HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

The Only Son offered for Sacrifice: Isaac Or Ishmael

with Zamzam, Al-Marwah, and Makkah in the Bible

مصنف : عبدالستار غوری

صفحات : ۳۱۰

قیمت : /-۳۰۰ روپے

ناشر : المورد، انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سائنسز

یہود و نصاریٰ نے اپنی کتب مقدسہ میں جس طرح تحریف و تبدیلی کی ہے ، اس کا واضح ثبوت وہ مسخ شدہ تاریخی حقائق و واقعات ہیں جو تحریف شدہ بائیبل میں جا بجا ملتے ہیں۔ ایک اہم تاریخی حقیقت جسے یہود و نصاریٰ نے مسخ کیاہے، وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ ہے۔ قرآن کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ قربانی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیش کی تھی۔ اس بنا پر وہ ذبیح اللہ ہیں۔ اس کے برعکس یہود و نصاریٰ کا دعویٰ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسحاق کو جو ان کے اکلوتے اور انتہائی محبوب بیٹے تھے، قربانی کے لیے پیش کیا، حضرت اسحاق نے تابع داری کا ثبوت دیتے ہوئے بلا حیل و حجت باپ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی تابع داری پسند آئی۔ چنانچہ اللہ نے حضرت ابراہیم کو حضرت اسحاق کی جگہ مینڈھا قربان کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح حضرت اسحاق کو ذبیح اللہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔

اسرائیلی روایات کے زیر اثر بعض مسلمان مفسرین کو بھی یہ مغالطہ ہوا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے جس بیٹے کو قربانی کے لیے پیش کیا وہ حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں۔ ماضی قریب میں برصغیر کے مایہ ناز مسلمان محقق و مفسر مولانا حمید الدین فراہی (۱۸۶۲ ۔ ۱۹۳۰ء) نے مشہور تحقیقی رسالے ’’الرای الصحیح فیمن ھو الذبیح‘‘ میں محکم دلائل کے ساتھ اس فکری مغالطے کی تردید کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں، نہ کہ حضرت اسحاق علیہ السلام۔

معروف دانش ور و محقق جناب عبدالستار غوری صاحب نے اس تحقیق کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ ان کے کام کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے تاریخ و تفسیر کے کلاسیکی مصادر اور قدیم مسلم مفسرین کی آرا پر انحصار کرنے کی بجائے بائیبل اور مستند مغربی تصنیفات پر اپنے استدلال کی عمارت کھڑی کی ہے اور اس طرح ایک مغربی قاری کی غلط فہمیوں اور شبہات کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس واقعے کے حوالے سے بائیبل میں جو تحریف کی گئی ہے، اسے مصنف نے مغربی مصنفین کے حوالے سے نمایاں کیا ہے۔

مصنف نے بائیبل سے تفصیل کے ساتھ قربانی کا واقعہ نقل کیا ہے۔ ان کے خیال میں واقعے میں مذکور ’’اکلوتے بیٹے اسحاق‘‘ کے الفاظ تحریف کاروں کا ’’کارنامہ‘‘ ہے جنھوں نے مخصوص مقاصد کے تحت یہ اضافے کیے ہیں جبکہ بائیبل ہی کے کئی دوسرے بیانات ثابت کرتے ہیں کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ۱۴ برس تک اکلوتے بیٹے کے طور پر رہے۔ کتاب پیدایش ، باب ۱۶ کی آیت ۱۶ کے مطابق:

’’اور جب ابرہام سے ہاجرہ کے اسماعیل پیدا ہوا تب ابرہام چھیاسی برس کا تھا۔ ‘‘

کتاب پیدایش ، باب ۲۱ کی آیت ۵ میں ہے:

’’اور جب اس کابیٹا اضحاق اس سے پیدا ہوا ، ابرہام سو برس کا تھا۔‘‘

گویا حضرت اسحاق کی پیدایش کے وقت حضرت اسماعیل ۱۴ برس کے تھے اور وہ ۱۴ برس تک حضرت ابراہیم کے اکلوتے بیٹے کے طور پر رہے ۔

