ختم ہوگئی ۔براعظم یورپ میں ہسپانیہ کو گنو انے کے بعد براعظم ہند میں بھی ہماری سلطنت کا سورج غروب ہوا۔بیسویں صدی کے آغاز پر مسلمان دنیا بھر میں سیاسی طور پر غلام بن چکے تھے۔

یہ وہ صورت حال تھی جس میں ہمارے ہاں احساس زیاں پیدا ہوا۔ہماری بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہمارے ہاں زیاں کے نام پر صرف سیاسی زوال کو اہم سمجھا گیا اور اس کا ذمہ دار یورپی اقوام کی سازشوں کو قرار دیا گیا ۔یہی ہمارے مفکرین کی بنیادی غلطی تھی ۔کیونکہ ہمارا سیاسی زوال ہمارے علمی اور اخلاقی زوال کا نتیجہ تھا ،جبکہ یورپی اقوام کے عروج کے پیچھے یہ حقیقت کارفرما تھی کہ انھوں نے ایک طویل سفر کے بعد طاقت اور توانائی کے نئے ذخائر دریافت کیے اور ان کا استعمال سیکھ لیا تھا۔جب ہم نے اس بات کو نہیں سمجھا تو علم و اخلاق کے اپنے زوال کو دور کرنے اورطاقت و توانائی کے نئے ذخائر کو دریافت کرنے کے بجائے عوامی جذبات کاتمام تر رخ نفرت، غصے، احتجاج اور ٹکراؤ کی طرف موڑ دیا۔اس راستے پر چل کر چند صدی قبل لاکھوں صلیبیوں نے چند ہزار مسلمانوں سے بہت مار کھائی تھی۔آج مسلمان اسی راستے پر چل کر انھی کی نسلوں سے مارکھارہے ہیں۔

بات صرف اتنی ہی نہیں کہ ہم دوسو سال سے مارکھارہے ہیں اور کوئی نصیحت حاصل نہیں کرتے ، زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہے کہ نفرت اور غصے کی یہ آگ ،جلاؤ اور گھیراؤ کا یہ طریقہ، احتجاج اور مظاہروں کی یہ سوچ خود ہمارے معاشروں کو بردباد کررہی ہے۔ ہماری پوری فکری قیادت اس وقت صرف ایک کام کررہی ہے اوروہ ہے غیر مسلموں کے خلاف نفرت اور انتقام کی فضاپیداکرنا۔ اس فضا میں کوئی تعمیری کام نہیں ہوسکتا۔صرف تخریب ہوسکتی ہے اور وہی ہورہی ہے۔یہ تخریب کبھی غیروں کے خلاف ہوتی ہے اور کبھی اپنوں کے خلاف ہوجاتی ہے۔ جس اصول پر ہم غیر مسلموں کے عوام الناس پر خود کش حملے کرتے ہیں اسی اصول پر ہم اپنے معاشروں میں یہ کام کرتے ہیں۔ جس سوچ کے ساتھ ہم غیر مسلم عوام کی جان و مال کو مباح سمجھ لیتے ہیں ،اسی سوچ کے ساتھ ہم دوسرے فرقے اور دوسری قومیت کی جان و مال کی بربادی کو معمولی بات سمجھ لیتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں دنیا کی طاقت وراقوام کی پٹائی بھی سہنی پڑتی ہے اور ایک دوسرے کے ہاتھوں بدترین نقصانات بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔مگر ہمارے نام نہاد مفکرین اپنی حقیقی کمزوری کے اسباب دور کرنے کے بجائے تیاری کے بغیر طاقت ور اقوام سے ٹکرانے کا مشورہ دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف اپنے بدترین اخلاقی جرائم پر غیر ملکی سازش کا پردہ ڈال دیتے ہیں۔

ان حالات میں ہم اپنی قوم کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ بربادی کا راستہ ہے۔دوسروں کی نہیں، اپنی بربادی کا راستہ۔یہ تخریب کا راستہ ہے ۔ دوسروں کی نہیں، اپنی تخریب کا راستہ۔ یہ زوال کا راستہ ہے ۔ دوسروں کے نہیں ،اپنے زوال کا راستہ ہے۔تعمیر کا راستہ احتجاج سے نہیں ،صبر سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ٹکراؤ سے نہیں ،اعراض سے شروع ہوتا ہے۔یہ نفرت سے نہیں ،درگزر سے شروع ہوتا ہے۔یہ غیر مسلموں کو دشمن سمجھنے سے نہیں ،ان کو اسلام کا مخاطب بنانے سے شروع ہوتا ہے۔ یہ سیاست کے میدان سے نہیں ،علم کے میدان سے شروع ہوتا ہے۔

اب فیصلہ ہماری قوم کو کرنا ہے کہ اسے کس راستے پر چلنا ہے۔ دونوں رستے اس کے سامنے ہیں۔ وہ چاہے تو احتجاج ،ٹکراؤ، نفرت، انتقام کے راستے پر چلے اور چاہے تو صبر، محبت،دعوت اور علم کے راستے پر چلے۔فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے۔۔۔

_________________

B