مصنف نے یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ ذبیح اللہ کے جو خصائص بائیبل نے بیان کیے ہیں، وہ بدرجۂ اتم حضرت اسماعیل پر منطبق ہوتے ہیں۔ ان میں پہلی نرینہ اولاد ہونا ، والد کی محبوب ترین اولاد ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ انھوں نے یہ تاریخی حقیقت بھی بیان کی ہے کہ زمانۂ قدیم سے اس علاقے میں یہ روایت چلی آرہی تھی کہ پہلی اولاد کو ہی اللہ کی راہ میں دیا جاتا تھا۔ (ص ۲۸)

بائیبل کی کتاب استثنا کے باب ۲۱ کی آیات ۱۵۔۱۷ کے حوالے سے مصنف نے یہ بات ثابت کی ہے کہ پہلا بیٹاہونے کا حق صرف اسی کو ہوتا ہے جو پہلے پیدا ہو، کسی اور بنیاد پر دوسری اولاد کو پہلا بیٹا قرار نہیں دیا جا سکتا۔

جہاں تک باپ کی عزیز ترین اولاد ہونے کا تعلق ہے، بائیبل کے شارحین خود اس امر کے معترف ہیں کہ حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم کو حضرت اسحاق کے مقابلے میں زیادہ عزیز تھے۔ (ص ۴۲۔۴۳)

فاضل مصنف کے خیال میں بائیبل میں مذکور واقعۂ قربانی میں ’’جسے تو سب سے زیادہ پیار کرتا ہے‘‘ کے الفاظ کا محل حضرت اسماعیل ہیں، نہ کہ حضرت اسحاق (ص ۴۴)۔ فاضل مصنف نے اس موقع پر غیر مسلم مصنفین کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت اسحاق ان اوصاف سے محروم تھے جن کے باعث وہ اپنے والد کی بے پایاں محبت کے مستحق بن سکیں ۔ اس باب میں وہ بعض ایسی عبارتوں کی توثیق کرتے نظر آتے ہیں جنھیں عصمت الانبیا کے عقیدے کے تحت قبول نہیں کیا جا سکتا(ص۴۳)۔ گو کہ انھوں نے حاشیے میں اس کی وضاحت کی ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حضرت ابراہیم کا محبوب اور پیارابیٹا ثابت کرنے کا مطلب حضرت اسحاق کے مرتبے کو نعوذ باللہ کم کرنا نہیں ہے ۔اسلام اور مسلمانوں کی نگاہ میں تمام انبیا یکساں طور پر احترام و محبت کے مستحق ہیں۔ تاہم ہمارے خیال میں یہ ساری بحث بلا ضرورت ہے۔ اس سے زیر بحث مسئلے کو حل کرنے میں کوئی زیادہ مدد نہیں ملتی۔

فاضل مصنف نے مقام قربانی کے حوالے سے بھی تفصیلی گفتگو کی ہے ۔ بائیبل کے بیان کے مطابق وہ جگہ جہاں خدا نے حضرت ابراہیم سے حضرت اسحاق کی قربانی طلب کی تھی، وہ ’’موریاہ‘‘ ہے۔ موریاہ کہاں واقع ہے؟ اس کے بارے میں شارحین بائیبل مختلف آرا رکھتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ حبرون کے قریب واقع ایک مقام ہے ، جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام رہایش پزیر تھے ۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ وہ پہاڑی ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانے کی کوشش کی گئی ۔ ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ ’’موریاہ‘‘جریزم کی پہاڑی ہے۔ ان متضاد آرا سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بائیبل کے شارحین ’’موریاہ ‘‘کے محل وقوع کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں رکھتے تھے۔ یہ شارحین خود بھی اس بات کے معترف ہیں کہ حضرت ابراہیم کے عہد کا ’’موریاہ ‘‘کوئی مجہول مقام ہے۔(ص۶۷۔۷۷)

فاضل مصنف نے اس حوالے سے کچھ بنیادی سوالات اٹھائے ہیں جو ’’موریاہ‘‘کے محل وقوع کے تعین میں مدد دیتے ہیں۔مثلاً سوال نمبر ۱۲ (ص ۸۲)میں یہ کہا گیا ہے کہ کیا کوئی ایسا تاریخی ثبوت ملتا ہے کہ حضرت اسحاق کو ’’موریاہ ‘‘ نامی کسی جگہ پر قربانی کے لیے لے جایا گیا ہو، وہ جواب میں کہتے ہیں کہ حضرت اسحاق کے حوالے سے تو کوئی ثبوت نہیں ملتا، لیکن حضرت اسماعیل اور ان کی اولاد کا مروہ (بائیبل کا ’’موریاہ‘‘)کے مقام پر صدیوں سے قیام پزیر ہونا روز روشن کی طرح واضح ہے۔ (ص ۹۶)

آگے چل کر مصنف یہ واضح کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے قربانی کے لیے اپنے بیٹے کو جس مقام پر پیش کیا تھا وہ مروہ ہے جسے بائیبل نے ’’موریاہ‘‘کا نام دیا ہے۔ زبور کے ایک اقتباس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم کے بعد ’’مکہ‘‘ہی وہ جگہ تھی جہاں حضرت اسماعیل آباد ہوئے اور حج کا مقام بھی وہی بیت اللہ تھا جسے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے تعمیر کیا تھا۔ اس ساری گفتگو سے مصنف نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے اکلوتے اور پیارے بیٹے اسماعیل کو مکہ میں موجودمروہ کی پہاڑی کے قریب قربانی کے لیے پیش کیا تھا۔

کتاب میں ذبیح اور موریاہ کے تعین کے علاوہ بئر شیبا (سبع)پر بھی گفتگو کی گئی ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بائیبل میں مذکور ’’بئر شیبا‘‘دراصل مکہ میں موجود زمزم کاکنواں ہے۔

ایک اہم نکتہ جو مصنف نے اس ضمن میں بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ بائیبل میں ۳۴ مقامات پر ’’بئر شیبا‘‘کا لفظ آیا ہے، اس ضمن میں ایک جگہ اس کے ساتھ ’’بیابان‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے، جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ’’بئر شیبا‘‘جہاں حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ موجود تھے وہ کسی بیابان میں نمودار ہواتھا اور یقیناًوہ مکہ تھا، کیونکہ مکہ ایک بیابانی علاقہ تھا، جہاں کسی حیات کا تصور بھی نہ تھا۔ ’’سبع‘‘کا لفظ حضرت ہاجرہ کے سات چکروں کی مناسبت سے لگایا گیا ہے۔

یہاں اس امر کی وضاحت مطلوب ہے۔ مصنف اس سے قبل یہ کہہ چکے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو موریاہ میں ’’بئر شیبا‘‘کے قریب منتقل کیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اگر یہ کنوا ں زمزم ہے تو اسلامی روایات کے مطابق وہ حضرت اسماعیل سے قبل موجود نہ تھا، بلکہ اس وقت پھوٹا جب ان کے والد انھیں لق و دق صحرا میں اپنی والدہ کے ہمراہ چھوڑ گئے تھے۔

جناب غوری صاحب کی کتاب ذبیح ، مروہ ، بئر شیبا، بکہ جیسے اہم موضوعات پر بہت قیمتی معلومات فراہم کرتی ہے۔ انھوں نے اپنے موقف کو بہت محکم دلائل سے ثابت کیا ہے ۔ اس سلسلے میں انھوں نے ان موضوعات پر موجود مغربی اہل قلم کی تحریروں سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ ان کا انداز گفتگو ایک مناظر کا نہیں ، بلکہ ایک سنجیدہ محقق کا ہے۔ انھوں نے یہودی و عیسائی مصنفین کے فکری مغالطے ، بائیبل کے اندرونی تضادات، اس میں واقع ہونے والے تحریفی عمل کو بہت موثر انداز میں اجاگر کیاہے۔ ذبیح اللہ کے حوالے سے مغربی مصنفین کے پھیلائے ہوئے شبہات اور مغالطوں کو انھوں نے بہت مضبوط دلائل کے ساتھ رفع کیا ہے۔ یہ بلا شبہ ایک بہت گراں قدر علمی کوشش ہے۔ غوری صاحب اس کے لیے بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔

____________

B